متفرق مضامین

توہین رسالت کی سزا (قسط دوم)

(حافظ مظفر احمد)

توہین ِرسالت کی سزا کے اثبات میں پیش کی جانے والی مبینہ روایات اورواقعات کی تحقیق

قرآن و سنت اور علم ِحدیث کی رو سے تاریخ میں مذکور ایسے واقعات وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے یا ان سے اخذ کیے جانے والے نتائج درست نہیں

نوٹ: قبل ازیں قسط اوّل میں قرآن و سنت اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں توہین رسالت کی بیان فرمودہ سزا کا ذکر کیا جاچکا ہے۔زیرنظرمضمون اُن روایات وواقعات کی تحقیق پر مشتمل ہے جن میں قرآن و سنت کے برخلاف توہین رسالت کی سزا کا ذکر ہے اوراس وجہ سے وہ قابل قبول نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ ان احادیث میں سے اکثر کا تعلق کمزور اور ضعیف روایات سے ہے جو صحاح میں شامل نہ ہونے کے باعث حجّت نہیں ہوسکتیں۔

مبیّنہ واقعات

نابینا کی ام ولد کےقتل کا واقعہ

ابوداؤد کی ایک روایت کے مطابق ایک اندھے کی ام ولد(وہ باندی جومالک کا بچہ جن کر آزاد ہوئی)رسول اللہ ﷺکو برا بھلا کہا کرتی ۔ وہ اندھا اسے منع کرتا تھامگر وہ باز نہ آتی تھی اور وہ اسے ڈانٹتا تھا لیکن وہ اس کی ڈانٹ نہیں سنتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک رات جب وہ رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہہ رہی تھی تو اس کے اندھے مالک نے خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ کر اسے قتل کردیا۔ اس عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ پڑا ہوا تھاجوخون سے لتھڑ گیا۔صبح جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کرکے کہا کہ جس شخص نے یہ فعل کیا ہے ،میں اسےاللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ وہ اندھا کھڑا ہوگیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا لرزتا کانپتا ہوا آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اس عورت کا صاحب ہوں۔ وہ آپ کو برا بھلا کہتی تھی، میں اسے منع بھی کرتا تھا، وہ باز نہ آتی تھی اور اسے ڈانٹا ڈپٹا تو بھی اس پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس سے میرے دو موتیوں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری بڑی اچھی ساتھی تھی ۔گذشتہ رات وہ آپ کو برا بھلا کہنے لگی تو میں نے خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ کر اسے قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار گواہ رہو اس کا خون ھدریعنی باطل ہے۔(یعنی قاتل سے قصاص نہیں لیا جائےگا)۔

(سنن ابو داؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبیﷺ،سنن نسائی کتاب تحریم الدم باب الحکم فیمن سب النبیﷺ)

حضرت ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت اور دیگر ایسی جملہ روایات قابل ردّ ہیںجیساکہ آگے ذکرہوگا۔مگر اصولی طور پریہ روایت قرآنی تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی

(البقرة :179)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو تم پر مقتولوں کے بارہ مىں قصاص فرض کر دىا گىا ہے۔

اس قرآنی آیت کے برخلاف روایت میںمذکور نابینا سے قصاص لینے کا کوئی ذکر نہیں۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا (المائدة:33)

کہ جس نے بھى کسى اىسے نفس کو قتل کىا جس نے کسى دوسرے کى جان نہ لى ہو ىا زمىن مىں فساد نہ پھىلاىا ہو تو گوىا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دىا۔اس آیت کے مطابق بلا استثناء کسی قاتل کا بغیر قصاص کے کسی کو قتل کرنا بہت بڑا قومی جرم ہے۔

یہ روایت صحیح بخاری کی اس روایت کے بھی خلاف ہے جس میں تین قسم کے قتل کے سوا کوئی قتل جائز نہیں۔(بخاری کتاب الدیات باب قول اللّٰہ تعالیٰ أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) لہذا مذکورہ بالا روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک فنی ضعف کا تعلق ہے۔اس حدیث کا ایک راوی عکرمہ مولی ابن عباس ہے جو حضرت ابن عباسؓ کا آزاد کردہ غلام تھا اور بعض دفعہ ان کی طرف غلط باتیں منسوب کردیتا تھا اور اس کی یہ بات ایسی مشہور تھی کہ امام مالک اور امام احمد بن حنبل بھی عکرمہ کے متعلق درست رائے نہ رکھتے تھے اور اسے مضطرب الحدیث کہتے تھے۔(سیراعلام النبلاء جزء5صفحہ23-22)

