جلسہ سالانہ کیمرون 2020ء کا بابرکت اور کامیاب انعقاد
ملکی انتظامیہ، قبائل کے چیفس، چیف امام مرکزی مسجد فومبان نیز متعدد معززین سمیت ساڑھے چار ہزار کے قریب افرادکی شمولیت مہمانوں کے مختصر خطابات و تاثرات میں جماعت احمدیہ کے خدمتِ اسلام اور خدمتِ انسانیت کے کاموں کا تذکرہ
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کے بنیادی امور میں سے ایک جلسہ سالانہ، آمد مسیح و مہدی کی غرض و غایت کو پورا کرنے والی ایسی عمدہ شاخ ہے کہ جس نے سارے عالم میں تبلیغ، تربیت، دعاؤں، اخوت و محبت اور اصلاح نفس کا بفضلہ تعالیٰ جال بچھا رکھا ہے۔ دنیائے احمدیت کے کسی کونے میں کسی ملک کا جلسہ ہو، برکاتِ خلافت کے تحت وہی روحانی ماحول، نمازوں، دعاؤں، ذکرالٰہی، علم و معرفت اور تعلق باللہ کے خزانے سمیٹنے کی ہر ایک کو توفیق مل رہی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے احیائے دین کی کیسی ہوا چلا رکھی ہے کہ بلاشبہ یُحْیِی الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ کے نظارے نظر آتے ہیں۔
اس وقت ان تمام مذکور مناظر کی ایک جھلک قارئین کے سامنے کیمرون کے جلسے کے بیان کے ذریعے رکھنی مقصود ہے۔ امسال یہ جلسہ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ازراہ شفقت منظوری سے مورخہ 25، 26 جنوری 2020ء کو کیمرون کے ویسٹرن ریجن کی جماعت فومبان کے ایک سیکنڈری سکول Lycee Clasique Du Foumban میں منعقد کیا گیا۔ (اس سکول کی اپنی بھی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ 1961ء میں اس سکول میں انگریزی اور فرانسیسی بولنے والوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم اکٹھے رہیں گے۔)
افتتاحی اجلاس
یہ جلسہ گاہ اگرچہ بالکل نئی جگہ تھی مگر حضرت مسیح موعودؑ کے جیالے نومبائعین نے دن رات محنت کرکے بہت ہی عمدہ انتظامات کرلیے تھے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔ چنانچہ جلسے کے پہلے دن کی ابتدا حسب روایت صبح نماز تہجد ، فجر اور درس سے ہوئی جبکہ افتتاحی تقریب زیر صدارت نیشنل پریذیڈنٹ مکرم ابراہیم بالا صاحب 10:30 بجے صبح تلاوت کلام پاک سے شروع کی گئی جو مکرم حافظ زکریا احمد صاحب نے کی جبکہ قصیدہ مکرم آمینو بارا صاحب نے پڑھا پھر محترم صدر مجلس نے حضور پُرنور حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے جلسہ سالانہ کیمرون کے لیے بھجوایا جانے والا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا ۔ جس کا فرانسیسی زبان اور پھر مقامی زبانوں باموں اور خلبےمیں لفظ بہ لفظ ترجمہ کرکے سنایا گیا۔ حضورِ اقدس کا پیغام نومبائعین اور احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کلیدی پیغام تھا جس میں پیارے آقا نے شاملین جلسہ کو دعائیں دے کر حضرت مسیح موعودؑ کے آخری زمانے کے لیے پیشگوئیوں کے مطابق مسیح و مہدی ہونے کا ذکر فرمایا ور آپ کی آمد کے دو بنیادی مقاصد
1۔انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا
2۔اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا ، بتائے تا آج کی دنیا میں حقیقی امن اور معاشرتی سکون حاصل ہوسکے۔نیز احباب جماعت کو اصلاحِ نفس کرتے ہوئے نیکی، تقویٰ، دوسروں سے حسن سلوک کی نصیحت فرمائی اور ماحول میں محبت، برداشت، بھائی چارے کا نمونہ بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو بڑھانے کا ارشاد فرمایا نیز جلسہ سالانہ کی کامیابی اور خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وفا و اخلاص کے ساتھ وابستہ رہنے کی دعا دی۔
حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے اس پُرشوکت پیغام کے بعد مقامی مربی سلسلہ مکرم تجانی احمد ابراہیم صاحب کی تقریر تھی جس میں آپ نے ‘‘امن کا شہزادہ حضرت محمد ﷺ’’ کے عنوان کے تحت سیرت طیبہ کے واقعات سے جلسہ کو منور کیا۔اور دوسری تقریر مکرم خلیل احمد خان صاحب مبلغ سلسلہ چاڈ کی تھی جو آپ نے ‘‘حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا عشق قرآن و عشق رسولﷺ’’ کے عنوان پر واقعات حیات طیبہ سے خوب مزیّن کررکھی تھی۔
اس پہلے سیشن میں ان دو تقاریر کے بعد جلسے میں مہمان حضرات اور اتھارٹیز کے خیالات کا اظہار تھا جن میں سے چند ایک ذیل کی سطور میںد رج کیے جاتے ہیں۔
٭ نمائندہ چیف آف کومبا (Kumba): اگر آج میں آکر اس جلسے کو نہ سن پاتا تو مجھ پر شاید کبھی بھی احمدیت کی حقیقت نہ کھلتی ۔ آج تک میں ‘‘احمدیت اینٹی اسلام موومنٹ اور آج کا عالمی خطرہ احمدیت’’کے خیالوں میں ہی گم تھا۔ اس جلسے سے میری آنکھیں کھل گئی ہیں اور مَیں پورے یقین اور جوش سے کہہ رہا ہوں کہ یہی مسلم آرگنائزیشن ہے جو جانتی ہے کہ اسلام کو دنیا میں کیسے Propagateکرنا ہے۔ مَیں نہیں سمجھتا تھا کہ احمدیت قرآن، اللہ تعالیٰ اور محمدﷺ پر یقین رکھتی ہے۔ مگر آج کہہ سکتا ہوں کہ جیسا ان کا یقین ہے دوسروں میں نہیں۔ یہ ہر ایک سے محبت کی تعلیم دے رہے ہیں اور قرآن اور محمد رسول اللہﷺ سے جیسا عشق بانی احمدیت نے کیا ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔ مَیں شکرگزار ہوں مسٹر ابراہیم بالا کا جس نے مجھے جلسے پر آنے کے لیے مدعو کیا اور آج میرے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلیں۔
٭ اسسٹنٹ میئر آف یابناکا:میں خوش ہوں کہ آج احمدیت کو سنا اور اسلام کا اصل چہرہ سامنے آیا ابھی تک یہی معلوم تھا کہ اسلام انتہاپسند مذہب ہے مگر آج کی تقریر سے معلوم ہوا کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ امید ہے کہ یابناکا میں بھی آپ آکر ہمیں اسی پُرامن تعلیم سے آگاہ کریں گے۔
٭ چیف آف جِنکا (Ngenka): میں اس جلسے کی انتظامیہ اور جماعت احمدیہ کا شکرگزار ہوں جنہوں نے ہمارے ملک کے تمام ڈیپارٹمنٹس کے باشندوں کو خواہ وہ انگریزی بولنے والے ہوں یا فرانسیسی بولنے والے، دونوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیا ہے۔ یہ ہے حقیقی کامیابی۔ یقینا ًآپ ہی امن قائم کرسکتے ہیں۔ اب سے چند دن بعد الیکشن ہیں۔ پس مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ کوشش کریں اور دعا بھی کہ آمدہ الیکشن امن سے گزریں۔
ان اتھارٹیز کے خیالات کے بعد مکرم صدر مجلس نے دعا کروائی اور نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد کھانا پیش کیا گیا۔
جلسہ کا دوسرا سیشن
زیرصدارت مکرم عبدالخالق نیر صاحب مبلغ انچارج کیمرون بعد سہ پہر 4:30 بجے مکرم آدم لوسی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے اس دوسرے سیشن کا آغاز ہوا اور ایک مقامی معلم مکرم ابوبکر صاحب نے اردو نظم بہت ہی عمدہ اردو لہجے اور ترنّم میں پڑھی جس کے بعد مقامی معلم مکرم سلیمان عیسیٰ آدم صاحب نے جماعت احمدیہ کا ماٹو ‘‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’’ پر خوب اچھی تقریر کی۔ آپ نے آنحضورﷺ کی تعلیم کو مسیح موعودؑ کے ذریعے دنیا میں قائم کرنے کا ذریعہ محبت و اخوّت بیان کیا اور پھر خلفائےکرام کے حوالوں سے جماعت احمدیہ کا سو سالہ کردار بھی بتایا نیز پاکستان میں ہونے والے واقعات کے باوجود جماعت احمدیہ کی ملکی و عالمی خدمات کا ذکر کیا۔
