ایک عظیم الشان پیشگوئی اور اس کا ایمان افروز ظہور
یہ عجیب تصرف الٰہی تھا کہ اس فرزند موعود کا اعلان ِولادت اسی اشتہار ‘‘تکمیل تبلیغ’’میں شائع کیا گیا
جس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لیے دس بنیادی شرائط بیعت کا ذکر فرمایا ہے
اللہ تعالیٰ کی ازل سے یہ سنت جاری ہے کہ جب بھی وہ دنیا میں کوئی رسول یا نبی بھیجتا ہے تو اپنے فرستادہ کی صداقت ظاہر کرنے کی خاطر اسے آسمانی نشانات سے نوازتا ہے۔یہ آسمانی نشانات اور پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کو بھی ثابت کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرستادےکی صداقت اور سچائی پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔
ہمارے اس زمانہ میں جو امت محمدیہ کا دور آخَرین ہے اللہ تعالیٰ نے سرور کائنات‘ خاتم الانبیاء’حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے روحانی فرزند جلیل ،سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو احیائے اسلام کی خاطر ،ایک امتی نبی کے طور پر ،امام مہدی اور مسیح موعود کا منصب عطا فرماکر مبعوث فرمایا۔آپ کی آمد کا مقصد حبیبِ خدا ﷺ کے لائے ہوئے محبوب دین، دینِ اسلام کو سب دینوں پر غالب کرنا ہے۔ اس عظیم مقصد کی خاطر آپ نے ساری زندگی وقف کیے رکھی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی جو آپ کے مشن کو لے کر اکناف عالم میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔دنیا کے گوشے گوشے میں عظمتِ اسلام کا علَم لہرارہاہے اور شش جہات میں لوگوں کے دل اسلام کی خاطر جیتے جا رہے ہیں۔ احیائے اسلام کے ایک بابرکت دور کا آغاز ہو چکا ہے جس کا اختتام عالمگیر غلبۂ اسلام کی صورت میں مقدر ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے بکثرت ایسی پیشگوئیاںبطور نشان عطا فرمائیں جو اپنے وقت پر بڑی شان سے پوری ہوئیں اور آپ کی صداقت کا نشان ٹھہریں۔ ان پیشگوئیوں میں سے ایک عظیم الشان پیشگوئی مصلح موعود سے متعلق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو 1882ء میں ماموریت کے الہام سے مشرف فرمایا۔آپ نے خدمت ِاسلام کا عَلَم اس شان سے بلند فرمایا کہ آپ کی خدمات کی بازگشت برصغیر سے نکل کر یورپ اور امریکہ میں بھی سنائی دینے لگی۔آپ نے ساری دنیا کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور صداقتِ اسلام کے نشانات اس غلامِ احمد کے ذریعہ مشاہدہ کریںجس کو خداتعالیٰ نے مقامِ ماموریت سے نوازا ہے۔قادیان کے رہنے والے غیر مسلموں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ باقی دنیا کے لیے نشان نمائی کا اعلان فرما رہے ہیں۔ہم جو آپ کے پڑوس میں رہتے ہیں ہمارے لیے بھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان دکھلایا جائے۔حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اس مخلصانہ درخواست کو قبول فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور تخلیہ میں خصوصی دعائوں کے لیے سوجان پور جانے کا ارادہ فرمایا ۔اس مرحلہ پر الہاماً آپ کو بتایا گیا کہ تیری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔چنا نچہ 1886ءکے شروع میں آپ اس عظیم روحانی مجاہدہ کے لیے ہوشیار پور تشریف لے گئے۔
قریباً40؍روز کی گریہ و زاری کا شیریں پھل رحمت الٰہی نے آپ کی جھولی میں ڈال دیا۔اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپ کو بشارت دی کہ
‘‘ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں ۔اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا۔سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا۔’’
جس نشان ِرحمت کی نوید آپ کو سنائی گئی اس کے بارہ میں الہامی الفاظ یہ تھے۔
‘‘ قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے۔فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر ! تجھ پر سلام’’
جو نشان آپ کو عطا کیا جانے والا تھااس کی عظمت کا ذکر کرنے کے بعد اس کے عظیم الشان مقاصد اوربرکات کا بھی اس الہام میں ذکر ملتاہے۔
‘‘ خدا نے یہ کہا کہ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیںباہر آویں اور تا دین ِاسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔’’
(اشتہار 20؍فروری 1886ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 101تا102)
اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کی مظہر ، اس عظیم الشان پیشگوئی میں آپ کو دو بیٹوں کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی۔ایک بیٹا تو مہمان کے طور پر تھا جو ولادت کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا تھا جبکہ دوسرا بیٹا لمبی عمر پانے والا،اور غیر معمولی صفات کا حامل اور خارِق عادت کارہائے نمایاں سر انجام دینے والا بابرکت وجود تھا۔
20؍فروری1886ء کو شائع ہونے والی یہ عظیم المرتبت پیشگوئی ہر لحاظ سے خدائے قادر کی قدرت اور جلال کی آئینہ دار ہے۔ پیشگوئی کے وقت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی عمر اکاون سال ہو چکی تھی۔کون جانتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی لمبی ہوگی۔یہ حتمی وعدہ دیا گیا کہ فرزند موعود نو سال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہوجائے گا۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس وقت تک زندہ رہے گااور اس کی بیوی بھی زندگی پائے گی۔ پھر اولاد ہونے کا کون ضامن ہے؟ اولاد ہو بھی تو بیٹا ہو گا یا بیٹی، کون اس کا دعویٰ کر سکتا ہے۔اگر بیٹا بھی ہو تو کسے معلوم کہ وہ زندہ رہے گا یا نہیں۔اور اگر وہ زندہ رہے تو کن صفات کا حامل ہوگا۔اور زندگی میں کیا کرے گا۔یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے بارہ میں کوئی انسان بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہ سب باتیں غیب کے پردوں میں چھپی ہوتی ہیں۔عالم الغیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ہاں وہ شخص بتا سکتا ہے جس کو خدائے ذوالجلال نے اس کا علم دیا ہو!
