از افاضاتِ خلفائے احمدیتمتفرق مضامین

سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم اور اسلام میں معاشی انصاف کا تصور

اسلام ایک ایسے ماحول کو پیدا کرتا ہے جس میں اپنے حقوق کے مطالبہ کی جگہ دوسروں کے حقوق کا احترام پیدا ہو جاتا ہے

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃآیت 266)

ترجمہ۔ اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کو ثبات دینے کے لیے خرچ کرتے ہیں‘ ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ (سورۃ آل عمران آیت15)

ترجمہ۔ لوگوں کے لیے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے۔ ا ور اللہ وہ ہےجس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اسلام نے ان مقامات پر بھی ہمیں تفصیلی ہدایات دی ہیں جہاں سماجی اور معاشی افق باہم ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر اسلام کی ان تعلیمات کو نافذ کیا جائے تو ہمارے صبح و شام حسین اور دلکش ہو جائیں گے۔

معاشی انصاف کا نعرہ تو بڑا دلکش ہے اور فری مارکیٹ اکانومی رکھنے والا سرمایہ دارانہ نظام اور جدید مادیت کے فلسفہ پر قائم سائنٹفک سوشلزم دونوں یہی نعرہ بلند کرتے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ صرف اور صرف وہی معاشی انصاف فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف سائنٹفک سوشلزم کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ اس کے سوا کوئی معاشی انصاف قائم نہیں کر سکتا۔ میں معذرت کے ساتھ دونوں کے متعلق اپنی مایوسی کا اظہار کرتا ہوں کہ یہ دونوں ہی معاشی انصاف کے سنہری اصول کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر تفصیلی بحث ہم آگے چل کر کریں گے۔

اسلام میں انصاف کا تصور بڑا وسیع اور ہمہ گیر ہے اور یہ تصور اسلامی تعلیم کے سب پہلوئوں پر محیط ہے۔ لیکن صرف یہی نہیں بلکہ اسلام اس سمت میں ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے۔ سائنٹفک سوشلزم میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرہ کی اقتصادی اونچ نیچ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ امیر و غریب میں کوئی فرق باقی نہ رہے اور سب لوگ قومی دولت سے یکساں فائدہ اٹھائیں۔ معاشرہ میں نہ غربا ہوں اور نہ ان کی ایسی ضروریات ہوں جو پوری نہ ہو سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حقوق کے مطالبہ کا سوال ہی نہیں اٹھے گا اور امراءکو مفلوک الحال لوگوں سے یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ وہ ان کی جمع کردہ دولت کو لوٹ لیں گے۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں زیادہ تر سب کے لیے یکساں مواقع مہیا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔و ہ دولت کی مساوی تقسیم کی بجائے فری اکانومی پر زور دیتے ہیں تاکہ سب کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے یکساں مواقع مل سکیں۔ اس طرح جو معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس میں ہمیشہ لوگوں کو اپنے مطالبات پیش کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔ حکومت یا سرمایہ داروں سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے پریشر گروپس بنائے جاتے ہیں، ٹریڈ یونینز کا قیام عمل میں آتا ہے جو ملازموں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے معاشرہ میں ملازم اور مزدور پیشہ لوگ ہمیشہ ہی احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ دوسری طرف اگر سائنٹفک سوشلزم کو مثالی شکل میں نافذ کیا جائے تو معاشرہ کے کسی طبقہ کو کسی قسم کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یاتو معاشرہ اتنا آسودہ حال ہوگا کہ سب کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے قومی دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوگی۔ یا پھر معاشرہ اتنا غریب ہوگا کہ وہ کسی کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکے گا اور سب لوگ ایک ہی طرح کی بدحالی کا شکار ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جس میں حقوق کا مطالبہ ایک بے معنی بات ہوگی جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر طرف حقوق کے مطالبے نظر آتے ہیں۔ اس نظام کے مطابق غربا کو اپنی بے اطمینانی کے اظہار کا پورا حق ملنا چاہیے اور انہیں ایسے مواقع بھی میسر آنے چاہئیں جہاں ان کی بات سنی جائے۔ پس اس صورت میں انجام کار پریشر گروپس بنیں گے، ہڑتالیں ہوں گی اور آجر اور اجیر کے جھگڑے ہوں گے اور کارخانوں پر تالے پڑ جائیں گے۔

