سیرت النبی ﷺسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

وعدۂ الٰہی ’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘ کی روشنی میں آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑکی معجزانہ حفاظت کے ایمان افروز واقعات

(امۃ الباری ناصر)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےآنحضورﷺسے یہ حتمی وعدہ فرمایا کہ

وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ

(سورۃ المائدہ:68)

‘‘خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیرے قتل کرنے کی گھات میں ہیں۔’’

(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد1صفحہ 250)

اس الٰہی وعدہ کی وضاحت امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ نے یوںبیان فرمائی ہے:

‘‘…عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جودشمن کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے ۔دیکھو آنحضرت ﷺ سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت ؐکو سخت زخم پہنچے تھے…۔’’

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ529)

سورۃ المائدہ مدینہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔اس میں یہود و نصاریٰ کی بے دینی،مسلسل بد عہدیوں اور گستاخانہ رویہ کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپؐ اعلائے کلمہ ٔحق کا فرض ادا کر تے رہیں مَیں خود آپ کی حفاظت کروں گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی توآپؐ کے خیمے کے گرد پہرہ تھا ۔چنانچہ اس الٰہی بشارت کے ملنے پر آپؐ نے پہرے پر مستعد سرفروشوں کو مخاطب ہو کر فرمایا:

‘‘اے لوگو!تم اب جاسکتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خودمیری حفاظت کی ذمہ داری لےلی ہے۔’’

(جامع ترمذی کتاب التفسیر سورۃ المائدۃ۔حدیث نمبر2972)

اس ارشاد سےآپؐ کا اللہ تعالیٰ کےوعدوں پر یقین کامل معلوم ہوتاہے۔گوظاہری تدبیر کے تحت صحابہؓ آپؐ کی حفاظت کرتے مگر آپؐ کو یقین تھا کہ اصل حفاظت کرنے والی ذات خدا تعالیٰ کی ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی جسمانی اور روحانی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لے لیا۔کل عالم کو فریضہ ٔتبلیغ کا کام جان کو خطرے میں ڈالےبغیر ممکن نہ تھا۔ قلبِ محمد ﷺ کی تقویت اور جمعیتِ خاطر کے لیے مولیٰ کریم کی حفاظت کا وعدہ ایک طرف یہ بتا رہا تھا کہ یہ راہ پُر خطر ہے اور دوسری طرف روحانی طاقت میں اضافہ کا حوصلہ تھااور بڑھتے ہوئے قربِ الٰہی کا سکون تھا۔

فی الوقت اس مضمون میں آپؐ کی معجزانہ جسمانی حفاظت کا ذکر ہوگاجو آپﷺ کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل بھی ہے۔

حفاظت الٰہی کی تجلیات آپؐ کی پیدائش سے پہلے شروع ہوگئی تھیں ابرہہ سے خانۂ خدا کو بچانا دراصل آنے والی بابرکت ذات کو بچانا تھا۔ پھر قریبی عزیزوں کی پے در پے وفات سے آپؐ در بہ در نہیں ہوئے زیادہ لاڈ پیار نازونعم اور عمدہ پرورش کے سامان ہوتے رہے۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا خانۂ خدا میں سجدہ ریز رسول اللہ ﷺ کا سر کچلنے کے ارادے سے بڑا سا پتھر لے کرآنے والے ابوجہل کو بڑے بڑے دانتوں والے ہیبت ناک مست اونٹ کے نظارے نے شل کردیا۔آپؐ کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑکو بھیجا تھا۔ سجدے میں پیشانی رکھنے والے کو گردو پیش میں کسی کارروائی کا علم بھی نہیں ہوا جبکہ اس کی حفاظت کے ضامن نے ابوجہل کو ناکام ونامراد لوٹا دیا۔

مشرکینِ مکہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف زہر اگلنے کے بعد یہ فیصلہ کرکے اٹھتے ہیں کہ برداشت کی حد ختم ہوگئی اب ایک ہی صورت ہے کہ اس فتنے کے سرغنہ (نعوذ باللہ)محمد (ﷺ)کو جان سے مار دیا جائے ایک بہادر سپوت ننگی تلوار لے کر نکلتا ہے ابھی منزل تک نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اس کا دل پھیرنے کے سامان کردیتا ہے اور وہ کلمہ شہادت پڑھ کے مسلمان ہوجاتا ہے۔ قتل کے ارادے سے آنے والا خود مقتول ہوجاتا ہے اس پر وار کس نے کیا؟اسی کریم ذات نے جس نے محمد ﷺ سے حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔
حضرت مصلح موعود ؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ایک دفعہ آپ عبادت کررہے تھے آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کرلوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں ۔اتنے میں ابوبکر ؓوہاں آگئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو !کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے۔