دنیا کے مادہ پرست لوگوں نے اورتاریکی کے فرزندوں نے جب یہ حتمی اعلانات سنے تو اپنی جہالت سے بدزبانی پر اتر آئے۔خدا کی بتائی ہوئی باتوں پر پھبتیاں کسنے لگے اور ہر بات کو تمسخر کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے بھی عجیب رنگ دکھایا۔
پیشگوئی کے چند ماہ بعد آپ کے ہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوئی۔مخالفین جھٹ بول پڑے کہ پیشگوئی غلط ہو گئی۔ابھی ان کا مزید امتحان مقصود تھا۔ اگلے سال آپ کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی لیکن وہ پندرہ ماہ بعد وفات پا گیا۔مخالفین نے ایک بار پھر شادیانے بجائے کہ خدا کی بات اور آپ کی بتائی ہوئی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی۔ لیکن نہیں ۔ کون ہے جو خدا کی بات کو جھوٹا کر سکے اور کون ہے جو خدائی تقدیر کے راستہ میں کھڑا ہوسکے ؟مخالفین کی ان تعلّیوں کے جواب میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کامل یقین،جلال اور تحدی سے فرمایا کہ فرزند موعود خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔
چنانچہ وہی ہوا جو ازل سے مقدر تھا۔پیشگوئی میں پہلے روز سے بتائی گئی نو سالہ مدت کے اندر 12؍جنوری 1889ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو ایک فرزند عطا فرمادیا!
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فرزند موعود کی ولادت کا ذکر اسی روز ایک اشتہار کے ذریعہ کر دیا ۔عجیب تصرف الٰہی دیکھیے کہ یہ اعلان ِولادت اسی اشتہار ‘‘تکمیل تبلیغ’’میں شائع کیا گیا جس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لیے دس بنیادی شرائط بیعت کا ذکر فرمایا ہے۔یہ حسن ِتوارد بھی مصلح موعود سے متعلق اس پیشگوئی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
فرزند موعود ۔جس کا پورا نام صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓہےپیشگوئی کے عین مطابق پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پچاس سے زائد صفات کا حامل ہوا جن کا ذکر پیشگوئی میں کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
‘‘وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے پاک کرے گا۔وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم۔ اور علوم ِظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا…دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔فرزند دلبند گرامی ارجمند ۔
مَظۡھَرُ الاوَّلِ والَاخِر مَظۡھَرُ الحَقِّ وَالعُلَاء۔کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَل مِنَ السَّمَاءِ۔
جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔نور آتا ہے نور۔جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ۔ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔تب اپنےنفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جا ئے گا۔وَکَانَ اَمْرًامَقْضِیاً ۔’’
(اشتہار 20؍فروری 1886ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 101تا102)
اس پیشگوئی میں مذکور ایک ایک با ت اپنی ذات میں ایک عظیم پیشگوئی ہے۔ایک ایک صفت ایسی ہے کہ جس کو یہ نصیب ہو جائے وہ عظمت و شوکت سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔پھر اس موعود فرزند کی عظمت کا اندازہ کیجیے جو ان سب صفات کا مصداق بننے والا تھا۔دنیا کی نظر میں تو شایدان اوصاف ِعالیہ کا ایک فرد واحد میں اجتماع قطعاً ناممکن بات ہو لیکن یہ اس قادر و توانا ، رب ذی الجلال والاکرام کا کلام اور اس کی پیشگوئی تھی جس کے آگے کوئی بات انہونی اور مشکل نہیں۔خدا نے جو چاہا وہ با لآخر ہو کر رہا!
