سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: حضرت اقدس ؑکی نمازوں کا بیان(حصہ چہارم)

(’اے ولیم‘)

نمازوں کی ادائیگی

حضرت مستری فقیر محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“میرا باپ جس کا نام جیوا تھا وہ ہمیں سنایا کرتا تھا کہ مرزا صاحب ایک دفعہ کوٹھے پر سے گر پڑے اور سخت چوٹ لگی۔ہمیں یہاں خبر ہوئی کہ مرزا صاحب کوٹھے سے گر پڑے ہیں ۔ہم آپ کی خبر کے واسطے گئے تو جس وقت آپ کو ہوش آئی تو پوچھتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوا ہے یا نہیں ؟ اس قدر نماز سے محبت تھی۔میں اس وقت چھوٹا تھا جس وقت یہ بات سنایا کرتے تھے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ جلد1صفحہ 58روایت مستری فقیر محمد صاحب)


حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“میں 1882ء سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت کچھ کسی قدر ریش و بروت آیا تھا تب سے وفات کے کچھ ماہ پیشتر تک حاضر خدمت رہا۔ہمیشہ نماز باجماعت کا حضرت کو پابند پایا اور جب حضرت اقدس علیہ السلام نماز پڑھتے خواہ مسجد میں یا مکان میں یا جنگل میں اذان ضرور کہلواتے۔حالانکہ لودھیانہ میں جس مکان میں حضرت کا قیام تھا اس کے قریب ہی مسجد تھی اور اس مسجد میں برابر اذان ہوتی تھی لیکن پھر بھی آپ اذان نماز کے وقت دلوا لیتے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت مسجد میں اذان ہوتی ہے اور اس کی برابر آواز یہاں اس مکان میں پہنچتی ہے وہی اذان کافی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا نہیں اذان ضرور دو۔جہاں نماز وہاں اذان ضروری ہے۔”

(تذکرۃ المہدی از پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ حصہ اول صفحہ 70)

مقدمات کے دوران نماز

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کیلئے گیا۔عدالت میں اور اورمقدمے ہوتے رہے اور میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کر تا رہا۔چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اسلئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑنی شروع ہو گئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا۔جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرا کھڑا ہے۔سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں ۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر17)

جنگل میں نماز

قیام لدھیانہ کے دوران میں حضرت اقدس اپنے معمول کے مطابق اکثر سیر کو بھی تشریف لے جاتے تھے۔ایک مرتبہ جنگل میں نماز عصر کا وقت آ گیا۔عرض کیا گیا نماز کا وقت ہو گیا ہے۔آپ نے فرمایا۔بہت اچھا یہیں پڑھ لیں ۔غرض وہیں مولوی عبد القادر صاحب نے نماز پڑھائی۔

(تاریخِ احمدیت جلد 1 صفحہ 237)

نمازیں جمع بھی ادا کیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“چونکہ مضامین کی آمد بہت ہے اور وہ چاہتی ہے کہ درمیانی سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے،اس لئے کہ ٹوٹنے میں بسا اوقات پیش آمد مضمون فوت ہو جاتا ہے۔مناسب ہے کہ جمعرات تک پھر نمازیں ظہر و عصر جمع کرکے پڑھی جائیں ۔”

(ملفوظات جلددوم صفحہ115)

آپؑ فرماتے ہیں :

“اور جیساکہ خداکے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے۔ویسا ہی اُس کی رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے۔فرض بھی خداکی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے۔دیکھو۔ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں ۔نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۃ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہٗ الصَّلوٰۃ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔”

(ملفوظات جلد دوم صفحہ212-211)

پھر فرماتے ہیں :

“سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے۔میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے، ایک نو وارد یا نو مرید کو (جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے) یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں وہ صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے۔”

(ملفوظات جلد سوم صفحہ63)

حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

میں نے اپنے قیام قادیان دارالامان کے دوران میں یہ دیکھا کہ حضور مفصلہ ذیل مواقع پر نمازوں کو اس طرح جمع فرماتے یعنی مذکورۃ الصدر بزرگوں کی امامت میں نمازوں کو جمع کر لیتے تھے۔نماز ظہر کے ساتھ عصر کے چار فرض۔نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء کے چار فرض۔مفصلہ ذیل موقعوں پر نماز جمع فرمایا کرتے تھے۔

1۔جس روز کسی کتاب کی تصنیف یا کسی ضروری اشتہار کی تکمیل میں مصروف ہوں ۔

2۔جس دن طبیعت ناساز ہو۔

3۔جس روز بارش شدید ہو اور قادیان کی گلیاں کیچڑ سے لبریز ہوں ۔

4۔سفر درپیش ہو۔

مفصلہ ذیل موقعوں پر نمازوں میں قصر کی گئی

میں نے دیکھا کہ حضور ایک موقعہ پر کسی مقدمہ (غالباً دیوانی)میں عدالت تحصیلدار صاحب بٹالہ کے روبرو شہادت کے لئے تشریف لے گئے وہاں پر نماز ظہر اور عصر جمع بھی کی گئیں اور ہر دو نمازوں کے دو دو فرض ادا کئے گئے۔تحصیل و تھانہ بٹالہ کے سامنے والے باغ میں جس کو انارکلی کہتے ہیں نماز ادا کی گئی تھی۔