اس حدیث کا دوسرا راوی عثمان الشحام ہے جن کے متعلق علامہ يحيى القطان كہتے ہيں:‘‘تعرف وتنكر ولم يكن عندي بذلك’’یعنی وہ معروف کے ساتھ منكر روایات بھی بيان كرتا ہے، اور وہ میرے ہاں مقبول نہيں۔

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم جزء6صفحہ 173)

امام نسائی اس راوی عثمان کے بارہ میں کہتے ہیں:‘‘لیس بالقوی’’کہ اس کی روایت مضبوط نہیں ہے۔

(تھذیب التھذیب جزء7صفحہ 160)

یہ روایت ضعیف ہونےکے علاوہ منفردبھی ہےاور عثمان الشحام کے علاوہ کسی اور نے یہ ام ولد(لونڈی)والی روایت نقل نہیں کی ۔

علم درایت کے لحاظ سےیہ بات اس روایت میں شبہ پیدا کرتی ہےکہ کتبِ حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام تک موجود نہیں اوراس طرح کا واقعہ بیان نہیں ہوا۔اورمؤرخین تک نے اس واقعہ کی تفصیل کا ذکر نہیں کیا(جوبالعموم ہرقسم کے رطب و یابس واقعات جمع کرلیتے ہیں)۔اگر واقعی ایسے حساس نوعیت کےواقعات واقع ہوئے ہوتے تو کتب احادیث اور بعض کتب تاریخ ان کے ناموں اور دیگر مستند تفاصیل کےذکر سے خالی نہ ہوتیں۔

ضعف روایت کے علاوہ اس حدیث کے متن میں بھی اضطراب ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:‘‘كانت له أُمُّ ولدٍ تَشتُمُ النبيَّ -صلَّى اللّٰه عليه وسلم – وتقعُ فيه فينهاها، فلا تنتهي’’یعنی یہ عورت نبی کریمﷺ کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی۔وہ نابینا اسے منع کرتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی۔اس سے ثابت ہے کہ مذکورہ ام ولد پہلی دفعہ توہینِ رسالت کی مرتکب نہ ہوئی تھی کہ اسے اسی پر قتل کردیا گیا ہوبلکہ یہ اس کا وطیرہ بن چکا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ نابینا صحابی عفو ودرگزرکا مظاہرہ کرتے ہوئے محض اُسے اس سے بطور نصیحت منع کرتے رہے۔
حالانکہ اگر اس نابینا کے نزدیک بھی توہین رسالت کی سزا قتل ہوتی تو پہلی دفعہ ہی توہین کرنے پر وہ قتل کردیتے کیونکہ گالی گلوچ اس کی عادت تھی۔موجودہ واقعہ سے یہ اشتباہ بھی ہوسکتا ہے کہ قتل کی وجہ محض یہ تھی یا کوئی گھریلو لڑائی جھگڑا اور وقتی اشتعال بھی شامل تھا۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت اسلام میں ‘‘شہادت اور اس کی جانچ’’کا ایک مضبوط نظام ہے۔جس کا مقصد یہ ہےکہ کسی بے گناہ کو کسی صورت غلط سزا نہ ملنے پائے۔اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:ادْرَءُوا الحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ کہ سزائیں حتی الوسع مسلمانوں سے دورکرو۔

(سنن ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الحُدُودِ)

مگر اس اصول کے برخلاف روایت کے مطابق نہ کوئی عدالت لگی نہ گواہ پیش ہوا،نہ کوئی ثبوت دیا گیا اورایک مستحکم اور عادل اسلامی حکومت کے ہوتے ہوئے ایک بے نام نابینا نے اپنی بے نام بیوی کو قتل کرکے اس پر توہین رسالت کا الزام لگادیا۔بہرحال یہ واقعہ کم ازکم توہین رسالت کی سزا کے لیے مطلقاً نظیر نہیں بن سکتا۔

