حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا 250؍ روپیہ والا کشف کیسے پورا ہوا
روحانی دنیا کے قصص بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ الہام وحی اور رؤیا و کشوف کے ذریعہ اپنی ہستی کے ناقابل تردید ثبوت مہیا کرتا ہے۔ آج کی نشست میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کی روداد پیش کی جارہی ہے۔ کس طرح پورا ہوا۔ کس کے ہاتھوں پورا ہوا اور کتنے عرصے میں پورا ہوا۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جو رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ)میں موجود ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیامیں دیکھا کہ کسی نے مجھے اڑھائی سو (250)روپیہ دیا ہے۔اب دیکھیے یہ کشف کیسے پورا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحب ؓکو اس کشف کا کچھ علم نہ تھا مگر خدا نے تصرف فرمایا اور دل میں ایک بات ڈال دی۔ فرماتے ہیں۔
میرے پاس دو سوروپیہ میں کچھ زمین رہن تھی۔ خدا نے میرے دل میں امنگ پیدا کی کہ اگر یہ ز مین واپس ہوجائے تو میں یہ رقم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضورپیش کر دوں گا۔ مگر اس وقت زمین کی قیمت ذرا کم تھی۔ اور رہن ختم ہونے کی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ آخر میں نے حضرت اقدس کے حضور خط لکھا کہ میری خواہش ایسی ہے اور یہ روک ہے۔ حضور دعا فرمائیں کہ خداوند تعالیٰ اس کے لیے اسباب پیدا کر دے۔ میری ا س درخواست پرحضور نے دعا فرمائی اور دست مبارک سے تحریر فرمایا کہ
‘‘میں نے کشف میں بھی دیکھا ہے کہ کسی نے مجھے ڈھائی سو (250)روپیہ دیا ہے۔ آپ کوشش کریں اور مجھے دعا کے لیے لکھتے رہیں۔’’
حضور انور کا یہ خط میرے پاس تاحال محفوظ ہے۔ میں نے حضور کے فرمان کے مطابق کوشش شروع کی اور اپنے بڑے بھائی چوہدری عطا محمد خان صاحب کو بھی جو اس وقت ریاست جموں انسپکٹر تھے اس کے متعلق مفصل خط لکھا۔ انہوں نے مجھے دو سو روپیہ زر رہن بھیج دیا ۔عطامحمد اگرچہ غیراحمدی تھے۔ لیکن خدا نے انہیں ہی میری امداد کا ذریعہ بنادیا۔
جب مجھے روپیہ مل گیا تو میں اور میرے منجھلے بھائی شیر محمد خان صاحب جو کہ بذریعہ خط مشرف بہ احمدیت ہوچکے تھے۔ دوسو روپیہ لے کر قادیان دارالامان کی طرف چل پڑے اور رات میانی پٹھاناں رہے۔ دوسرے دن علی الصباح چل کر جب دریائے بیاس کے کنارے پہنچے تو یک بیک زلزلہ کا ایک ہوش ربا سخت جھٹکا لگا۔ جس سے بھائی صاحب تو فوراً زمین پر بیٹھ گئے اور بے ساختہ کہنے لگے کہ زمین غرق ہوچلی اور پھر کہا کہ دریا کا پل ٹوٹ گیا۔ میں نے کہا سخت زلزلہ آرہا ہے۔ اس وقت عجیب نظارہ تھا۔ دریائی پرندوں نے اس قدر شور برپا کیا کہ الاماں۔ دریا کا پانی کناروں سے باہر نکلا جارہا تھا اور زمین پاؤں سے نکلی جارہی تھی۔ اس وقت دل سے یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ کی بے اختیار صدا نکل رہی تھی۔
غرضیکہ جب زلزلے کا زور کم ہوا اور کچھ ہوش آئی توہم کشتی کا انتظار کرنے لگے۔ مگر ملاح ایسے خوف زدہ تھے کہ وہ کشتی کو چھونا بھی نہیں چاہتے تھے۔ آخر بہت سی دیر کے بعدجب مسافروں کا خاصہ مجمع ہوگیا اور سب نے انہیں سمجھایا تو انہوں نے کشتی پار لگائی۔ کشتی سے اتر کر ہم قبل از دوپہر قادیان پہنچ گئے اور یہاں پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ باہر باغ میں خیمے لگے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس بھی باغ ہی میں تشریف فرماہیں۔ میں نے وہ روپے جو ایک کھدر کے میلے سے رومال میں باندھے ہوئے تھے۔ حضرت کے حضور پیش کردیے اور آپ نے بندھی بندھائی روپیوں کی پوٹلی جیب میں ڈال لی اور تشریف لے گئے۔
حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص چوہدری چراغ دین صاحب احمدی ساکن بروئی ضلع ہوشیارپور وہ میرے ہم عمر اور واقف تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ روپیہ نذر کرنے پر آپ کی بہت آؤ بھگت ہوئی ہوگی۔ میں نے کہا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ خدا مجھے ایسے خیال سے محفوظ رکھے۔ وہ مجھ سے حیران ہوہو کر بار بار ایسا ہی کہتا گیا اور میں لاحولپڑھتا گیا۔ آخر وہ اپنی پست خیالی کی وجہ سے تھوڑے ہی دنوں بعد مرتد ہوگیا۔
