الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
چند شہدائے احمدیت
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب شہید
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کو اوکاڑہ میں 18؍ستمبر 1983ء کو شہید کردیا گیا۔ آپ 1942ء میں موگہ ضلع فیروزپور انڈیا میں محترم شیخ فضل محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت شیخ دین محمد صاحب کو 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ کے والدین اوکاڑہ میں آباد ہوئے اور کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگئے اورکچھ عرصہ بعد اپنا علیحدہ کاروبار شروع کردیا۔ جو گاہک ایک دفعہ آتا وہ آپ کے حُسنِ سلوک اور دیانتداری سے متاثر ہوتا اور آپ کے اخلاق کا گرویدہ ہوجاتا۔ مرحوم سلسلہ کے فدائی تھے اور نظام خلافت سے بہت اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔
جب آپ نے محترم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب شہید امریکہ کے حوالے سے خطبہ جمعہ سنا تو بہت متأثر ہوئے اور انتہائی حسرت سے کہا کہ شہادت تو قسمت والوں کو ملتی ہے اور ایسی زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
18؍ستمبر1983ء کو عیدالاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ واپس اپنے گھر آئے تو گھر کے سامنے ہی ایک شقی القلب محمد اسلم نے احمدیت دشمنی میں آپ کی پسلی میں چھرا گھونپ دیا۔ خون بہنے لگا لیکن آپ کو اس بات کا احساس نہ ہوا کہ زخم کاری ہے۔ زخم پر ہاتھ رکھ کر خود ہی قریبی ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے زخم کی نوعیت دیکھ کر ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر آپ کو CMH اوکاڑہ چھاؤنی پہنچایا گیا لیکن خون کافی بہہ چکا تھا جس کی وجہ سے آپ جانبر نہ ہوسکے اور عزیزوں سے باتیں کرتے کرتے شہید ہوگئے۔
قاتل اوکاڑہ کا ہی تھا لیکن آپ کی کبھی اُس سے بات نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اُس نے پولیس کو بیان دیا کہ میں نے اس لیے قتل کیا ہے کیونکہ ناصر نے رسول اکرم ﷺ کی بہت توہین کی (نعوذباللہ من ذلک) جسے میں برداشت نہ کرسکا۔ 5؍فروری1985ء کو محمد الیاس ایڈیشنل سیشن جج اوکاڑہ نے مجرم کو صرف تین سال قید کی سزا دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ قاتل چونکہ پہلے ہی دو سال سے جیل میں ہے اس لیے یہ دو سال اس کی سزا سے منہا ہوں گے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے یادگار چھوڑے۔جن میں سے ایک ڈاکٹر عامر محمود صاحب نصرت جہاں سکیم کے تحت تین سال کا وقف کرکے اپاپا لیگوس (نائیجیریا) میں خدمت سرانجام دے چکے ہیں۔
مکرم چودھری عبدالحمید صاحب شہید
مکرم چودھری عبدالحمید صاحب 1947ء میں مکرم چودھری سلطان علی صاحب کے ہاں ملتان میں پیدا ہوئے۔ 1957ء میں میٹرک اور1959ء میں F.Sc پاس کیا۔ بعد ازاں جب آپ کے والد تجارت کے سلسلہ میں محراب پور میں جاکر آباد ہوئے تو آپ بھی اپنے والد کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ آپ کے والد اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ آپ نے 13 سال کی عمر میں خود بیعت کی۔ بوقتِ شہادت آپ محراب پور ضلع نوابشاہ کی جماعت احمدیہ کے صدر تھے۔
10؍ اپریل1984ء کی صبح قریباً دس بجے آپ سائیکل پر اپنی دکان کی طرف جارہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص سچل سومرو نے آواز دی کہ میری بات سننا۔ اس شخص کی اور اس کے اہل خانہ کی تمام ضروریات ایک عرصہ تک چودھری صاحب مرحوم اپنی جیب سے پوری کرتے آرہے تھے لیکن اس نے علمائے سوء کے بہکانے پر اپنے ہی محسن کے سینے میں تیز چھری گھونپ دی۔ آپ سائیکل سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ سے چھری پکڑ کر سینے سے باہر نکالی مگر اس کے زخم سے آپ کا پھیپھڑا بری طرح مجروح ہوگیاتھا۔ نوابشاہ ہسپتال لے جاتے ہوئے آپ راستہ میں ہی اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔
قاتل نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ قادیانی ہے اور مَیں نے اسے مار کر جہاد کیا ہے۔ بہرحال قریباً تین سال بعد رجب علی ایڈیشنل سیشن جج نے قاتل کو تین سال قید کی سزا سنائی اور ساتھ ہی فیصلہ میں لکھا کہ ملزم جتنا عرصہ جیل میں رہا ہے، قید کا یہ عرصہ اس کی سزا سے منہا ہوگا۔ گویا عملاً اسے کوئی بھی سزا نہ دی گئی۔
شہید مرحوم نے اپنے آخری لمحات میں وصیت کی تھی کہ قاتل کے خلاف کسی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ مجھے اس کی بدولت اعلیٰ اور ارفع مقام نصیب ہو رہا ہے۔ شہید مرحوم بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے۔ حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے تھے۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے چھوڑے۔
مکرم قریشی عبدالرحمٰن صاحب شہید
مکرم قریشی عبدالرحمٰن صاحب 1911ء میں سیالکوٹ کے گاؤں دولت پور میں حضرت قریشی غلام محی الدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیمی زندگی کا آغاز پسرور سے کیا اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد 1932ء میں ریلوے ہائی سکول سکھر میں ایک معلم کی حیثیت سے متعین ہوئے اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ پنجاب آنا چاہتے تھے لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشاد پر سکھر میں ہی قیام کیا۔ اڑتالیس سال تک مختلف دینی خدمات پر مامور رہے۔ شہادت کے وقت آپ سکھر اور شکارپور کے اضلاع کی جماعتوں کے امیر تھے۔ آپ نہایت مخلص، ہمدرد، عبادت گزار اور فنا فی اللہ احمدی تھے۔ آپ کا اکثر وقت مسجد میں ہی گزرتا تھا۔
یکم مئی 1984ء کو آپ مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اپنے گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں چُھپے ہوئے چھ حملہ آوروں نے آپ پر برچھیوں اور خنجروں سے حملہ کردیا۔ ایک حملہ آور نے بائیں طرف سے آپ پر تین وار کیے جن میں سے ایک آپ کے پیٹ پر لگا اور انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ زخمی حالت میں آپ گھر کی طرف چلے تو دوسرے حملہ آور نے بلّم نما ہتھیار سے پیٹھ پر آٹھ اور بائیں کنپٹی پر ایک وار کیا۔ شور سن کر گھر کی مستورات باہر نکلیں توابھی آپ زندہ تھے۔آپ نے سختی سے ان کوواپس جانے کی ہدایت کی۔ قاتلوں کے بھاگ جانے کے بعد آپ کے اہل خانہ آپ کو گھر لے آئے۔ آپ کی بہو نے پانی پلایا لیکن پانی ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ آپ زخموں کی تاب نہ لاکر اپنے حقیقی مولا سے جا ملے۔ قریشی صاحب شہید کے قتل کا مقدمہ تو درج ہوا مگر پولیس نے کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا۔
شہید مرحوم کے پسماندگان میں چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ آپ کے دو بیٹوں مکرم قریشی ناصر احمد صاحب .M.A پروفیسر گورنمنٹ کالج سکھر اور مکرم قریشی رفیع احمد صاحب کو اسیر راہ مولا رہنے کی سعادت ملی۔ ایک بیٹے مکرم قریشی مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ تھے۔
مکرم محمد زمان خان صاحب شہید اور مکرم مبارک احمد خان صاحب شہید
مکرم محمد زمان خان صاحب اور ان کے بیٹے مبارک احمد خان صاحب کو دشمنانِ احمدیت نے 11؍ جون 1974ء کو گولیاں مارکر شہید کردیا پھر ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ان کے گھربار بھی جلا دیے گئے اور ایک نعش کو بھی پٹرول چھڑک کر جلا دیا گیا۔ مکرم محمد زمان خان صاحب نے پسماندگان میں تین بیٹے اور اہلیہ چھوڑیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نے اپنے خاوند اور بیٹے کی شہادت کے بعد بڑے صبر اور شکر اور غیرمعمولی ہمّت کے ساتھ زندگی گزاری۔
مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب چینی شہید
مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب چینی شہید ابن محترم قاری غلام مجتبیٰ صاحب نے ابتدائی تعلیم ربوہ میں پائی۔ MBBS کرکے آپ فیصل آباد میں مقیم ہوئے اور نہایت کامیاب فزیشن اور سرجن بنے۔ اپنی ذاتی شرافت اور نیک دلی کی وجہ سے خاص و عام میں مقبول تھے۔ ہردلعزیز اور فرض شناس تھے اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار رہتے تھے۔ آپ کے والد محترم قاری غلام مجتبیٰ صاحب چینی نہیں تھے۔ ان کی دوسری شادی ہانگ کانگ میں ایک چینی خاتون سے ہوئی تھی اور آپ اسی چینی اہلیہ کے بطن سے تھے چنانچہ چینی مشہور ہوئے۔
16؍ جون 1984ءکی دوپہر تقریباً پونے بارہ بجے پیپلزکالونی فیصل آباد میں آپ اپنی کوٹھی میں موجود تھے اور روزے سے تھے کہ ایک شخص نعیم اللہ ہاشمی بیماری کے بہانے آپ کی کوٹھی پر آیا۔ آپ نے اُسے اندر بلا لیا۔ اُس نے پیٹ درد کی شکایت کی چنانچہ ڈاکٹر صاحب اُسے دیکھنے کے لیے نیچے جھکے تو اُس نے چھرے سے آپ کے بازو پر اور پیٹ میں وار کیے اور بھاگ نکلا۔ آپ کا ملازم شور سن کر قاتل کے پیچھے بھاگا اور تھوڑی دور جاکر لوگوں کی مدد سے اسے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالہ کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا مگر زخم اتنے کاری تھے کہ آپ جانبر نہ ہوسکے اور ایک بجے کے قریب شہید ہوگئے۔ بوقتِ شہادت آپ کی عمر 65 سال تھی۔
مجرم نے پولیس کو کئی جھوٹے بیانات دیے۔ کبھی کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے بیماری کا جعلی سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔ کبھی کہا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے دوائی کے لیے پیسے مانگے تھے جو انہوں نے نہیں دیے۔ وغیرہ۔گو ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد محمد اسلم ضیاء نے اسے عمر قید کی سزا دی مگر ہائیکورٹ نے ملزم کو بری کردیا۔شہید مرحوم نے اپنے پسماندگان میں بیوہ محترمہ طاہرہ قادر صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ڈاکٹر رضوان قادر چھوڑے۔تینوں بیٹیاں بھی ڈاکٹر ہیں۔
مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب انور شہید
مکرم انعام الرحمٰن انور صاحب ابن محترم مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب 1937ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان ہی میں حاصل کی۔ میٹرک ربوہ سے کیا۔ لاہور سے ہیلتھ ٹیکنیشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے سندھ جاکر میڈیکل پریکٹس شروع کی۔ نہایت مخلص، غریبوں کے ہمدرد اور جماعتی کاموں سے گہرا لگاؤ رکھنے والے انسان تھے۔ آپ سکھر، شکارپور اور جیکب آباد کے اضلاع کی مجالس انصاراللہ کے ناظم تھے۔ بوقتِ شہادت سکھر کے نزدیک گوٹھ عبدو کی سرکاری ڈسپنسری کے انچارج کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔
آپ کی بیگم مکرمہ امۃالحفیظ شوکت صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب لوگوں نے آپ کو حالات خراب ہونے اور اس کے نتیجہ میں درپیش خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر علاقہ چھوڑنے سے انکار کردیا کہ پھر تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جائے گا۔ آپ کے بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب نے بھی سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا مگر اس وقت بھی حامی نہ بھری بلکہ کہنے لگے کہ شاید سندھ کی سرزمین میرا خون مانگتی ہے۔ اور پھر سینہ پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔
15؍ مارچ1985ء کو مسجد احمدیہ سکھر میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ بازار گئے کہ ایک دکان پر اچانک پیچھے سے دشمنوں نے بندوق اور چاقوؤں سے آپ پر حملہ کردیا جس سے آپ کا جسم خون میں لت پت ہوگیا۔ آپ نے اپنے خون میں انگلیاں ڈبو کر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لکھا اور وہیں تڑپتے تڑپتے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر قریباً انچاس سال تھی۔آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے۔