عصماء بنت مروان کے قتل کا واقعہ

روایت کے مطابق‘‘بنی امیہ بن زیدکی ایک عورت عصماء بنت مروان یزید بن زید کی بیوی تھی۔وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال و ایذا رسانی کے ساتھ ہجوگوئی بھی کرتی تھی۔عمیر بن عدی نے نذر مانی کہ اگر اللہ رسول اللہﷺ کوبدر سے صحیح سلامت واپس لے آئے گا تو وہ ضرور اسے قتل کردیں گے۔پھر عمیر بن عدی نےفتح بدر کے بعدآدھی رات کو جاکر اسے قتل کردیا۔ فجر کی نماز پر رسول اللہﷺ سے ملاقات ہوئی۔آپؐ نے عمیر سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے عصماء کو قتل کیا ہے۔اس نے کہا ہاں یا رسول اللہﷺ!کیا مجھ پراس کے قتل کی وجہ سے کچھ سزاہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس میں دو بکرے سینگ نہیں اڑائیں گے۔’’

(مسند الشهاب القضاعي جزء2صفحہ 48)

ابن سعد کی بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ

‘‘اس عورت کے پاس اس کی اولاد میں سے کچھ لوگ سوئے تھے۔جن میں ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا۔جسے وہ اپنے سینہ پر اٹھائے دودھ پلا رہی تھی۔نابینا عمیر نے اپنے ہاتھ سے ٹٹول کر بچے کو پرے ہٹایا اور تلوار اس کے سینہ سے پشت میں پار کردی۔رسول اللہﷺ نے نابینا عمیر کو صاحب بصیرت کا نام دیا۔’’

(طبقات ابن سعد جزء2 صفحہ27)

اول توسند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے۔چنانچہ علامہ ناصر الدین الالبانی نے اسے اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ ، روایت نمبر 6013کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس کے ایک راوی محمد بن عمرواقدی ہیں جن کو امام احمد بن حنبل نے کذاب اور یحی بن معین نے ضعیف کہا ہے۔

(تهذيب التهذيب جزء9صفحہ364)

فن درایت کے لحاظ سے دیکھا جائے تواس روایت کے بارہ میں سوال اٹھتے ہیں کہ (i)صحابی نابینا ہونے کے باوجود اس عورت کے گھر تک اکیلے پہنچے۔(ii)عورت کو رات کے اندھیرے میں کیسےڈھونڈنکالا(iii)ٹٹول کر یہ بھی معلوم کرلیا کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے (iv)اس سجاکھی مقتولہ نے موت کو سامنے دیکھ کربھی نابینا سے اپنے دفاع یا بچاؤ کے لیے کوئی کوشش یا مزاحمت تک نہ کی۔حالانکہ قاتل نے روایت کے مطابق اس کے دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا۔(v)پھر بھی مقتولہ کی آنکھ کھلی، نہ ہی اس کے شوہر کو کچھ خبر ہوئی۔(vi)اور سب سے بڑھ کریہ کہ نابیناعمیر کو کوئی آواز دیے بغیرکیسے پتہ چل گیا کہ وہی عورت عصماء بنت مروان ہی تھی۔

بعض محدثین نے ان دونوں روایات کو ایک ہی قراردیا ہے۔جو قابل اعتماد نہیں کیونکہ ان کی باہم متضاد باتیں درج ذیل ہیں:

i.علامہ خطابی کے مطابق وہ عورت مسلمان تھی اور ابن تیمیہ کے بقول وہ کافرہ تھی جب کہ بعض کے نزدیک وہ مرتدہ تھی۔(الصارم المسلول جزء1صفحہ66)

ii. اکثر روایات میں عورت کا نام عصماء بنت مروان درج ہے جبکہ علامہ عبد البرکے نزدیک وہ عصماء نہیں بلکہ عمیر کی بہن بنت عدی تھیں۔(استیعاب جزء3صفحہ1218)

