حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی
’’ایک دوسرا بشیر تمھیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا،یخلق اللّٰہ ما یشاء۔‘‘
قادر و مقتدر ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو اپنی قدرت، رحمت، قربت، فضل اور احسان کے نشان کے طور پر آپؑ ہی کی ذرّیت میں ایک فرزند صالح اور مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی اور ساتھ ہی اُس کی کئی خوبیاں اور اوصاف بھی بیان کیے۔ اُس مصلح موعود فرزند کے متعلق بیان کردہ اوصاف میں سے ایک ‘‘اولوالعزم’’بھی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے اُسی مصلح موعود بیٹے کے متعلق الٰہی بشارات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘….. اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمھیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا،یخلق اللّٰہ ما یشاء۔’’
(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 463حاشیہ)
‘‘خدائے عز و جل نے ….. اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گاجس کا نام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191 حاشیہ۔ اشتہار 12 جنوری 1889ء)
پھر حضرت اقدس علیہ السلام اپنی کتاب ازالہ اوہام میں ‘‘جن پیشگوئیوں کی سچائی پر میری سچائی کا حصر ہے وہ یہ ہیں….’’کے تحت فرماتے ہیں:
‘‘جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقل مند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے۔ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا، وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا، وہ تیری ہی نسل سے ہوگا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمندمظہر الحق و العلاء کاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ۔’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 442تا443)
اولوالعزم کا مطلب ہے صاحبِ ہمت، بلند ارادے رکھنے والا، فراخ حوصلہ شخص۔ اسی طرح بلند ہمتی اور عالی حوصلگی کو اولوالعزمی اور بڑی ہمت کے کاموں کو عزم الامور کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں بھی عزم یا اولوالعزمی کا ذکر ہوا ہے وہاں صبر، تقویٰ، معاف کرنے اور توکل علی اللہ کا بھی ساتھ ہی ذکر ہوا ہےمثلًا:
٭…وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(آل عمران :187)
٭…وَاصْبِرْ عَلٰى مَا أَصَابَكَ ۔ (لقمان:18)
٭…وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(الشوریٰ:44)
٭…فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۔ (الاحقاف:36)
٭…فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلٰی اللّٰـهِ (آل عمران:160)
قرآن حکیم کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ اولوالعزمی کا تعلق سخت، مشکل، کٹھن، تکلیف دہ، مہیب اور خطرناک اَدوار سے ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں صبر کرنے کو عزم الامور میں سے قرار دیا ہے اور اس صفت کو رسولوں کی صفات میں سے بتلایا ہے۔
علامہ فخر الدین الرازیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو عزم کی صفت سے متصف اُن کے صبر اور ثابت قدمی کی وجہ سے قرار دیا ہے۔
(تفسیر کبیر لعلامہ فخر الدین الرازی سورۃ الاحقاف زیر آیت فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل)
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصلح موعود بیٹے کو ‘‘اولوالعزم’’کا نام دینا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اُس کے وقت میں بھی نہایت سخت اور خوفناک حالات پیدا کیے جائیں گے لیکن وہ ان ابتلاؤں اور آزمائشوں کے کٹھن دَور میں بھی بلند ہمتی اور اولوالعزمی کے ساتھ گذر جائے گا اور وہ کٹھن راستے اور مشکل مراحل اُس کی جواں ہمتی اور فراخ حوصلگی کے سامنے دم توڑ جائیں گے۔ پس یہ ‘‘اولوالعزم’’نام خود اُس بیٹے کی امامت و خلافت پر دلالت کرتا ہے اسی لیے حضرت اقدسؑ نے اس موعودبیٹے کو اللہ تعالیٰ کے انزال رحمت کے دوسرے طریق ‘‘ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفا’’ کا مصداق قرار دیا ہے۔
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی ابتدائی عمر کے مطالعہ سے ہی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خدمتِ دین کی لگن، شوق اور ولولہ عطا فرمایا تھا اور آپؓ پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ مسیح الزماں کے مشن کے سپاہی بن گئے تھے۔ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو اُس وقت آپ کی عمر صرف اُنیس سال تھی، اپنے پیارے امام کی جدائی کا صدمہ تو قدرتی امر تھا لیکن آپ نے اس بڑے صدمے کے موقع پر بھی اپنے آپ کو سنبھالا دیا اور جذباتِ غم سے مغلوب ہوکر نڈھال بیٹھنے کی بجائے ممکنہ طور پر اٹھنے والی مخالفت اور اس کے مقابلے کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا، آپؓ خود فرماتے ہیں:
‘‘….. مَیں نے اسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سرہانے کھڑے ہوکر کہا کہ اے خدا! مَیں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ تُونے نازل فرمایا ہے مَیں اس کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلاؤں گا۔