ایک دفعہ آپؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپؐ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپؐ سر نہ اٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اس اوجھری کو آپؐ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں۔

ایک دفعہ آپؐ بازار سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپؐ کے گرد ہوگئی اور راستہ بھر آپؐ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی اور یہ کہتی چلی گئی کہ لوگو !یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں۔

آپؐ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتےتھے۔ باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں۔جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جب آپؐ نماز پڑھتے تو آپؐ پرخاک دھول ڈالی جاتی تھی حتٰی کہ مجبور ہوکرآپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی۔’’

(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ180)

طائف کی سنگلاخ زمین پر پتھروں کی چوٹیں سہتے اور زخم کھاتے ہوئے اس حالت میں کہ نعلین مبارک میںخون جم جانے سے پاؤں میں چپکی ہوتی۔ تین کوس تک جس طرف رخ تھا بھاگتے گئے۔ اس بظا ہر بے یارومددگار بندۂ خدا کو ان ظالموں سے قادر و توانا خدا نے بچایا۔

ہجرت کے وقت غارثور کے دہانے پر کھوجی کہہ رہا تھا کہ یہاں تک تو پیروں کے نشان ملتے ہیں اس کے بعد انہیں زمین کھا گئی یا آسمان پر چڑھ گئے۔آپؐ وہیں تھے ۔ان کی آوازیں سن رہے تھے مگراپنے اللہ کی حفاظت میں تھے ۔ذرا سی مکڑی، کمزور سا جالا،ننھی کبوتری کا گھونسلا اور انڈے ۔یہ ان خونخوار دشمنوں سے نہیں بچا رہے تھے وہ قادروتوانا خدا تھا جو حصار بنائے کھڑا تھا۔سراقہ بن مالکسَو اونٹوں کے لالچ میں پیچھا کرتا ہوا اپنے مطلوب تک پہنچ گیا تھا کسی طاقت ور کے ہاتھ نے اس کے گھوڑے کو باربار گرایا یہاں تک کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ان کے ساتھ تو کوئی اور ہی طاقت کام کررہی ہے۔ چشم تصور سے ان کے اقتدار کا سوچا دل پر لرزہ طاری ہوا وہ اتنا مرعوب ہوا کہ خو د پناہ مانگنے پر مجبور ہوگیا۔

بادشاہ ایران خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا آنحضور ﷺ کا دعوت الی اللہ کا خط پہنچا تو خط پھاڑ دیا، ایلچی کو قتل کرادیا اور اپنے سپاہی روانہ کیےکہ اس مدعی ٔنبوت کو گرفتار کرکے لے آئیں۔

اس واقعہ کے بارے میں حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

‘‘وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا ہمیں گرفتاری کا حکم ہےآپ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کرکے فرمایا تم اسلام قبول کرو۔اس وقت آپ صرف دوچار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربّانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے آخر انہوں نے کہاکہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا۔صبح کو جوو ہ حاضر ہوئے تو آنجنابؐ نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند خداوند کہتے ہو ۔وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کردیا سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے۔یہ بڑا معجزہ تھا۔’’

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9صفحہ 385)

یہ معجزہ اس لیے بھی بڑا تھا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔شیرویہ کے ایلچی کو بھیجے ہوئے مکتوب کے الفاظ بھی غیر معمولی ہیں۔ یاد رکھو کہ میرے باپ نے جو حکم عرب کے ایک مدعیٔ نبوت کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا تھا وہ بھی ظالمانہ حکم تھا اسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں اور جب تک کوئی نیا حکم نہ آئے اس کے متعلق کوئی کارروائی نہ کرو۔

(طبری جلد 3صفحہ1584)