iii. قاتل کا نام کسی جگہ عمیر بن عدی آیا ہے تو کہیں عمرو بن عدی ۔(جوامع السیرةجزء1صفحہ18)جبکہ ابن درید کے نزدیک قاتل غشمیر تھا۔(شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء2صفحہ42)علامہ سھیلینے روض الانف میں عمیر بن عدی وغیرہ کے نام کو غلط قرار دے کر اس عورت کے خاوند کوہی اس کا قاتل قرار دیا ہے۔

iv. بعض اورروایات کے مطابق مذکورہ بالامیں سے کوئی بھی قاتل نہیں تھا بلکہ اس عورت کی قوم کے ایک مجہول الاسم شخص نے اسےقتل کیا تھا جبکہ وہ کھجور بیچ رہی تھی۔

(زرقانی جزء2صفحہ344)

v. ابن سعد کے مطابق قتل کا وقت رات کا درمیانی حصہ ہے جبکہ زرقانی کی روایت میں دن یا شام کاوقت ظاہر ہوتاہے کیونکہ روایت کے مطابق اس وقت مقتولہ کھجوریں بیچ رہی تھی۔(زرقانیجزء2صفحہ344)

vi. پھر اس واقعہ کے طریق واردات میں بھی اختلاف ہے ۔ مقتولہ کا گلا دبایا گیا یا اس کے پیٹ میں خنجر وغیرہ گھونپ کر اسے قتل کیا گیا؟ اسے رات سوتے میں قتل کیا گیا یا اس سے کھجوریں لینے کے بہانے اس کے گھر جاکر گلا دبایا گیا۔

یہ سب امور اس واقعہ کو سرے سے مشتبہ کردیتے ہیں۔

ایک یہودیہ شاتمہ کو گلا دبا کر مارنے کی روایت

ایک یہودی عورت رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتی تھی ایک شخص نے اس کا گلا دبا کر اسے ماردیا۔رسول اللہﷺ نے اس کا خون باطل کردیا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبیﷺ)

اس مرسل روایت کی سند مجروح اور منقطع ہے۔علامہ البانی نے اسے ضعیف الاسناد قرار دیا۔

(صحیح وضعیف سنن ابوداؤدللالبانی)

نیز یہ روایت شعبی حضرت علیؓ سے بیان کررہے ہیں جبکہ عامر بن شراحبیل شعبی کاحضرت علیؓ سے سماع حدیث ہی ثابت نہیں۔ چنانچہ امام حاکم نےاپنی کتاب علوم میں لکھا ہے کہ شعبی کا سماع نہ حضرت عائشہؓ سے ثابت ہے نہ ابن مسعودؓ سے،نہ اسامہ بن زیدؓ سے اور نہ ہی حضرت علیؓ سے۔یقیناً اس نے کوئی خواب دیکھی ہوگی۔اور نہ ہی اس کا سماع حضرت معاذ بن جبلؓ سے ثابت ہے نہ زید بن ثابتؓ سے…علامہ دارقطنی نے اپنی کتاب العلل میں لکھا ہے کہ شعبی نے حضرت علیؓ سے ایک حرف کے سوا کچھ بھی نہیں سنا۔(تهذيب التهذيب جزء5صفحہ 68)

اصول درایت کے لحاظ سے بھی کئی ایسے پہلو ہیں جن کی بنا پر یہ روایت قابل اعتماد نہیں رہتی کیونکہ علامہ ابن اثیر نے اس عورت کو یہودیہ بتایا ہے۔(اسد الغابہ جزء4صفحہ325)اگر اسے درست مانا جائے تو یہودکااپنی ایک عورت کے قتل پر خاموش رہنا اور آج تک اس پرکوئی اعتراض یا واویلا نہ کرنا اسے مشتبہ ثابت کرتا ہے۔میثاق مدینہ کے نتیجہ میں یہود سے جو معاہدہ امن و صلح قائم ہوا تھایہ اس کی بھی واضح خلاف ورزی تھی کیونکہ معاہدہ کے مطابق قاتل کو کوئی سزا نہیں دی گئی نہ اس نام نہاد یہودیہ کوکوئی دیت دینی ثابت ہے۔

