وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات
آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے ۔ انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بہت گہرے ہو گئے ہیں۔
ہر قوم ، مذہب اور معاشرہ کے لوگ دنیا کے ہر ملک میں سکونت پذیر ہیں اس لیے ہر قوم کے لیڈر تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھیں اور ان کا احترام کریں
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی میں وفاق کی فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(گزشتہ سے پیوستہ) ایک اَور سوال جو اکثر پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ کیا مسلمان یورپین ممالک کی افواج میں بھرتی ہو سکتےہیں اور اگر بھرتی ہو سکتے ہیں تو کیا وہ ان ممالک کی طرف سے مسلمان ممالک پر فوجی حملہ میں حصہ لے سکتے ہیں ؟ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ظلم کےکاموں میں مدد نہیں کرنی چاہیے ۔ ہر مسلمان کو یہ بنیادی حکم ہمیشہ اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے ۔ جب کسی مسلمان ملک پر اس لیے حملہ کیا جا رہا ہےکہ اس نے خود پہلے زیادتی اور ناانصافی سےکام لیا تھا اور جارحیت میں پہل کی تھی تب اس طرح کے حالات میں قرآن مسلمان حکومتوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے۔ یعنی انہیںچاہیے کہ ظلم کا سدباب کر کے قیام امن کی کوشش کریں ۔ پس اس طرح کے حالات میں کوئی قدم اٹھانے کی اجازت ہے ۔ تا ہم جب زیادتی کرنے والا ملک خود اپنی اصلاح کر لے اور امن کی طرف آجائے تو پھر اس ملک یا اس کے لوگوں سے کوئی زیادتی نہیں کرنی چاہیے یا جھوٹے بہانے اور عذر بنا کر انہیں زیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں دوبارہ حسب معمول آزادی اور خودمختاری دے دینی چاہیے۔ فوج کشی قیام امن کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے۔ اسلام بلا تفریق مسلمان یا غیر مسلمان تمام ممالک کو ظلم اور زیادتی سے روکنے کا حق دیتا ہے ۔ لہٰذا اگر ضرورت پیش آئے تو غیر مسلمان ممالک ان حقیقی مقاصد کےحصول کے لیے مسلمان ممالک پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ان غیر مسلمان ممالک کے مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے ممالک کی افواج میں شامل ہو کر دوسرے ملک کو ظلم سے روکیں ۔ جہاں ایسے حالات کا سامنا ہو تو مسلمان فوجی خواہ وہ کسی بھی مغربی ملک کی فوج میں شامل ہوں انہیں احکام کی تعمیل کرنا ہو گی اور ضرورت پڑنے پر قیام امن کی خاطر جنگ بھی کرنا ہو گی ۔ اگر ایک ملک کی فوج ناجائز طو رپر کسی دوسرے ملک پر حملہ کا ارادہ کرتی ہے اور ظالم بن جاتی ہے تو مسلمان کو اختیار ہے کہ وہ فوج کو چھوڑ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ظلم کاساتھ دے رہا ہو گا۔ ایسا فیصلہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ملک سے بے وفائی کر رہا ہے ۔ درحقیقت اس طرح کے حالات میں اس کی اپنے وطن سے وفاداری کا تقاضا ہو گا کہ وہ ایسا قدم اٹھائے اور اپنی حکومت کو مشورہ دے کہ وہ خود کو اس گڑھے میں گرنے سے بچائیں جس میں ناانصاف اور ظالم حکومتیں اور قومیں گرتی ہیں۔ اگر فوج میں شمولیت لازم ہو اور اسے چھوڑنے کی کوئی صورت نہ ہو اور اس شخص کا ضمیر بوجھل ہو تو اسے وہ ملک چھوڑ دینا چاہیے لیکن اسے ملکی قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی اجازت ہرگز نہیں کیونکہ کوئی مسلمان ایک ملک میں رہتے ہوئے اس ملک کے خلاف کام کر رہا ہو یا دشمنوں کا ساتھ دے رہا ہو تو اسے اس ملک میں بطور شہری رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
پس یہ اسلامی تعلیمات کے صرف چند پہلو ہیں جو تمام سچے مسلمانوں کی وطن سے وفاداری اور محبت کے حقیقی تقاضوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ وقت مقررہ میں مَیں نے اس موضوع کو مختصراً ہی چُھؤا ہے ۔
آخر پر مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے ۔ انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بہت گہرے ہو گئے ہیں۔ ہر قوم ، مذہب اور معاشرہ کے لوگ دنیا کے ہر ملک میں سکونت پذیر ہیں اس لیے ہر قوم کے لیڈر تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھیں اور ان کا احترام کریں۔ رہنماؤں اور ان کی حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جن سے سچائی اور انصاف کی روح اور ماحول پروان چڑھے نہ کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کریں۔ ناانصافیاں اور زیادتیاں ختم ہونی چاہئیںاور اس کےبدلہ میں حقیقی انصاف کے لیے کوشش کرنی چاہیے جس کے حصول کا بہترین طریق یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو پہچانے۔ پس ہر طرح کی وفاداری خدا سے وفاداری کی بنیاد پر ہونی چاہیے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت جلد تمام ممالک کے عوام میں وفاداری کے بہترین معیار قائم ہو جائیں گے اور ساری دنیا میں امن و امان کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ ……)
٭…٭…٭