اسی طرح گورداسپور میں جب مقدمہ کرم دین کی وجہ سے میری موجودگی میں قیام فرماتے تو نمازوں میں قصر فرماتے۔اور جس دن ہمہ روز واپسی ہوتی نمازوں کا قصر بھی فرماتے اور جمع بھی کرتے۔ سفر گورداسپور کے دوران میں ایک موقعہ پر کرم دین کے مقدمہ میں حضرت کو قریب پندرہ روز کے قیام کرنا پڑا۔چونکہ واپسی کا ہر روز یقین ہوتا۔مگر مجسٹریٹ پھر دوسرے روز کی پیشی کی تاریخ مقرر کر دیتا۔اس طرح قریباً پندرہ دن تک نماز قصر ہوتی رہی۔”

(رجسٹر روایات صحابہ ؓغیر مطبوعہ جلد13صفحہ24-23 روایت حکیم دین محمد صاحبؓ)

نماز میں امامت

“حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہواتھا۔نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھےبلکہ عموماً مولوی صاحب موصوف ہی پڑھاتے تھے۔اور شاذونادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے۔اور کبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بھی پڑھاتے تھے۔ا یک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی۔ مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اور مسجد مبارک میں بھی۔ مگر دونوں جگہ امام الصلوٰة حضور نہ ہوتے تھے۔ عیدین کی نماز بھی سوائے شاذ کے حضور خود نہ پڑھاتے تھے۔ نمازِ جنازہ عموماً حضور خود پڑھاتے تھے اور حضور کو میں نے نمازِ جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا۔ یا کم از کم میری یاد میں نہیں ۔”

(اصحاب احمد جلد 9صفحہ 155)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ جب مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل)قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے میں مغرب کی نماز میں آیا تو دیکھا کہ آگے حضرت مسیح موعود ؑخود نماز پڑھا رہے تھے۔قاضی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحبؑ نے چھوٹی چھوٹی دو سورتیں پڑھیں مگر سوزو درد سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں ۔جب آپؑ نے نماز ختم کرائی تو میں آگے ہوا مجھے دیکھ کر آپؑ نے فرمایا قاضی صاحب میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ کو نہیں پایا۔مجھے اس نماز میں سخت تکلیف ہوئی ہے۔عشاء کی نماز آپ پڑھائیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر28)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“خاکسار نے (حضرت اماں جانؓ سے۔ناقل) پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں مگر پھر …چھوڑ دی۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے کی بات ہے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر19)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“میاں محمد خان صاحب ساکن گِل منج ضلع گورداسپور نےمجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ابتداء میں حضرت صاحب مسجد مبارک میں خود نماز پڑھایا کرتے تھے ایک آدمی آپ کی دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا اور پیچھے صرف چار پانچ مقتدی کھڑے ہو سکتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر532)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھاکہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت امّ المومنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے۔کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں ۔بلکہ الگ پیچھےکھڑا ہونا چاہئے۔ہاں اکیلامردمقتدی ہو۔تو اسےامام کےساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔مَیں نے حضرت اُمّ المومنین ؓسے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا۔کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکّر آ جایا کرتا ہے۔اس لئے تم میرےپاس کھڑےہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر696)

حضرت سید میر عنایت علی شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضور بمع خدام ہمارے محلّہ صوفیاں میں تشریف لے آئے۔ہجوم ساتھ تھا۔حضور نے آتے ہی ہمارے محلّہ صوفیاں کی مسجد میں نماز عصر پڑھی۔ساتھ اور لوگ بھی تھے جن میں مولوی موسیٰ صاحب والد مولوی عبدلقادر صاحب مرحوم بھی تھے۔جب حضور وضو کر رہے تھے تو حضور نے ملیدہ کی جرابیں پہنی ہوئی تھیں جن پر حضور نے مسح کیا۔مولوی صاحبان دیکھ رہے تھے۔جائز ناجائز کا چرچا شروع ہو گیا۔مسجد کے اندر مولوی موسیٰ صاحب مرحوم نے سوال بھی کیا۔حضور نے اثبات میں جواب دیا۔حضور کو نماز پڑھانے کے لئے کہا گیا لیکن حضور نے مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم کو امام بنایا۔حضو ر کا قیام تین دن رہا۔صبح کی نماز حضور خود پڑھاتے تھے۔بعض وقت بیٹھک میں بھی پڑھا دیتے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد1صفحہ110روایت سید میر عنایت علی شاہ صاحبؓ)

…………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button