تکالیف اور شدائد کا فلسفہ
اصل بات یہ ہے کہ انسانی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ زد و کوب ہی سے درست ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت انسان کی تکمیل چاہتی ہے اور خود عبودیت کا بھی تقاضا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تکمیل کرے۔ اس لئے منجملہ تکمیل کی صورتوں کے ایک شدائد اور مصائب بھی ہیں۔
انبیاء علیہم السلام جو بالکل معصوم اور مقدس وجود ہوتے ہیں وہ بھی تکالیف اور شدائد کا نشانہ بنتے ہیں۔ (بدر سے: ‘‘صرف خدا کی ایک ذات ہے جو تکمیل کےلئے کسی ذریعہ کی محتاج نہیں’’۔)اور ایسے مصائب ان پر آتے ہیں کہ اگر کسی اور پر آئیں تو وہ برداشت ہی نہ کر سکے۔ ہر طرف سے ان کے دشمن اُٹھتے ہیں۔ کوئی باتوں سے دُکھ دیتا ہے۔ کوئی حکام وقت کے ذریعہ تکلیف دینے کا منصوبہ کرتا ہے کوئی قوم کو اس کے بر خلاف اکساتا ہے۔ غرض ہر پہلو سے اس کو تکلیف دی جاتی ہے اور ہر طرح کی بے آرامی اور حُزن و غم اُن پر آتا ہے۔ باوجود اس کے ان ساری باتوں کا کچھ بھی اثر اُن پر نہیں ہوتا اور وہ پہاڑ کی طرح جنبش نہیں کرتے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نِکلسکتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ گنہگار ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو اس سے بڑھ کر بیہودگی اور کیا ہو گی۔ بچوں کی تکالیف کا مسئلہ انبیاء علیہم السلام کے مسئلہ سے خوب حل ہوتا ہے۔ معصومیت کے لحاظ سے بچہ سمجھ لو۔ یہ مصائب عبودیت کی تکمیل کے لئے ہیں۔(بدر سے: ‘‘مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک بیماری ایسی ہوتی ہے کہ جب آدمی کو کوئی مارتا ہے تب تک آرام رہتا ہے جب چھوڑ دیا جائے تو تب اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی انسان کو روحانی طور پر مار کھانے کی بیماری ہے۔’’)اور عالم آخرت کے لئے مفید ہیں۔ اگر ایسی حالت ہوتی کہ مرنے کے بعد بچّہ کی رُوح مفقود ہو جاتی تو بھی اعتراض کا موقعہ ہوتا۔ لیکن جب جاودانی عالم اور ابدی راحت موجود ہے تو پھر یہ سوال ہی کیوں ہے؟ اگر یہ سوال ہے کہ بغیر تکلیف کے اس ابدی راحت میں داخل کر دے تو پھر کہیں گے کہ معاصی کا بکھیڑا کیوں ہے اس کے ساتھ ہی داخل کر سکتا تھا۔ (بدر سے: ‘‘ اگر کوئی سوال کرے کہ خدا تعالیٰ نے یہ مصائب کا سلسلہ کیوں رکھ دیا۔ وہ بغیر اس کے کسی کو بہشت میں داخل کر سکتا تھا تو یہ فضول سوال ہے ہم خدا تعالیٰ کی ایک سُنت کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس طرح سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی ہے اور انسان کمزور ہے۔ اُس نے انسان کے واسطے یہی رکھا ہے کہ یا تو وہ خود مجاہدات اور ریاضات سے ترقی کرتا ہے یا آسمانی قضا و قدر اس سے یہ تکمیل کرا دیتی ہے۔’’) اس کا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی بے نیاز ہے۔ انسان کو نجات اور ابدی آسائش کے حصول کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ جب تک وہ تکالیف اور شدائد نہیں اُٹھاتا راحت اور آسائش نہیں پا سکتا۔
یہ شدائد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو انسان خود مجاہدات کرتا ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور اس طرح پر اکثر تکالیف میں سے ہو کر گذرتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ قضا و قدر خود اس پر کچھ تکالیف نازل کر دیتی ہے اور اس ذریعہ سے اسے صاف کرتی ہے۔ اس طریق میں بچّہ اور انبیاء علیہم السلام کے نفوس قدسیہ ہوتے ہیں۔ وہ بیگناہ اور معصوم ہوتے ہیں۔ اس پر بھی مصائب اور شدائد ان پر آتے ہیں۔ وہ محض ان کی تکمیل اور ان کے اخلاق اور صدق و وفا کے اظہار کے لئے انسان کے لئے سعی اور مجاہدہ ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ مصائب اور مشکلات بھی ضروری ہیں۔ لَیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (النجم:40)۔ جو لوگ سعی کرتے ہیں وہ اس کے ثمرات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور نفس کی قربانی کرتے ہیں۔ ان پر الٰہی قرب و انوار و برکات اور قبولیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور بہشت کا نقشہ ان پر کھولا جاتا ہے۔