توہین رسالت کی سزا سے متعلق حضرت ابوبکرؓ سے منسوب قول

حضرت ابو برزہ اسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے گستاخی کی توحضرت ابوبرزہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا: اگر اجازت ہوتو میں اس کی گردن ماردوں؟اس پرحضرت ابوبکرؓنے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ

‘‘ لَا وَاللّٰہِ مَا کَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ’’

(سنن ابوداؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبیﷺ )

اس فقرہ کا ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ یہ خصوصیت صرف رسول اللہﷺ کو ہے کہ ان کی گستاخی کرنے والے کو قتل کیا جائے۔حالانکہ عربی عبارت اس کی متحمل نہیں،اس فقرے کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ نہیں ،اللہ کی قسم!کسی بشر کے لیے یہ جائز نہیں محمدﷺ کے بعد۔اورمطلب صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ (جو صاحب شریعت نبی تھے)آپؐ کے بعدیہ اختیار کسی کو حاصل نہیں کہ کوئی نئی شرعی حد قائم کرے۔

ابو عفک کے قتل کا فرضی واقعہ

ایک اور فرضی واقعہ ابوعفکیہودی کے قتل کا بیان کیا جاتا ہے۔یہ واقعہ بھی کسی معتبر سند سے مروی نہیں۔صحاح ستہ میں بھی یہ مذکور نہیں۔تاریخ کی بعض کتب میں درج ہے۔اس کے متعلق بھی واقعہ عصماء کی طرح یہ شہادت بیان کی جاتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی عداوت اور دشمنی میں لوگوں کو ابھارا کرتا تھا۔جنگ بدر کے بعد یہ مزید بغض و حسد میں بڑھ گیا اور کھلم کھلاباغی ہوگیا۔

قتل ابو عفکوالی روایت کے اندرونی تضادات بھی اس واقعہ کو مشتبہ کردیتے ہیں۔جیسا کہ

٭…قاتل میں اختلاف

ابن سعد اور واقدی کے نزدیک ابوعفککے قاتل سالم بن عمیرتھے جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمر کا ذکر ہے۔جبکہ ابن عقبہ کے نزدیک سالم بن عبد اللہ نے اسے قتل کیا۔(شرح زرقانی جزء2صفحہ347)

٭…سبب قتل میں اختلاف

ابن سعد کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آکر اسے قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہﷺ کے حکم پر اسے قتل کیاگیا۔(سیرة ابن ہشام جزء3صفحہ90)

٭…اختلاف مذہب

ابن سعد کے نزدیک ابو عفک یہودی تھا جبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔ (مغازی الصادقة صفحہ125) یہودی ہونے کی صورت میں میثاق مدینہ کے خلاف واضح طورپر یہ قتل تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔اور مسلمان ہونے کی صورت میں اس کے قصاص کی کوئی صراحت نہیں۔

٭…زمانہ قتل میں اختلاف

بعض کے نزدیک یہ عصماء کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق وغیرہ کے نزدیک یہ واقعہ عصماء سے پہلے کا ہے۔

ان واضح اختلافات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ محض بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
اگربفرض محال ابوعفک کا قتل ہونامان بھی لیا جائے تواس کے دیگر جرائم سربراہ مملکت کو قتل کرنےپر اکسانا،ہجویہ اشعار کہہ کر جنگ پر ابھارنا ،امن عامہ کو خطرہ میں ڈالنا اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہی سزائے موت کے لیے کافی ہیں۔جن پر آج بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔ محض گالیاں دینا اس قتل کی وجہ نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح عصماء کے واقعہ کی طرح یہاں بھی ابوعفک کےقتل کے بعد یہود کا کوئی رد عمل ثابت نہیں ۔پس ان کا خاموش رہنا اس واقعہ کے فرضی ہونے پر دلیل قاطع ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان واقعات کا زمانہ جنگ بدر سے قبل یا معاً بعد کا بیان کیا جاتا ہے اور جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوہ بنو قینقاع ہے۔اگر بدر سے پہلے بھی کوئی واقعہ ہوتا تو وہ اس کی ذیل میں ضرور ذکر کرتے۔اوریہود ابوعفکاورعصماء کے قتل کے واقعات کی بناپربجاطور مسلمانوں پر یہ اعتراض کرسکتے تھےکہ مسلمانوں نے عملی چھیڑ چھاڑ میں ان سےپہل کی لیکن کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مدینہ کے یہود نے ان واقعات کو لے کرکبھی کوئی ایساسوال اٹھایا ہو۔