ناممکن اور نا مساعد حالات کے باوجود یہ سب باتیں پوری ہوکر رہیں۔دنیا نے دیکھا، اپنے اور بیگانے،دوست اور دشمن سب اس بات کے زندہ گواہ بنے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس گھر میں پیدا ہونے والا فرزند موعود ۔مصلح موعودکے طور پر مطلَع عالم پر بڑی شان سے ابھراجو صفات اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام میں بتائی گئی تھی وہ ان سب کا مصداق ثابت ہوا۔خدا کا سایہ ہمیشہ اس کے سر پر رہا۔وہ جلد جلد بڑھا اور پیشگوئی میں مذکور ہر ایک بات کو پورا کرتے ہوئے فائز المرام اس دنیا سے رخصت ہوا ،اس عظمتِ شان کے ساتھ کہ اس کا نیک تذکرہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا کہ وہ خدائے رحمان کا ایک عظیم نشان تھااور ظاہر ہے کہ خدائی نشانوں کی عظمت کبھی ماند نہیں پڑتی۔
اس اجمالی ذکرکے بعد آئیے ذرا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے قدم بقدم چل کر دیکھیں کہ اس مقدس وجود نے کن رفعتوں کو چھؤ ا، کون سے کارہائے نمایاں سر انجام دیے اور کس طرح خدمت دین کے لیے اپنی حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ قربان کر دیا۔
26؍مئی1908ء کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا وصال ہوا۔حضرت مصلح موعودؓ آپؑ کے بچوں میں سب سے بڑے تھے۔اچانک اس عظیم خلاء سے گھریلو اور خاندانی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ پر جو بوجھ آن پڑا اس کا اندازا کیا جا سکتا ہے۔لیکن اس ذاتی صدمہ سے بڑھ کر آپ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے لائے ہوئے مشن کو خدانخواستہ کوئی نقصان نہ پہنچے۔ایسے نازک اور درد بھرے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ،جو اس وقت انیس سال کے تھے ، حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے جنازہ کے پاس کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ
‘‘اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جائوںگا، تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروںگا۔’’
(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 560)
یہ وقتی اور جذباتی اظہار نہ تھا، ایک سچا اور قطعی پیمان ِوفا تھا جس کو آپؓ نے ہر آن یاد رکھا اور خوب خوب نبھایا۔
صرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب طاقتیں
جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں
حضرت مصلح موعودؓ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہی خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔یہ مبارک جہاد آپ کی ساری زندگی پر پھیلا نظر آتا ہے۔1906ء میں سترہ سال کی عمر میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے ممبر مقرر ہوئے اور اسی سال آپ نے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ پر پہلی بار تقریر کی۔1910ء میں خلافت اولیٰ کے دَور میںپہلی بار خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔1912ء میں آپؓ نے بلاد عربیہ کا سفر فرمایا۔اس سفر کے دوران آپؓ نے حج ِبیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور شریف مکہ سے بھی ملاقات کی۔اس سفر میں آپؓ مصر بھی تشریف لے گئے۔
1913ء میں آپؓ کو جماعت کی ایک عظیم اور پائیدار خدمت کی توفیق عطاہوئی ۔آپؓ کے ہاتھوں اخبار الفضل کا اجرا ہوا۔جماعت کا یہ نقیب آج بھی بڑی شان سے جاری ہے۔روزنامہ آن لائن ایڈیشن کے علاوہ لندن سے اس کا انٹرنیشنل سہ روزہ ایڈیشن بھی شائع ہوتا ہے۔الفضل اخبار نے جماعتی تربیت اور خاص طور پر خلیفہ وقت کے ارشادات ساری دنیا میں پھیلانے کے سلسلہ میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکی وفات ہوئی تو خلافت کی ذمہ داری حضرت مصلح موعودؓ کے سپرد ہوئی۔جماعت کی غالب اکثریت نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی۔دنیا کی نظر میں ایک کم عمر ،نوجوان، ناتجربہ کار اور دنیوی اعتبار سے علمی لیاقت نہ رکھنے والے کے کندھوں پر یہ بھاری بارِ امامت ڈال دیا گیا۔بعض نے خیال کیا اور برملا اس کااظہار بھی کہ اب اس جماعت کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ اس کی باگ ڈور ایک بچے کے سپرد کر دی گئی ہے جو ان کی نظروں میں اس لائق نہ تھا۔