سن چھ ہجری کا واقعہ ہے جنگ احزاب کی ہزیمت کے بعد ابوسفیان نے سوچا کہ ہر تدبیر ناکام ہوگئی ہے۔اب کسی دشمن اسلام کو آمادہ کیا جائے کہ وہ چپکے سے مدینہ جائے اور آپؐ کو قتل کرآئے اس نے دیکھا تھا کہ آپ بغیر کسی پہرے کے گلی کوچوں میں بے تکلف چلتے پھرتے ہیں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھاتے ہیں۔قتل کرنے والے کا کام کوئی مشکل نہیں ہوگا۔اسے اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے ایک بدوی مل گیا جس نے وعدہ کیا کہ وہ خنجر چھپا کے رکھے گا اور موقع ملتے ہی کام تمام کردے گا۔ پھر بھاگ کر کسی قافلے کے ساتھ مل کر بچ کر نکل جائے گا۔ ابوسفیان نے اسے تیز رفتار اونٹنی اور زاد راہ دے کر رخصت کیا۔ یہ معاملہ انتہائی راز میں رکھا گیا ۔وہ چھ دن سفر کرکے مدینہ پہنچا اور سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد گیا جہاں آنحضورؐ تشریف فرما تھے ۔ آپؐ نے اسے آتے دیکھ کر فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے وہ یہ سن کر اور بھی تیزی سے آگے بڑھا ایک انصاری حضرت اسید بن حضیر نے اسے دبوچ لیا جس سے اس کاخنجر نیچے گرگیا۔

آنحضور ؐنے اسے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اور کس ارادے سے آئے ہو؟ اس نے جاں بخشی اور معافی کے وعدے سے ابو سفیان کا سارا منصوبہ بتا دیا اور چند دن وہاں قیام کے بعد اسلام قبول کرلیا۔

سن سات ہجری میں فتحِ خیبر کے بعد ابھی آپؐ خیبر میں مقیم تھے کہ یہودیوں نے آپؐ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی ۔ ایک خاتون زینب بنت الحارث نے بھنی ہوئی ران میں زہر ملا کر آپﷺ کو پیش کی۔ آپؐ اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھے ابھی آپؐ نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اسے کھانے سے منع کردیا ۔ جس صحابی بِشر ؓنے ایک لقمہ کھایا تھا وہ وفات پا گئے۔ آنحضور ﷺ نے اس عورت کو بلا کرپوچھا کہ ایسا کیوں کیا ؟تو اس نے کہا کہ ہم آپؐ کو قتل کر نا چاہتے تھے ۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دے گا۔اس نے کہا کیا آپ کو قتل نہیں کیا جاسکتا؟آپ نے فرمایا نہیں۔

(مسلم باب السلام کتاب السم)

جنگِ حنین کے موقع پر ایک شخص شیبہ نے آپؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:

‘‘اس جنگ کا ایک عجیب واقعہ بھی تاریخوں میں آتاہے۔شیبہ نامی ایک شخص جومکہ کے رہنے والے تھے اور خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے مقرر تھے وہ کہتےہیں میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں گا اور میں نے دل میں کہا کہ عرب اور غیر عرب لوگ تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کے مذہب میں داخل ہوگئی تو مَیں تو نہیں ہوں گا۔جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور اِدھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں سے مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا۔اُس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کردے۔اُس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے قریب ہوجاؤ۔میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا !شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے۔شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور اُس وقت سے رسول اللہ ؐمجھے اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہوگئے۔’’

(دیباچہ تفسیرالقرآن صفحہ223)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘آنحضرت ﷺ کا کسی کے ہاتھوں قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ

وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ

اورپہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر الزماں کسی کے ہاتھوں قتل نہیں ہوگا۔’’

(ملفوظات جلد 8صفحہ 11)

آنحضرت ﷺ کی للّہی حفاظت کی معجزانہ شان اس سے بھی ظاہر ہو تی ہے کہ اسلام کا ابتدائی زمانہ نسبتاً کمزور ی کا زمانہ تھا ۔جبکہ بعد میں ظالموں نے عین شوکت اسلام کے زمانے میں حضرت عمر ؓحضرت عثمان ؓاو ر حضرت علیؓ کو شہید کردیا۔

پانچ نہایت نازک پُر خطر مواقع

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘یاد رہے کہ پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کیے جاتے ایک تووہ مو قعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے (۲)دوسرا وہ موقعہ تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پرمعہ ایک گروہِ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے (۳)تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جبکہ احد کی لڑائی میں آنحضرتؐ اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کرلیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا۔ (۴)چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دیدی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (۵)پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہِ فارس نے آنحضرت ﷺ کے قتل کے لیے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لیے اپنے سپاہی روانہ کیے تھے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُرخطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر غالب ہوجانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا…’’