….. میرے جسم کا ہر ذرّہ اِس عہد میں شریک تھا اور اُس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اس عہد اور اِس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔’’
(خطبات محمود جلد 25 صفحہ 134۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ فروری 1944ء)
لوگ جذبات کی رَو میں بہ کر وقتی طور پر ایسے عہد و پیمان کر جاتے ہیں لیکن آگے ان کو نبھا نہیں پاتے اور زمانے کی گردشوں میں اُسے بھول جاتے ہیں لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ہر ایک دن اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے مرتے دم تک نہایت اولوالعزمی کے ساتھ اپنے اس عہد کو نبھایا۔ آپ کی عالی ہمتی اور پختہ عزم کو احباب نے شروع میں ہی محسوس کر کے آپؓ کو اولوالعزم کہنا شروع کر دیا تھا چنانچہ خلافت اولیٰ کے جماعتی لٹریچر میں ہی آپؓ کا ذکر اولوالعزم لقب کے ساتھ موجود ہے، مثلًا :
‘‘اولوالعزم سیدنا محمود کی پہلی تقریر’’
(الحکم 21/28 جنوری 1913ء صفحہ 2)
‘‘اولوالعزم کا خطاب تو حضرت باری عز اسمہٗ سے صاحبزادہ حاجی میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مل چکا ہے، صاحب موصوف کے ہاتھوں سے جو خدماتِ اسلام ہونے والی ہیں اُن کا نمونہ ابھی سے دکھائی دے رہا ہے۔’’
(بدر 18؍ستمبر 1913ء صفحہ 3کالم 1)
‘‘ہمارے اولوالعزم نوجوان خدا کے برگزیدہ مسیح کے فرزند ارجمند’’(الحکم 7/14 جنوری 1913ء صفحہ 4)
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف تنگ نظری اور بغض رکھنے والوں نے جب مخفی طور آپؓ کے متعلق منفی رائے پیدا کرنی چاہی تو خود حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کا بڑی شدّت کے ساتھ ردّ کیا اور فرمایا:
‘‘میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود ….. کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا ۔’’
(خطابات نور صفحہ 472۔خطاب 16؍جون 1912ء بمقام احمدیہ بلڈنگس لاہور)
ایڈیٹر صاحب الحکم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ نے بعض حلقوں میں گردش کرنے والے اس سوال کہ ‘‘صاحبزادہ صاحب نے کیا کیا ہے؟’’ کے جواب میں ایک جامع مضمون شائع فرمایا اور لکھا:
‘‘وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شاندار عمارت کے ایک ستون ہیں اور سلسلہ کی اس وقت کوئی بڑی تحریک نہیں جو ان کے ذریعہ زندہ نہ ہوئی ہو۔’’(الحکم 28؍ ستمبر 1913ء صفحہ 5کالم 3)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان وجود جماعت میں انتشار پھیلانے والوں کے لیے ایک ننگی تلوار تھاجن کے سامنے کسی فتنہ چاہنے والےکو باوجود بعض ہم خیالوں کی موجودگی کے سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی ہاں چوری چھپے وہ اپنی چالیں چلتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کو خلافت کی مسند پر متمکن فرمایا۔ در پردہ سازشیں کرنے والے اب کھل کر سامنے آگئے، وہ تو حضرت خلیفہ اوّلؓ کے ‘‘میرا پیارا محمود’’ کہنے پر چڑ جایا کرتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ کے اُسی محمودؓ کو ‘‘پیارا’’ بنانے پر اپنی چِڑ اور حسد میں مزید بڑھ گئے اور فرمان رسولؐ ‘‘يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ’’(بخاری کتاب المرضیٰ باب قول المریض انی وجع أو وارَساہُ) کے مصداق بن کر خلافت کے انکاری ہو بیٹھے اور قادیان چھوڑ کر مستقل طور پر لاہور چلے گئے۔ اپنے ظاہری علم اور وسائل پر نازاں قادیان چھوڑ کر لاہور چلے جانے والےیہ لوگ اس زعم میں تھے کہ قادیان جیسے چھوٹے سے گاؤں میں بیٹھا یہ خلیفہ خود ہی ہمت ہار کر ہمارے ساتھ شامل ہونے پر مجبور ہو جائے گا وگرنہ جماعت کا نظام (نعوذ باللہ) درہم برہم ہو جائے گا۔
خلافت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور اس انعام کی غرض خود اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمائی ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰی لَهُمْ (سورۃ النور:56) یعنی وہ خدا اُن (مومنوں) کے لیے ضرور اُن کے دین جو اُس نے اُن کےلیے پسند کیا ہے، تمکنت عطا کرے گا۔ اس خوشخبری کے اجرا کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی فرمایا تھا جس کی خبر حضرت اقدسؑ نے اپنے رسالہ الوصیت میں ‘‘قدرت ثانیہ’’کے لفظوں میں دی ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
‘‘…..خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے…..’’
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 185)
کوئی دنیا داراور خود ساختہ لیڈر ہوتا تو مصلحت وقت کا کہہ کر ضرور منکرین سے منت سماجت اور سمجھوتہ کرکے اپنا اقتدار بچاتے ہوئے حق کو قربان کر دیتا مگر آپؓ کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا اور اُس وجود کا خلیفہ بنایا تھا جس کا اعلان تھا کہ
‘‘میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں، مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں….’’