لیکن جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہو اور جسے خدا نے یہ مرتبہ عطا فرمایا ہو وہ بھلاکیسے ناکام ہو سکتا تھا؟ وہی بچہ، خداتعالیٰ کی تائید و نصرت کے سایہ میں ایک عظیم قائد کے طور پر ابھرا اور دن بدن آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل و فراست ،روحانی ، علمی اور قائدانہ صلاحیتوں میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی جاںنثار جماعت کو ایسا متحرک اور فعال بنا دیا کہ جماعت احمدیہ نہ صرف سارے ہندوستان میں ایک منظم اور مستعد جماعت کے طور پر پہچانی جانے لگی بلکہ دیگر ممالک میں بھی اس جماعت کے حوالے سے اسلام کا چرچا ہو نے لگا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے خلیفۃ المسیح الثانی کے طور پر اکاون سال سے زائد عرصہ تک جماعت احمدیہ کی قیادت فرمائی۔یہ تاریخِ احمدیت کا ایک سنہری دور ہے۔اس دور میں اسلام کی ترقی اور غلبہ ، احمدیت کے استحکام ،قرآن مجید کی اشاعت اور ملک و قوم کی خدمت وغیرہ کے اعتبار سے اتنے کام ہوئے کہ ان کا تذکرہ کرنے کے باوجود ہمیشہ ہی یہ احساس رہتا ہے کہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کسی بھی کام کو احسن رنگ میں سر انجام دینے کے لیے پلاننگ اور تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے سب سے پہلے اس بنیادی کام کی طرف توجہ فرمائی۔منصب ِخلافت پر متمکن ہونے کے ایک ماہ بعد آپ نے ملک بھر کے احمدی نمائندگان کی ایک خصوصی مجلسِ شوریٰ طلب فرمائی۔غور و فکر، مشورہ اور دعائوں کے بعد فوری طور پر آپؓ نے تربیتی ،اصلاحی، تنظیمی اور تبلیغی کاموں کا بیک وقت آغاز کر دیا۔برطانیہ میں تبلیغِ اسلام کے لیے خلافتِ اولیٰ کے آخر میں مبلغ بھجوائے جا چکے تھے تاہم برطانیہ میں مرکزی دارالتبلیغ کا باقاعدہ قیام خلافت ثانیہ کے آغاز میں اپریل1914ء میں ہوا۔اس سے اگلے سال ماریشس اورسیلون میں بھی تبلیغی مراکز جاری ہوئے۔1920ء میں امریکہ اور1921ء میں سیرالیون، غانا، نائیجیریا اور بخارا میں تبلیغ اسلام کے مراکز قائم ہوئے اوریہ سلسلہ مسلسل آگے سے آگے بڑھتا رہا۔
خلافت ثانیہ میںمجموعی طور پر 46؍ملکوں میں جماعت کو تبلیغی مراکز قائم کرنے کی توفیق ملی۔بیرونی ممالک میں 311؍ مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔جہاںسے صبح و شام توحید کی منادی ہونے لگی۔تبلیغ اسلام کا مقدس فریضہ ہمیشہ ہی حضرت مصلح موعودؓ کی ترجیحات میں سرِفہرست رہا۔آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ نوجوان خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں اس طور پر وقف کریں کہ ان کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا اور وہ ہر کام کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے،آپ نے جماعت کے سامنے یہ انقلابی تحریک پیش فرمائی اور ساتھ ہی اپنا شاندار قابل تقلید نمونہ بھی ۔ آپ نے فرمایا۔
‘‘میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لیے وقف ہیں’’
جماعت کے جاںنثاروں نے اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کر دیے۔تعلیم و تربیت سے فارغ ہوکر ہندوستان اور اکناف عالم میں مفوضہ خدمات سر انجام دینے لگے۔آپؓ کے د ور میں 164؍واقف زندگی مجاہدین نے دیارِ غیر میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیا۔ان میں ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہوں نے اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں مردانہ وار برداشت کیں اور تبلیغ کے جہاد سے غازی بن کر فائزالمرام واپس لوٹے۔کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے جنہوں نے اسی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر دیا اور دور دراز ملکوں کی سر زمین اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔خوشا نصیب کہ وہ شہادت کا جام پی کر ابدی اور لا زوال زندگی سے ہم کنار ہو گئے۔مجاہدین ِاسلام کو یہ توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عطا ہوئی لیکن قربانی کا یہ جذبہ پیدا کرنے میں حضرت مصلح موعود ؓنے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بعثت سے قبل عیسائی منّاد سارے ہندوستان کو عیسائی بنانے کا عزم لے کر نکلے اوریہ اعلان کررہے تھے کہ ا س پہلی منزل کو سر کرنے کے بعد ہم اسلام کے مرکز خانہ کعبہ پر بھی تثلیث کا پرچم لہرا دیںگے۔