سیرت خلفائے کرام

1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ارشاد فرمودہ بعض تقاریر و خطابات پر ایک طائرانہ نظر

(حسیب احمد۔ مربی سلسلہ ربوہ)

’’یاد رکھیں انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز بن رہا ہے۔اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکی صدا بلند ہو کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ ایک عظیم الشان کام ہے جس کے نیک اثرات نسلا بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گی‘‘

پھر بہار دیں کو دکھلا اے مرے پیارے قدیر

کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن

دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم پر رات ہے

اے مرے سورج د کھا اس دیں کے چمکانے کے دن

دل گھٹا جاتا ہے ہردم جاں بھی ہے زیر و زبر

اک نظر فرما کہ جلد آئیں ترے آنے کے دن

کچھ خبر لے تیرے کوچے میں یہ کس کا شور ہے

کیا مرے دلدار تو آئے گا مرجانے کے دن

130؍سال قبل الٰہی پیشگوئیوں اور بشارات کے مطابق اس عظیم الشان وجود کا ظہورہوا جو تاریخ کے صفحات پرکندہ انمٹ نقوش کی مانند ثبت ہوا۔

وہ مرد خدا جس نے روحانی بصیرتوں کے سبھی رخ وا کر دیے۔اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی جو بنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی وہی حیات جاوداں آج پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاری کردہ مستحکم اور انقلاب آفرین نظام نو کی بدولت دنیا کے کونے کونے کو اپنے مقدس نفاس سے معطر کر رہی ہے۔آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا پیغام آج دنیا کی عظیم طاقتوں کے ایوانوں میں گونج رہا ہے ۔ وہ بیج جس کی آبیاری خدا نے 1889ء میں کی تھی ،آج مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاری کردہ نظام کی بدولت دنیا کے کونے کونے میں ہر روز ان گنت بھٹکتے انسانوں کو شب سیہ کی گم گشتہ وادیوں سے نکال کر علم و ایمان کی منور راہوں کا مسافر کر رہا ہے۔

ذیل میں 1920ءمیں حضرت مصلح موعودؓ کےارشاد فرمودہ بعض خطابات نیز اسی سال تحریر فرمودہ بعض مضامین کا اختصار کے ساتھ ذکر ہے۔

یہ وہ وجود ہے جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوا، جوسخت ذہین و فہیم،صاحب شکوہ ،عظمت اور دولت تھا۔ جس سے قوموں نے برکت پائی اور تا قیامت پاتی چلی جائیں گی۔چنانچہ ان خطابات و تحریرات کو پڑھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ میں یہ تمام صفات اتم طور پر پائی جاتی ہیں۔

خطابات حضرت مصلح موعودؓ تحریک تعمیر مسجد فضل لندن

٭…سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لیے احباب جماعت کو مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک کرنے کے لیے یہ مضمون 6؍جنوری1920ء کو تحریر فرمایا ۔
اس میں حضور ؓنے اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری ہے۔وہاں کے مبلّغین اس امر پر زور دیتے رہے ہیں کہ تبلیغ کے فریضہ کو کما حقہ،ادا کرنے کے لیے اس ملک میں مسجد کی تعمیر کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کی توجہ کو زیادہ مؤثر رنگ میں اسلام کی طرف مائل کیا جا سکے۔حضورؓ نے فرمایا کہ

‘‘ہمارے مبلّغین کی یہ درخواست واقعی قابل توجہ ہے۔مگر میرے نزدیک اپنی مسجد بنانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسجد میں کچھ خاص برکات ہیں جو بغیر مسجد کے حاصل نہیں ہوتیں۔’’

اس سلسلہ میں تحریک کرتے ہوئے حضورؓ نے فر مایا:

‘‘یاد رکھیں انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز بن رہا ہے۔اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکی صدا بلند ہو کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ ایک عظیم الشان کام ہے جس کے نیک اثرات نسلا بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گی وہ مسجد ایک مرکزی نقطہ ہوگی جس میں سے نورانی کرنیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کر دیںگی۔

پس اے صاحب ثروت احباب!بلند حوصلگی سے اُٹھو اور ہمیشہ کے لیے ایک نیک یادگار چھوڑ جاؤ۔’’

حضورؓ نے 6؍جنوری کو یہ مضمون تحریر فرمایا اور شائع کرنے سے قبل7؍جنوری 1920ء کو اہل قادیان کو اپنے ایک خطاب کے ذریعہ لندن میں مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت اور افادیت بیان کر کے اس کے لیے مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔اس موقع پر قادیان کے احباب نے مثالی قربانی کا مظاہرہ کیا۔حضور ؓنے مضمون کے بقیہ حصہ میں جو اس کے بعد تحریر فرمایا اس امر کا بھی نہایت محبت بھرے انداز میں ذکر فرمایا اور یہ مکمل مضمون 22؍جنوری 1920ء کو الفضل میں شائع ہوا۔

حضورؓنےقادیان کے مردوں، عورتوں، بچّوں اور غریب طلباء کی مالی قربانی پر انتہائی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے بعض ایمان افروز واقعات بھی بیان فرمائے۔