(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 23تا24)
پس آپؓ نے بھی اسی شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح کے ساتھ یہ وا شگاف اعلان فرمایا:
‘‘مَیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ میرا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو میرا نقصان کر سکے یا مجھے کوئی نفع دے سکے۔ پس اگر میں لوگوں کے جذبات کے ماتحت چل کر اتحاد جماعت کے خیال کو چھوڑ دوں تو اس سے صاف ثابت ہوگا کہ میں حکومت کا خواہاں ہوں نہ کہ خادم سلسلہ ہوں۔ پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ اسی کی توفیق سے مَیں ہر ایک ایسی تدبیر کروں گا جس سے جماعت کو پھر ایک فرد واحد کے ہاتھ پر جمع کرنا ممکن ہو اور مَیں اللہ تعالیٰ پر امید رکھتا ہوں کہ وہ میرا دل بھی حضرت ابو بکرؓ کی طرح مضبوط کر دے اور مَیں بھی کہہ سکوں کہ خواہ تم سب مجھے چھوڑ دو اور جنگل کے درندے بھی میرے مخالفوں کے ساتھ مل کر مجھ پر حملہ کریں تو مَیں اکیلا اُن کا مقابلہ کروں گا جب تک کہ وہ میرے ہاتھ پر اُسی طرح اکٹھے نہ ہو جائیں جس طرح کہ خلیفۂ اول کے ہاتھ پر اکٹھے ہوگئے تھے، و اللّٰہُ المستعان۔’’
(الفضل 6؍اپریل 1914ء صفحہ 16)
منکرینِ خلافت کے رویّہ اور اُن کے ہتھکنڈوں کو دیکھ کر آپؓ نے فرمایا:
‘‘خدا تعالیٰ نے پانچ چھ سال ہوئے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ جو تجھے بے ایمان کہے گا مَیں اُسے ہلاک کر دوں گا۔ فرمایا شاورھم فی الامر، شاورھُم فی الامر بار بار کہتے ہیں حالانکہ میں مشورہ تو کرتا ہوں مگر اس مشورہ کا لازمی طور سے پابند ہونا کہیں نہیں لکھا ہے، اسی آیت کے ساتھ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ لکھا ہے جس کے معنے یہ ہیں مشورہ لے کر پھر جو مناسب ہو اُس پر کاربند ہونے کا عزم کر لو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو۔ اس پر غور کرنے سے نماز میں مجھے توجہ دلائی گئی کہ میرا نام اولوالعزم خدا نے رکھا ہے گویا معترضین کو پہلے ہی جواب دے دیا ہے۔’’
(الفضل 8؍اپریل 1914ء صفحہ 1کالم 1،2)
ایک اور جگہ آپؓ فرماتے ہیں:
‘‘اشتہار سبز میں میرے متعلق خدا کے حکم سے حضرت مسیح موعودؑ نے بشارت دی، خدا کی وحی سے میرا نام اولوالعزم رکھا اور اس آیت میں فرمایا فَاذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِاس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس آیت پر عمل کرنا پڑے گا پھر میں اس کو کیسے ردّ کر سکتا ہوں۔’’
(منصب خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ 60)
آپؓ نے بہت کوشش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے تفرقہ سے بچے رہیں لیکن جب آپؓ نے دیکھ لیا کہ یہ ‘‘نازک پیر والے’’اب حضرت اقدسؑ کے قدم پر چلنا نہیں چاہتے تو آپؓ نے ان ‘‘جدا ہونے والوں’’ کو ‘‘وداع کا سلام’’ کہا ۔ افسوس کہ منکرین خلافت کی اس طرح جماعت سے علیحدگی پر وہ زور جو غیروں کے مقابلہ پر خرچ کرنا تھا اپنوں پر خرچ کرنا پڑا، بہرحال اس فتنے کا قلع قمع بھی ضروری تھا، حضرت مصلح موعودؓ نے ان منکرین خلافت کے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا، اسی سلسلے میں حیدرآباد دکن جانے والے مبلغین کے ایک وفد کے نام ہدایات میں آپؓ نے فرمایا:
‘‘….. اگر کوئی صاحب اس خیال کے پھیلانے کی کوشش کریں کہ سب کو مل کر کام کرنا چاہیے، آپ اس خیال کو ردّ کریں اور بتائیں کہ اگر خدا کے قرنا کی آواز نہ آ چکی ہوتی تو مل کر کام کرنا واجب تھا لیکن جبکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بگل بجا دیا ہے تو اس کی آواز کے مقابلے میں ہر ایک شخص کا اپنی حالت پر کھڑے رہنا ایک خطرناک جرم ہے، ایک گناہ عظیم ہے جس کی سزا میں اسلام کی ترقی رکے گی نہ کہ ہوگی ….. اگر حیدرآباد میں حق بات کہنے میں روک ہو تو اس شہر کی خاک اپنے پیروں سے جھاڑ کر واپس آ جائیں کہ پھر اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور حق کو چھپانے سے بہتر ہے کہ حیدرآباد کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیا جائے…..