………٭………٭………٭………
علم آثار قدیمہ (Archeology)
ماہنامہ ‘‘خالد’’ اگست 2012ء میں مکرم وحید احمد طاہر صاحب کے قلم سے علم آثار قدیمہ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
یونانی زبان سے ماخوذ اصطلاح ‘‘آرکیالوجی’’ کے لغوی معانی ہیں: ‘‘انسان اور اس سے متعلق اداروں، رسموں اور چیزوں کی ابتداء اور ان کے ارتقاء کا مطالعہ’’۔
قرآن کریم میں اس علم کے حوالے سے یہ پیش خبری دی گئی تھی: ‘‘اور جب قبریں اکھاڑی جائیں گی۔’’ (الانفطار:82)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: سورۃالزلزال کی تیسری آیت میں تو بتایا گیا ہے کہ زمین اپنے مخفی خزانے اُگل دے گی اور سورۃالانفطار کی مندرجہ بالا آیت آثار قدیمہ کی دریافت کی واضح طور پر خبر دے رہی ہے …… قرآن کریم کی بہت سی آیات قدیم مدفون بستیوں اور تہذیبوں کی طرف انسان کو بار بار اور براہ راست متوجہ کرتے ہوئے اُسے ان آثار قدیمہ کی کھدائی اور ان کی تباہی کے اسباب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ (الہام، عقل ،علم اور سچائی صفحہ514)
آرکیالوجی کا آغاز پندرھویں صدی عیسوی میں ہوا جب قدیم فن پاروں کے جمع کرنے کا شوق اپنے عروج پر تھا۔ اسی سلسلے میں قدیم یونانی مجسموں کے حصول کے لیے کھدائی کا کام ہوا اور یہی جستجو اور تلاش آثارِ قدیمہ کے مضمون میں بدل گئی۔ پہلے قدیم رومنوں اور یونانیوں کی معدوم آبادیوں کو کھوجا گیا۔ انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں Heinrich Schijliemann اور Arthur Evans نے ہزاروں سال پرانے یونانی شہر Troy اور Crete ڈھونڈ نکالے۔ ان دریافتوں نے بھی آثار قدیمہ کو بطور علم عمدہ تحریک فراہم کی۔
نپولین بوناپارٹ کے ساتھ موجود فرانسیسی ماہرین نے قدیم مصری آثار پر خاصا مبسوط کام کیا اور یوں مصر کی تاریخ کے کئی اہم ادوار پر کام شروع ہوا۔
ایڈورڈ ابنسن نے بائبل کے جغرافیہ پر کام کرتے ہوئے قدیم تحریروں کا مطالعہ کیاچنانچہ میسوپوٹیمیا کے آثار قدیمہ میں انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں قابل قدر کام ہوا۔ 1947ء میں Dead Sea Scrolls پڑھنے میں کامیابی کے بعد اس خطے میں ہونے والی تحقیق نے نیا رُخ اختیار کرلیا۔
برصغیر میں وادیٔ سندھ اور گندھارا تہذیب جبکہ امریکہ کی مایا تہذیب کے آثار انیسویں صدی میں دریافت ہوئے۔
ڈنمارک کے ایک ماہر آثار قدیمہ Christian Jurgensen Thomsen نے 1832ء میں ہتھیاروں اور دیگر استعمال شدہ چیزوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد کو بنیاد بناکر تمدّنی ترقی کے مختلف مراحل بیان کیے۔ اُس کی تحقیق کے مطابق حجری دَور (Stone Age)، کانسی کا دَور (Bronze Age) اور لوہے کا دَور (Iron Age) اہم تمدّنی ادوار قرار پائے۔ جدید سائنسی ترقی نے بھی آثار قدیمہ کو اہم تحقیقی اوزار فراہم کیے۔ ان کی مدد سے حیوانی اور نباتاتی باقیات کا مطالعہ کرکے معلوم ہوا کہ انسان نے کب زراعت اور گلّہ بانی کا آغاز کیا۔ جدید تحقیق میں پرانی تہذیبوں کے زمانی تعین کے لیے تابکار کاربن اور پوٹاشیم آرگون (Potassium-argon dating) کی شرح انحطاط سے مدد لی جاتی ہے۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2012ء میں مکرم چودھری محمدعلی مضطرؔ صاحب کی درج ذیل غزل شامل اشاعت ہے:
شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو
اے لمحۂ فراق! کبھی مختصر بھی ہو
کس طرح سے کٹے گی یہ کالی پہاڑ رات
کوئی تو اس سفر میں ترا ہمسفر بھی ہو
اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے
سینہ بھی ہو دُھلا ہوا اور آنکھ تَر بھی ہو
پت جھڑ کی آنکھ ڈھونڈ تو لے گی ہمیں مگر
اس شاخِ سبز پر کوئی لمحہ بسر بھی ہو
دوشِ صبا پہ سر کو نکلی ہے چاندنی
ایسا نہ ہو کہ راہ میں گُل کا بھنور بھی ہو
مضطرؔ نے اپنے آپ سے کرلی مفاہمت
پر یوں نہیں کہ اس کی کسی کو خبر بھی ہو