ادبیات

چولہ بابا نانک (قسط دوم آخر)

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

درّثمین اردوکی تیرہویں نظم

مثنوی دراصل ایسی پابند نظم کو کہتے ہیں جس کا ہر شعر مطلع ہوتا ہے۔ یعنی ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوتے ہیں۔ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔ اس صنف کی ہئیتی کشادگی کے باعث رزمیہ و بزمیہ طویل قصّے آسانی سے اس میں سمو لیے جاتے ہیں۔ پروفیسر انور جمال مثنوی کی وسعتِ دامنی کے متعلق کہتے ہیں:

‘‘یونان کے علمی دور کے رزمیے اور المیے جو غنائیے کی شکل میں پیش کیے جاتے رہے ہیں ‘‘مثنوی’’ہی کی شکل میں تھے۔ یہ واحد صنفِ شاعری ہے جس میں داستانوی، فلسفیانہ، عسکری اور رومانوی موضوعات کو شرح و تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت ہے’’۔

(ادبی اصطلاحات، پروفیسر انور جمال، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2016ء،صفحہ 157)

اردو کی قدیم مثنویوں میں فخر الدین نظامی کی شاہ کار مثنوی ‘کدم راؤ پدم راؤ’کو امتیاز حاصل ہے۔ یہ آج سے تقریباً چھ سو سال قبل 1421ء سے 1435ء کے درمیان لکھی گئی۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے مطابق یہ ہندو دیو مالا پر مبنی کہانی ہے جس میں کدم راؤ راجا اور پدم راؤ وزیر ہے۔ یہ دونوں کردار گیان دھیان میں مگن، فنا وبقا کے مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔اردو خوان طبقے کی اس باکمال مثنوی تک سہل انداز میں رسائی جناب جمیل جالبی صاحب کا کارنامہ ہے۔مرحوم نے سات سال کی محنت اور تحقیق کے ذریعے قدیم اردو کے اس نادر نمونے کو مرتب کیا۔

اس کے علاوہ میر حسن کی مثنوی ‘سحر البیان’،دیا شنکر نسیمؔ کی مثنوی ‘گلزارِ نسیم’ اور نواب مرزا شوقؔ کی مثنوی ‘زہرِ عشق’بھی اردو کی لازوال مثنویاں ہیں۔

زیرِ نظر نظم ‘چولہ بابا نانک’موضوع کے اعتبار سے منفرد جبکہ سہل زبان،سلاست ، روانی اور کہانی کے پُر تاثیربیان کے لحاظ سے ایک مثالی مثنوی ہے۔اس نظم میں حضورؑنے حضرت بابا گرو نانکؒ کو بھگت، پارسا،نیک ذات، خردمند، خوش خُو، مبارک صفات جیسے بہت عمدہ القاب سے یاد فرمایا ہے۔

نظم کی ایک اور خاص بات ہندی اردو کے مقامی الفاظ کا بےتکلّف استعمال ہے۔ ایسے ہی چند الفاظ اور اُن کے معنی دیکھیے۔

نظم کےشعر نمبر 86،85اور 87 فارسی زبان میں ہیں ۔ یہ اشعاراور ان کا ترجمہ ‘‘درّثمین مع فرہنگ’’شائع کردہ لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی سے پیش ہے۔

تُو یک قطرہ داری ز عقل و خرد

مگر قدرتش بحرِ بے حدّ و عدّ

تیرے پاس تو عقل اور دانائی کا ایک قطرہ ہے ،مگر خدا کی قدرت بےپایاں سمندر ہے جس کی کوئی حد ہے نہ کنارہ۔

اگر بشنوی قصّۂ صادقاں

مَجُنْبَاں سرِ خود چو مُستہزیاں

اگر تُو راست بازوں کے حالات سنے، تو چاہیے کہ تُو اپنا سر ٹھٹھا کرنے والوں کی طرح نہ ہلا۔