اس سیشن کی دوسری تقریر خاکسار کی تھی جس کا عنوان تھا ‘‘ذکرالٰہی محبت و اخوّت نیز بھائی چارے کی بنیاد ہے’’۔خاکسارنے ذکرالٰہی کی اقسام قرآن و حدیث سے بیان کیںنیز بتایا کہ ذکرالٰہی کے طریق اور اس کے فوائد اور ذکرالٰہی کی ہر قسم ہمیں محبت و بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔
اس تقریر کے بعد وہاں پر موجود ایک معمر اتھارٹی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں یوں خیالات کا اظہار کیا۔
٭ چیف آف گُلے رے (Goulere):مَیں اگرچہ بوڑھا دکھائی دیتا ہوں مگر میری عمر صرف تین سال ہے۔ مَیں دل کی گہرائیوںسے جماعت احمدیہ کا شکرگزار ہوں کہ مجھے جماعت سے تین سال قبل رابطہ ہوا جب احمدیت میرے گاؤں آئی۔ لوگوں نے مجھے جماعت کے روکنے کے لیے زور لگایا ۔ جماعت کی بہت مخالفت تھی۔ مَیں نے جماعت کی کتابیں پڑھنی شروع کیں جہاں ہر طرف امن ہی امن کی تعلیم نظر آئی اور دوسرے جھوٹے نظر آئے۔ جب مجھے جلسے کا دعوت نامہ ملا کہ اس بار جلسے کا عنوان ہے: ‘‘اسلام امن کا مذہب ہے’’ تو مَیں امن کی تلاش میں آگیا۔ جس طرح احمدیت امن پھیلا رہی ہے ہر عقل مند اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ مکرم تجانی صاحب اور مبلغ صاحب چاڈ کی تقاریر نے مجھے احمدیت کا پیغام سمجھا دیا ہے اور مَیں آج جماعت احمدیہ کے پیغام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔
چیف آف گلے رے صاحب کا ایمان افروز خطاب پنڈال کو نعرہ ہائے تکبیر سے خوب رونق بخش رہا تھا۔ اس کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اور نمازوں کے بعد مکرم معلم عبدالکبیر صاحب (گنی اکٹوریل) نے درس ملفوظات دیا۔
بعدازاں احباب کی خدمت میں طعام پیش کیا گیا اور پھر مجلس سوال و جواب رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہی۔
جلسہ کا آخری روز:آج کا آغاز بھی حسب روایت نماز تہجد، فجر اور درس سے ہوا جبکہ دس بجے صبح اختتامی تقریب منعقد ہوئی۔
اختتامی تقریب: زیرصدارت نیشنل صدر جماعت احمدیہ کیمرون مکرم ابراہیم بالا صاحب۔ اس میں تلاوت مکرم حافظ عیسیٰ صاحب نے کی جبکہ نظم مکرم معلّم آمینو بارا صاحب نے پڑھی اور پھر ‘‘ذکرحبیب سیرۃ طیبہ حضرت حکیم نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاوّلؓ’’کے عنوان پر مکرم مشنری انچارج صاحب کیمرون جناب عبدالخالق نیر صاحب نے تقریر کی ۔ آپ کی تقریر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے تعلق باللہ، اطاعتِ رسول اور خدمت خلق کے ایمان افروز واقعات سے خوب مزیّن تھی جو حاضرینِ مجلس میں جوش دار نعروں کا موجب بنتی رہی۔
مکرم مشنری انچارج صاحب کے بعد لوکل معلّم مکرم ابوبکر صاحب نے ‘‘ہیومینٹی فرسٹ کی ملکی و عالمی خدمات’’ بیان کیں۔ آج کے اس اختتامی سیشن میں ملکی اور ایریا کی گورنمنٹ اتھارٹیز نے اپنے نمائندے بھجوائے ہوئے تھے حتیٰ کہ سنٹرل چیف امام مرکزی مسجد فومبان بھی یہاں موجود تھے ۔معزز مہمان یکے بعد دیگرے وقفہ وقفہ سے پہنچ رہے تھے اور جونہی پتہ لگتا کہ ابھی فلاں گورنمنٹ اتھارٹی یا فلاں نمائندہ آیا ہے تو موجود غیراحمدی مہمانوں نیز غیرازجماعت مخالف فرقوں پر ایک اثر طاری ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
