از افاضاتِ خلفائے احمدیت

وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات

ایک سنہرا اصول جو بانیٔ جماعت احمدیہ مسلمہ نے دیا ہے یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، انبیاء اور حکام ِوقت کا مطیع ہو کر رہنا چاہیے۔ یہ بعینہٖ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی ہے

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی میں وفاق کی فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(گذشتہ سے پیوستہ)وفاداری کے تعلق میں ایک اَور قرآنی تعلیم یہ ہے کہ لوگوں کو ہر اُس چیز سے دُور رہنا چاہیےجو غیر اخلاقی، ناپسندیدہ اور بغاوت کا کوئی پہلو اپنے اندر رکھتی ہو۔ اسلام کا ایک ممتاز اور خوب صورت پہلو یہ ہے کہ اسلام ہمیں آخری انجام جہاں خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں کی طرف ہی توجہ نہیں دلاتا بلکہ یہ ہمیں ایسے تمام چھوٹے اور ابتدائی معاملات سے بھی متنبہ کرتا ہے جو انسان کو پُر خطر نتائج کی طرف لے جاتے ہیں ۔ پس اگر اسلامی تعلیم پر مکمل عمل کیا جائے تو تمام معاملات ابتدائی مراحل میں ہی حل ہو جاتے ہیں قبل اس کے کہ حالات بے قابو ہو جائیں۔

مثال کے طور پر ایک معاملہ جس میں ایک ملک کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہ مال کی حرص ہے۔ اکثر لوگ مادی خواہشات سے مغلوب ہو جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ قابو سے باہر ہوتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر ایسی خواہشات لوگوں کوبغاوت پر آمادہ کر دیتی ہیں۔ لہٰذا ایسی چیزیں بالآخر وطن سے غداری کا سبب بنتی ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ عربی میں ‘بَغٰی’کا لفظ اُن لوگوں یا ایسے کاموں کے لیے مستعمل ہے جو اپنے وطن کو نقصان پہنچاتے اور غلط کاموں میں ملوث ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دھوکا دیتے اور غیر قانونی یا ناجائز طریق پر چیزوں کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیںجو تمام حدود سے تجاوز کرتے اور نقصان اور خرابی کا باعث بنتے ہیں ۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں سے وفاداری کی اُمید اور توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ وفاداری اور اعلیٰ اخلاق ایک دوسرے کا اَٹوٹ انگ ہیں ۔ وفاداری اعلیٰ اخلاق کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور اعلیٰ اخلاق وفاداری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے ۔ اعلیٰ اخلاق کے متعلق لوگوں کا نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن اسلام تو صرف خدا کی رضا کے حصول کے مقصد کے گرد ہی گھومتا ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں کو یہی ہدایت ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے اعمال بجا لائیں جن سے خدا خوش ہو۔ الغرض اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہر قسم کی دھوکا دہی ، بغاوت اورغداری سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا ہے خواہ وہ اپنے وطن کے ساتھ ہو یا اپنی حکومت کے ساتھ !کیونکہ بغاوت یا حکومت کے خلاف کام کرنا ملکی امن و امان کے لیے خطرہ ہوتا ہے ۔ اندرونی بغاوت اور مخاصمت ہمیشہ بیرونی لڑائی جھگڑوںکو دعوت دیتی ہے اور غیروں کو اس بات پر اُبھارتی ہے کہ وہ اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھائیں۔ لہٰذا ملک و قوم سے بے وفائی کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جو وطن کو نقصان پہنچا سکتی ہے وہ ‘بَغٰی’ کے زمرہ میں آتی ہے جسے مَیںبیان کر چکا ہوں ۔ ان باتوں کے پیش نظروطن سے وفاداری کا یہ تقاضا ہے کہ انسان صبر کا مظاہرہ کرے ، اعلیٰ اخلاق دکھائے اور ملکی قوانین کی پابندی کرے۔

دَورِ جدید میں اکثر حکومتیں جمہوری طرز پر ہیں اِس لیے اگر کوئی فردِ واحد یا گروہ حکومت کو بدلنا چاہے تو انہیں یہ کام مناسب جمہوری طریق کے مطابق ہی کرنا چاہیے اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے حق رائے دہی کا سہارا لینا چاہیے۔ ووٹ ذاتی ترجیحات یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نہیں ڈالنےچاہئیں بلکہ اس بارہ میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق وطن سے وفاداری اور محبت کی روح اور قومی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔ چنانچہ حقِ رائے دہی استعمال کرتے وقت ذاتی ترجیحات، اُمیدوار اور پارٹی کو نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھنا چاہیے جن سے یہ جانچا جا سکے کہ کون سا امید وار یا کون سی پارٹی ملک و قوم کی ترقی میں مددگار ہو گی ۔ حکومت ایک بہت بڑی امانت ہے اس لیے یہ صرف اس پارٹی کو دی جانی چاہیے جسے ایک ووٹر دیانت داری سے سب سے مناسب اور سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہے یہ ہے حقیقی اسلام اور یہ ہے سچی وفاداری!

قرآن کریم کی سورت نمبر 4آیت نمبر 59میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ امانتیں صرف ان لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہوں اور لوگوں کےدرمیان فیصلہ کرتے وقت انصاف اور ایمان داری سے فیصلہ کرو۔ پس وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ عنان حکومت صرف انہی لوگوں کو تھمائی جائے جو اس کےصحیح حق دار ہیں تا کہ ملک و قوم ترقی کرے اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کی دوسری اقوام کے شانہ بشانہ ہو۔

دنیا میں کئی جگہ عوام حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاج میں حصہ لیتے ہیں ۔ نیز تیسری دنیا کے بعض ممالک میں احتجاج کرنے والے سرکاری یا شہریوں کی املاک اور جائیدادیں لوٹتے اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہےکہ ایسے افعال کا وطن سے وفاداری اور محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ غیر مجرمانہ او رپر امن احتجاج یا ہڑتال بھی معاشرہ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ پر امن احتجاج بھی اکثر قومی معیشت کو لاکھوں کا نقصان پہنچاتا ہے ۔ ایسا رویہ کسی طور پر بھی قوم سے وفاداری کی مثال نہیں سمجھاجاسکتا۔ اس سلسلہ میں ایک سنہرا اصول جو بانیٔ جماعت احمدیہ مسلمہ نے دیا ہے یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، انبیاء اور حکام وقت کا مطیع ہو کر رہنا چاہیے۔ یہ بعینہٖ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی بھی ملک ہڑتال اور احتجاج کی اجازت دیتا ہے تو وہ صرف اسی حد تک کرنے چاہئیں کہ ان سے ملک یا معیشت کو نقصان نہ پہنچے۔

…………………………باقی آئندہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button