اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍جنوری 2020ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے
مکرم باؤ محمد لطیف صاحب امرتسری کی وفات۔مرحوم کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے31؍جنوری 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم منور ناصر صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ
آج جن صحابی کا ذکر کروں گا اُن کا نام ہے حضرت ابو طلحہؓ۔اِن کا اصل نام زید تھااوریہ قبیلہ خزرج کے سرکردہ افراد میں سے تھے۔ آپؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ میں آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی اور غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آنحضورﷺ نے اِن کی مؤاخات حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کے ساتھ قائم فرمائی تھی۔حضرت ابو طلحہؓ کا رنگ گندمی اور قددرمیانہ تھا۔ آپؓ کی شادی معروف صحابیہ حضرت امِّ سلیمؓ سے ہوئی تھی۔جب ابو طلحہؓ نے امِّ سلیمؓ کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو آپؓ نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ حضرت امِّ سلیم نے اسلام قبول کرنے کی شرط پرآپؓ کا پیغام قبول کیا اور ابو طلحہؓ کا مسلمان ہونا ہی اپنا مہر قرار دیا۔ اس اعتبار سے حضرت انسؓ ابو طلحہؓ کے ربیب تھے۔
حضرت ابو طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ بدر کے دن نبی کریمﷺ کے حکم پرکفّار کے چوبیس آدمیوں کو بدر کے ایک ناپاک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ جب تیسرے دن آپؐ بدر سے روانہ ہونے لگے تو اس کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہوکراِن کفّار کواُن کے باپوں کے نام سے پُکارا،اور اللہ کے وعدے کے پورا ہونے کے متعلق دریافت فرمانے لگے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپؐ اِن لاشوں سے کیا باتیں کر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم جو مَیں کہہ رہا ہوں اُن باتوں کو تم اِن سے زیادہ نہیں سُن رہے۔
جنگِ احد میں جب شکست کی کیفیت پیدا ہوئی تو لوگ رسولِ خدا ﷺ سے جدا ہوگئےلیکن حضرت ابو طلحہؓ آپؐ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے رہے۔ آپؓ بڑے ماہر تیر انداز تھے، چنانچہ احد کے دن آپؓ نے دو تین کمانیں توڑیں۔ جب ابو طلحہؓ تیر چلاتے تو آنحضورﷺ اُن کے پیچھے سے نشانہ دیکھنے کےلیے جھانکتےجس پر ابو طلحہؓ کہتے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان سر اٹھا کر نہ دیکھیں۔ مبادا کوئی تیر آپؐ کو آلگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت ابوطلحہؓ سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں میں سے کوئی لڑکا تلاش کرو جو میری خدمت کرے اور مَیں خیبر کا سفر کرسکوں۔ حضرت ابوطلحہؓ حضرت انسؓ کو لے گئے۔یوں انسؓ کو آنحضورﷺ کی خدمت کی توفیق ملی۔
ایک دفعہ جب رسولِ کریمﷺ خیبر سے واپس تشریف لارہے تھے اور آپؐ کی زوجہ حضرت صفیہؓ بھی حضورؐ کے ہم راہ تھیں۔ راستے میں اونٹ بدک گیا اور آپ دونوں گِر گئے۔ حضرت ابو طلحہؓ لپک کر رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچے اور فکر مندی سے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ آپ کو چوٹ تو نہیں آئی۔ آنحضورﷺ نے فرمایا ابو طلحہ! پہلے عورت کی طرف۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ابو طلحہؓ تو رسول اللہﷺ کے عاشق تھے۔ جب آپؐ کی جان کا سوال ہوتو انہیں کوئی اَور کیسے نظر آسکتا تھا۔
خیبرپرحملے کےبعدآنحضرتﷺ سوار ہوئے اورخیبر کی گلی میں گھوڑا دوڑایا۔ حضرت ابو طلحہؓ دوسری سواری پر تھے اورحضرت انسؓ اُن کے ہم راہ تھے۔ جب رسولِ خداﷺ گاؤں میں داخل ہوئے تو فرمایا اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ خیبر ویران ہوگیا۔ ہم جب کسی قوم کےآنگن میں ڈیرہ ڈالتے ہیں تو پھر ان کی صبح بری ہوتی ہے جن کو قبل از وقت عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا ہو۔
جب خیبر کے قیدیوں کو اکٹھا کیا گیا تو دحیہ کلبی حضورِ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لونڈی کے حصول کےلیے درخواست کی۔ آنحضورﷺ کے اجازت عنایت فرمانے پر دحیہ ؓ نے قریظہ اور نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی لڑکی صفیہ لےلی۔ بعد میں ایک شخص نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ حیی کی بیٹی صفیہ صرف آپؐ کے ہی لائق ہے۔ اس پر آپؐ نے حضرت دحیہؓ سے فرمایا کہ اِن قیدیوں میں سے کوئی اور تم لےلو اور حضرت صفیہؓ کو آزاد کرکے آنحضورﷺنے اُن سے شادی کرلی۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نےحنین کے دن فرمایا کہ آج جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کافر کا مال و اسباب اسی شخص کو ملے گا۔ اس د ن حضرت ابو طلحہؓ نے بیس کافروں کو قتل کیا۔
حضرت ابو طلحہؓ نے امِّ سلیمؓ کے ہاتھ میں خنجر دیکھا توآپؓ نے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی۔ امِّ سلیمؓ نے بتایا کہ اللہ کی قسم میرا ارادہ ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آیا تو میں اس خنجر سے اُس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ حضرت ابو طلحہؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ کو بتائی۔