افسوس اُس مرید پر جس نے اس تکلیف کو برداشت نہ کیا جسے اس کے پیر نے برداشت کیا۔ کام بہت ہے اور زندگی کم معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے کیا دیکھنا ہے اور ہمارے بعد کے لوگ کیا دیکھیں گےلیکن جن پھولوں پر وہ خوش ہوں گے یہ کانٹے اُن سے بہتر ہیں اور جن موتیوں پر وہ نازاں ہوں گے یہ آنسو اُن سے لاکھوں درجہ بڑھ کر ہیں۔’’
(الحکم 7؍ مارچ 1915ء صفحہ 2)
آپؓ کی اولوالعزمی نے منکرین خلافت کے اس مقابلے کی وجہ سے خلافت کے دیگر کاموں کی تعمیل میں تاخیر نہ ہونے دی ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان مشن کے مقاصد آپؓ کے مد نظر تھے، آپؓ نے انتخاب خلافت کے تقریباً ایک ماہ بعد ہی ملک بھر کے احمدی نمائندوں کی مجلس شوریٰ بلائی اور ‘‘منصب خلافت’’ کے موضوع پر معرکہ آراء خطاب فرمایا جس میں انبیاء کی بعثت کی غرض اور خلفاء کے کام پر نہایت لطیف پیرائے میں روشنی ڈالی اور بڑے پُر جوش انداز میں تبلیغ اسلام کے متعلق اپنے بڑے بڑے ارادوں اور تجاویز کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان شاء اللہ یہ کام اپنے وقت پر ظاہر ہوجائیں گے۔ انتخاب خلافت کے صرف تین دن بعد ہی حضورؓ نے درس القرآن کا آغاز فرمایا، باہر کی جماعتوں کو منکرین کے پروپیگنڈے سے بچانے اور نظام خلافت سے وابستہ کرنے کے لیے معدودے چند واعظین سلسلہ کو ملک کے چاروں اطراف میں پے در پے دوروں پر روانہ فرمایا، ڈاک کا دیکھنا، شام کے وقت مجلس عرفان وغیرہ کا سلسلہ بھی ساتھ ہی جاری تھا۔دن کے وقت تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد راتوں کو جاگ کر احباب جماعت کے لیے رو رو کر دعائیں کرنابھی آپ کا معمول تھا، آپؓ خود فرماتے ہیں:
‘‘تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔’’(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ 158)
تبلیغ کے کام کو وسعت دینے کا جذبہ بھی شروع خلافت سے ہی حضورؓ کے مد نظر رہا، اپریل 1914ء میں ہی حضورؓ نے مبلغین کی کلاسوں کا اجراء فرما دیا۔ (الفضل 27؍ اپریل 1914ء صفحہ 1) جون 1914ء میں حضورؓ نے سب سے بڑی مسلمان ریاست حیدرآباد دکن کے والیٔ ریاست کے نام ایک تبلیغی کتاب ‘‘تحفۃ الملوک’’ تصنیف فرمائی اور اس کی سینکڑوں کاپیاں وہاں کے مختلف طبقوں میں بھی تقسیم کی گئیں۔ والیۂ بھوپال نواب سلطان جہاں بیگم صاحبہ کے نام تبلیغی خط لکھا۔ نومبر 1914ء میں حضورؓ نے حضرت اقدسؑ کی خواہش کی تکمیل کے لیے منارۃ المسیح کی ناتمام عمارت کا کام شروع کروا کر سال بھر میں اسے مکمل کروایا۔ یہ چند مثالیں ہیں حضورؓ کی خلافت کے ابتدائی سال کے کاموں کی، تفصیلات کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح حضورؓ راتیں مہ و نجوم کے ساتھ کام کرتے گزارتے ہیں اور دن کو سورج سے ہم خرام چلتے ہیں۔
منکرین خلافت کی کوششیں اپنی جگہ جاری تھیں ، مخالفانہ لٹریچر کی اشاعت، احمدیوں کو انفرادی خطوط، ان کے مبلغین کے دورے غرضیکہ ہر ممکن کوشش جس سے احمدیوں کو خلافت سے برگشتہ کیا جاسکے، عملی طور پر بجا لائی گئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر ان کے مخالفانہ لٹریچر کا جواب تیار کرکے، اس کی فوری طباعت کروا کر جلد از جلد جماعتوں تک پہنچانے کا انتظام کروایا جس سے نہ صرف مخالفانہ لٹریچر کا ردّ کر کے احمدی احباب کو سنبھالا دیا بلکہ خلافت سے علیحدہ ہوئے لوگوں کو بھی حقائق سے آشنا کرا کے حلقہ بیعت میں لانے کے سامان کیے۔ اس ضمن میں حضورؓ کی کتابیں ‘‘القول الفصل’’ اور ‘‘حقیقۃ النبوۃ’’ بہت ہی کم وقت میں تصنیف ہوئیں۔ حضورؓ کے کتابچہ ‘‘چند غلط فہمیوں کا ازالہ’’ کے بارے میں اخبار الفضل لکھتا ہے:
‘‘10؍مارچ 1915ء کو بعد از عشاء فرمایا کہ میں چاہتا ہوں ایک مختصر ٹریکٹ میں بھی ان غلط فہمیوں کا ازالہ کر دوں جو ہمارے اعتقادات کی نسبت پھیلائی جاتی ہیں ….. اس کے بعد آپ بارہ بجے رات کے سولہ صفحے کا مضمون لکھ کر لائے جو اسی وقت کاتبوں کے سپرد کیا گیا اور ساڑھے چار بجے صبح تک کاپیاں تیار ہوگئیں اور صبح ‘‘چند غلط فہمیوں کا ازالہ’’چھپ گیا۔’’
(الفضل 14؍مارچ 1915ء صفحہ 1کالم 1)
آپ کی حالت اردو محاورہ ‘‘مشین کی طرح کام کرنا’’ کی عملی مثال تھی، اس کی ایک اور مثال مشاہدین نے یوں بیان فرمائی ہے:
‘‘ حضور کی توجہ دو تین روز سے جلسۂ دہلی کے اہتمام کی طرف ہے، ایک مضمون کی تحریک 2؍مارچ صبح کو ہوئی اور آپ نے ظہر تک ایک حصہ لکھ کر امیر قافلہ مولوی محمد الدین صاحب بی اے کے سپرد کیا، باقی حصہ 2بجے رات کے …. بھجوایا پھر جمعہ کی نماز کے بعد شیخ عبدالخالق دہلی جا رہے تھے اُن کو چند اوراق دیے اور باقی دو گھنٹے کے بعد سائیکل پر ماسٹر عبدالعزیز نے سٹیشن بٹالہ پر شیخ صاحب کو جا دیا، بقیہ مضمون تین بجے رات شیخ عبدالرحمن قادیانی لے کر گئے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ایک عالم کو متمتع کرے۔’’(الفضل 7؍ مارچ 1916ء صفحہ 1کالم 1,2)