(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن 23صفحہ263تا264حاشیہ)

غلامِ احمد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے الٰہی حفاظت کے وعدہ میں مماثلت

اللہ تعالیٰ نے دَور آخرین میں آنحضور ﷺ کے نائب سے بھی معجزانہ حفاظت کا وعدہ فرمایا ۔آپ کو احیائے دین اسلام کا فریضہ سونپا گیا۔ انتہائی صبر آزما کام ،شش جہات خطرات ،ہر مذہب و ملت کے ماننے والے جانی دشمن،ہر وسیلہ آپؑ کی جان اور پیغام کو مٹا دینے کے درپے تھا ۔ایسے میں حوصلہ دیتی ہوئی قادرو توانا خدا تعالیٰ کی آواز آئی۔

یُظِّلُّ رَبُّکَ عَلَیْکَ وَ یُغِیْثُکَ وَ یَرْحَمُکَ۔ وَانْ لَّمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ اِنْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ۔

خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگر چہ تمام لوگ دریغ کریں۔

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 608تا609حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

‘‘اِنْ لَّمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ اِنْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ

…اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کرکے تجھے بچائے گا۔خدا تجھے ضرور بچالے گا اگرچہ لوگ تجھے نہ بچانا چاہیں۔

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ528)

اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّارِ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِن اِسْتِکْبَارِ۔ وَاحَافِظُکَ خَاصَۃً سَلَامٌ قَوْ لاً مِّنْ رَبٍّ رَحِیْمٍ

یعنی مَیں ہر ایک انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا ۔خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام۔

(نزول المسیح ،رو حانی خزائن جلد 18صفحہ 401)

اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّاریعنی خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ اِس گھر کی چاردیواری کے اندر ہیں ۔سب کو میں طاعون سے بچاؤں گا ۔ سو گیارہ برس سے بڑے بڑے حملے طاعون کے اس نواح میں ہورہے ہیں مگرخدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کا ایک کتّا بھی طاعون سے نہیں مرا…

(روحانی خزائن22حقیقۃ الوحی صفحہ 547)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں یَعْصِمُکَ اللّٰہُکی بشارت ہے ۔ایسا ہی اس خدا کی وحی میں میرے لیے یَعْصِمُکَ اللّٰہُکی بشارت ہے ۔اور سلسلہ کے اوّل اور آخر کےمرسل کو قتل سے محفوظ رکھنا اس حکمت ِ الٰہی کے تقاضا سے ہے کہ اگر اوّل سلسلہ کا مرسل جو صدر سلسلہ ہے شہید کیا جائے تو عوام کو اس مرسل کی نسبت بہت شبہات پیدا ہو جاتے ہیں…اور اگر آخر سلسلہ کا مرشد شہید کیا جائے تو عوام کی نظر میں خاتمہ سلسلہ پر ناکامی اور نامرادی کا داغ لگایا جائے ۔ اور خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ خاتمہ سلسلہ کا فتح اور کامیابی کے ساتھ ہو۔’’

(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20صفحہ 70)

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے حفاظت کا بار بار وعدہ فرمایا۔اس کاذکر کرتے ہوئےآپ فرماتےہیں:

’خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسکا ہے۔پس اسے کوئی مخالف آزمالے اور آگ جلاکر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا ،لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں ۔یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالی فرماتا ہے

وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:196)

پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے۔ بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ ہمیں آگ میں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہیں جلیں گے۔’’

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 480)

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

‘‘دنیا میں اک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا’’

اللہ تعالیٰ فرشتوں کی افواج کے ساتھ اپنے پیارے کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے بے شمار مثالوں میں سے چند ایک کا ذکر تاریخ کے صفحات سے درج کرتی ہوں۔

‘‘حضرت مسیح موعودؑسیالکوٹ تشریف لائے تو آپؑ نے سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چوبارے پر قیام فرمایا۔ایک دفعہ حضور ؑپندرہ سولہ افراد کے ساتھ اس چوبارے میں آرام فرمارہے تھے کہ شہتیر سے ٹک ٹک کی آواز آئی اس پر آپؑ نے ساتھیوںکو سختی سے نکلنے کا حکم دیا جب آپؑ کے ساتھی نکل گئے توآپؑ نے باہر آنے کا قصد کرتے ہوئے ابھی دوسرے زینے پر ہی قدم رکھا تھا کہ چھت دھڑام سے آ گری اور آپ معجزانہ طور پر بچ گئے’’