مضمون کے آخر میں حضور نے دُعا کی کہ

‘‘اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو پورا کرنے کی توفیق دے،آپ کی ہمتوں کو بلند اور آپ کی نیتوں کو خالص کرے۔اور آپ کے کاموں میں برکت دے۔اور اسلام کی شان کو آپ لوگوں کے ہاتھ پرظاہر کرے۔’’

قیام توحید کےلیےغیرت

٭…سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے انگلستان میں مسجد کی تعمیر کرنے سے متعلق 7؍جنوری 1920ء کو قادیان میں بعد نماز عصر یہ تقریر فرمائی جو 26؍جنوری 1920ء کو الفضل میں شائع ہوئی۔

حضورؓ نے اپنی تقریر کے بعد ابتدا میں انسانی فطرت میںبعض ودیعت کی گئی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ نے بعض باتیں ایسی رکھی ہیں کہ گو ان کو رسم و رواج اور عادات کئی کئی طرز پر ڈھال دیتے ہیں مگر ان کی اصلیت نہیں بدل سکتی۔

انہیں فطرتی جذبات میں سے ایک جذبہ غیرت ہے اور اس کے اظہار کے لیے بھی الگ الگ مقام ہوتے ہیں بعض لوگ اپنی عزت رکھتے ہیں،بعض لوگ اپنے ملک کے لیے غیرت رکھتے ہیں اور بعض لوگ اپنے مال و تجارت کے لیے غیرت کا جذبہ رکھتے ہیں۔مگر ایک مذہبی آدمی کیےلیے مذہب غیرت کی چیز ہے اور اسی مذہبی غیرت کے جذبہ کے تحت دنیا میں بڑے بڑے انقلاب رونما ہوئے ہیں۔’’

حضورؓ نے فرمایا:

‘‘ہماری جماعت جو احمدی جماعت ہے اس کو مذہب کے لیے غیرت دی گئی ہے لوگوں کو تجارت کے لیے غیرت ہے،زراعت کے لیے غیرت ہے،بہت لوگوں کو ملک کے لیے غیرت ہے۔مگر جو خدا کی جماعتیں ہوتی ہیں انہیں لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے لیے غیرت ہوتی ہے،ملک جاتے ہیں تو جائیں،حکومتیں مٹتی ہیں تو مٹیں زراعتیں برباد ہوتی ہیں تو ہوں،تجارتیں تباہ ہوتی ہیں تو ہوں،زمینیں چھنتی ہیں تو چھن جائیں اور اگر ظالموں کی طرف سے ننگ و ناموس پر حملہ ہو اور وہ جائے اس کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔اگر وطنوں سے بےوطن ہونا پڑے تو کچھ پرواہ نہیں اگر مال چھنتے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں،عہدے اور امارتیں لے لی جائیں تو کچھ حرج نہیں وہ ان سب چیزوں کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوتی ہیں اگر نہیں چھوڑتیں اور نہ چھوڑنے کےلیے تیار ہوتی ہیں تو وہ ایک ہی چیز ہے۔یعنی لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔

حضور ؓنے فرمایا کہ ہماری غریب جماعت نے اس جذبۂ غیرت کے تحت خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت اسلام کا عظیم الشان کام کیا ہے جو مسلمانوں کی مالدار جماعتیں نہیں کر سکیں۔انگلستان جو عیسائیت کا گڑھ ہے۔ہمارے مبلغ وہاں پہنچے ہیں۔وہاں ہم نے سپاہی بھیجے ہیں۔ان کے لیے سامان کی ضرورت ہے۔سامان میں سب سے پہلے قلعہ کا مقابلہ قلعہ ہوتا ہے اور مذہب کا قلعہ مسجد ہوتی ہے۔حضورؓ نےفرمایا کہ مبلغوں نے وہاں مسجد بنانے کا اصرار کیا ہے۔اور میرے دل میں بھی خدا تعالیٰ نے بڑے زور سے یہ تحریک کی ہے کہ یہ کام شروع کیا جائے۔

حضورؓ نے اپنے اس مؤثر خطاب میں قادیان کے مردوں، عورتوںاوربچوںکےاخلاص،فدائیت،اسلامی غیرت اور جذبۂ قربانی کی مثالیں پیش کرنے کے بعد دیگر احباب جماعت کو بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے کہ ہماری جماعت جو غرباء کی جماعت ہے صحابہ کی طرح قربانیاں کر رہی ہے۔

حضور ؓنے اس خطاب کے آخر میں فرمایا کہ

‘‘ایک ایک اینٹ جو ان کی طرف سے لندن میں مسجد کی رکھی جائے گی وہ گویا ترقی اسلام کی بنیاد کی اینٹ ہوگی۔اس وقت دنیاوی طور پر خواہ کیسے ہی وسیع دماغ کا آدمی ہو وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ یہ لوگ بھی کچھ کر سکتے ہیں۔اور یہ سچ ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے مگر خدا تعالیٰ ان سے بہت کچھ کرا سکتا ہے۔’’