یہ حضورؓ کی اولوالعزمی ہی تھی جس نے آپؓ کو اپنا آرام و سکون قربان کرنے پر آمادہ کیا ہوا تھا، ان کاموں کو انجام دینے میں آپ جسمانی تکلیف سے تو دو چار ہوتے لیکن قلبی اطمینان محسوس کرتے۔ دینی کاموں کاسر انجام دینا یہی آپؓ کا آرام و سکون تھا، آپؓ کی حالت آپؓ کے اس شعر کی مصداق تھی ؎
دنیا کے عیش اس پہ سراسر ہیں پھر حرام
پہلو میں جس کے ایک دلِ بے قرار ہو
اللہ تعالیٰ نے جو وعدے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کیے تھے اُن کے پورا ہونے میں تو کبھی بھی آپؓ کو شک نہیں گزرا، خلافت کا مقام عطا ہونے پر آپؓ اس ذمہ داری کو احسن سے احسن طور پر نبھانے میں کوشاں رہے کہ اُن الٰہی وعدوں کی روشنی میں حضرت اقدس علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رؤیا آپ کو خلافت سے پہلے ہی اس سفر میں آنے والی مشکلات اور اُن میں ‘‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’’ کامیابی کی خبر دے دی تھی چنانچہ اگست یا ستمبر 1913ء کی اپنی اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘….. مَیں نے رؤیا دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں، ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متأثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ مَیں تمہیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو! مَیں نے کہا ہاں بتاؤ۔ اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بھیانک نظارے ہوں گے مگر تم اِدھر اُدھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونا بلکہ تم ‘‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’’ کہتے ہوئے سیدھے چلے جانا، ان کی غرض یہ ہوگی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اگر تم ان کی طرف متوجہ ہوگئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے اس لیے اپنے کاموں میں لگ جاؤ۔ چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل تھا اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا۔ جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیانک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معاً خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ ‘‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’’ کہتے ہوئے چلے جانا، اس پر میں نے ذرا بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے۔ اس کے بعد پھر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستہ آیا اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتیٰ کہ بعض سر کٹے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے، ہوا میں معلق میرے سامنے آتے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چِڑاتے اور چھیڑتے۔ مجھے غصہ آتا لیکن معاً فرشتہ کی نصیحت یاد آ جاتی اور میں پہلے سے بھی بلند آواز سے ‘‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’’ کہنے لگتا اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلائیں دور ہوگئیں اور مَیں منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ گیا۔’’
(خطبات محمود جلد 16صفحہ253تا254)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو رؤیا میں William the Conquerer کا خطاب دے کر بھی مشکلات میں آپ کی اولوالعزمی اور نتیجۃً فتح کی بشارت عطا فرمائی تھی، آپؓ اپنی اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘میں نے دیکھا کہ مَیں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازہ وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے، مَیں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں اور میرے پاس ایک اور شخص کھڑا ہے۔ اُس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور مَیں اس کے بعد میدان کو ایک مدبّر جرنیل کی طرح اِس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہیے، ایک لکڑی کا موٹا شہتیر زمین پر کٹا ہوا پڑا ہے، ایک پاؤں میں نے اس پر رکھا ہوا ہے اور ایک پاؤں زمین پر ہے جس طرح کوئی شخص کسی دور کی چیز کو دیکھنا چاہے۔ تو ایک پاؤں کسی اونچی چیز پر رکھ کر اونچا ہوکر دیکھتا ہے، اسی طرح میری حالت ہے اور جسم میں عجیب چستی ہے اور سبکی پاتا ہوں جس طرح کہ غیر معمولی کامیابی کے وقت ہوا کرتا ہے اور چاروں طرف نگاہ ڈالتا ہوں کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جس طرف مجھے توجہ کرنی چاہیے کہ اتنے میں ایک آواز آئی جو ایک ایسے شخص کے منہ سے نکل رہی ہے جو مجھے نظر نہیں آتا مگر مَیں اُسے پاس ہی کھڑا ہوا سمجھتا ہوں اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ میری ہی روح ہے گویا میں اور وہ ایک ہی وجود ہیں اور وہ آواز کہتی ہے ولیم دی کنکرَریعنی ولیم فاتح۔ ولیم ایک پُرانا بادشاہ ہے جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ جب مَیں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو مفتی صاحب نے ولیم کے معنے لغت انگریزی سے دیکھے اور معلوم ہوا کہ اس کے معنے ہیں پختہ رائے والا، پکے ارادے والا یا دوسرے لفظوں میں اولوالعزم۔ پس گویا ترجمہ ہوا اولوالعزم فاتح۔’’(الفضل 24؍جون 1924ء صفحہ 5کالم 3،2)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و کشوف مثلاً ‘‘مَیں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دوں گا’’، ‘‘یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللّٰہ مِنَ العَرَبِ’’ اور لندن شہر میں سفید رنگ کے پرندے پکڑنا، وغیرہ خود منزل کا راستہ متعین کیے ہوئے تھے بس ان پر سفر شروع کرنے کی دیر تھی چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آغاز خلافت میں ان منزلوں کی طرف سفر شروع کر دیا، آپؓ نے جلد ہی جماعت کے محدود وسائل کے باوجود انگلستان، ماریشس، امریکہ، افریقہ، انڈونیشیا، شام ،فلسطین اور بخارا وغیرہ میں مبلغین بھجوائے ، بعد ازاں 1934ء میں تحریک جدید کے تحت اس بیرونی تبلیغ میں اور بھی وسعت آگئی اورنہ صرف احمدیت کا چرچا زمین کے کناروں تک ہونے لگا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان دور دراز علاقوں میں احمدیت کی مضبوط شاخیں قائم فرما دیں۔ تبلیغ احمدیت کے یہ عظیم الشان کارنامے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اکناف عالم میں تبلیغ احمدیت کے لیے جوش اور عزم کی ہی مثال ہے کہ جب حضور رضی اللہ عنہ سفر یورپ 1924ء کے موقع پر دمشق میں نزیل ہوئے تو وہاں ایک صاحب شیخ عبدالقادر مغربی نے آپؓ سے ملاقات میں اظہار کیا کہ آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ حضورؓ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے واپسی پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اورحضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ؓکو شام میں تبلیغ کے لیے بھجوا دیا۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ443تا444) اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی عرصے میں شام اور فلسطین کے علاقوں میں احمدیت کی مضبوط شاخیں قائم کر دیں۔
پھیلائیں گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو
جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں
پروا نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ
حرفِ غلط کی طرح مٹانا پڑے ہمیں
محموؔد کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار
روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں
دیگر مسلمانوں خصوصاً مسلمانانِ ہند میں قومی قیادت کا فقدان تھا اور مسلمان علماء کی تگ و دَو زیادہ تر اپنے اپنےحلقوں تک ہی محدود تھی، قومی سطح پر اٹھنے والے مسائل میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےامت مسلمہ کے درد میں اور دینی غیرت و حمیت کے ساتھ دشمنانِ اسلام کے مقابلے کا تہیہ کیا مثلاً دیگر فرقوں کے عدم تعاون اور مخالفت کے باوجود ہندوستان میں شدھی تحریک کے تدارک اور انسداد کے لیے اپنے معدودے چند مجاہدین میدان میں اتارے اور آپؓ کی اولوالعزمی اور مدبّرانہ قیادت نے نامساعد حالات کے باوجود کامیابی سے ہمکنار کیا، ایسی کامیابی جس کا غیروں نے بھی اعتراف کیا۔ تحریک شدھی کا شور ابھی بیٹھا ہی تھا کہ 1927ء میں ‘‘رنگیلا رسول’’اور رسالہ ‘‘ورتمان’’ جیسے دلآزار لٹریچر نے مسلمانانِ ہند کو پھر انتہائی ذہنی اور قلبی صدمات اور شدید غم و غصہ سے دوچار کیا، اس تلاطم خیز دور میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سارے ہندوستان میں سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کراکےدنیا کو آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت سے روشناس کرایا، آپ کے اس کارنامے کو بھی مسلمانوں نے بےحد پسند کیا۔ ملک بھر میں سیرت النبیؐ کے جلسوں کا آغاز اور پھر ہر سال ان کا انعقاد یہ بھی آپؓ کی اولوالعزمی کی روشن مثال ہے۔ ملّی مفاد کی خاطر ایسے کاموں کا بیڑہ اٹھانا اور پھر ان کو کامیابی سے ہم کنار کرنا، یہ آپؓ کی ہی ہمت اور صلاحیت تھی ۔اسی وجہ سے جب 1931ء میں مظلوم کشمیریوں کی داد رسی اور مدد کے لیے کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آرہا تھا تو اقبال اور خواجہ حسن نظامی جیسی سرکردہ شخصیات کی نظریں بھی آپؓ کی ذات کے متعلق پُر اعتماد تھیں کہ یہ کام آپؓ ہی کی سربراہی میں ممکن ہے، واقعی آپ ہی کی اولوالعزم قیادت میں اس کمیٹی نے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیے لیکن جیسے ہی آپؓ نے مخالفین کا شور شرابا دیکھ کر صدارت چھوڑی ، دوسرے گفتار کے غازی کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔
1934ء کا سال بھی جماعت احمدیہ کے لیے بہت ہی مصائب اور مشکلات لے کر آیا جب مجلس احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک نیا محاذ کھولا اور فتنہ و فساد، سب وشتم ، ہزل و ابتذال کے لائحہ عمل کے ساتھ احمدیت کو مٹانے کا خواب لے کر قادیان میں آ داخل ہوئے، یہ دن احمدیوں کے لیے نہایت ہی سخت اور پُر خطر تھے۔ لا ریبیہ اُسی اولوالعزم کا کارنامہ تھا جو جماعت احمدیہ کو اِس پُر خطر طوفان سے نہایت حفاظت سے نکال کر لے آیا، آپؓ کے بلند حوصلے کے سامنے دشمنوں کے حوصلے پست ہوگئے اور طوفان کی صورت اٹھنے والا یہ گروہِ احرار گرد کی مانند بالآخر بیٹھ گیا۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اولوالعزم خلیفہ کو تحریک جدید کا انعام عطا کرتے ہوئے احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلانے کے سامان کیے۔ احرار تو اُسی وقت ہی اپنی کتابِ زندگی پڑھ کر بیٹھ گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عالی ہمت، بلند حوصلہ اور اولوالعزم کے طفیل احمدیت کو تحریک جدید کی ایسی کتاب عطا فرمائی جس میں آئے دن فتح و ظفر کے سنہری ابواب اضافہ ہوتے چلے جا رہے ہیں، یقینا ًاس کا سہرا اُسی ‘‘فتح و ظفر کی کلید’’ کے سر ہے۔ 1953ء میں ایک مرتبہ پھر اِسی احراری ٹولے نے ‘‘تحریک ختم نبوت’’ کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان میں احمدیوں کے خلاف انتہائی تلخ، پُر خطر اور تشویش انگیز فضا پیدا کر دی اور ملک بھر میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً احمدیہ مساجد پر حملوں، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، بعض احمدیوں کو شہید بھی کیا گیا لیکن الحمد للہ احمدی ان شدید حالات میں اپنے اولوالعزم امام کی اطاعت میں ہمت اور حوصلہ کی عملی تصویر بنے رہے اور کیوں نہ بنتے؟ اُن کا اولوالعزم امام باوجود اس کے کہ اپنی عمر کے چونسٹھویں سال میں داخل ہوچکا تھالیکن بیماری اور کمزوری کے باوجود رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کرتا۔ حضورؓ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی دعاؤں کی کثرت کے بعد انتہائی جفاکشی کے ساتھ حکمت عملی بناتے ہوئے جماعت احمدیہ کو پے در پے روح پرور پیغامات سے نوازا اور اُن کے پژمردہ دلوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی۔ الحمد للہ حضورؓ کی اولوالعزمی نے ابتلاء کے اس دور میں بھی سرخرو کیا اور جماعت احمدیہ عظیم الشان برکات الٰہیہ کا مورد ہوتے ہوئے اپنی ترقی کے سفر پر گامزن رہی۔ اس موقع پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں ان بیرونی فتنوں کے علاوہ مصری فتنہ اور مستری فتنہ وغیرہ جیسے فتنوں نے اندرونی طور پر بھی جماعت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی لیکن اس اولوالعزم کے سامنے جلد ہی یہ فتنے اپنی موت آپ مر گئے۔
ہجرت پاکستان کے خونچکاں حالات میں قادیان کی حفاظت اور نئے مرکزکا قیام گو کہنے کو تو دو مختصر عنوان ہیں لیکن یہ عنوان بھی اپنے اندر سیدنا حضرت اولوالعزم رضی اللہ عنہ کی بے پناہ دعاؤں،انتھک محنت، بہترین حکمت عملی اور عالی شان قائدانہ صلاحیتوں کے متعدد ابواب کو لیے ہوئے ہیں۔ قادیان سے ہجرت کے بعد جماعتی نظام کا سارا ڈھانچہ از سرِ نو قائم کرنا اور جماعت کو شکست خوردگی اور اضمحلال کی بجائے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا سکھانا حضورؓ ہی کی اولوالعزمی کا نتیجہ تھا جس نے احمدیت کی سر بلندی اور عظمت کے خیال سے نہ احباب جماعت کو آزردہ خاطر ہونے دیا اور نہ ہی جماعتی ترقی میں کوئی روک آنے دی۔یہاں ایک مثال ہی مکتفی ہوگی۔مکرم چوہدری محمد علی صاحب ایم اے بیان کرتے ہیں کہ تعلیم الاسلام کالج کے دوبارہ اجرا کے متعلق حضرت اولوالعزم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
‘‘آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہوئی ہے، کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا۔’’
پھر اس عاجز سے فرمایا کہ
‘‘آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کرو۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ 86)
جماعت کے نئے مرکز ربوہ کے قیام کے متعلق حضورؓ خود فرماتے ہیں:
‘‘میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے، ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جولائی 1949ء مطبوعہ الفضل 31؍جولائی 1949ء صفحہ 6)
بنجر اور سنگلاخ زمین میں زندگی کی رونقیں اور سر سبز و شادابی پیدا کرنا اور پھر اسی سر زمین سے ساری دنیا میں پھیلی احمدی جماعت کی سرپرستی کرنا بھی اسی اولوالعزمی کی ایک شاندار مثال ہے۔ اُدھر313درویشان کے ذریعہ قادیان کے مقامات مقدسہ کی حفاظت حضورؓ کی اولوالعزمی کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اولوالعزمی کی یہ روح احباب جماعت میں بھی پیدا کی اور ہر میدان میں، ہر مشکل میں پختہ عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ کام کرنے کا درس دیا۔ حضرت مولوی محمددین صاحب ایم اے مبلغ کی امریکہ روانگی کے وقت جو نصائح حضور نے تحریر فرما کر دیں، ان میں لکھا:
