خلافت کی بیعت کیوں ضروری ہےاور خلافت کے مقام کا تذکرہ
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے17؍ جنوری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح ، لندن، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم ضیاء الحق سیٹھی صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر گزشتہ چند خطبوں سے چل رہا ہے۔آج میں اس کا آخری حصہ بیان کروں گا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ اپنی قوم کے سردار تھےاور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدانصار آپؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی تفصیل سے اس بات کو اور خلافت کے مقام کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔اس لیے میں اس بیان کو بڑا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت ابور بکر رضی اللہ عنہ مدینہ کے نواح میں تھے۔ آپ آئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر ۂ مبارک کو چومااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انصار سے خطاب فرمایا اور انصار کی فضیلت کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پیش فرمائے ۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تو بیٹھا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت کے حق دار قریش ہوں گے۔ حضرت سعدؓ نے آپ کی تصدیق کی۔ تمام انصار اور مہاجرین نے جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو حضرت سعد ؓکو پیغام بھجوایا گیا کہ وہ بھی بیعت کر لیں۔ حضرت سعد بیعت خلافت سے مجتنب رہے اور تمام انصار و مہاجرین سے کنارہ کش ہو کر علیحدہ ہو گئے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ایک روز آپ نے سعد رضی اللہ عنہ سے خلافت کی بیعت کی نسبت فرمایا تو سعد نے جواب دیا کہ آپ کے ساتھی یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ سے زیادہ ہمیں محبوب تھے۔ حضرت سعد خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں ملک شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ تاریخ طبری کے ایک حوالے کے مطابق حضرت سعد نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی۔
خلافت کی بیعت کیوں ضروری ہےاور خلافت کا مقام کیا ہے اور حضرت سعد نے جو کچھ کیا اس کی کیا حیثیت ہے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول تاریخوں میں آتا ہے کہ سعد کو قتل کر دو۔ بعض ماہر زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کی مراد سعد سے قطع تعلق کرنے سے تھی ۔چنانچہ حضرت سعد باقاعدہ مسجد میں آتے اور الگ نماز پڑھتے اور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا۔حضرت سعد عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے اور شام میں آپ کی وفات ہوئی۔ یعنی کسی صحابی نے آپ رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کیا۔ رویا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ پر کسی شخص نے یہ تبصرہ کیا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا ۔ حضور فرماتے ہیں کہ یہ میرے مفہوم کی تردید ہے۔فرمایااس شخص کا یہ بات کرنا ظاہر کرتا ہےکہ یہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے متعلق تین کتابیں مشہور ہیں۔ تہذیب التہذیب، اصابہ اور اُسدالغابہ۔ ان تینوں میں یہی لکھا ہے کہ حضرت سعد تمام صحابہ سے الگ ہو کر شام چلے گئے تھے ۔ اور وہیں فوت ہوئے۔ صحابہ میں سے ساٹھ ستر کے نام سعد ملتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس شخص نے کسی اَور سعد نامی صحابی کا نام پڑھ کر سمجھ لیا ہو کہ یہ سعد بن عبادہ کی بات ہو رہی ہے۔
خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی۔ حضرت خلیفہ اوؓل فرماتے ہیں قرآن پڑھو تمھیں معلوم ہوگا کہ پہلے خلیفہ کا دشمن ابلیس تھا۔ میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے۔ حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا گو یہ ضروری بھی نہیں۔ اطاعت کے لحاظ سے خلفاء اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے۔ نبی کی اطاعت اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے۔ جبکہ خلیفہ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کیوں کہ وہ تنفیذ وحی الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے۔خلفاء کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہونگے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لیے ان سے سرزد ہوں گے۔ اور کبھی بھی وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی ہو۔انبیا ء کو عصمت ِکبریٰ اور عصمتِ صغریٰ دونوں حاصل ہوتی ہیں یعنی وہ تنفیذ و نظام اور وحی و پاکیزگی اعمال دونوں کا مرکز ہوتے ہیں ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر حال میں ہر شخص کے لیے خلیفہ کی اطاعت فرض ہو گی چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
حضور انور نے لفظ سیاست کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری زبان میں عمومی طور پر یہ لفظ منفی طور پر لیا جاتا ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہاں یہ لفظ مثبت معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ سیاست کے معنی صحیح رنگ میں نظام کو چلانے کے ہیں۔خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلوؤں کو برتر رکھنے والے ہوں۔ گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے مفہوم کے قیام کو بھی مد نظر رکھنے والے ہوں۔ حضور انور نے فرمایانظام جماعت چلانا بھی خلیفہ وقت کا فرض ہے اور ساتھ ہی دین کے استحکام اور اس کے قیام کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔
جو دین خلفاء پیش کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں خلفاء جزئیات میں غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً بعض باتوں کے متعلق حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا طرزِ عمل مختلف رہا مگر یہ اختلاف جزئیات میں تھا اصولی امور میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک مشورہ لینے کا تعلق ہےتو ایک ماہر فن سے خواہ وہ غیر مذہب کا ہو مشورہ لیا جاسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمہ میں ایک انگریز وکیل کیا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے امور نبوت میں اس سے مشورہ لیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تھا ۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعوؑد کے صحابہ سے مشورہ لیتا ہوں اور طب وغیرہ امور میں دوسرے ماہرین سے بھی مشورہ لیتا ہوں۔ صحابہ سے مشورہ لینا اور غیر سے مشورہ لینا ان دونوں میں فرق ہے۔ صحابہ کا مقام بہر حال بلند ہے۔حضرت سعد بن عبادؓہ اگر کسی دنیاوی امر میں ماہر بھی ہوں اور ان سے مشورہ لینا ثابت بھی ہو تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے۔ مختلف روایات بتلاتی ہیں کہ سعد بن عبادہ کی وہ عزت صحابہ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھی جو کبھی انہوں نے حاصل کیا تھا۔ حضرت سعد کی وفات حضرت عمر کے دور خلافت میں15،14یا 16 ہجری میں ہوئی ۔
خطبہ کے اختتام پر حضور انور نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ پہلا جنازہ مکرم سید محمد سرور شاہ صاحب ممبر صدر انجمن احمدیہ قادیان کا تھا ۔ آپ 8؍ جنوری کو 85 برس کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔آپ صوبہ اڑیسہ کے معروف مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 1995ء میں آپ نے خود کو جماعتی خدمات کے لیے پیش کیا۔مرحوم 9 سال تک بطور صدر قضاء بورڈ خدمت کی توفیق پاتے رہے اسی طرح کئی اہم مرکزی کمیٹیوں کے صدر اور ممبر بھی رہے۔
دوسرا جنازہ محترمہ شوکت گوہر صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب ربوہ کا تھا ۔ مرحومہ مولانا عبدالمالک خان صاحب کی بیٹی تھیں ۔ آپ 5 جنوری کو 77 برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔مرحومہ کو اپنے خاوند کے ہمراہ مختلف خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ دیگر بہت سی خوبیوں کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صاحب رؤیا بھی تھیں ۔
آخر میں حضور انور نے مرحومین کے درجات کی بلندی اور اولاد کے نیک اور صالح ہونے کی دعا کی۔
٭…٭…٭