اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
ربوہ میں جماعت مخالف کانفرنس
ربوہ۔ 15؍نومبر 2019ء: ربوہ ریلوے اسٹیشن کی جامع مسجد محمدیہ میں حاجی غلام مصطفیٰ خطیب مسجد ختم نبوت مسلم کالونی کی زیر سر پرستی سیرت النبی کانفرنس کا ا نعقاد کیا گیا ۔یہ کانفرنس دوپہر ایک بجے سے اڑھائی بجے تک جاری رہی ۔اس میں 300؍کے قریب حاضری تھی۔ مولوی خباب آف ٹوبہ ٹیک سنگھ، مولوی عزیز الرحمٰن ثانی آف لاہور اور مولوی غلام مصطفیٰ نے اس موقع پر جماعت مخالف تقاریر کیں ۔
اس کانفرنس میں مقررین نے جماعت مخالف اشتعال انگیز بیانات دیتے ہوئے کہا کہ قادیانیو!جتنا چاہے زور لگا لو ہم کسی کو بھی آئین میں موجود ختم نبوت کی شق کو تبدیل نہ کرنے دیں گے ۔آئین میں تبدیلی کی کوششیں ملک کی حالت کو بدتر بنا سکتی ہیں ۔یہ مسجد یہاں گذشتہ 40؍سا ل سے قادیانیت کے گڑھ میں ہے ۔مسلمانو!سن لو کہ قادیانی پاکستان کے آئین اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ۔قادیانی ختم نبوت کے چور ہیں ۔قادیانی غیر ملکی ایجنڈا کے تحت ملک میں ابتری پھیلا رہے ہیں یہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔ سر ظفر اللہ خان نے قائداعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھی تھی ۔قادیانیوں کو انڈیا جانےکی مکمل آزادی ہے ۔یورپی وفود پاکستان آتے ہیں اور انہیں دورہ کراوایا جا تا ہے کہ قادیانیوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ رات کے وقت چناب نگر سے گزرتے وقت مسلمانوں کو کیوں چیک کیا جاتا ہے ۔قادیانی اسلام قبول کر لیں یا اپنے آپ کو بطور اقلیت تصور کر لیں۔قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ربوہ شہر میں جہاں نوے فی صد سے زائد آبادی احمدیوں پر مشتمل ہے کس طرح مخالفین احمدیت حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرتے اور پھر اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی کارروائیوں سے ربوہ کے باسیوں کو شدید دکھ او ررنج پہنچتا ہے جس کے سدباب کے لیے انتظامیہ کی طرف سے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے ۔
اسلاموفو بیا(اور احمدی فوبیا)
فیصل آباد: روزنامہ ایکسپریس نے 25؍نومبر 2019ء کی اشاعت میں “یورپ میں اسلاموفوبیا کی لہر”کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ،اس مضمون میں ایڈیٹر نے ان الفاظ کے ساتھ اپنےمضمون کا اختتام کیا
“مسلمانوں نے آزادی اظہار کے نام پر کبھی کسی مذہب یا مقدس شخصیات کا مذاق نہیں اڑایا اور نہ کسی کے مذہب کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ۔اسلام رواداری کا مذہب ہے جس میں تمام دوسرے مذاہب کا احترام اور ان کے پیرو کاروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی اور جنونیت کو روکنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور ایسے افراد یا گروہ جو مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی اہانت آمیز حرکت کرتے ہیں تو اس کا فوری طور پر انسداد کیا جائے ۔”
یہ بیان ایک نہایت اعلیٰ معیار کا بیان ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ اسلام عفو و درگزر کا مذہب ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان میں موجود مسلمانوں کے عمل بھی مذکورہ بیان کے مطابق ہوتے ۔چنانچہ اسلامی جمہوریہ میں مختلف گروہ اور میڈیا آزادانہ اور مستقل طور پر بانی جماعت کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں اور ایسا تقریباً روز ہی ہو رہا ہوتا ہے ۔اور باوجود مقررہ قوانین کے انتظامیہ ایسا کرنے والے گروہوں اور میڈیا کے خلاف کوئی بھی قانونی چارہ جوئی نہیں کرتی۔