‘‘…. مایوس انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا، وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو تلوار کے نیچے بھی اپنی آئندہ کوششوں پر غور کر رہا ہو۔ ایک بج چکا ہے اور صبح آپ نے جانا ہے اور پسلیوں کا درد اس وقت مجھے بے تاب کر رہا ہے اس لیے وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌکے حکم کے ماتحت ختم کر رہا ہوں۔’’
(الفضل 25؍ جنوری 1923ء صفحہ 6کالم 3)
حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب لکھتے ہیں:
‘‘….. اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آیا۔ مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ اوّل آنے کی وجہ سے مجھے یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی کی تکمیل کے لیے تیس روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے۔ اگر حضور کا ارشاد ہو تو مَیں وہاں داخل ہو جاؤں ۔ حضورؓ نے جوابًا تحریر فرمایا:
‘‘جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اُسے تیس روپے میں گرفتار کرانے کے لیے تیار نہیں۔’’
(ماہنامہ ‘‘الفرقان’’ربوہ، دسمبر 1960ء صفحہ5تا6)
اِس اولوالعزمی اور بلند حوصلگی کے درس کی ہزاروں مثالیں ہیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریرات، خطابات، منظومات اور ملفوظات وغیرہ اسی درس سے پُر نظر آتے ہیں، حضورؓ فرماتے ہیں:؎
ہم نشین تجھ کو ہے اک پُر امن منزل کی تلاش
مجھ کو اک آتش فشاں پُر ولولہ دل کی تلاش
سعیٔ پیہم اور کُنج عافیت کا جوڑ کیا
مجھ کو ہے منزل سے نفرت تجھ کو منزل کی تلاش
ایک جگہ فرماتے ہیں:ع
یہ فولادی پنجوں کے ہیں دن اب دستِ حنا کو رہنے دو
ایک اور نظم میں فرماتے ہیں:؎
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر
اولوالعزمی کے مثالی نمونے اور درس کا ہی اثر تھا کہ احمدیت کی خاطر شہادتیں، پردیس میں مبلغین کی دیوانہ وار تبلیغ، درویشان قادیان کا جان ہتھیلی پر رکھ کر حفاظت کرنا، تحریک جدید اور وقف جدید سمیت دیگر تحریکات میں بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرنا، فرقان بٹالین میں سپاہیانہ خدمات وغیرہ جیسی ایمان افروز مثالیں ہمیں تاریخ احمدیت میں نظر آتی ہیں۔ قادیان کی سادہ اور عام سی بستی کی اولوالعزمی، مضبوطی ایمان اور بلند خیالی کا ہی اثر تھا کہ مشہور امریکی مسیحی سکالر Samuel M. Zwemerنے اپنے دورہ قادیان 1924ء کے بعد اپنے تاثرات دیتے ہوئے لکھا:
a credulous faith that almost removes mountains
یعنی ایسا زبردست ایمان ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔
(Across the World of Islam by S. M. Zwemer page 316,317 Fleming H. & Revell Company New York 1929)
اولوالعزمی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی الٰہی برکات کا ہی یہ اثر تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز پر برگشتہ ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد رفتہ رفتہ تَاللّٰہِ لَقَدْ آثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَخَاطِئِیْنَ(الہام 9؍ اپریل 1906ء) کہتے ہوئے آپ کے حلقۂ بیعت میں آگئی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ خلافت کے ذریعہ اولوالعزمی اور بلند خیالی کی یہی روح آج بھی جماعت احمدیہ کو میسر ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور خلافت پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کس طرح مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی مخالفت کے طوفان اُمڈے چلے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر اس پسر موعود کی مد دو نصرت فرمائی اور اپنے اس اولوالعزم کے ساتھ کھڑا ہوکر دشمنوں کو ناکام و نامراد کیا۔ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی فتنوں اور مخالفتوں کے طوفان اٹھے لیکن آپؓ ‘‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’’ ہر فتنے، سازش اور مخالفت کا نہایت مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے گئے اور اکناف عالم میں اسلام احمدیت کا پرچم بلند کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ‘‘سبز اشتہار’’میں بیان فرماتے ہیں:
‘‘پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیتِ باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا اُن پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربّانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی۔’’
(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 460)