یہ لوگ (بدر میں ہے: ‘‘آریہ کمبخت اندھے ہی چلے آئے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرا عالم بھی موجود ہے انسان خدا نہیں۔ اس میں کمزوریاں ہیں اور یہ کمزوریاں اس واسطے ہیں کہ وہ خدا کے برابر نہ کہلائے۔’’)
اس راہ سے بیخبر ہیں اور ان انعامات سے بے بہرہ۔ اس لئے ایسے گندے اور بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تو نجات کسی کو ملتی ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تناسخ مان بیٹھے ہیں ۔ ہم یقین رکھتے ہیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اس عالم کی تکالیف کا اجر دوسرے عالم میں ملتا ہے جس طرح پر انبیاء و رسل کو ملتا ہے۔ اسی طرح پر دوسرے لوگوں کو ملتا ہے۔ سنت اللہ یہی ہے اور انسانی کمزوری ضروری تھی تاکہ وہ خدا کا ہمسر نہ ہو۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے مظہر تجلیات الٰہیہ ہوتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مصائب اور شدائد اُٹھائے اور بہت سی ماریں کھائے۔(بدر سے: ‘‘جو لوگ مجاہدات کرتے ہیں۔ تکالیف پر صبر کرتے ہیں۔ ان کو بڑے درجات ملتے ہیں۔ اُن میں اور ان کے غیر میں ایک امتیاز اور فرقان رکھا جاتا ہے۔ وہ قضا و قدر کا نشانہ بنتے ہیں اور ماریں کھاتے ہیں۔ پھر بڑا فضل الٰہی ان کے شامل حال ہوتا ہے۔ ’’) یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی سچائی تجربہ سے ثابت ہورہی ہے۔ پس جب ایک واقعہ تجربہ سے ثابت ہو جاوے تو اس پر بحث فضول ہے۔
فرمایا: تناسخ کی دلیل میں جو امیر اور مفلس کا تفاوت پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک بیہودہ بات ہے۔ اس لئے کہ غنی کے لئے زکوٰۃ اور صدقات رکھے ہیں کہ وہ ادا کرے اور مفلس کے لئے صبر رکھا ہے اور دونو کے لئے اجر ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی نے دو چار کوس کا راستہ طے کرنا ہو۔ ایک شخص کے پاس تو عمدہ عمدہ کھانے ہوں اور دوسرے کے پاس ستّو ہی ہوں۔ دونو ہی اس راستہ کو طے کر لیں گے اور منزل مقصود پر جا کر اپنے اعمال کے موافق فائدہ اُٹھائیں گے۔ (حاشیہ بدر میں ہے: ‘‘آگے جا کر وہ دونو برابر ہیں’’)
تناسخ پر تو اس قدر اعتراض ہوتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک طرف تو یہ لوگ ناطہ رشتہ میں دور دراز کی گوتوں اور ذاتوں کا لحاظ کرتے ہیں۔ (حاشیہ بدر سے: ‘‘دُور سے اپنے لئے بیوی تلاش کرتے ہیں جہاں قرابت کا کوئی شائبہ نہ پایا جاتا ہو’’) دوسری طرف اگر بچہ کی ماں یا بہن اس کی چھوٹی عمر میں مر جاوے اور کسی دوسری جگہ جنم لے کر اس کے ساتھ بیاہی جاوے تو اس کے روکنے کا کیا انتظام ہے؟ (بدر سے: ‘‘اس صورت میں یہ ضرور تھا کہ پرمیشر ایسا کرتا کہ ہر ایک شخص کے پیدا ہونے کے وقت اس کے گلے میں ایک لمبی فہرست لٹکی ہوئی ہوتی کہ فلاں فلاں مرد اور عورت کے ساتھ اس کا یہ رشتہ ہے’’) اور پھر تناسخ کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ جرائم کے انواع بھی تجویز کریں۔ کیونکہ جس کثرت سے کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب جرائم ہی کی وجہ سے ہوں گے؟ اور پھر ہر جون کا گناہ الگ چاہیے۔ اس قسم کے بہت سے اعتراض اس مسئلہ پر وارد ہوتے ہیں۔ (بدر میں ہے: ‘‘ایک نہیں ایسے ہزاروں اعتراض تناسخ پر وارد ہوتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا بھی ایک کم بختی ہے۔ برسات میں تھوڑی دیر میں لاکھوں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں تو کیا برسات میں گناہ بہت کیا جاتا ہے؟ پھر جس قدر کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض دنیا میں موجود ہیں زمین کے اندر اور زمین کے اوپر ہوا میں اور درختوں پر اور سمندر میں غرض جس قدر اقسام جانوروں کے ہیں چاہیے کہ اسی قدر اقسام گناہوں کے شمار کئے جاویں۔ مثلاً گائے بہ نسبت کُتّے کے آرام میں ہے۔ گائے کی ہندو پوجا بھی کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گائے بنانے والا گناہ ایسا سخت نہیں جیسا وہ گناہ ہے جس کے ارتکاب سے انسان کُتّے کی جون میں ڈالا جاتا ہے۔ پس آریوں کے ذمہ ہے کہ جس قدر انواع جانداروں کے ہیں اسی قدر انواع گناہ کے ثابت کریں’’۔)
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 436تا 439۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