صداقت احمدیت

٭…حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے لاہور کے بعض احمدی تاجروں کی درخواست پر افادئہ عام کے لیے19؍جنوری1920ء کو بیرون دہلی دروازہ ‘‘صداقت احمدیت’’ کے عنوان پر ایک لیکچر ارشاد فرمایا جو ان چھ عظیم الشان لیکچروں میںسے ایک ہے جو حضور نے 13؍تا23؍فروری 1920ء تک لاہور اور امرتسر کے سفر کے دوران مختلف مقامات پر ارشادفرمائے۔حضور ؓکا یہ لیکچر ڈھائی گھنٹے جاری رہا اور غیر از جماعت سامعین اس سے بہت متاثر ہوئے۔

(الفضل یکم ؍مارچ 1920ء صفحہ 8)

اسے سب سے پہلے مکرم محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔اس تبلیغی لیکچر میں حضورؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت پیش فرما کر سچائی کو پرکھنے کا ایک بڑا بھاری معیار پیش فرمایا ہے جس کی بنیاد حضرت مسیح علیہ السلام کے اس قول پر رکھی ہے کہ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔حضورؓ نے یہ معیار ان الفاظ میں پیش فرمایا ہے:

‘‘اسلام کے ہر مسئلہ کے متعلق غور کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہی عقیدہ درست اور صحیح ہو سکتا ہے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور سب کمالات کا جامع ہونا ثابت ہو اور جس عقیدہ سے یہ ثابت ہو کہ آپؐ کسی سے افضل نہیں رہتے یا اس کے اختیار کرنے سے آپ کے کسی کمال میں نقص پایا جاتا ہے تو وہ عقیدہ قطعاً اسلام کے خلاف،تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہوگا’’۔

اس معیار کے مطابق حضورؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش فرمودہ عقائد وفات مسیح ؑکے فوائد اور مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ حیات مسیح کے نقصانات بیان فرما کر احمدیت کی صداقت کوپرکھنے کا یہ اصول سامنے رکھا کہ

‘‘اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے جو ہم اور دوسرے لوگوں میں پایا جاتا ہے،یہ دیکھنا چاہیے کہ کس کے عقائد ایسے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے اور کس کے ایسے ہیں جن سے عزت ؟ہمارے افعال اور حالات سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ثابت ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کی طرف توجہ نہ کریں۔’’

صداقت اسلام

٭…‘‘صداقت اسلام ’’نامی یہ کتاب حضرت مصلح موعودؓ کی ایک تقریر ہے جو حضور نے امرتسر کے ‘‘بندے ماترم ہال’’میں 22؍فروری 1920ء کو فرمائی ۔یہ وہی ہال ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1905ء میں ایک لیکچر دیا تھا اور حضورؑ پر اس لیکچر کے دوران پتھر برسائے گئے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ کی اس تقریر کا عنوان ‘‘صداقت اسلام اور ذرائع ترقی اسلام’’ تھا۔

حضورؓ نے اس مختصر مضمون میں مذہب کی غرض کو پیش فرما کر اسلام کی صداقت پیش فرمائی ہے اور بتایا کہ مذہب کی غرض ایسا راستہ بتانا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے۔جو مذہب اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ سچاہے اور جو پورا نہیں کرتا وہ سچا مذہب نہیں ۔اس اُصول کے مطابق حضورؓ نے اسلام کی صداقت کے درج ذیل دو دلائل پیش فرمائے ہیں۔

1۔اسلام کی پیش کردہ تعلیم (قرآن کریم)سب سے بہتر ہے۔

2۔اسلام میں خدا سے کلام کرنے کا دروازہ کھلا ہے۔

اس ضمن میں حضور ؓنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور قبولیت دُعا کے بعض واقعات بیان فرما کر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کی صداقت پر محبت سے غور کرنے کی تلقین فرمائی اور یہ بتایا کہ مسلمانوں کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تعصب اور ضد کو چھوڑ یں اور خدا تعالیٰ نے جو اس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مسیح موعودؑ بنا کر بھیجا ہے انہیں تھام لیں۔

جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں

٭…24؍فروری1920ءکوحضرت مصلح موعودؓنے لاہور سے روانہ ہوتے وقت جماعت احمدیہ لاہور کے احباب، خواتین اور طالب علموں سے مخاطب ہو کر ایک خطاب فرمایا۔

حضرت مصلح موعود ؓنے اس خطاب میں لاہور کی جماعت کے حالات سے واقفیت کی بنا پر بعض نصائح اور چند متفرق امور کی طرف لاہور کے افراد جماعت کی توجہ مبذول کروائی ۔

حضور ؓنے اس خطاب میں اجتماع اور اتحاد کے قیام کے لیے تین بنیادی امور کی طرف خصوصی طور پر توجہ دلائی:

1۔اپنی رائے کا قربان کرنا۔

2۔آپس کے معاملات میں طبائع کا لحاظ رکھنا۔

3۔جماعتی عہدیداروں یا افسروں کی اطاعت ۔

حضورؓ نے احباب جماعت کو نہایت پر درد اندا زمیں نصیحت فرمائی ہے کہ

‘‘اس زمانہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھو اور یہ مت سمجھو کہ تم پر کوئی بوجھ پڑا ہوا ہے بلکہ یہ سمجھو کہ تمہیں دین کی خدمت کا موقعہ ملا ہوا ہے …پس تم لوگ اس زمانہ کی قدر کر کے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کرو تا کہ خدا تعالیٰ کی اس بارش سے تمہارے گھر بھر جائیں جو دنیا کو سیراب کرنے کے لیے اس نے نازل کی ہےاور اس نورسے بھر پور ہو جاؤ جس کے پھیلانے کا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے۔’’

(جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں، انوار العلوم جلد5صفحہ95تا96)

اپنی اس تقریر کے آخر میںآپؓ نے طلباء کو بالخصوص یہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں۔

تقریر سیالکوٹ

٭…حضرت مصلح موعودؓ 7؍اپریل 1920ء کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور 13؍اپریل تک وہاں قیام پذیر رہے۔دوران قیام حضور ؓنے 10؍اپریل کو احمدیہ ہال کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے خطاب فرمایا جو ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان’’کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس خطاب میں قرآن کریم کی سورۃ ہودآیت 18کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے تین نشان بیان فرمائے:

1۔ رسولؐ اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہے۔

2۔گذشتہ کتابوں میں اس نبیؐ کے آنے کی خبر یں موجود ہیں۔

3۔ جب دنیا خدا کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہوگی اس وقت ایک ایسا انسان آئے گا جو خود نشان دکھلا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کر دے گا۔

حضور ؓنے بتایا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حالت دیکھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے اس شاہد (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو کھڑا کر دیا ہےجس کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا تھا ۔اس ضمن میں حضورؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے تین دلائل سے یہ ثابت فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعودؑ نہ جھوٹے تھے ،نہ غلطی خوردہ تھے اور نہ ہی آپ کو جنون تھا۔بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور سچے نبی تھے اور جو کامیابی آپؑ کو نصیب ہوئی یا ہو رہی ہے وہ کسی جھوٹے اور مفتری کو نہیں ہو سکتی۔
خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار

٭…حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود کے قیام سیالکوٹ کے دوران 11؍اپریل 1920ء کو ایک دعوت کے موقع پر ایک غیر از جماعت نے حضورؓسے یہ سوال دریافت کیا کہ حضرت مرزا صاحبؑ کے آنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی؟اس سوال کے جواب میں حضور ؓنے ایک مختصر تقریر ارشاد فرمائی۔حضور کی یہ تقریر محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے مرتب کی جسے ‘‘خاتم النبییّن ؐکی شان کا اظہار’’کے عنوان سے محترم محمد یا مین صاحب تاجر کُتب قادیان نے دسمبر 1922ء میں شائع کیا۔

حضرت مصلح موعودؓنے اپنی اس تقریر میں بتایا کہ حضرت مرز اصاحب (مسیح موعود علیہ السلام )رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے آئے تھے اور آپ کے دعاوی سے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اوّل تمام مذاہب نے آخری زمانہ میں ایک موعود کے آنے کی خبر دی تھی اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ثابت ہو چکا ہے کہ اب اسلام ہی سچا مذہب ہےاس لیے اس کے قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے اس موعود کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھیجا جس نے اسلام کی صداقت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ظاہر فرمائی ہے۔

دوم یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے وفات مسیح ؑکا جو عقیدہ پیش فرمایا ہے اس سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

سوم یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ خدا کے نبی ہونے کا تھا اور نبوت کا یہ انعام بھی آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل ہوا ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نبوت کا جاری رہنا ہی آپ ؐکی فضیلت کا ثبوت ہے نہ یہ کہ وہ بند ہو جائے۔

دُنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا

٭…سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکا یہ ایک پبلک لیکچر ہے جو حضور نے 11؍اپریل 1920ءشام پانچ بجےسیالکوٹ میں ارشاد فرمایا۔

اس لیکچر میں حضورؓ نےپہلے یہ سوال اٹھایا کہ ‘‘دنیا کا آئندہ مذہب کیا ہوگا؟’’اس کے جواب میں حضورؓ نے بڑی تحدی سےیہ بات پیش فرمائی ہے کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہوگا۔

حضور ؓنے اپنے اس مختصر لیکچر میں اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات کا موازنہ پیش فرماتے ہوئے یہ ثابت کیاکہ اسلام ہی عیسائیت کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اس پر غالب آ سکتا ہے ۔اس لیے لازماً ماننا پڑے گا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہوگاکیونکہ اسلام کی تعلیم ہر زمانے کے لیے کافی ہے اور یہ مذہب ہر ایک کی پیاس بجھا سکتا ہے اور ہر زمانے میں پیش آنے والی ضروریات کا علاج کر سکتا ہے۔

