شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: حضرت اقدس ؑکی نمازوں کا بیان(حصہ سوم)
ابتداء نماز/ ہاتھ باندھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“…حضرت صاحبؑ نے فرمایا …باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر115)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چو بارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑکی سے اُترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا۔اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اُٹھا سکتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر187)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“خواجہ عبدالرحمٰن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے۔یعنی یہ دونوں آپس میں چُھو جاتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر823)
مصنف اصحاب احمد لکھتے ہیں :
“حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے۔زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نےکبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔”
(اصحابِ احمد جلد نہم مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم۔اے صفحہ 155)
رفع یدین/ آمین بالجہر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلد تھا اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا۔عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ! اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبدا للہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کر تے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کر تے ہیں اکثر نہیں کر تے بعض بسم اللہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلعم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت صلعم نے کثرت کےساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر154)
مصنف اصحاب احمد لکھتے ہیں :
“حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی آمین بالجہر کرتے سنا، تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیاکرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو اکڑایا یا پھرایا ہو۔ صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عموماً ایک ہی مرتبہ اور بعض اوقات دو مرتبہ بھی ہوتا تھا۔ جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے۔”
(اصحابِ احمد جلد نہم مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم۔اے صفحہ 155)
نماز میں دعا
آپؑ فرماتے ہیں :“میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نمازایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔”
(ملفوظات جلد دوم صفحہ372)
طریق بعد از نماز
حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :۔
“بہت دفعہ مسجد مبارک میں حضور کے ساتھ بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز با جماعت ادا کرنے کا اتفاق ہوا۔حضور کی آواز کبھی زیادہ اونچی نہیں آتی تھی۔بہت ہی آہستہ تسبیح تحمید کرتے تھے۔بعد فراغت نماز حضور اکثر دفعہ مسجد کے کونہ میں مشرق کی طرف رخ فرما کر بیٹھ جاتے۔اور مہمانوں اور دوستوں سے کلام فرمایا کرتے تھے۔” (رجسٹر روایات صحابہ ؓغیر مطبوعہ جلد12صفحہ 323روایت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ)
سنتوں کی ادائیگی
ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا:
“مولوی نورالدین صاحب کو بلاؤ کہ نماز پڑھی جاوے۔ مولوی صاحب بلائے گئے اور ڈیڑھ بجے نماز ظہر ادا کی گئی۔فرض کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرتؑ اندر تشریف لے گئے۔حضرت اقدسؑ کا مدام یہی اصول ہے کہ آپؑ ظہر کی پہلی چار سنتیں گھر میں ادا کر کے باہر تشریف لاتے ہیں ۔پچھلی دو سنتیں بھی جا کر اندر پڑھتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ادائے فرض کے بعد مسجد میں بیٹھنا منظور ہو تو پچھلی دو سنتیں فرضوں کے بعد مسجد میں ہی ادا فرماتے ہیں ۔”
(ملفوظات جلد نہم صفحہ181)
وتر نماز کی ادائیگی
حضرت سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں :۔
“میں نے باوجود اتنے قرب کے حضور کی قرأت اور تسبیح کی آواز نہیں سنی۔حضور باوجود بلاناغہ تہجد پڑھنے کے وتر تین رکعت عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرتے تھے یعنی دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر ایک الگ پڑھ لیا کرتے تھے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ440، 441روایت سیّد غلام غوث صاحبؓ)
حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضور سفر اور حضر میں ہمیشہ وتر نماز عشاء کے وقت ہی پڑھ لیا کرتے تھے۔حالانکہ حضور تہجد کے ہمیشہ عادی تھے۔پھر بھی وتر اوّل رات ہی ادا کر لیا کرتے تھے۔ اگر حضور امام نماز سے پہلے مسجد میں تشریف لے آتے تو امام کی انتظار میں بیٹھے رہتے۔نمازوں کے جمع کرنے کی صورت میں سنتیں نہیں پڑھا کرتے تھے خواہ فرضوں کے اوّل کی ہوں یا بعد کی۔اگر کوئی دوست سنتیں پڑھتا تو اس کو منع فرما دیا کرتے تھے۔ نمازیں عموماً حضور امام کے پیچھے پڑھتے تھے مگر جنازہ عموماً حضور ہی پڑھاتے تھے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ 84، 85روایت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ؓ)