اسلام ایک ایسا اندازفکر پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعہ اہل اقتدار اورامراءکو ہمیشہ یہ یاد رہے کہ ایک منصفانہ اقتصادی نظام کا قیام بالآخر ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ اسلام ارباب حل و عقد اور اہل ثروت کو تاکید کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ کمزور طبقات اور غربا کے بنیادی معاشی حقوق کبھی تلف نہ ہونے دیں۔ پیشہ کے انتخاب کی آزادی، یکساں مواقع اور بنیادی ضروریات زندگی ان کے بنیادی حقوق ہیں جو انہیں ملنے چاہئیں۔ اس سوچ اور فکر کے فقدان سے انسانوں نے زندگی کی جدوجہد میں بڑے دکھ اٹھائے ہیں اور تاریخ انسانی میں فتنہ وفساد کے بے شمار سیاہ باب رقم ہوئے ہیں۔ معاشرہ کو ایسے دکھوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر اسلام نے جو تعلیم دی ہے اس میں لینے اور سمیٹنے سے زیادہ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ اہل اقتدار اورصاحب ثروت لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات کی نگرانی کرتے رہیں کہ معاشرہ کا کوئی طبقہ بنیادی انسانی حقوق سے اس حد تک محروم نہ ہو کہ مناسب اور باعزت زندگی بھی نہ گزار سکے۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کا پورا احساس رکھے اور ان کی فراہمی کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کے سینوں میں دبے ہوئے دکھ دکھائی دینے لگیں، خاموش غم فریاد کرنے لگیں اور انسانوں کی ضروریات نظام اور معاشرہ کے امن کے لیے خطرہ بن جائیں وہ ضرورتیں پوری ہونی چاہئیں اور ان غموں اور دکھوں کی وجوہات دور ہونی چاہئیں۔

بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لحاظ سے یہاں بظاہر اسلام اور سوشلزم میں ایک گونہ مشابہت نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک سطحی مشابہت ہے۔ فرق یہ ہے کہ اسلام اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ جبری ذرائع استعمال نہیں کرتا جو سائنٹفک سوشلزم نے تجویز کیے ہیں۔ اس مختصر وقت میں میں تفصیل سے تو یہ بیان نہیں کر سکتا کہ اسلام کس طرح اس عظیم منزل کے حصول کو ممکن بناتا ہے لیکن مختصراً اتنا کہوں گا کہ اسلام جبری مادیت کے فلسفہ کی طرح اس مسئلہ کو ایک بے جان اور مشینی انداز میں نہیں لیتا۔ اسلام کا سماجی نظام انسانی نفسیات کے طبعی قوانین سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ اسلام ایک ایسے ماحول کو پیدا کرتا ہے جس میں اپنے حقوق کے مطالبہ کی جگہ دوسروں کے حقوق کا احترام پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ کے لوگ دوسروں کے دکھ درد کے بہتر شعور اور احساس کی وجہ سے اپنے حقوق سے زیادہ ان تقاضوں کی فکر کرتے ہیں جو معاشرہ ان سے کرتا ہے۔

حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو باربار یہ نصائح فرمائی ہیں کہ مزدوروں کو ان کے حق سے زیادہ دو۔ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ اپنے ماتحتوں سے محنت و مشقت کے ایسے کام نہ لو جن کی خود تم میں تاب نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے نوکروں کو ایسا ہی کھانا کھلائو جیسا تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو اور ویسا ہی کپڑا پہنائو جیسا تم خود پہنتے ہو۔ کمزور پر کسی قسم کی زیادتی مت کرو ورنہ تم خدا کے سامنے جواب دہ ہو گے۔ کبھی کبھی اپنے نوکروں کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھائو اور خود ان کے سامنے کھانا پیش کرو تا کہ تم جھوٹے تکبر اور نخوت سے بچ سکو۔

(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 289تا 294)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button