فرائض مستورات

٭…حضرت مصلح موعود ؓکا مستورات سے یہ ایک خطاب ہے جوحضورؓنے 1920ء میں سیالکوٹ قیام کے دوران 12؍اپریل کو پنجابی زبان میں فرمایا ۔ اس خطاب کا اردو ترجمہ 16؍ اپریل کے الفضل میں شائع ہوا۔
حضورؓ نے اس خطاب میں مستورات کو نہایت آسان اور سادہ پیرایہ میں اسلامی احکامات پر عمل کرنے،عبادات و اخلاق حسنہ کے اپنانے اور بعض نا پسندیدہ امور مثلا ًبد رسومات وغیرہ کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی ۔

ایک غلط بیانی کی تردید

٭…حضرت مصلح موعود ؓکا یہ ایک مضمون ہے جس کا پس منظر کچھ یوںہے کہ 1920ء میں ہندوستان کے ایک اخبار ‘‘آفتاب’’ میں‘‘مرزا بشیر الدین محمود احمد سے قطع تعلق ’’کے عنوان سے ایک فرضی اور خود ساختہ خط شائع ہوا۔اس خط کے لکھنے والے کا نام مستری عمر بخش (انجمن ڈرائیور کوہاٹ)ظاہر کیا گیا تھا۔
حضورؓ نے اس شخص کے متعلق مکمل تحقیق کے بعد اخبار الفضل قادیان کی 13؍مئی 1920ء کی اشاعت میں اس خط کا جواب تحریر فرمایا اور اس میں لگائے جانے والے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی پُر زور تردید فرما کر اس خط کی اشاعت پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے۔

معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ

٭…جنگ عظیم اوّل کے بعد فاتح اتحادی ممالک نے دولتِ عثمانیہ (ترکی) سے صلح کی جو شرائط طے کیں وہ انتہائی ذلّت آمیز تھیں۔ان کی رو سے سلطنت ترکی کے حصے ٹکڑے ٹکڑےکر دیے گئے۔ اس کی بحری، برّی اور ہوائی افواج نہایت محدود کر دی گئیںاور اس پر بعض اور کڑی پابندیاں بھی لگا دی گئیں ۔

ان حالات میں ترکی کی سلطنت کے ساتھ صلح کی شرائط کے مسئلہ پر غور کرنے اورمسلمانوں کے لیے آئندہ طریق عمل سوچنے اور تجویز کرنے کے لیے یکم و 2؍ جون 1920ء کو الٰہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جانا مقرر ہوا۔

جمعیۃ العلماء ہند کے مشہور لیڈر مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے 30؍مئی 1920ء کو حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اس کا نفرنس میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے دعوت دی ۔چنانچہ حضورؓ نے ‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ’’کے عنوان سے ایک دن میں یہ مضمون تحریر فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ذریعہ بھجوا دیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 263تا264)

حضورؓ نے اس مضمون میں معاہدہ ترکیہ شرائط کے نقائص کی نشان دہی فرما کر اس کے بد اثرات سے بچنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے بعض تجاویز پیش فرمائیں۔

حضور ؓنے نہایت مدلّل انداز میں اپنے مؤ قف کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا کہ ہجرت،جہاد عام اور گورنمنٹ سے قطع تعلق کرنے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیںجو نا قابل عمل اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔

حضورؓ نے اپنی طرف سے تجویز فرمایا کہ مسلمان متفق اللسان ہو کر اتحادی حکومتوں پر یہ بات واضح کر دیں کہ چونکہ انہوں نے ترکوں سے صلح کی شرائط اپنے تجویز کردہ قواعد کے خلاف رکھی ہیں اور اس معاہدہ میں مسیحی تعصب دکھائی دیتا ہے۔ نیز ان شرائط میں سرمایہ داروںیعنی CAPITALISTSکے مفادات کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے۔ لہٰذا مسلمان اس فیصلہ کو نا پسند کرتے اور اسے تبدیل کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
اس مضمون میں حضور ؓنے مذکورہ تجویز کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کےلیے بلاتا خیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ (یعنی مؤ تمر عالم اسلامی) قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔

لوح الہدیٰ

٭…1920ء کے موسم گرما میں حضورؓ دھرم سالہ تشریف لے گئے وہاں قیام کے دوران آپ نے احمدی نو جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نظم بعنوان ‘‘لوح الہدیٰ’’تحریر فرمائی۔

32؍ اشعار پر مشتمل یہ نظم نہایت مؤثر اور بیش قیمت نصائح اور زریں ہدایات سے پُر ہے۔اس نظم کا پہلا شعر یہ ہے

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے

پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو

اس نظم کی یہ خصوصیت ہے کہ حضورؓ نے اس نظم کا پس منظر بھی خود تحریر فرمایا ہے اور کم و بیش ہر شعر کی وضاحت و تشریح نثر میں خود بیان فرمائی ہے۔

حضور ؓفرماتے ہیں :

‘‘ہر قوم کی زندگی اس کے نو جوانوں سے وابستہ ہے کہ کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام نا کامی ہوتا ہے…ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آ گاہ کر دیں جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کر دیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو سنیںتا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپُرد ہوئی ہے اس کے کماحقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے۔