چنانچہ مشہور مستشرق مسٹر مارگو لیس اس بارہ میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

‘‘چونکہ عصماء نے اپنے اشعار میں اگر وہ اس کی طرف صحیح طور پر منسوب کیے گئے ہیں محمد (ﷺ) کے قتل پر اس کے دشمنوں کو عمداً ابھارا تھا۔اس لیے اس کےقتل کا دنیا کے کسی بھی معیار سے جائزہ لیا جائے بے بنیاد اور ظالمانہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا۔اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اشتعال انگیزی کا وہ طریق جو ان اشعار میں اختیار کیا گیا تھا وہ عرب جیسے ملک میں دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ خطر ناک نتائج پیدا کر سکتا تھا۔اور یہ بات کہ صرف مجرموں کو ہی قتل کیا گیا عرب کے رائج الوقت دستور پر ایک بہت بڑی اصلاح تھی۔کیو نکہ عربوں میں اشتعال انگیز اشعار کی وجہ سے معا ملہ صرف افراد تک محدود نہیں رہتا تھا۔بلکہ سالم کے سالم قبائل کے درمیان خطرناک جنگ کی آگ مشتعل ہوجایا کرتی تھی۔اس کی جگہ اسلام نے یہ صحیح اصول قائم کیا کہ جرم کی سزا صرف مجرم کو ہو نی چاہیے نہ کہ اس کے عزیز و اقارب کو ۔’’

(‘‘محمد(ﷺ)’’مصنف ما ر گو لیس صفحہ278)

حضرت زبیرؓ کا ایک شاتم رسولؐ کو قتل کرنا

پہلی روایت عبد الرزاق ابن جریج سےہے۔وہ ایک نامعلوم الاسم شخص سے روایت کرتے ہیں اور وہ مجہول شخص عکرمہ مولیٰ ابن عباس سے روایت کرتا ہے جبکہ عکرمہ پر عدم اعتمادکا حال قبل ازیں بیان ہوچکا ہے۔ پس یہ سند ہی منقطع اور مجروح ہے۔غور کرنے سے یہ جنگ کا واقعہ معلوم ہوتاہے جس میں مبارزت ہوتی تھی ۔پس ایسی روایت سے توہین رسالت کی سزا کا جواز نہیں لیاجاسکتا۔

(مصنف عبد الرزاق کتاب الجھاد باب السلب والمبارزة)

حضرت خالد بن ولیدؓ کا ایک عورت کو قتل کرنا

یہ بھی بعینہٖ اسی قسم کی ایک فرضی روایت ہے ۔اس کی سند میں بھی ایک مجہول راوی ہےجو ایک نامعلوم راوی سے روایت کرتا ہے۔(مصنف عبد الرزاق والشفا لقاضی عیاض)

حضرت علی و زبیرؓ کو مکذب کے قتل کے لیے بھیجنا

ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی تکذیب کی تو حضور ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو بھیجا کہ اگر تم دونوں اسے پالو تو قتل کر دو ۔

(مصنف عبد الرزاق کتاب الجھاد باب من سب النبیؐ)

روایت میں نہ تو یہ ذکر ہے کہ وہ کون شخص تھا جس نے رسول اللہﷺ کو جھٹلایا پھر یہاں کسی گالی کا ذکر نہیں بلکہ تکذیب کا ذکر ہے جو سارا عرب کرتاتھا اور قتل صرف ایک کو کروایا گیا۔یہ بات درایتاً ناقابل قبول ہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کا مالک بن نویرہ کو قتل کرنا

شاتم رسول ؐکے قتل کی ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک جنگ میں مالک بن نویرہ کو قتل کردیا تھا کیونکہ اس نے اثناء گفتگو رسول اللہﷺ کو صَاحِبِکُم یعنی تمہارا ساتھی کہہ کر پکارا تھا۔ (الشفاء جزء2صفحہ216)