مسلمان اس صورت حال سے دم بخود بیٹھے تھے۔اسلام کا دفاع کرنے کی نہ ان میں ہمت تھی اور نہ جذبہ۔اس کس مپرسی کے دور میںاللہ تعالیٰ نے کاسرِ صلیب حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بھیجا جنہوں نے تائید و نصرت الٰہی اور خداداد دلائل و براہین سے نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ عیسائیت کو حجت و برہان کے میدان میں شکستِ فاش دے کر پسپائی پر مجبور کردیا۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے غلبۂ اسلام کے لیے جن مستحکم بنیاد وں پر کام کا آغاز فرمایا حضرت مصلح موعودؓ نے اس مشن کو بڑی تیزی اور مستعدی سے آگے بڑھایا۔ساری دنیا میں تبلیغی مراکز کا جال بچھا کر آپ نے اسلام کے حق میں ایک خوش آئندانقلاب برپا کر دیا۔اسلام پر حملہ کرنے والے غیر مسلم منّاد نے راہ ِفرار اختیار کی۔پے در پے ناکامیوں کے بعد بعض افریقن ممالک میں عیسائی مشنز اپنی تبلیغی مساعی بند کر نے پر مجبور ہو گئے۔جماعت احمدیہ کی تبلیغی کوششوں سے تثلیث کدوں کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف غیروں کو بھی ہے۔اس عالمگیر روحانی انقلاب کے معماروں میں حضرت مصلح موعودؓ کا نامِ نامی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کا میدان بھی حضرت مصلح موعودؓ کی نظر سے کبھی اوجھل نہیں ہوا۔آپؓ نے افریقن ممالک کی طرف اس ضمن میں خصوصی توجہ فرمائی کیونکہ وہاں پر تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان پا یا جاتا تھا۔آپ کے دور ِخلافت میں 24؍ممالک میں 74؍تعلیمی مراکز ،سکول اور کالجز کا قیام ہوا۔28؍دینی مدارس جاری ہوئے اور17؍ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا۔
قیام پاکستان کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں ہر مرحلہ پر تاریخ ساز کردار ادا کیا۔محمد علی جناح صاحب کی برطانیہ سے ہندوستان واپسی اور مسلمانان ہند کی قیادت کا کام دوبارہ شروع کرنے میںحضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات اور کوششیں شامل تھیں۔آپ کی ہی ہدایت پر اس وقت کے امام مسجد فضل لندن حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب نے محمد علی جناح کو اس کام کے لیے رضامند کیا۔ قیامِ پاکستان پر منتج ہونے والی اس تاریخی خدمت کا غیروں نے بھی برملا اعتراف کیا ہے۔
سیاسی محاذ پر ہندوستان کے مسلمانوں کی پرزور اور بےلوث نمائندگی کا حق حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ نے ادا کیا جو حضرت مصلح موعودؓ کی رہ نمائی میں کام کررہے تھے۔اس کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک کو آمرانہ تسلط سے نجات دلانے اور آزادی سے ہم کنار کرنے میں بھی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے ایسی سنہری خدمات سر انجام دیں جو تاریخ عالم کے صفحات سے کبھی مٹائی نہیں جاسکتیں۔نا شکرے پن سے ان کا انکار تو کیا جاسکتا ہے اور بد نیتی سے ان کا تذکرہ چھپایا تو جاسکتاہے لیکن یہ ایسی بے لوث خدمات ہیں جو انصاف پسند مسلمانوں کے دل سے کبھی محو نہیں ہوسکتیں۔مسلمانان ِعالم کی یہ خادم جماعت حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت قیادت میں ہر میدان میں سعیٔ مشکور کی توفیق پاتی رہی۔پیشگوئی کایہ فقرہ کہ‘‘وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی ’’بار بار بڑی شان سے پورا ہوتا رہا۔
برّ صغیر کی تقسیم کے وقت لاکھوں بے سہارا ،بھوکے، پیاسے اور در بدر ٹھوکریں کھانے والے مہاجرین کی جس طرح منظم طور پر بے لوث خدمت جماعت احمدیہ کے رضاکاروں نے کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک زریں باب ہے۔اس عظیم خدمت کے پیچھے حضرت مصلح موعودؓ کا شفیق وجود متحرک نظر آتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد اہل کشمیر کو ہندوئوں کے مظالم سے نجات دلانے اور کشمیر کی تحریکِ آزادی کو منظم کرنے کے سلسلہ میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔آپؓ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے صدر رہے۔حکومت پاکستان کی درخواست پر آپ کی زیر ہدایت فرقان فورس نے کشمیر کے محاذ پر فوجی خدمات سرانجام دیں۔یہ بٹالین احمدی رضا کاروں پر مشتمل تھی جس نے 1948ءسے1950ءتک بہت جوش اور مستعدی سے کشمیر کے محاذ پر پاکستانی فوج کی مدد کی۔احمدی رضاکاروں کو حکومت پاکستان اور اخبارات نے اس خدمت پردل کھول کر خراج تحسین پیش کیا۔