ترک موالات اور احکام اسلام

٭…1920ء میں ترکی کی دولتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے ترک موالات کا نعرہ بلند کیا۔حضرت مصلح موعود نے اپنے مضمون ‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ’’میں مسلمانوں کو اس تحریک موالات کے نقصانات سے بروقت آگاہ فرما دیا تھا۔مگر افسوس کہ اس وقت کے مسلمانوںنے اس پُر خلوص آواز پر توجہ نہ دی اور کانگریسی لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں یکم ؍اگست 1920ء سے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون کا منظّم پروگرام شروع کر کے ملک میں ایسی آگ لگادی کہ جس سے ملک کا کوئی صوبہ اور کوئی ضلع محفوظ نہ رہا۔مسلمان اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر افغانستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔

ان حالات میں حضرت مصلح موعود نے ‘‘ترک موالات اور احکامِ اسلام ’’ کےنام سے یہ کتاب تصنیف فرمائی اور اُن خیالات کو جو حضور‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ’’میں پیش فرما چکے تھے قرآن کریم و حدیث نبوی ﷺکی روشنی میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ ایک بار پھر اس کتاب میں پیش فرمائی۔حضورؓ کی یہ تصنیف دسمبر 1920ء ہی میں شائع ہوئی تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 267تا 270)

حضورؓ نے اپنی اس تصنیف کی وجہ تالیف ‘‘التماس ضروری’’ کے عنوان سے کتاب کے آخر میں ان الفاظ میں پیش فرمائی ہے:

‘‘مَیں نے یہ رسالہ محض ہمدردیٔ احباب کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ہر ایک وہ شخص جو قرآن کریم اور ارشادات نبویؐ کا شیدائی ہے ترک موالات کے مسئلہ کے متعلق صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔’’

حضور ؓنے اپنی اس تصنیف میں ترکِ موالات کے معانی اور ترکِ موالات کے بارے میںمسلمان علماء کی طرف سے دیے گئے فتووں میں پیش کردہ آیات کے حقیقی مفہوم کو تفصیل کے ساتھ پیش فرمایا اور ترکِ موالات کی تائید میں دیے جانے والے دلائل کا پُر زور انداز میں ردّ فرمایا ۔

حضور ؓنے قرآن کریم کی رُو سے ترکِ موالات کے چار نقصانات اور ترکِ موالات کے متعلق قرآن کریم کے دو بنیادی احکام بیان کرتے ہوئے اپنا یہ نقطۂ نظر پیش فرمایا کہ ترکِ موالات کی کوئی صورت بھی اس زمانہ میں جائز نہیں اور اس وقت بالخصوص حکومت کے خلاف اس کا وجوب تو الگ رہا اس کے جواز کا فتوی دینا بھی ظُلم اور تعدّ ی ہے۔

اسلام اور حریت و مساوات

٭…حضرت مصلح موعود ؓکی یہ تصنیف دراصل ایک صاحب کے اٹھارہ سوالوں کے جوابات اور ایک تفصیلی مضمون پر مشتمل ہے۔

کوہ مری سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں اٹھارہ سوال لکھ کر بھیجے تھے جس کے جوابات حضورؓ نے تحریر فرمائے جو11؍نومبر 1920ءکو الفضل میں شائع ہوئے۔
ان جوابات کی اشاعت پر امرتسر کے ایک اخبار روزنامہ وکیل میں خواجہ عباد اللہ صاحب اختر نے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا اور حضور ؓکی طرف سے الفضل میں شائع ہونے والے مذکورہ جوابات پر بعض اعتراضات کیے۔اس سلسلہ ٔمضامین کی اشاعت کے بعد حضور ؓنے ان لوگوں کی رہ نمائی کے لیے جو حق طلبی کا جذبہ رکھتے ہیں ایک اور تفصیلی مضمون تحریر فرمایا اور اس کا عنوان ‘‘اسلام اور حریت و مساوات’’رکھا ۔یہ مضمون 20؍دسمبر 1920ء کے الفضل میں شائع ہوا۔

حضورؓ نے اپنے اس مضمون میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں حریت و مساوات کے حقیقی معانی اور مفہوم کو پیش فرمایا اور بتایا کہ حریت و مساوات کا اصل ہر جگہ چسپاں نہیں ہو سکتا۔بعض جگہ حریت و مساوات بری ہوتی ہے، بعض جگہ جائز اور بعض جگہ ضروری ہوتی ہے۔ مساوات کے موضوع کے علاوہ حضور ؓنے اس مضمون میں خواجہ عباد اللہ صاحب اختر کی ان باتوں کا جواب بھی تحریر فرمایا ہے جو انہوں نے حضور ؓکی طرف غلط طور پرمنسوب کیےتھے۔