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 81)

سیالکوٹ کا ہی ایک اور واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:

‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ۔ایک دن بارش ہورہی تھی ۔جس کمرے میں مَیں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اورگندھک کی سی بو آتی تھی ۔ لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا ۔اسی وقت وہ بجلی ایک مندرمیں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پرگر ی اوروہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا۔’’

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ82)

مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود ؑکو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی ۔اس حوالے سے تاریخ احمدیت میں ذکرملتا ہے کہ

‘‘مولوی عمرالدین شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی اورحافظ عبدالرحمٰن صاحب سیاح امرتسری آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو۔حافظ عبدالرحمٰن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں۔ مرزا صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ اب میں مباحثے نہیں کروں گا ۔اب انہیں مباحثے کا چیلنج دیدو ۔اگر وہ تیار ہو گئے تو انہیں کا قول یاد دلا کرانہیں نادم کیا جائے ۔کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں ۔ اور اگر مباحثہ سے انکار کیا تو ہم یہ اعلان کردیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں ۔مولوی عمرالدین نے کہا مجھے کہو تو میں جا کر انہیں مار آتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہوجائے ۔اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتایہ سنتے ہی مولوی عمرالدین صاحب کے دل میں حضورؑ کی صداقت کا یقین ہوگیا۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار اور عیسائی حکومت کو آپؑ کے قتل پر اُکساکر1897ءمیں لکھا‘‘حکومت و سلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے۔ اسی وقت آپ کا سر کاٹ کر آپ کو مردار کردیتے۔سچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد ہے جس کا جواب بجز قتل اور کوئی نہیں۔’’

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 389تا390)

حضرت اقدس ؑ1891ء میں دہلی تشریف لے گئے تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپؑ کو اطلاع دیے بغیر جامع مسجد میں مباحثے کا اعلان کردیا۔ آپؑ اس میں جانے کے اخلاقاََ پابند نہیں تھے تاہم دعوت الی اللہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہاںجانے کا فیصلہ فرمایا۔ مخا لفین انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کرکے عوام کو شرارت پر اُکسا رہے تھے۔ دہلی میں آپؑ کے گھر کا محاصرہ کرکے فساد کے لیے تیار تھے۔ آپؑ یہ شوروشر دیکھ کر بالا خانے پر تشریف لے گئے ہجوم کواڑ توڑ کر گھر کے اندر گھس گیا اور کچھ لوگ بالا خانے تک پہنچ گئے۔اس صورت حال میں مباحثہ ناممکن تھا۔بالآخر 20؍ اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔ آپؑ کو پیغام آنے لگے کہ آپؑ جامع مسجد ہرگز نہ جائیں آپؑ کی جان کو خطرہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اس شیر نے فرمایا

‘‘کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہےاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِاللہ تعالیٰ کی حفاظت کافی ہے۔’’(تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 250)

آپؑ اپنے احباب کے ساتھ بگھیوں میں مسجد کی طرف روانہ ہوئے راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھ گئے کہ حضور پر فائر کریں گے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جس راہ حضرت اقدس اور آپ کے خدام کوجانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے اس طرح آسمانی حفاظت نے آپ کی جان کو محفوظ رکھا۔

(ماخوذازتاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 425)

حفاظت الٰہی کا ایک زبردست واقعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓیوں تحریر فرماتے ہیں:

‘‘یہ بھی لدھیانہ کا واقعہ ہے جو انہی ایام میں ہوا (غالباً 1891ء کا ذکرہے۔ناقل)کہ ایک مولوی صاحب بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش کےساتھ وعظ کر رہے تھےکہ مرزا (مسیح موعودؑ)کافر ہے اور اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کوسخت نقصان پہنچ رہاہے۔ پس جوکوئی اس کو قتل کر ڈالے گا وہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا اور سیدھا بہشت کو جائےگا۔بہت جوش کے ساتھ اس نے اس وعظ کو بار بار دہرایا۔ایک گنوار ایک لٹھ ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑااس کی تقریر سن رہا تھا۔اس گنوار پر مولوی صاحب کے اس وعظ کا بہت اثرہوا اور وہ چپکےسے وہاں سے چل کرحضرت صاحبؑ کامکان پوچھتاہواوہاںپہنچ گیا۔وہاںکوئی دربان نہ ہوتا تھا۔ہر ایک شخص جس کا جی چاہتا اندر چلا جاتا۔ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ اور بندش درپیش نہ تھی۔ اتفاق سے اس وقت حضرت صاحبؑ دیوان خانہ میںبیٹھے ہوئے کچھ تقریر کر رہے تھےاور چند آدمی جن میں کچھ مریدین تھے، کچھ غیرمریدین اردگرد بیٹھے ہوئےحضورؑکی باتیں سُن رہے تھے۔وہ گنوار بھی اپنا لٹھ کاندھے پر رکھے ہوئے کمرہ کے اندر داخل ہوا اور دیوار کےساتھ کھڑاہو کراپنےعمل کا موقع تاڑنے لگا۔حضرت صاحبؑ نے اس کی طرف کچھ توجہ نہیں کی اور اپنی تقریر کوجاری رکھا۔وہ بھی سننے لگا۔ چند منٹ کے بعد اُس تقریر کا کچھ اثر اُس کے دل پر ہوا اوروہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر اس کے ہاتھ میں زمین پر آگیااور مزید تقریرکو سننےکے لیے وہ بیٹھ گیا اور سنتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت صاحبؑ نے اس سلسلۂ گفتگو کو جو جاری تھا۔بند کردیا اور مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ مجھےآپ کے دعوے کی سمجھ آگئی ہے اور مَیں حضورؑ کو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کےمریدین میں داخل ہوناچاہتا ہوں۔اِس پر وہ گنوار آگےبڑھ کر بولا کہ میں ایک مولوی صاحب کے وعظ سےاثر پا کر اس ارادہ سے یہاں اس وقت آیا تھا کہ اس لٹھ کے ساتھ آپ کو قتل کر ڈالوںاورجیسا کہ مولوی صاحب نے وعدہ فرمایاہے سیدھابہشت کو پہنچ جاؤں۔مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے اور میںزیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا اور آپ کی ان تمام باتوںکے سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا ہےکہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا۔آپ بےشک سچے ہیںاورآپ کی باتیں سب سچی ہیں۔ میں بھی آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔حضرت اقدسؑ نے اس کی بیعت کو قبول فرمایا۔’’

(ذکر حبیب ،صفحہ11تا12)

دشمنوں کے آٹھ حملے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا گیا میں اُس سے بچایا گیا بلکہ بریّت کی خبرپہلے سے مجھے دیدی گئی۔ اور قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا ۔جس کی سزا چھ ماہ قید تھی اس سے بھی میں بچایا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے مجھے دیدی گئی ۔اسی طرح مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ایک فوج داری مقدمہ میرے پر چلایا گیا آخر اس میں بھی خدا نے مجھے رہائی بخشی اور دشمن اپنے مقصد میں نامراد رہے اور اس رہائی کی پہلے مجھے خبر دی گئی۔ پھر ایک مقدمہ فوج داری جہلم کے ایک مجسٹریٹ سنسار چند نام کی عدالت میں کرم دین نام کے ایک شخص نے مجھ پر دائر کیا اس سے بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دے دی ۔پھر ایک مقدمہ گورداسپور میں اسی کرم دین نے فوجداری میں میرے نام دائر کیا اس میں بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دی اسی طرح میرے دشمنوں نے آٹھ حملے میرے پر کیے اور آٹھ میں ہی نامراد رہے اور خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے پچیس سال پہلے براہین احمدیہ میں درج ہے یعنی یہ کہ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کیا یہ کرامت نہیں؟’’

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ189حاشیہ)

پانچ پرخطر موقعے

‘‘یہ عجیب بات ہے کہ میرے لیے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی تھی (۱)اول وہ موقع جب کہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک نے خون کا مقدمہ کیا تھا (۲)دوسرے وہ موقع جب کہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں مجھ پر چلایا تھا (۳)تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا (۴) چوتھے وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا (۵)پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی کی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں ۔مگر وہ تمام مقدمات میں نامراد رہے۔’’

(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 263حاشیہ در حاشیہ)

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میںہے نہاں

اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button