شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس ؑکی نمازوں کا بیان(حصہ ہفتم)
نماز جمعہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب نے 1884ءمیں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے… جمعہ کے لیے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں۔چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لیجایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر88)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روزمسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہو ئے بار ہا دیکھا ہے۔عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1461)
حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“ان ایام میں کہ1902ء تھا حضور نمازوں میں مسجد مبارک میں آکر شریک ہوتے۔حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مسجد مبارک میں امام الصلوٰۃ ہوتے تھے احباب مع مولانا صاحب موصوف حضور کی تشریف آوری کا انتظار کرتے تھے۔حضور فرائض سے پہلی سنتیں گھر میں ادا کر کے آتے تھے، حضور کے آنے پر نماز باجماعت کھڑی ہو جاتی تھی۔
ہر جمعہ کی نماز حضور مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جا کر پڑھا کرتے تھے۔حضور نماز جمعہ کے لیے جب مسجد میں تشریف لاتے تو خطیب کے خطبہ شروع کرنے سے پیشتر دو رکعات سنتیں مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے تھے۔پھر خطبہ سنتے اور خطیب کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرتے۔پھر عموماً نماز جمعہ کے فرائض کے بعد کی دو رکعت سنت آپ مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے۔اس کے بعد اگر کسی دوست کے فوت ہونے کی خبر ہوتی تو نماز جنازہ غائب مسجد اقصیٰ میں پڑھاتے۔یعنی خود امام بن کر پڑھاتے۔اعلان ہو جاتا تھا کہ فلاں صاحب کا جنازہ پڑھایا جائے گا۔تین تکبیروں کے بعد نماز جنازہ میں تیسری اور چوتھی تکبیر کے درمیانی وقفہ کو لمبا کرتے بعض اوقات بوجہ بارش یا عدم فرصت یا ناسازیٔ طبیعت نماز جمعہ مسجد مبارک میں ہی ادا کرتے تھے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 13 صفحہ 21 روایت حکیم دین محمد صاحبؓ)
……………………………………………………………………………………………………
نماز جنازہ
حضرت محمد یحییٰ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا جنازہ حضور نے خود پڑھایا تھا۔نماز بہت لمبی پڑھائی۔حتیٰ کہ میں کھڑے کھڑے تھک گیا۔نماز سے کچھ قبل ایک ٹکڑا بادل کا آگیا اور گرد اُڑنے لگی اور نماز کے سارے وقت میں یعنی ابتدائی تکبیر سے سلام پھیرنے تک خوب موٹے موٹےبوند پڑتے رہے اور سلام پھرنے پر بارش ختم ہوگئی اور تھوڑی دیر بعد آسمان کھل گیا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ 137-138 روایت محمد یحییٰ خان صاحبؓ)
حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“ایک دفعہ حضور نے ایک جنازہ اتنا لمبا پڑھایاکہ قریب تھا کہ ہم گر جائیں۔یہ یاد نہیں رہا کہ کس کا جنازہ تھا۔ نماز سے فارغ ہونے پر ایک دیہاتی دوڑا آیا اور عرض کیا کہ حضور میری ماں کا جنازہ بھی پڑھ دیں ۔مسکرا کر فرمایا کہ اس کا بھی پڑھا ہے تمہارا بھی پڑھا ہے اور (مقتدیوں کی طرف اشارہ فرما کر کہا) ان سب کا بھی پڑھا ہے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ 163روایت بابو غلام محمد صاحب ؓ)
نواب علی محمد خان مرحوم لدھیانوی کی نماز جنازہ
حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں:
“نواب صاحب موصوف حکمت اور تصوف میں اورعلوم شرعیہ میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے . . .حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا سلامتی ایمان اور نجات آخرت کے لیے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں وقت آتا جاتا تھا آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ میرے آخری وقت میں لدھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقع ملا. . . جب حالت نزع طاری ہوئی تو یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہو۔ ادھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لیے بہت دعائیں کرتے رہے اور ہر بار آدمی سے بھی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں تمہارے واسطے دعائیں کیں اور کر رہا ہوں اور یہ وصیت نمازِ جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچا دی اور نواب صاحب مرحوم کا انتقال ہو گیا. . . الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر پڑھی اور دعا مغفرت و رحمت بہت کی۔”
(تذکرۃ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ صفحہ 72 تا 75)
جان محمد مرحوم کی نماز جنازہ
حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں:
“ جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے سبحان اللہ سبحان اللہ کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے سینکڑوں دفعہ آپ کو نماز جنازہ حاضر و غائب پڑھانے اور آپ کے پیچھے پڑھنے کا اس خاکسار کو اتفاق ہوا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میاں جان محمد مرحوم و مغفور قادیانی فوت ہو گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام جنازہ کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے۔ یہ مرحوم آپ کے معتقدوں اور عاشقوں اور فدائیوں میں سے تھا…حضرت اقدس امام موعود علیہ السلام بھی میاں جان محمد مرحوم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کیسے ہی عدیم الفرصت ہوتے مگر جب یہ مر حوم آتے تو آپ سب کام چھوڑ کر مرحوم سے ملتے الغرض جب مرحوم کا جنازہ قبرستان میں گیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے۔ نماز میں اتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دُکھنے لگے اور ہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے۔ اوروں کی تو میں کہتا نہیں کہ ان پر کیا گزری لیکن میں اپنی کہتا ہوں کہ میرا حال کھڑے کھڑے بگڑ گیا اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھے کبھی پیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے تو دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے۔ پھر مجھے ہوش آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے پھر تو میں مستقل ہو گیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا اور یہ جی چاہتا تھا کہ ابھی اَور نماز لمبی کریں …جب نمازِ جنازہ سے فارغ ہوئے تو حضرت اقدس علیہ السلام مکان کو تشریف لے چلے۔
ایک صاحب نے عرض کیا کہ: حضور!(علیک الصلوٰۃ والسلام) اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے۔ حضور کا کیا حال ہوا ہو گا یعنی کہ آپ بھی تھک گئے ہوں گے۔
حضرت اقدس علیہ السلام: ہمیں تھکنے سے کیا تعلق۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے اس سے اس مرحوم کے لیے مغفرت مانگتے تھے۔ مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا۔ جس سے ذرا سی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے اور بارگاہِ احدیت میں تو ساری امیدیں ہیں وہ معطی ہے وہاب ہے رحمان ہے رحیم ہے اور پھر مالک ہے اور تس پر عزیز۔
نماز جنازہ میں دعا
دوسرے صاحب:حضور نے کیا کیا دعائیں کیں ۔ دعاء ماثورہ تو چھوٹی سی دعا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام: دعائیں جو حدیثوں میں آئی ہیں وہ دعاء کا طرز اور طریق سکھانے کے لیے ہیں یہ تو نہیں کہ بس یہی دعائیں کرو اور اس کے بعد جو ضرورتیں اور پیش آئیں ان کے لیے دعا نہ کرو۔ دعا کا سلسلہ قرآن شریف نے اور حدیث شریف نے چلا دیا اب آگے داعی پر اس کی ضرورتوں کے لحاظ سے معاملہ رکھ دیا کہ جیسی ضرورتیں اور مطالب اور مقاصد پیش آئیں دعا کرے۔ ہم نے اس مرحوم کے لیے بہت دعائیں کیں اور ہمیں یہ خیال بندھ گیا کہ یہ شخص ہم سے محبت رکھتا تھا ہمارے ساتھ رہتا تھا ہمارے ہر ایک کام میں شریک رہتا تھا اور اب یہ ہمارے سامنے پڑا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ اس وقت ہم شریکِ حال ہوں اور یہ وہ ہے کہ اس کے واسطے جناب باری میں دعائیں کی جائیں سو اس وقت جہاں تک ہم میں طاقت تھی دعائیں کیں ۔
سراج الحق: (راقم سفرنامہ)کچھ بولنا چاہتا تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام بول اٹھے۔
نور الدین: (یعنی خلیفۃ المسیح دام فیضہ)نے عرض کیا کہ جناب مجھے اس وقت یہ خیال آیا اور اس وقت بھی کہ جب مرحوم کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا کہ یہ جنازہ میں ہوتا ۔
حضرت اقدس علیہ السلام: ہنس کر فرمایا آپ مولوی صاحب نیکیوں میں سابق بالخیرات ہیں
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ
انسان کو نیت صحیح کے مطابق اجر مل جاتا ہے اور آپ تو نور الدین اسم بامسمّٰی ہیں ۔
پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس مرحوم کی خدمت اور وفاداری کا ذکر کیا۔ میں جو بولنا چاہتا تھا یہ بات بولنی چاہتا تھا کہ جو حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب دام فیضہ بول اٹھے پھر میں خاموش ہی رہا کہ بازی تو حضرت مولانا نور الدین لے گئے اب تیرا بولنا ٹھیک نہیں اور خلافِ ادب بھی ہے۔”
حضرت خلیفہ اولؓ کے صاحبزادہ کی نماز جنازہ
“بات میں بات یاد آ جاتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ کا صاحبزادہ فوت ہو گیا اور اس کے جنازہ میں بہت احباب شریک تھے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نےنماز جنازہ پڑھائی اور بڑی دیر لگی۔ بعد سلام کے آپ نے تمام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ اس وقت ہم نے اس لڑکے کی نمازِ جنازہ ہی نہیں پڑھی بلکہ تم سب کی جو حاضر ہو اور ان کی جو ہمیں یاد آیا نماز جنازہ پڑھ دی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ اب ہمارے جنازہ پڑھنے کی تو ضرورت نہیں رہی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسا موقع نہ ملے تو یہی نماز کافی ہو گئی ہے۔ اس پر تمام حاضرین احباب کو بڑی خوشی ہوئی اور حضرت اقدس علیہ السلام نے جو سب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ہم نے تم سب کی نماز جنازہ پڑھ دی ایسے پُرشوکت اور یقین سے بھرے ہوئے الفاظ میں یہ فرمایا کہ جس سے آپ کے الفاظ اور چہرہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہم سب آپ کے سامنے جنازہ ہیں اور یقیناً ہماری مغفرت ہو گئی اور ہم جنت میں داخل ہو گئے اور آپ کی دعا ہمارے حق میں مغفرت کی قبول ہو گئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا۔
اللہ اکبر! آپ کی ہم گنہگاروں پر کیسی شفقت تھی کہ ہر وقت ہمارے لیے بخشش اور مغفرت کے لیے بہانہ ڈھونڈتے تھے اور ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے کسی قسم کا بہانہ ہاتھ لگےاور مغفرت کی دعا مانگی جائے۔”
(تذکرۃ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ صفحہ 76تا 79)
…………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