حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طرزِ تحریر کی نقل کرو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کیے ہیں یا کسی وقت جمع ہوئے ان سے آپ کا خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے۔ اور اس کے اندر اس قسم کی روانی، زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریںنکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جا رہی ہیں۔ اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد سہاگہ پھیرتا ہے تو سہاگہ کے ارد گرد گھاس لپٹتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرانسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جا رہی ہے۔ اور یہ انتہاء درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہو گی اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔ میں تو عام طور پر دیکھتا ہوں کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر دنیا اس طرز تحریر کو قبول کرتی جا رہی ہے۔ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اردو میں کتابیں لکھنی شرو ع کیں اس وقت تحریر کا رنگ ایسا تھا کہ آج اسے پڑھنا اور برداشت کرنا سخت مشکل ہے۔ مگر آہستہ آہستہ زمانہ کی تحریر بھی اسی رنگ میں ڈھل گئی جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسے ڈھالا تھا۔ …
پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہو جائے۔ پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمے ہے، آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے، آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے، آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے، آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے۔ اور یہ مصنفوں اور مضمون نگاروں کا کام ہے۔ …چاہیے کہ ہماری تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے رنگ میں رنگین ہوں تا آئندہ یہ سلسلہ ایسے رنگ میں جاری ہو کہ یہ بھی آپ کی ایک نشانی سمجھی جائے۔ عیسائیت کا طرز تحریر ساری دنیا سے جداگانہ ہے۔ اور عیسائی لٹریچر کی بنیاد انجیل پر ہے۔ عیسائی سکولوں میں اناجیل کے بعض حصے ایسے رنگ میں پڑھائے جاتے ہیں کہ نوجوانوں کو اس طرز تحریر اور زبان سے مناسبت پیدا ہوجائے۔ ہمارے مضمون نگاروں اور مصنفوں کو بھی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریروں کو ایسے رنگ میں پڑھیں کہ اس طرز کی نقل کر سکیں۔ اور اس لٹریچر کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں جس میں شوخی اور ہنسی کا پہلو ہو تاکہ وہ دو خدمتیں بجا لانے والے ہوں۔ ایک خدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دلائل کے قیام کی اور دوسری آپ کے طرز تحریر کو جاری کرنے کی۔ …
پس ہمارے اخبار نویسوں، رسالہ نویسوں اور کتابیں لکھنے والوں کو چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طرز تحریر کی نقل کریں۔ میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے خصوصاً شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا۔ پہلا مضمون جو میں نے تشحیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریروں کو پڑھا تا اس رنگ میں لکھ سکوں اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریر اپنے اندر ایسا جذب رکھتی ہے کہ اس کی نقل کرنے والے کی تحریر میں بھی دوسرے سے بہت زیادہ زور اور کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسیح ناصری تو دنیا کے لٹریچر کا رنگ بدل دے مگر مسیح محمدی نہ بدلے۔ اگر انجیل نے انیس سو سال تک دنیا کے لٹریچر کا رنگ بدلا ہے تو مسیح محمدی اس سے بہت زیادہ عرصہ تک بدلے گا۔ مگر اس کی طرف پہلا قدم اٹھانا ہمارا کام ہے۔ اگر ہمارا طرز تحریر وہی ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے تو پھر دیکھو کتنا اثر ہوتا ہے۔ دلائل بھی بے شک اثر کرتے ہیں مگر سوز اور درد ان سے بہت زیادہ اثر کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات میں دلائل کے ساتھ ساتھ درد اور سوز پایا جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا پانی ہے جس میں ہلکی سی شیرینی ملی ہوئی ہے۔ وہ بے شک شربت نہیں لیکن ہم اسے عام پانی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ پانی کی تمام خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے مگر دوسری طرف پانی سے زائد خوبیاں بھی اس کے اندر موجود ہیں اور میں سمجھتا ہوں جو کام اس وقت ہمارے مصنف اور محرر کر رہے ہیں اس سے دوگنا کر سکتے ہیں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طرز تحریر کو اختیار کریں۔اس وقت پرانے لوگوں کا طرز تحریر اور ہے اور نئے لوگوں کا اور۔ ہر ایک کا جداگانہ طرز ہے اور ہر شخص اپنے رنگ میں چل رہا ہے جس سے قومی لٹریچر کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ اگر قومی حیثیت سے جماعت کسی طرز تحریر کو اختیار کر سکتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا طرزِ تحریر ہے۔ اس کو چھوڑ کر اگر ہر کوئی اپنا جداگانہ طریق اختیار کرے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کسی کی بھی نقل نہیں کرے گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سوا کسی اور کی یہ پوزیشن نہیں کہ جماعت اس کی نقل کرے۔ اگر ہر ایک کی طرز تحریر علیحدہ ہو تو سلسلہ کا طرز تحریر کوئی نہ ہو گا حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہمارے مصنف کی تصنیف کو پڑھ کر خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی یا ادبی یا کسی اور موضوع پر ہونوے فیصدی یہ پتہ لگ جائے کہ یہ کسی احمدی کی تصنیف ہے۔ اس کے اندر سنجیدگی، وقار، سلاست اور روانی ایک جگہ جمع ہونی چاہیے۔ اس کے اندر ایک طرف امید کو بڑھایا جائے تو دوسری طرف خشیت پیداکرنے کا خیال رکھا جائے یہ نہیں کہ ایک چیز کو بڑھایا اور دوسری کو مٹا دیا جائے۔ وہ ایک ایسی نہر کی طرح ہو جو باغ کے درمیان میں سے گزرتی ہے اور دائیں بائیں دونوں طرف سیراب کرتی ہے۔ اس کے کناروں پر درخت ہیں جس کے سایہ میں لوگ آرام کرتے ہیں۔ اگر ہمارے دوست ایسی طرز تحریر اختیار کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں اگر دنیا اس کی نقل نہ کرے تو کم از کم محسوس ضرور کرنے لگ جائے گی کہ یہ نیا طرز تحریر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دنیا میں قائم کیا ہے۔ اور یہ صورت یقیناً ہمارے لیے زیادہ بابرکت، زیادہ مفید اور زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر میں مثالیں دے کر نہیں سمجھا سکتا۔ اس کا آسان گُر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کسی کتاب کو اٹھاؤ اور اس کے دس صفحے پڑھ جاؤ پھر آج کل کے کسی احمدی مصنف کی کتاب کے دس صفحے پڑھو صاف پتہ لگ جائے گا کہ نمایاں فرق ہے۔ لیکن اگر کسی میری تصنیف کے دس صفحے پڑھو تو صاف معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے طرز تحریر کی نقل ہے کیونکہ میں نے جس وقت سے قلم اٹھایا ہے ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھا ہے سوائے کسی خاص موقع کے جہاں کوئی اور بات مد نظر ہو اور روانی اور سلاست وغیرہ مد نظر نہ ہوں جسے عام کتابوں اور تحریروں میں شامل نہیں کیا جا سکتا بلکہ جداگانہ موقع اور محل ہوتا ہے۔ ایسی تحریروں کو چھوڑ کر باقی کو اگر کوئی مُبصِر پڑھے تو صاف معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرز تحریر کی نقل کی ہے۔ مگر جدید مصنفوں کی تحریروں میں یہ بات نہیں بلکہ ان کی طرز ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے دوسروں کو ہنسانا یا ڈرانا مد نظر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریروں کی روانی کی مثال ایسی ہے جیسے پہاڑوں پر برسا ہوا پانی بہتا ہے بظاہر اس کا کوئی رخ معلوم نہیں ہوتا مگر وہ خود اپنا رخ بناتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریروں میں الٰہی جلال ہے اور وہ تصنّع سے بالا ہے۔ جس طرح پہاڑوں کے قدرتی مناظر ان تصویروں سے کہیں زیادہ دلفریب ہوتے ہیں جو انسان سالہا سال کی محنت سے تیار کر کے میوزیم میں رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی عبارت بھی سب سے فائق ہے۔ انسان کتنی محنت سے پہاڑ کی تصویر تیار کرتا ہے مگر کیا وہ پہاڑ کے اصل نظاروں کا کام دے سکتی ہے۔ لاکھوں روپیہ کے صرف سے سمندروں کی تصویریں تیار کی جاتی ہیں۔ مگر سمندر جوش میں ہو تو کیا اس وقت کے نظاروں کا کام تصویر دے سکتی ہے۔ تصویر کے اندر نہ وہ دلکشی ہو سکتی ہے اور نہ ہیبت و شوکت۔ اسی طرح باقی سب تحریریں تصویریں ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات قدرتی نظارہ۔ اس لیے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو خدائی نظارہ کی نقل کرو تا تمہارا اپنا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قانون دنیا میں پھیلے۔…
رسول کریم ﷺ سے قبل کے زمانہ کے اشعار اگر دیکھیں تو ان میں لفّاظی بہت نظر آئے گی مگر آپ کے زمانہ اور زمانۂ مابعد میں مسلمان شعراء کے کلام میں لفّاظی چھوڑ قرآن کریم والی سلاست کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی آمد سے دنیا کا نقشہ بدل جاتا ہے اور لٹریچر بھی بدل جاتا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے تتبع میں دنیا کا لٹریچر بدل ڈالیں تا ہر انسان آپ کی اس خوبی کا بھی اعتراف کرے۔ اس کے علاوہ روحانی تبدیلیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دنیا میں پیدا کیں انہیں بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ جولائی 1931ء)
(مرسلہ:فرخ راحیل ۔مربی سلسلہ)
٭…٭…٭