شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: حضرت اقدس ؑکی نمازوں کا بیان(حصہ ہشتم۔آخر)
ایک نوجوان کی نماز جنازہ
“ایک اور شخص کا جنازہ حضرت اقدس علیہ السلام نے پڑھایا لیکن میں اس وقت نہیں تھا۔ اس متوفّی مرحوم کے رشتہ داروں نے اس واقعہ کا بیان کیا تھا کہ اٹھارہ بیس برس کا ایک شخص نوجوان تھا وہ بیمار ہوا اور اس کو آپؑ کے حضور کسی گاؤں سے لے آئے اور وہ قادیان میں آپ کی خدمت میں آیا چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا۔ صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب عادتِ شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی بعض کو بباعث لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آ گیا اور بعض گھبرا اٹھے (یہ گھبرانا اور چکرانا یا تھک جانا دراصل ابتدائی حالت ہے ورنہ بعد میں جو اس تعلیمِ حقہ اور صحبت کے یقینی رنگ میں رنگے گئے پھر تو ذوق و شوق کی حالت ہر ایک میں ایسی پیدا ہو گئی کہ دیر بھی عجلت معلوم ہوتی تھی اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ ابھی اور لمبی نماز کی جائے اور نماز اور دعاؤں کو طول دیا جائے روز بروز ہر ایک کا قدم ترقی پر تھا اور وقتاً فوقتاً سلوک کی منازل طے کرتا تھا اور یقین کا درجہ حاصل کرتا تھا اور یہی کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَکا نتیجہ اور علّتِ غائی ہے)بعد سلام کے فرمایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لیے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ یہ شخص بخشا گیا اس کو دفن کر دیا رات کو اس کی والدہ ضعیفہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانہ کیا۔ گو کہ اس کی والدہ کو اس کی موت سے سخت صدمہ تھا لیکن اس مبشر خواب کے دیکھتے ہی وہ ضعیفہ خوش ہو گئی اور تمام صدمہ اور رنج و غم بھول گئی اور یہ غم مبدّل بہ راحت ہو گیا۔”
(تذکرۃ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ صفحہ80-79)
آخری عمل …نماز
مؤرخہ 26مئی1908ءکو جب فجر کی اذان کان میں پڑی تو حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ
“کیا صبح ہوگئی”
جواب ملنے پر فجر کی نماز کی نیت باندھی اوراداکی۔”
(ملفوظات جلد دہم صفحہ459)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری میں بیمار ہوئے…سب سمجھے کہ وفات پاگئے اور یکدم سب پر ایک سناٹا چھا گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میں پھر حرکت پید اہوئی مگر حالت بد ستور نازک تھی اتنے میں صبح ہوگئی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی چارپائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اند ر کمرے میں لے آئے جب ذرا اچھی روشنی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود ؑنے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟ غالباً شیخ عبدالرحمٰن صاحب قادیانی نے عرض کیا کہ حضور ہو گیا ہے۔آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے۔تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یادنہیں کہ نماز پوری کر سکے یا نہیں ۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر12)
آپؑ کی تہجد اور نفل عبادت کا بیان
نماز تہجد
ایک بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شیخ رحمت اللہ صاحب کو فرمایا:
“ہم آپ کے واسطے دعا کرتے ہیں ۔آپ بھی اس وقت دعا کیا کریں ۔ایک تو رات کے تین بجے تہجد کے واسطے خوب وقت ہوتا ہے۔کوئی کیسا ہی ہو تین بجے اُٹھنے میں اس کے لیے ہرج نہیں ۔اور پھر جب اچھی طرح سورج چمک اُٹھے تو اس وقت ہم بیت الدعا میں بیٹھتے ہیں ۔یہ دونو وقت قبولیت کے ہیں۔ نماز میں تکلیف نہیں ۔سادگی کے ساتھ اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرے۔”
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ367)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ
“بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پنجگانہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کر تے تھے ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعات) جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد (آٹھ رکعات) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں … اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 3)
حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“ایک دفعہ جہلم جاتے ہوئے لاہور میرے دادا حضرت میاں چراغ دین صاحب مرحوم رئیس لاہور کے مکان مبارک منزل میں ٹھہرے اور رات یہاں ہی گزاری۔ایک کمرہ میں حضور کے سونے کے لیے جگہ بنادی گئی۔خاکسار بھی اسی کمرہ کے باہر دالان میں کمرہ کے دروازے کے پاس سو گیا تھا۔رات کو کوئی تین بجے جو میں جاگا اور اس کمرہ کے اندر حضور کو دیکھا تو حضور نماز پڑھ رہے تھے۔مَیں بھی وضو کرکے حضور کے پیچھے دور فاصلہ پر نماز پڑھنے لگ گیا۔میں نے بہت کوشش کی کہ حضور جتنا قیام یا رکوع یا سجدہ کرسکوں مگر نہ کرسکا۔صرف دو رکعت میں ہی مَیں سخت تھک گیا اور حضور ابھی اُسی رکعت میں تھے جس میں خاکسار شامل ہوا تھا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ 69-68 روایت ماسٹر نذیر حسین صاحب ؓ)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دودو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے۔جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوسے وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ تک اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثا کثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 320)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتا آیا ہوں۔اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضٰےصاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔جب کہ میں بالکل بچہ تھا۔آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔پھر جب صبح کی اذان ہوتی۔تو سُنّتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لیے مسجد میں جاتے۔اور با جماعت نماز پڑھتے۔نماز کبھی خود کراتے۔کبھی میاں جان محمد امام مسجد کراتا۔نماز سے آکر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے۔میں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔سنت گھر پر پڑھتے تھے۔”(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر491)
مصنف اصحاب احمد لکھتے ہیں :
“سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز باجماعت کے علاوہ سنن و نوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے پہلی سنتیں عموماً پڑھ کر گھر سے تشریف لاتے اور پچھلی سنتیں گھر میں تشریف لیجا کر ادا فرماتے تھے۔ البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشا کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے ، حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے۔ دو سنت ادا فرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوار کر پڑھی جاتی تھیں، کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی۔
ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نماز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی ، چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کی سعادت بھی مجھے نصیب ہوئی مگر وہ نماز بھی حضور کی بہت ہی پُر لطف مگر ہمیشہ ہلکی ہی ہوا کرتی تھی۔ ابتدا میں اکثر حضور کے ساتھ لگ کر حضور کےپہلو بہ پہلو بھی نما ز باجماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لیے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی۔ اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں ۔”
(اصحابِ احمد جلد نہم مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم۔اے صفحہ 155)
حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں :۔
“حضور سفر اور حضر میں ہمیشہ وتر نماز عشاء کے وقت ہی پڑھ لیا کرتے تھے۔حالانکہ حضور تہجد کے ہمیشہ عادی تھے۔پھر بھی وتر اوّل رات ہی ادا کر لیا کرتے تھے اگر حضور امام نماز سے پہلے مسجد میں تشریف لے آتے تو امام کی انتظار میں بیٹھے رہتے۔نمازوں کے جمع کرنے کی صورت میں سنتیں نہیں پڑھا کرتے تھے خواہ فرضوں کے اوّل کی ہوں یا بعد کی۔اگر کوئی دوست سنتیں پڑھتا تو اس کو منع فرما دیا کرتے تھے نمازیں عموماً حضور امام کے پیچھے پڑھتے تھے مگر جنازہ عموماً حضور ہی پڑھاتے تھے۔”(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ 85-84روایت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ؓ)
نماز تراویح
حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضور نماز تراویح گھر میں تہجد کے وقت ادا کرتے تھے اور اسی طرح احباب بھی اپنی اپنی جگہ تہجد میں آٹھ نفل تین وتر پڑھا کرتے تھے۔میں نے حضور کے زمانہ میں قادیان کی کسی مسجد میں نماز تراویح باجماعت ہوتے نہیں دیکھی۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد13صفحہ63روایت حکیم دین محمد صاحبؓ)
نماز اشراق
ایک دفعہ ذیابیطس کی مرض کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
“اس سے مجھے سخت تکلیف تھی۔ڈاکٹروں نے اس میں شیرینی کو سخت مضر بتلایا ہے …مگر عسل (شہد)تو خدا تعالےٰ کی وحی سے تیار ہوا ہے۔اس لیے اس کی خاصیّت دوسری شیرینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی۔اگر یہ ان کی طرح ہوتا تو پھر سب شیرینی کی نسبت شِفَاءٌ لِّلنَّاسفرمایا جاتا۔مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کیا ہے۔پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی تیاری بذریعہ وحی کے ہے اس لیے مکھی جو پھولوں سے رس چُوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزاء کو ہی لیتی ہوگی۔اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہد میں کیوڑا مِلا کر اُسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا حتٰی کہ میں نے چلنے پھرنے کے قابل اپنے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کو لے کر باغ تک چلا گیا اور وہاں دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں ۔”
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 249-248)
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“جب 4 اپریل 1905ء کا زلزلہ آیا تھا اس دن میں نے حضرت صاحب کو باغ میں آٹھ نو بجے صبح کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی تھی۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 203)
…………………(باقی آئندہ)