اسلام پر ایک آریہ پروفیسر کے اعتراضات کا جواب

٭…1920ء کے اواخر میں آریہ سماجیوں کی طرف سے لاہور میں قومی امور سے متعلق جلسےمنعقد کیے گئے۔انہی جلسوں میں گرو کل پارٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رام دیو صاحب نے بھی ایک لیکچر دیا جس کا موضوع یہ تھا کہ بُدھ مت،مسیحیت اور اسلام زمانےکے حالات کے مطابق نہیں ہیں اور سائنس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔جبکہ ہندو مت جو خود سائنس کا سر چشمہ ہے اسے علوم کی ترقی سے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا یہی آئندہ دنیا کا مذہب ہوگا۔

پروفیسر صاحب کے اس لیکچر کا خلاصہ لاہور کے اخبار ‘‘بندے ماترم ’’نے 30؍نومبر 1920ء کی اشاعت میں شائع کیا۔

حضرت مصلح موعود ؓنے پروفیسر صاحب مذکور کے خیالات کا رد فرمانے کی غرض سے ایک مضمون تحریر فرمایا جو 13؍دسمبر 1920ءکو الفضل (قادیان)میں شائع ہوا جس میں حضورؓ نے پروفیسر رام دیو صاحب کے خیالات کی پُر زور تردید فرمائی اور اسلام کی حقانیت پیش فرمائی۔

حضورؓ کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد پروفیسر رام دیو صاحب نے 16؍جنوری 1921ء کو پرکاش نامی ایک اخبار میں اس کا جواب شائع کروادیا ۔حضور ؓنے اس کا بھی جواب الجواب تحریر فرمایا جو الفضل کی 7؍فروری 1921ء کی اشاعت میں شائع ہوا اور چونکہ رام دیو صاحب نے اپنے دوسرے مضمون میں قرآن کریم کے الہامی ہونے کے متعلق کچھ اعتراضات پیش کرنے کی اجازت چاہی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حضورؓ ان اعتراضات کا جواب ارشاد فرمائیں۔اس لیے حضورؓ نے اس دوسرے مضمون میں اعتراضات کے سلسلہ کو نا واجب طوالت سے بچانے کے لیے نو (9)شرائط پر مشتمل تحریری مباحثہ کا طریق پیش فرمایا جسے پروفیسر صاحب نے منظور کر لیا۔اس پر حضورؓ نے ایک تیسرا مضمون تحریر فرمایا جو 7؍اپریل 1921ء کو الفضل قادیان میں شائع ہوا ۔اس تیسرے مضمون میں حضورؓ نے اپنی پیش کردہ شرائط کی مزیدتفصیلات پیش کرتے ہوئے یہ بھی تحریر فرمایا کہ

‘‘اگر چہ پروفیسر صاحب کو میری…تحریر سے اتفاق ہو تو وہ ان تین اعتراضات کو شائع کروا دیں جس کی بنا پر قرآن کریم کے الہامی ہونے میں ان کو کلام ہے اور ان کے اعتراضات کو وضاحت سے بیان کر دیں جن کا تصفیہ سب سے پہلے کرنا وہ پسند کرتے ہوں۔ان کے مضمون کے شائع ہونے پر میں ان کا مضمون اور اپنا جواب بھی الفضل میں شائع کروا دوں گا۔’’

اصلاحِ نفس (متفرق اُمور)

٭…یہ وہ تقریر ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے 27؍ دسمبر 1920ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر فرمائی تھی ۔

حضورؓ نے اپنی اس تقریر میں جماعت کے اخلاص اور اس کی عمومی حالت کا ذکر فرمایا اور اصلاح نفس اورترک شرّ کے حوالے سے بد ظنی ،جھوٹ،سخت کلامی و درشتی،نشہ اور حقہ نوشی وغیرہ امور سے احباب جماعت کو مجتنب رہنے کی تلقین فرمائی اور اعمالِ خیر کے حوالے سے نماز با جماعت پڑھنے،نماز کا ترجمہ سیکھنے،روزہ رکھنے،علم حاصل کرنے،خدا کی محبت دل میں پیدا کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کی طرف نہایت دل نشیں اور مؤثر انداز میں توجہ دلائی۔

ملائکۃ اللہ

٭…حضرت مصلح موعود ؓکی معارف و حقائقِ سماوی سے پُر یہ تقریر جو حضور نے 28؍اور29؍دسمبر 1920ءکو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعے پرمسجدبیت نور میں ارشاد فرمائی ۔اس کا موضوع‘‘ملا ئکۃ اللہ ’’ہے۔

ملائکۃ اللہ کا یہ مضمون اسلام کے بنیادی اصول اور ایمانیات میں داخل ہے۔باوجود اس کے کہ یہ مضمون نہایت باریک و دقیق ہے حضورؓ نے اسے نہایت آسان اور بصیرت افروز اندا زمیں پیش فرمایا ہے۔
حضورؓنے قرآن کریم کی رُو سے ملائکہ کی حقیقت و ضرورت،ان کی اقسام،ان کےفرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور ان کے متعلق شبہات و اعتراضات کے مفصل و مدلل جوابات دیے ہیں۔مضمون کے آخر پر حضور نے فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے اور اُن سے فیض حاصل کرنے کے 10 ذرائع بیان فرمائے ۔