اصل واقعہ یہ ہے کہ مالک بن نویرہ کو رسول اللہﷺ نے صدقات کا مال لینے کے لیے مقرر فرمایا تھا مگر حضورؐ کی وفات پر یہ ارتداد اور بغاوت کا مجرم ہوا اوراسلامی زکوٰة کا مال بھی روک لیا مگر بعد میں پھر اسلام کا اظہار کردیا۔ جس کا حضرت خالدؓ کو علم نہ ہوسکا۔اور ایک معرکہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کو باغی ہونے کی بنا پر قتل کر دیا۔جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے باصرار کہا کہ خالد کوبطور قصاص اس جرم کی پاداش میں قتل کیا جائے مگر حضرت ابوبکرؓ نہ مانے۔ پھر حضرت عمرؓ نے ان کی معزولی کی سفارش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نےیہ بات بھی نہ مانی۔

جس سے ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نےکوئی اور ثبوت نہ ملنے پر حضرت خالدؓ کا مؤقف قبول کیا۔چنانچہ لکھا ہے کہ

حضرت عمرؓ کے حضرت خالدؓ سے قصاص لینےکے اصرار پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ خالد اس واقعہ کی ایک وضاحت پیش کرتا ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا پھر انہیں معزول ہی کردیں۔انہوں نے کہا میں اس تلوار کو جو رسول اللہﷺ نے مشرکوں کے خلاف سونتی ہے،میان میں نہیں ڈالوں گا اور جسے رسول اللہﷺ نے والی مقررفرمایا اسے میں اس سے معزول نہیں کروں گا۔

(الروض الانفجزء7صفحہ265)

یہاں اصل سوال یہ ہے کہ اگر مالک بن نویرة واقعی شاتم رسولؐ تھے تو حضرت عمرؓ جو کبھی بھی گستاخی رسولؐ برداشت نہیں کرتے تھے،دربار خلافت میں ایسے شخص کی وکالت کیوں کرتے؟اوروہ ایک گستاخ رسولؐ کے سفارشی کیسے بن گئے؟

اس سےصاف ظاہر ہے کہ اس واقعہ کا توہین رسالت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ قتل ‘‘خطا’’ کے زمرے میں آتا ہے اور یہ واقعہ بھی ایک جنگ کے دوران کاہے۔

انس بن زنیم دیلی کا واقعہ

واقدی کی روایت بیان کی جاتی ہےکہ خزاعہ اور کنانہ کے درمیان آخری معاملہ یہ ہوا کہ انس بن زنیم نے توہین رسالت میں ہجو کی۔جسے خزاعہ کے ایک غلام نے سن لیا اور حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔انس اپنی قوم کے پاس گیا اور زخم دکھایا جس کی وجہ سے بنوبکر نے بنو خزاعہ سے خون کا مطالبہ کر دیا۔چنانچہ بنو خزاعہ کے چالیس آدمی نبی کریمﷺ سے مدد لینے کے لیے مدینہ پہنچے۔حضورؐ نے انس بن زنیم کا خون مباح قرار دیا۔جب انس کو معلوم ہوا تو مدینہ آیا اور آپ کی مدح میں قصیدہ پڑھا تو آپؐ نے اس کو معاف کردیا۔(الصارم المسلولجزء1صفحہ105-106)

فتح مکہ کے ذیل میں بنوبکر اور بنو خزاعہ کے جھگڑے کا یہ واقعہ تاریخ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ابن سعد وغیرہ کی مستند روایات کے مطابق اصل واقعہ میں محض ہجوگوئی کی وجہ سے انس بن زنیم کوزخمی کرنے کا ذکر نہیں۔بلکہ بنوخزاعہ سے عہدشکنی کا بیان ہے۔(الطبقات الكبرى الطبقة الرابعة صفحہ493)

دوسرے رسول اللہﷺ کے معاف کردینے سے ثابت ہے کہ توہین رسالت کی کوئی حد اسلام میں مقرر نہیں۔ورنہ حضرت اسامہؓ کی طرح یہاں یہ ارشاد ہوتا کہ تم اللہ کی حدود کے بارہ میں کیوں سفارش کرتے ہو۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button