حضرت ابو طلحہؓ کی آواز نہایت بلند تھی یہاں تک کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ لشکر میں تنہا ابو طلحہؓ کی آواز ایک جماعت پر بھاری ہوتی ۔ آپؓ کی وفات 34 ہجری میں مدینے میں ہوئی ۔ حضرت عثمانؓ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اس وقت آپ کی عمر ستّر برس تھی۔
حضرت ابو طلحہؓ آنحضرتﷺ کے زمانے میں جہاد کی وجہ سے نفلی روزہ نہیں رکھا کرتے تھے۔ لیکن آنحضرتﷺ کی وفات کےبعد سوائے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن کےآپؓ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔
حضرت ابو طلحہؓ آنحضرتﷺ کی تحریک پر ایک مہمان کو اپنے گھر لے آئے۔ اس وقت آپؓ کےگھر میں مہمان کو پیش کرنے کےلیے کچھ بھی نہ تھا۔ آپؓ نے اپنی بیوی کو کھانا تیار کرنے کا کہااور بچوں کو بغیر کچھ کھلائے پلائے سُلا دیا۔ پھرمہمان کو کھانا پیش کیااور چراغ درست کرنے کے بہانے ، چراغ بجھادیا۔ دونوں میاں بیوی مہمان پر یہی ظاہر کرتے رہے گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہوں۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے آپؓ کی ا س مہمان نوازی کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ تم دونوں کے فعل سے اللہ بہت خوش ہوا۔
ایک مرتبہ حضورﷺ نے بال اتروائے تو حضرت ابو طلحہؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپؐ کے بالوں میں سے کچھ بال لیے۔
ایک دفعہ حضرت ابو طلحہؓ نے آنحضورﷺ کی آواز میں ضعف محسوس کیا تو حضرت انسؓ کے ہاتھ کچھ روٹیاں بھجوائیں۔ آنحضورﷺ کے پاس کچھ لوگ موجود تھے چنانچہ آپؐ ان تمام افراد کے ہم راہ ابو طلحہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انسؓ اُن سے پہلے گھر پہنچے اور ان تمام لوگوں کی مع رسول اللہﷺ آمد کی اطلاع دی۔ حضرت ابو طلحہ ؓنے امِّ سلیم ؓ سے کہا کہ رسولِ خداﷺ لوگوں کو لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں۔ امِّ سلیمؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس موقعے پر آنحضرتﷺ نے کھانے پر برکت کی دعا پڑھی چنانچہ وہ نہایت قلیل مقدار کا کھانا ستّر،اسّی افراد نے سیر ہوکر کھایا۔
مدینے میں حضرت ابو طلحہؓ کے تمام انصاریوں سے زیادہ کھجورکے باغ تھے۔ان باغوں میں آپؓ کو بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ محبوب تھا۔ جب آیت لَنْ تَنَالُو الْبِرّ…الخ نازل ہوئی تو آپؓ نے اپنا وہ باغ صدقہ کردیا۔ جسے بعد میں حضورﷺ کی ہدایت پر آپؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم فرمادیا۔
ابو طلحہؓ کو آنحضرتﷺ کی ایک بیٹی کی وفات پر آپؐ کے ارشادکے مطابق اُن کی قبر میں اترنے کی سعادت اور اعزازبھی حاصل ہوا۔
حضرت ابو طلحہؓ کا ایک بیٹا بیمار تھا۔ آپؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھےتو بچے کی وفات ہوگئی۔جب ابو طلحہؓ واپس لوٹے اور بچے کا حال دریافت کیا تو امِّ سلیمؓ نے انہیں یہ کہہ کر کہ اب پہلے سے زیادہ پُرسکون ہے، تسلّی دے کر سُلا دیا۔ صبح ہونے پر ابو طلحہؓ کو بتایا گیا کہ بچہ فوت ہوچکا ہے اور اسے دفن کرنا ہے۔حضرت ابو طلحہؓ نے رسول اللہﷺکو یہ بات بتائی تو آپؐ نے انہیں اولاد کی دعا دی،چنانچہ اُن کے ہاں کثیر اولاد پیدا ہوئی۔حضورِ انور نے اس واقعے سے متعلق سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ تفاصیل پیش فرمائیں۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت ابو طلحہؓ،حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں کسی نے خبر دی کہ شراب حرام کردی گئی ہے ۔ حضرت ابو طلحہؓ نے یہ خبر سنتےہی کہا کہ اے انس! اِن مٹکوں کو توڑ دو چنانچہ انسؓ نے تمام مٹکے توڑ ڈالے۔
خطبے کے آخر میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم باؤ محمد لطیف صاحب امرت سری ابن حضرت میاں نور محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر خیراور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔آپ 26؍ جنوری کو90 برس کی عمر میں ربوہ میں وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم موصی اور معروف مبلغ سلسلہ محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرت سری کے چھوٹے بھائی تھے۔ اکتوبر 1952ء میں آپ نے خود کوسلسلے کی خدمت کےلیے پیش کیا۔ 1961ء میں آپ کی تقرری دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بطور محرر ہوئی ۔اِن کا کُل عرصہ خدمت باسٹھ سال بنتا ہے جس میں سے تقریباً 53 سال دفتر پی۔ایس میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ اپنے کام کے بہت ماہر تھے۔ بڑے سلیقے اور انہماک سے کام کیا کرتے۔ شوریٰ کے انتظامات میں بھی انہیں خاص خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹے ہیں۔ اِن کی وفات سے چند دن پہلے اِن کی ایک بیٹی بھی وفات پاگئی تھیں۔
حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ،درجات بلند کرے اور ان کی اولاد اور نسل کو بھی اِن کی نیکیوں پر قائم رکھے۔ آمین