تو خود را خرد مند فہمیدۂ

مقاماتِ مَرداں کُجا دیدۂ

تو خود کو عقل مند سمجھتا ہے ، مگر تونے مردانِ خدا کے مقامات کہاں دیکھے ہیں۔

حضرت باوا گرو نانکؒ کےاسلام کو پسند کرنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ہدایت کےلیے اس چولےکو یادگار چھوڑنے کے بیان کے بعد؛ حضورؑ نے حضرت باوا صاحب سے رشتۂ ارادت رکھنے والوں کو اس بات پر ابھارا ہے کہ وہ باوا صاحب کی ظاہر کردہ حقیقی راہ کو اختیار کریں۔اس مضمون کے اشعار میں شعر نمبر 212سے 221تک مسلسل نَو اشعار خاص استفہامیہ پیرائے میں رقم فرمائے گئے ہیں۔ یہ نَو اشعار ‘‘کہاں ہیں’’کے الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔مثلاً

کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاکِ پا

جو کرتے ہیں اس کے لیے جاں فدا

کہاں ہیں جو اس کےلیے مرتے ہیں

جو ہے واک اس کا وہی کرتے ہیں

کہاں ہیں جو وہ بخل سے دُور ہیں

محبت میں نانک کی معمور ہیں

حضرت باوا نانکؒ کے قصّے کے ذیل میں ،حضورؑ نے فلسفۂ عشق پر بڑے دل فریب انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ حضرت باوا گرونانکؒ کےحجِ بیت اللہ کرنے اور یادِ الہٰی میں اہل و عیال کو الوداع کہہ دینے کے ذکر کے بعد حضورؑ نے ایک دل چسپ منظوم حکایت بیان فرمائی ہے۔جس میں کسی شخص نےایک عاشق سے یہ سوال کیا کہ وہ کس طرح ساری ساری رات جاگ لیتا ہے؟ جواب میں عاشق نے نیند کو ایک بیماری قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیند کی دوا صرف سوز ودرد ہے۔حقیقی عاشق کی آنکھیں یادِ محبوب میں آنسو بہاتی ہیں اور دل معشوق کے لیے جلتا ہے۔ جب عشق اس عروج پر پہنچتاہے تو عاشق حضرت باوا صاحب کے مصداق سینے میں محبت کی خلش لیے شرق و غرب میں قلق و کرب کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے۔ ایسے عاشق کو کسی دم آرام نہیں ہوتا۔ حضورؑ عاشق کی زبان سے یہ مضمون ادا کرواتے ہیں کہ

مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز

مگر کون پوچھے بجز عشق باز

جو برباد ہونا کرے اختیار

خدا کے لیے،ہے وہی بخت یار

اوّلین سطح پر حضورؑ نے یہ حکایت حضرت باوا صاحبؒ کے گھربار کو محض للہ ترک کردینے کے جواز کے طور پر بیان فرمائی ہے۔ لیکن یہ لطیف مضمون تب مزید دل چسپ صورت اختیارکرجاتا ہے جب آپؑ حضرت باوا گرو نانکؒ کے چیلوں کو عشق کے اسی نوعیت کے اظہار پر ابھارتے ہیں۔ حضورؑ شعر نمبر 176تا 178 میں فرماتے ہیں کہ باوفا عاشق کی تو یہ علامت ہے کہ وہ محبوب کے خط کو آنکھوں سے لگاتا ہے۔محبوب کی الفت میں اس خط پر واری جاتا ہے،فدا ہوجاتا ہے۔ معشوق کی راہ میں کھوئے جانے اور سب کچھ نثار کردینے کے ذکرکے بعدآپؑ نے سکھ حضرات کو جوش دلایا ہے کہ اگر واقعتاً باوانانکؒ کےسچےعاشق ہو تو عشق کا حق ادا کرو۔ حضورؑ فرماتے ہیں:

کہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں

کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاں

کہاں ہیں جو بھرتے ہیں الفت کا دم

اطاعت سے سر کو بنا کر قدم

ادھر آئیں دیکھیں یہ تصویر ہے

یہی پاک چولہ جہاں گیر ہے

گُرو جس کے اس رَہ پہ ہوویں فدا

وہ چیلا نہیں جو نہ دے سر جُھکا

غرض اس لازوال مثنوی کا مطالعہ رہ رہ کر حسرتؔ موہانی کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا:

شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button