اس جلسے کی اختتامی تقریر جو جلسے کے مرکزی عنوان ‘‘اسلام مذہب ہے امن و آشتی کا’’ پر تھی خاکسارنے فرانسیسی زبان میں کی جس میں خاکسار نے اوّلاً اسلام کو ٹارگٹ کرنے والی سوچوں کا جائزہ لیا اور پھر آقا و متاع رسول اللہﷺ ، خلفائے راشدین دور اسلام اور حضرت مسیح موعودؑ نیز خلفائے مسیح موعودؑ کے اقتباسات و واقعات سے اسلام کا حقیقی اور روشن چہرہ پیش کیا۔ نیز اسلام کے حق میںغیرمسلم سکالرز کے تائیدی حوالہ جات بھی پیش کیے جو معترضین نیز اتھارٹیز میں حقّانیتِ اسلام واضح کررہے تھے جن کا اظہار اُن کے تبصروں سے بھی ہوا۔
اس تقریر کے بعد اتھارٹیز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا۔
چند ایک اتھارٹیز کے تبصرے:
٭ نمائندہ لامیدو آف گاؤنڈے رے مکرم سلیمانو سلیمان صاحب:احمدیت ہم سب کو اکٹھا کرنے والی اور اکٹھا رکھنے والی پُرامن سوسائٹی ہے اور اسی کے ذریعے ہم سب اکٹھے ہوکر جنت تک جاسکتے ہیں۔ ان سے دائمی زندگی مل سکتی ہے کیونکہ جہاں امن، محبت اور بھائی چارہ نہیں وہاں دائمی زندگی کی بھی گارنٹی نہیں۔ لامیدو نے احمدیت کی تحقیق کی ہے۔ پہلے شکوک تھے اب نہیں ہیں۔ کیمرون کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی آداماوا میں ہے جہاں 90% مسلمان ہیں۔ وہاں لامیدو نے جماعت کو ایک بڑی زمین دی ہے کہ اپنے سکول بنائے، ادارے بنائے۔
٭ میئر آف یابنا:دعا و سلام کے بعد کہنے لگے کہ جب احمدیت میرے علاقے میں آئی تو مَیں خوف زدہ ہوا کہ یہ تو دہشت گرد تنظیم ہے۔ ہمارے لیے بڑے مسائل کھڑے ہونے والے ہیں اور ہر ایک آکر مجھے ان کے خلاف ہی کان بھرتا۔ مگر آج مَیں اس بات کو علی الاعلان کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھے کبھی ان سے کوئی پریشانی نہیں ملی۔ یہ بہت منظم اور پُرامن تنظیم ہے جو سب سے محبت کرتے اور ہر ایک کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی چیز نے مجھے یہاں آنے کے لیے آمادہ کیا ہے۔
٭ میئر آف بے (Mbe): حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا تھا کہ ‘‘مجھے بنی اسرائیل کی اَور بھی بھیڑوں کو اکٹھا کرنا ہے’’ آج یہاں ملک کے ہر ریجن سے لوگ دیکھ کر کیا انگریزی بولنے والے اور کیا فرانسیسی سب کو اکٹھا کر کے انہوں نےمسیح کے مشن کو پورا کرنے کا ثبوت دیا ہے۔ پس یہی لوگ ہیں جو دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرسکتے ہیں۔
٭ نمائندہ لامیدو مروا مکرم محمد امین گُوجا صاحب:مَیں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اور پھر مبلغ انچارج اور صدر صاحب کیمرون کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہمارے ملک میں محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ، کی فضا پھیلائی ہے جس کے لیے ہمارے صدر مملکت بھی برسوں سے کوشش میں لگے ہیں۔ جماعت احمدیہ اپنے فلاحی کاموں، پانی کے نلکے لگواکر، مساجد بنواکر ثابت کررہی ہے کہ یہ حقیقی خدمتِ انسانیت کرنے والی تنظیم ہے۔
٭ نمائندہ سلطان آف باموں:بار بار جماعت احمدیہ کے خلیفۃالمسیح کا شکریہ ادا کرنے لگے کہ آج اس جماعت کے ذریعے سے پھر انگریزی ایریا کے لوگ اور فرانسیسی ایریا کے لوگ ہمارے ملک میں ایک جگہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ برسوں کے بعد جماعت احمدیہ کی کوششوں سے یہ پُرامن فضا قائم ہوئی ہے۔ ہم ان کوششوں کو خوش آمدید کہتے اور بھرپور سراہتے ہیں۔