روزنامہ ایکسپریس جس نے یہ بیان شائع کیا ہے اس میں گذشتہ سال جماعت مخالف نفرت انگیز 193؍خبریں اور 6؍خصوصی مضامین شائع ہوئے۔جماعت مخالف خبریں شائع کرنے میں مذکورہ اخبار ساتویں نمبر پر رہا جبکہ نوائے وقت دوسرے نمبر پر کہ جس نے جماعت مخالفت پر مشتمل 333؍ خبریں اور 35؍خصوصی ایڈیشن شائع کیے لہذا دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنےگریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
احمدیوں پر مقدمات کے متعلق اپ ڈیٹ
پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے مقدمات کی تفصیل اختصار کے ساتھ درج ہے ۔
1۔ایک من گھڑت کیس 4؍احمدیوں خلیل احمد، غلام احمد،احسان احمد ،اور مبشر احمد آف بھوئیوال کے خلاف زیردفعات427 PPCs 295-A,337-2،؍ 13مئی 2014ء کو شرقپور تھانہ میں درج کیا گیا ۔مذکورہ احباب کو مورخہ 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کیاگیا جبکہ بعد میں PPC295-Cکی دفعہ بھی ان کی چارج شیٹ میں شامل کر دی گئی ۔سیشن کورٹ کے جج نے 11؍اکتوبر 2017ء کو انہیں سزائے موت سنائی تھی ۔یہ احباب گذشتہ ساڑھے پانچ سال سے اسیر ان راہ مولا ہیں ۔ان کے مقدمے کے فیصلہ کے خلاف ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔
2۔مذکورہ بالا من گھڑت کیس میں گرفتار خلیل احمد کو پولیس کی حراست ہی میں ایک معاند احمدیت نے مورخہ 16؍مئی 2014ءکو شہید کر دیا تھا۔چنانچہ قاتل کی درخواست ضمانت کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا ۔اب یہ کیس ماڈل کورٹ ضلع شیخوپورہ میں زیر سماعت ہے۔
3۔ سعید احمد وڑائچ کو مورخہ 20؍جنوری 2018ء کو توہین رسالت کے ایک جھوٹے مقدمہ میں زیر دفعہ PPC295 –Cایف آئی آر نمبر 645تاندلیانوالہ پولیس اسٹیشن کے تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔یہ کیس زیر کارروائی ہے اور اس کی آئندہ سماعت دسمبر میں ہو گی۔
4۔ وقار احمد طالبعلم جامعہ احمدیہ ،سید مبشر احمد ایاز پرنسپل جامعہ احمدیہ ،اور محمد اظہر منگلا کو سائبر کرائم قانون کے تحت 12؍ نومبر2019ء کونامزدکیا گیا تھا۔اس کیس میں نامزد وقار احمد اسیر ہیں اوراس کیس کے متعلق تحقیقات جاری ہیں ۔
5۔ محمود ہاشمی آف علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کو مورخہ 20؍جون 2019ءکو زیر دفعہ 295-A اور 298-C کے تحت جماعتی لٹریچر سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کی وجہ سے گرفتار کیاگیا تھا۔یہ کیس زیر کارروائی ہے۔
6۔ اقبال سلونی اور مکرم اکرام الٰہی کو 29؍مارچ 2018ءکو رہا کر دیا گیا تھا تاہم ان کا کیس تاحال زیر کارروائی ہے ۔
7۔دوالمیال ضلع چکوال واقعہ کے چار قیدیوں کو گذشتہ سال رہا کر دیا گیا تھا ۔یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت راوالپنڈی میں زیر سماعت ہے ۔دوالمیال مسجد کا کیس چوا ٓسیدن شاہ کی سول عدالت میں زیر کارروائی ہے ۔اس حوالے سے ایک دوسرا کیس احمدیہ مسجد کی سیل ختم کرنے کے متعلق زیر کارروائی ہے ۔اس کیس کی سماعتیں جاری ہیں جبکہ احمدیوں کے پاس گذشتہ تین سال سے کوئی بھی ایسی خاص جگہ موجود نہیں کہ وہ باجماعت نماز ادا کر سکیں ۔