جماعت کے نظام کو مستحکم اور منظم کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دینے کی توفیق پائی ان کی فہرست بہت طویل ہے۔آپؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصف صدی سے زائد عرصہ منصبِ خلافت پر فائزرہے۔تنظیم کا کام اس سارے عرصہ میں جاری رہا۔جماعت کے انتظامی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کے لیے آپ نے 1919ء میں صدر انجمن احمدیہ میں نظارتوں کے نظام کو وسعت دی۔جماعت کے مردوں اور عورتوں کو مختلف ذیلی تنظیموں میں تقسیم کر کے اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک اور فعال بنانا بھی آپؓ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔1922ء میں لجنہ اماء ِاللہ اور1928ء میں ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم فرمائی۔خدام الاحمدیہ کا قیام1938میں ہوا جبکہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم 1940 میں بنائی گئی۔اسی سال مجلس انصار اللہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔
نظام ِخلافت کے بعد مجلس ِشوریٰ کا نظام سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اس کا آغاز 1922ءسے فرمایا۔آپ نے باقاعدہ وقف زندگی کی تحریک 1917ء میں کی اور ان واقفین کی تعلیم و تربیت کے لیے 1928ء میں جامعہ احمدیہ اپنی موجودہ شکل میںقائم فرمایا۔دارالقضاء کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بہت سے نازک مراحل آئے لیکن عشاقِ اسلام کا یہ کارواں اپنے صاحب شکوہ، مسیحی نفس امام کی قیادت میں ہمیشہ امن و سلامتی کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتا رہا۔پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق خدا کا سایہ اس کے سر پر تھااور نصرتِ خداوندی کے سایہ میں اس نے دشمن کی ہر تدبیر کو ناکام و نامراد بنا دیا۔
1923ء میں ہندوئوں نے دوسرے لوگوں اور بالخصوص مسلمانوںکو ہندو بنانے کا عزم لے کر شدھی کی زبردست تحریک شروع کی۔بہت سے مسلمان اس ریلے میں بہ کر ہندو ہوگئے۔یہ صورت حال دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ کا دل سخت بے چین ہو گیا اور آپؓ نے شدھی کی ا س تحریک کے مقا بل پر جوابی تحریک شروع فرمائی۔احمدیت کے وفا شعارمجاہدین نے آپؓ کی زیر ہدایت ایسی جاںنثاری سے اس جہاد میں حصہ لیا کہ نہ صرف بہت سے مسلمان ہندو ہونے سے بچ گئے بلکہ جو لوگ ہندو ہوگئے تھے وہ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آگئے۔
1934ء میں احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف ملک گیر تحریک جاری کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ،جماعت احمدیہ کو دنیا سے کلیۃً نابود کردیں گے اور اس جماعت کا نام و نشان مٹا کر دم لیں گے۔حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خداداد فراست سے نہ صرف احرار کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا بلکہ اس ناپاک منصوبہ کے جواب میں تحریک جدید کے نام سے ایک ہمہ گیر انقلابی تحریک کا آغاز فرمایا جس کے ذریعہ ساری دنیا میں اشاعتِ اسلام کا فریضہ سر انجام دیا جانے لگا۔اس تحریک جدید کے شیریں ثمرات نے آج کل عالم کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے اور دنیا کے اکثر ممالک اسی بابرکت تحریک سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
1947ء میں جب برّصغیر کی تقسیم عمل میں آئی تو جماعت احمدیہ کو اپنے مقدس مرکز قادیان سے ہجرت کرنی پڑی۔یہ وقت جماعت کے لیے بہت ہی کٹھن تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے کمال فراست اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے نہ صرف افراد جماعت کی جانی و مالی حفاظت کا انتظام کیا بلکہ پاکستان میں جماعت کے لیے نیا مر کز بھی قائم کر دیا۔ایک سال کے اندر اندر دارالہجرت ربوہ کا قیام فی الحقیقت ایک معجزہ سے کم نہیں۔بے آب و گیاہ، ویران و بنجر سرزمین کی جگہ اب ایک سر سبز و شاداب ، ترقی یافتہ، پر رونق اور خوب صورت شہر آباد ہے۔ربوہ کا وجود قائم و دائم رہے گا۔کوئی جبری قانون اس کے نام کو مٹا نہیں سکتا۔ اس بستی کا چپہ چپہ اس بات کا گواہ رہے گا کہ اس کا بانی صاحبِ عزم بھی تھا اور صاحبِ عظمت بھی!