٭ چیف امام سنٹرل مسجد فومبان:اگر آج میں بات کر رہا ہوں تو خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مجلس میں جو امن کے نام پر لگائی گئی ہے آنے کا موقع دیا۔ گزشتہ سال میں حاضر نہیں ہوسکا تھا کہ لوگوں کی طرف سے مجھے کافی چیلنجز تھے۔ میں عرصے سے احمدیت کی تحقیق میں تھا اور جب بھی لوگوں کو احمدیت کے متعلق بتانا چاہتا تھا تو مجھ پر مختلف الزام لگادیتے کہ تُو بھی مسلمان نہیں۔ یہ لوگ بھی کافر ہیں ۔ اب امسال انتظام ہوا ہے اور میں بھی آیا ہوں جس طرح دوسرے آئے ہیں۔ احمدیت کیا پیغام دیتی ہے کہ ‘‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’’۔ آج جو لیکچر ہوئے ہیں سب نے سنے ہیں۔ ان کا اَور کوئی مقصد نہیں بس یہ کہ اسلام احمدیت تمام دنیا کو ایک جھنڈے تلے کھڑا کرنا چاہتی ہے جو امن کا جھنڈا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کا جھنڈا ہے اور قرآن کا جھنڈا ہے۔ اگر اسلام ایسا ہی ہوتا تو لوگ ایسے ہی اکٹھے رہتے اور یہی ملک کے صدر پاؤل بیاڈ صاحب کا مقصد ہے۔
٭ گورنر آف ویسٹرن ریجن:آپ نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امن طاقت استعمال کرنے سے نہیں بلکہ جو طریق جماعت احمدیہ نے اختیار کیا ہے پیار و محبت کا اس سے حاصل ہوتا ہے چنانچہ ہمیں چاہیےکہ اگر ہم حقیقی امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو جماعت احمدیہ کے طریق پر چلیں تبھی ملک میں امن نصیب ہوگا۔
اتھارٹیز کے ان تبصروں کے بعد مکرم صدر صاحب مجلس اور پھر مشنری انچارج صاحب نے باری باری سب کا شکریہ ادا کیا اور اختتامی دعا کروائی۔
مکرم مشنری انچارج صاحب نے بتایا کہ اس جلسے میں ملک کے دس ڈیپارٹمنٹس کی 65 جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی ہے اور اس طرح کُل چار ممالک (کیمرون، نائیجیریا، چاڈ اور اکٹوریل گنی) کے نمائندگان نے شرکت کی ہے۔ آپ نے بتایا کہ ملک کے دوردراز علاقوں سے 4367کی تعداد میں نمائندگان نے جو شرکت کی ہے ان میں سے ایسے بھی تھے جو دو دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر شکستہ حال سڑکوں اور خراب راستوں سے خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعےطے کر کےجلسہ گاہ تک پہنچے اور مسیح موعودؑ کے جلسے کی برکات سمیٹتے ہوئے واپس جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور نفوس و اموال میں برکت ڈالے اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو اور تمام شاملین میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو۔ آمین۔
اس جلسے کی سیکیورٹی کے لیے خدام کے علاوہ مقامی پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے بھی بھرپور تعاون کیا نیز 4ریڈیو، 3 اخبارات، 7 ٹی وی اسٹیشنز نے کوریج دی اور نمائندوں کے انٹرویو لیے اور نشر کیے۔
جلسے میں کھانے کا انتظام لجنہ اماء اللہ نے بڑے احسن طریق پر سرانجام دیا اور عین وقت پر سب کو کھانا ملتا رہا اور پروگرامز بھی وقت پر شروع ہوتے رہے۔ نیز جلسے کے بعد سوموار تا جمعرات کیمرون کے معلّمین و داعیان الی اللہ کا ریفریشر کورس بھی کیا گیا جس کی حاضری 25 افراد رہی۔ (الحمدللہ علی ذالک)
(رپورٹ: ناصر احمد محمود طاہر ۔مبلغ سلسلہ نائیجیریا)