اس واقعہ کا تذکرہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدس باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد ورفت وغیرہ کی وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا۔ تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں آپ فرماتے ہیں۔میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا۔ جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی اور پھر الگ ہوگیا۔ اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی۔ لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دوسو روپیہ تھا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا اور پھر اس نے اپنے لیے یہ بھی پسند نہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں۔ (انوار العلوم جلد 1صفحہ 381)
یہ کشف ابھی تشنہ تکمیل تھا اور رقم پیش کرنے والا بھی گمنام تھا ۔ حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ پھر انہی روپیوں کے متعلق حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ 1937ء کی تقریر میں بھی اعادہ فرمایا۔ لہٰذا اب میں نے بھی اس کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ نیز اس لیے بھی اب میں اس کے اظہار میں مسرت پاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کو باسی نہ ہونے دیں۔ کیونکہ اس سے قوت یقین پیداہوتی ہے۔ اس لیے ان کو چاہیے کہ ان نشانات کو براہین سے سجا سجا کر پیش کریں۔ لہٰذا برتعمیل حکم عرض کیا گیا ہے۔ورنہ خود نمائی کو میں نہایت ہی معیوب سمجھتا ہوں۔ البتہ خیال ہے کہ شاید اس ذکر سے کسی نیک روح کو نیکی کی تحریص پیدا ہو۔
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں ڈھائی سو روپیہ دینے کا ذکر تھا۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں عہد کرلیا تھا کہ اس ڈھائی سو روپیہ کو جب بھی خدا تعالیٰ توفیق دے گا۔ میں ہی ادا کر کے کشف کے پورا کرنے کا ثواب حاصل کروں گا۔ لہٰذا میں نے 1910ء میں اپنے اس ارادہ کی تکمیل میں خدا سے توفیق پاکر سبزے رنگ کا ایک عربی گھوڑا جو پچاس روپیہ میں خرید اتھا۔ معہ زین کے سید محمد علی شاہ صاحب کاٹھ گڑھی کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ جو آپ کی بیماری کے ایام میں بٹالہ امرتسر وغیرہ سے دوائیں لانے کے کام آتا رہا اور اسی طریق سے ڈھائی سو روپیہ کے کشف کے پورا کرنے کی توفیق پائی۔
حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحب نے جس خلوص سے یہ 250روپے اپنے امام کے حضور پیش کیے اس نے مزید مالی قربانیوں کی توفیق بخشی ۔ اس کی روداد بھی انہی سے سنیے فرماتے ہیں۔
1913ء میں خدا کی دی ہوئی توفیق سے اپنی جائیداد منقولہ اور غیرمنقولہ کا شرعی حصہ اپنی ہمشیرہ کو ادا کیا اور پھر 1914ء میں پھرترقی اسلام فنڈ میں تین پونڈ بوساطت شیخ یعقوب علی صاحب مسجد مبارک کے بالائی حصہ پر بعداز نماز مغرب بحضور حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓپیش کیے اور کئی ایک مہینوں کی پوری پوری تنخواہیں چندہ میں دیں اور 19؍ مارچ 1915ء کو مبلغ یک صد روپیہ نقد اپنی وصیت نمبر 882جائیداد اور غیرمنقولہ کے دسویں حصے کا ادا کیا اور یکم اگست 1930ء کو اپنی ماہوار تنخواہ نوے روپیہ کے دسویں حصہ کی بھی وصیت کی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے ایسی توفیق عطا فرمائی۔
(رجسٹر روایات نمبر 6 صفحہ 130 تا 132۔الفضل11؍ مارچ 2015ء)
سچ ہے ۔خدا کے کام نرالے ہیں کس کو کشف دکھایا کس کے دل میں اسے پورا کرنے کی تحریک کی۔ایک غیراحمدی کو مدد پر آمادہ کیا۔کتنی مشکل سے وہ شخص رقم لے کر قادیان پہنچا۔کشف کا آدھا حصہ مسیح موعود کی زندگی میں اور ایک حصہ آپ کے خلیفہ کی ذات میں پورا ہوا۔کشف میں بھی وہ شخص گمنا م تھا اور دیر تک گمنام رہا یہاں تک کہ خود اس نے تحدیث نعمت کے طور پر یہ واقعہ بیان کیا۔کیا یہ خدا کی ہستی کے زندہ ثبوت نہیں !
٭…٭…٭