مخالفت کی آندھیاں ہمیشہ سے خدائی جماعتوں کی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔1953ء میں پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف مجلسِ احرار نے ایک ملک گیر تحریک چلائی۔ان کے عزائم انتہائی ظالمانہ اور خطرناک تھے۔ایسے مراحل بھی آئے کہ بڑے صاحبِ حوصلہ لوگوں کے پتے پانی ہورہے تھے لیکن وہ مبارک وجود جس کو خدا نے اپنے کلام میں ‘‘سخت ذہین و فہیم ’’فرمایا ، جس کے نزول کو بہت مبارک اور جلال ِالٰہی کے ظہور کا موجب قرار دیا، وہ اولوالعزم رہ نما،جماعت کے سر پر موجود تھا اوراس کے سر پر خدا کا سایہ تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس نازک دور میں جماعت کی حفاظت اور رہ نمائی کا فریضہ انتہائی خوش اسلوبی سے ادا فرمایا اور اللہ سے خبر پاکر یہ اعلان بھی فرمایا کہ گھبرائو نہیں ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد کو دوڑا چلا آرہا ہے۔ان ہنگاموں کے نتیجہ میں چند خوش قسمت احمدیوںنے شہادت کا اعزاز پایا لیکن مخالفت کا یہ سیلاب جماعت کی ترقی کو ہرگزروک نہ سکا۔بلکہ جماعت کی مستقل ترقی کا ایک اور وسیلہ تحریک ِوقف جدید کی صورت میں نمودار ہوا جس کا آغاز حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء کے آخر پر فرمایا۔
نور ِخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پیشگوئی مصلح موعود میں فرزندِ موعود کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ
‘‘وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا’’
اس کا ایمان افروز ظہور اس طور پر ہوا کہ خدائے علّام الغیوب نے حضرت مصلح موعودؓ کو دنیاوی ڈگریوں کے بغیر اور نہایت کمزور صحت کے باوجود دینی اور دنیاوی علوم سے مالا مال کر دیا۔آپ کو مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا۔اس ذریعہ سے جو علم آپ حاصل کر سکتے تھے وہ آپؓ نے کیا۔اس پر مزید یہ کہ اس سخت ذہین و فہیم انسان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کا سایہ تھا۔خدا نے اس میں اپنی روح ڈال کر اس کو اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح فرمایا ۔ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے اجتماع نے نورٌ علٰی نورٍ کی کیفیت پیدا فرما دی اور دنیا نے دیکھا ،سنا اور بارہا مشاہدہ کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے دینی معاملات میں ایسا بلند علمی مرتبہ حاصل کیا جو اپنے زمانہ میں بے نظیر تھا۔آپؓ نے اپنی زندگی میں متعددکتب و رسائل تصنیف فرمائےاور سینکڑوں خطابات و خطبات میں جماعت احمدیہ اور امتِ مسلمہ کو رہ نمائی سے نوازا ۔حضورؓ کی کتب میں سے چند ایک کے نام بطور نمونہ حسب ذیل ہیں:
دیباچہ تفسیرالقرآن۔فضائل القرآن۔سیرت خیرالرسلؐ۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔دعوت الامیر۔اسلام میں اختلافات کا آغاز۔ملائکۃ اللہ۔ہستیٔ باری تعالیٰ۔ منہاج الطالبین ۔سیر روحانی۔
آپ کی جملہ کتب و خطابات‘‘انوار العلوم’’ کے نام سے شائع ہو رہی ہیں۔
ان بلند پایہ علمی تصانیف سے بہت بڑھ کر آپؓ کے خداداد علم کا شاہکار آپؓ کی تصنیف فرمودہ تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر ہیں۔قریباًدس ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی یہ تفسیر کبیر لاجواب معارف سے پُر ہے۔آپؓ کی علمی تصانیف اور بالخصوص تفسیر کبیر پڑھ کر بڑے بڑے علماء اور ماہرین علوم نے آپؓ کےتبحّر علمی کا اعتراف کیا۔آپؓ کے فیض رساں علمی وجود کے ذریعہ دنیا کو جو برکت نصیب ہوئی اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ آپؓ کے دورِخلافت میں دنیا کی کئی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت ہوئی اور آپؓ کی زیر نگرانی قریباً چالیس اخبارات اور رسائل دنیا کے مختلف ممالک سے جاری ہوئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی متحرک اور خدمات دینیہ سے بھرپور زندگی کے اگر دو جامع عناوین دیے جاسکتے ہیں تو وہ اشاعتِ اسلام اور خدمتِ قرآن ہیں۔یہ دونوں باتیں تو گویاآپؓ کی روح کی غذا تھیں۔آپؓ نے تحریر و تقریر کے میدان میں ان مقاصدِعالیہ کی خاطر انتھک خدمات سر انجام دیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ ؓکے قلم اور زبان میں ایسی دل کشی اور شیرینی رکھ دی تھی کہ پڑھنے والے آپؓ کی تحریرات پڑھتے ہوئے علمی معارف میں گم ہو کر رہ جاتے اور آپؓ کی تقریریں سننے والے گھنٹوں آپؓ کے خطابات سنتے رہتے اور انہیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔لاریب آپ ؓ اپنے وقت کے عظیم مصنف اور لاثانی خطیب تھے۔مقدس باپ سلطان القلم تھا تو عظیم بیٹا سلطان البیان ۔حق یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ساری زندگی ،اور ساری خداداد صلاحیتیں اس راہ میں وقف کردیں۔
جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں
1924ء کا سال حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کا ایک اہم سال ثابت ہوا۔آپؓ نے لندن میں منعقد ہونے والی مذاہب عالَم کے نمائندگان کی عالمی کانفرنس میں شمولیت فرمائی۔یہ کانفرنس ویمبلےامپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقد ہوئی۔آپؓ نے اس کانفرنس کے لیے ایک خطاب لکھاجس کا انگریزی ترجمہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے اجلاس میں سنایا۔آپؓ کا یہ معرکہ آرا خطاب بعدازاں ‘‘احمدیت یعنی حقیقی اسلام ’’ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔اسی سفر کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد اپنے مبارک ہاتھوں سے پرسوز دعائوں کے ساتھ رکھا۔یہ سنگ بنیاد گویا یورپ بلکہ ایک لحاظ سے ساری دنیا میں اشاعتِ اسلام کی عالمگیر مہم میں ایک سنگِ میل ثابت ہوا ۔
لندن میں تعمیر ہونے والی اس سب سے پہلی مسجد کے بعد تو اکناف عالم میں مساجداور تبلیغی مراکز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیاجو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر آن بڑھتا چلا جارہاہے۔اشاعت اسلام کی ان ہمہ گیر کوششوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کا تشخص دنیا کے کونے کونے میں متحقق ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کا مبارک نام بھی زمین کے کناروں تک شہرت پا گیا ہے۔
خدمت ِاسلام کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اور بہت ہی نمایاں کارنامہ 1928ء میں سیرت النبی ﷺ کے مبارک جلسوں کا آغاز ہے۔سیدا لمعصومین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو داغدار بنانے کے مذموم ارادہ سے جب دشمنانِ اسلام نے رنگیلا رسول جیسی ناپاک کتابیں شائع کیں تو قلبِ محمودؓ پر ایک قیامت گذر گئی۔آپؓ نے اس ناپاک اور ظالمانہ کوشش کے مثبت اور مؤثر جواب کے طور پر سارے ملک میں سیرت النبی ﷺ کے جلسوں کا اہتمام کروایا۔ایسی شان سے یہ جلسے منعقد ہوئے کہ قریہ قریہ اور بستی بستی حبیب ِخدا محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود و سلام سے گونج اٹھے۔بعد میں یہ سلسلہ اَور بھی وسیع ہو گیا اور اب تو سیرت النبی ﷺ کے یہ بابرکت جلسے جماعت احمدیہ عالمگیر کی پہچان بن گئے ہیں۔
اس عظیم پیشگوئی کے سب پہلوئوں کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے۔حق یہ ہے کہ پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ ،رب ذوالجلال کی قدرت، عظمت، جلال اور رحمت کا ایک تابندہ نشان ہے۔ہر پہلو سے ایک تابناک معجزہ ہے۔ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدائے قادر کا کلام تھا جو بڑی شان سے پورا ہوا۔دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سنا ،وہ بر حق تھا۔آپؑ نے دنیا کو جو بتایا، وہ سچ تھا۔اس پیشگوئی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ غلامِ احمد ہی وہ سچا مہدی اور مسیح ہے جس کی سچائی ثابت کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت ،طاقت اور جبروت کا یہ زندہ نشان اسے عطا فرمایا!
لاکھوں لاکھ درود و سلام ہوں حبیب ِکبریا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر کہ آپؐ کے مبارک نام ِاحمدؐ کی برکت سے ایک غلامِ احمد ؑکو آپﷺ کی غلامی کی برکت سے امتی نبوت کا تاج پہنایا گیا۔پھر اس غلامِ احمد ؑکو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق ایک فرزند موعود سے نوازا جو ان ساری صفات کا مصداق ثابت ہوا جن کا ذکرمقدس پیشگوئی میں کیا گیا تھا۔کلام اللہ کا مرتبہ اس شان سے پورا ہوا کہ پیشگوئی کا ایک ایک حرف اس پر صادق آیا اور ایک ایک بات کلام اللہ کی صداقت پر گواہ ٹھہری۔ حق یہ ہے کہ پیشگوئی کا اس طور پر ایمان افروز ظہور ہمیشہ ہمیش کے لیے صداقت ِاسلام کا ایک زندۂ جاوید نشان ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ تو انسان ہونے کے ناطے ،اس دنیا سے فائز المرام رخصت ہوئے اور اپنے نفسی نقطۂ آسمان کی طرف اٹھائے گئے لیکن یہ آسمانی نشان ہمیشہ زندہ رہے گا اور حضرت مصلح موعودؓ کی حسین یاد بھی اس نشان کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گی کہ یہ عظیم الشان پیش خبری آپؓ کے وجود میں بڑی شان سے پوری ہوئی اور اس کے فیوض قیامت تک جاری و ساری رہیں گے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
اس عظیم الشان پیشگوئی کے ایمان افروز ظہور کو دیکھ کر اور اس پیشگوئی کی جاری و ساری عالمگیر تاثیرات کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد آج الحمد للہ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ
اب وقت آگیا ہے کہ کہتے ہیںحق شناس
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
٭…٭…٭