نمازوں کی ادائیگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتا آیا ہوں۔اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضےٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔جب کہ میں بالکل بچہ تھا۔آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔پھر جب صبح کی اذان ہوتی۔تو سُنّتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لیے مسجد میں جاتے۔اور با جماعت نماز پڑھتے۔نماز کبھی خود کراتے۔کبھی میاں جان محمد امام مسجد کراتا۔نماز سے آکر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے۔میں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔سنت گھر پر پڑھتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر491)
حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضرت صاحب نے تین روز محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب صوفی (جو کہ میرے والد صاحب کے مرید تھے) قیام فرمایا اور مسجد صوفیاں میں نماز پڑھنے تشریف لے جاتے تھے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ 2روایت پیرافتخار احمد صاحبؓ)
نماز باجماعت کی ادائیگی اور اس کا اہتمام
حضرت مولوی محمد جی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضرت اقدس پانچوں وقت باجماعت اوّل وقت نماز ادا کرتے اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھتے اور عشاء کی نماز کافی دیر کرکے پڑھاتے۔ جب کوئی کتاب تصنیف کرتے تو نماز ظہر و عصر جمع کرنے کو فرماتے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد8صفحہ145روایت مولوی محمد جی صاحب ؓ)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک روز شہ نشین پر جلو ہ افروز ہو کر فرمایا کہ “میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں ،چکر آرہا ہے۔جب جماعت کا وقت آتا ہے۔تو اس وقت خیال گذرتا ہے کہ سب جماعت ہوگی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے۔اس لیے افتاں خیزاں چلا آتا ہوں ۔”
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ212)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ سیالکوٹی فرماتے ہیں :
“آپؑ کی ملاقات کی جگہ عموماً مسجد ہی ہے۔آپ اگر بیمار نہ ہوں تو برابر پانچ وقت نماز باجماعت پڑھتے ہیں اور نماز باجماعت کے لیے ازبس تاکید کرتے ہیں اور بار ہا فرمایا ہے کہ مجھے اس سے زیادہ کسی بات کا رنج نہیں ہو تا کہ جماعت کیساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔مجھے یاد ہے جن دنوں آدمیوں کی آمدورفت کم تھی آپؑ بڑی آرزو ظاہر کیا کرتے تھے کہ کاش اپنی ہی جماعت ہو جس سے مل کر پانچ وقت نماز پڑھا کریں اور فرماتے تھے مَیں دعا میں مصروف ہوں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا منظور کرے گا ۔آج خدا کا یہ فضل ہے کہ پانچوں نمازوں میں اپنے ہی آدمی اسّی نوّے سے کم نہیں ہو تے۔ فریضہ ادا کرنے کے بعد آپؑ معاً اندر تشریف لے جاتے ہیں ۔اور تصنیف کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔مغرب کی نماز کے بعد آپؑ مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں ۔کھانا بھی وہیں دوستوں میں مل کر کھاتے ہیں اور عشا ء کی نماز پڑھ کر اندر جاتے ہیں ۔دوپہر کا کھانا بھی باہر احباب میں مل کر کھاتے ہیں ۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی صفحہ43)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“میر عنایت علی شاہ صاحب لودھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اول ہی اوّل حضور اقدس لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صرف تین آدمی ہمراہ تھے۔میاں جان محمد صاحب و حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملاوامل صاحب جو کہ اب تک زندہ موجود ہے۔ غالباً تین روز حضور لدھیانہ میں ٹھہرے۔ایک روز حضور بہت سے احباب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے۔خاکسار بھی ہمراہ تھا راستہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔اس وقت لالہ ملاوامل نے حضور سےکہا کہ نماز پڑھ لی جائے حضور نے وہیں پر مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی کی اقتداء میں نماز ادا کی۔اور ملاوامل ایک پاس کی چری کے کھیت کی طرف چلا گیا۔ واللہ اعلم وہاں نماز پڑھی ہو۔نیز اس وقت لالہ ملاوامل کا یہ حال تھا کہ اگر اُن کو کہا جاتا کہ آپ سونے کےوقت چارپائی لے لیا کریں ۔تو وہ جواب دیتےمجھےکچھ نہ کہو۔حضرت کے قدموں میں نیچےزمین پر ہی لیٹنے دو۔حضرت اقدس عموماً صبح کی نماز خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر531)
(باقی آئندہ)