8۔ طاہر احمد خالد مربی سلسلہ کو زیر فعہ 295-B 31؍مارچ 2014ءکو گرفتار کیا گیا تھا۔انہیں ساڑھے پانچ ماہ بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا ۔کیس کی سماعتیں مکمل ہو چکی ہیں اور اب فیصلہ کا انتظار ہے ۔
9۔ شاہد احمد پرویز آ ف سادھوکی کو زیر دفعہ 298-Cکے تحت عید الاضحی کے موقع پر گائے کی قربانی کے الزام کا سامنا ہے ۔11؍ اکتوبر 2018ء سے ان کی ضمانت کے بعد کارروائی مزید آگے نہ بڑھ سکی ہے ۔
10۔روحانی خزائن اور دیگر احمدی کتب پر حکومتی قدغن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ۔9؍اپریل 2019ء کےبعد سے اس پر کارروائی نہ کی گئی ہے جبکہ اس دوران حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کتب پر حکومت کی جانب سے بدستور پابندی عائد ہے ۔
11۔ملا حسن معاویہ نے احمدیوں کو عید الاضحی کے موقع پر جانور وں کی قربانی سے روکنے کے لیے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی ۔اس پر آخری مرتبہ 23؍ اپریل کو سماعت ہو ئی تھی ۔
12۔احمدیہ رسالہ جات پر حکومتی قدغن کے نوٹیفیکیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ۔ یہ کیس بھی تاحال زیر التوا ہے۔ اس پر کارروائی کی کوئی تاریخ تاحال مقرر نہیں کی گئی ہے۔
جماعت مخالف کانفرنس
جماعت مخالف دو کانفرنسوں کا انعقاد ضلع حیدر آباد اور ضلع بہاولپور میں کیا گیا ۔
23؍نومبر2019ءکو کوٹری شرقی ضلع حیدر آباد میں “نقشبندیہ کانفرنس”کا انعقاد کیا گیا ۔ا س کانفرنس میں حضرت بانی جماعت کے خلاف انتہائی غیر مناسب زبان کا استعمال کیا گیا اور حاضرین کو جماعت کے خلاف اکسایا گیا ۔اس دوران احمدیوں کی طرف سے پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئی ۔
24؍نومبر 2019ء کو ختم نبوت تنظیم نے 6چک بمبسیر ضلع بہاولپور میں ایک جماعت مخالف کانفرنس کا انعقاد کیا ۔اس سے قبل ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا تھا ۔احمدیوں کی طرف سے پولیس کو امن عامہ کی صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے اطلاع بھی کی گئی ۔اس کانفرنس کی حاضری 300؍ رہی ۔علاقہ کے ایس ایچ او کی طرف سےاس کانفرنس کی مانیٹرنگ بھی کی گئی۔
ایک احمدی کے خلاف نفرت اور فساد انگیزی
بھوئیوال ضلع شیخوپورہ:نومبر2019ء: ایک شرپسند نے جماعت مخالف ایک اشتہار منیر احمد کے گھر کی دیوا ر پر چسپاں کر دیا۔یہ احمدی خلیل احمد شہید والے کیس کی پیروی کر رہے ہیں جنہیں پولیس کی حراست میں 2014ء میں شہید کر دیا گیا تھا۔ خلیل احمد ان چار احمدیوں میں سے تھے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے گاؤں میں لگے ایک جماعت مخالف اشتہار کو پھاڑا تھا۔ اس الزام کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا اور مخالفین جماعت کی درخواست پر خلیل احمد کی چارج شیٹ پر توہین رسالت کی خطرناک دفعہ شامل کر دی گئی تھی ۔اس کیس پر سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا تھا جس کے خلاف اپیل کی گئی تھی جس پر ہائی کورٹ میں تاحال سماعت کا انتطارہے ۔
منیر احمد (جن کے گھر کی دیوار پر جماعت مخالف اشتہار آویزاں کر دیا گیا تھا )نے اشتہار خود اتارنے کی بجائے پولیس کو اطلاع دی ۔پولیس نے موقع پر آکر اس اشتہار کی تصویر بنائی۔ موصوف نے بعد ازاں ڈی پی او سے ملاقات کر کے اسے تمام صورتِ حال سے آگا ہ کیا ۔
٭…٭…٭