خطبات جمعہ بیان فرمودہ 1920ء

خلافت حقہ اسلامیہ کی برکات میںسے ایک عظیم الشان برکت خلفائے کرام کے خطبات جمعہ ہیں جن کے ذریعہ افراد جماعت کو وقت کی ضرورت کے مطابق خلفاء نصائح فرماتے ہیں۔

1920ء کے خطباتِ جمعہ خطبات محمود جلد ششم میں شائع ہوئے ہیں۔ مطبوعہ خطبات کی کل تعداد 38 ہے۔
ان خطبات کا اگر جائزہ لیا جائے توہمیںنظرآتا ہے کہ حضرت مصلح موعود ؓنے افراد جماعت کو وقت کی ضرورت کے مطابق نصائح فرمائیں جن میں اشاعت اسلام کے منصوبوں میںحصہ لینےکی تحریکات بھی ہیں اور اصلاح نفس کے حوالے سے زرّیں نصائح بھی۔

سال کے آغاز ہی میں آپؓ نے جماعت کے سامنے لندن میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کی تعمیر کے حوالے سے چند ہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی۔

اس کے بعد جنوری کے ہی ماہ میںحضورؓ نے افراد جماعت کو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی نیزایک خطبہ میں س امرکی طرف رہ نمائی فرمائی کہ افراد جماعت اپنے فوائد کو جماعتی فوائد پر قربان کرنے کی عادت اگر اپنا لیںتو دنیا کی کوئی طاقت اسے تباہ نہیں کر سکتی۔


فروری کے ماہ میں حضورؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں اس وقت کے حالات کے مطابق دنیاوی ابتلاؤں جیسے مختلف وبائیںاور قحط سے محفوظ رہنے کے لیے ایک حقیقی مومن کے ردعمل کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ ایسے مواقع پر مومنین دعاؤںسے کام لیتے ہیں۔

اس کے بعد حضورؓنے فروری کے ماہ میںمتواتر تین خطبات میں اشاعت اسلام کے حوالے سے افراد جماعت کو اس کام میںبھر پور حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی۔

خلفاء جہاںجماعت کو تبلیغ اور اشاعت اسلام کی طرف توجہ دلاتے ہیںتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آئیں وہاںساتھ ساتھ موجودہ افراد جماعت کی اصلاح اور ان کی تربیت کی طرف بھی بھر پور توجہ ہوتی ہے۔

چنانچہ1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے متواتر کئی خطبات افراد جماعت کے آپس میںاتفاق اور پیار و محبت قائم کرنے کےحوالے سے ارشاد فرمائے۔قرآن کریم کا ارشاد وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ للّٰہِ جَمِیْعًاکی روشنی میںحضورؓ نے 2؍اپریل 1920ء کو خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جس میں آپ ؓ نے مختلف اوقات میں7؍خطبات ارشاد فرمائے۔یہ سلسلہ 25؍جون1920ء کےخطبہ جمعہ پر اختتام کو پہنچا۔

اس کےعلاوہ حضورؓ نے اس سال مختلف تربیتی موضوعات پر خطبات ارشاد فرمائے جس میں تعلق با للہ ، اعلیٰ اخلاق اپنانا، سلام کو رواج دینا، دین کے احکامات کو ماننا اور دوسروں سے منوانا، آپس میں صلح کرنا، غیبت سے بچنا، خوبی کو ظاہر کرنا اور برائی کو چھپانا اورخدا تعالیٰ پر توکل کرنے میں ہی کامیاب ہونا جیسے عناوین شامل ہیں۔

سال کے اختتام پر حضورؓ نے جلسہ سالانہ کے حوالے سے بعض خطبات ارشاد فرمائے جس میں منتظمین اور مہمانوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کیا بطور خاص اہالیان قادیان کو اکرام ضیف کی ہدایت فرمائی۔
سال کا آخری خطبہ جمعہ حضورؓ نے 31؍دسمبر 1920ء کو ارشاد فرمایا۔اس میں حضورؓ نے افرادجماعت کو مسلسل خدمت دین میں لگے رہنےاور کبھی بھی سستی نہ دکھانےکی نصیحت فرمائی۔ آپؓ نےفرمایا:

‘‘…ہمیشہ یاد رکھو کہ دین کی خدمت میںسُست ہوناکوئی خوبی نہیں بلکہ دین کی خدمت کے لیےآگے ہی آگے بڑھنا خوبی ہے۔ جو شخص آگے بڑھنے کی کوشش کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کو اور نیکی کی کی توفیق دیتاہے…
پس کبھی سست مت ہو۔ کبھی ہمت اور استقلال چھوڑ کر مت بیٹھو اور کبھی نہ کہو کہ ہم ہار گئے۔ آخری وقت تک جیت جانے کی امید رکھو۔ آخر تم جیت جاؤگے۔…

یہ میری نصیحت ہے اس پر عمل کرو گے تو ان شاءاللہ دین و دنیا میں تمہیں نا کامی نہیںہو گی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عمل کی توفیق دے۔’’

(خطبات محمود جلد 6صفحہ580)

اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓکی روح پر ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے کہ آپؓ نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اشاعت دین کے لیے وقف کر رکھا تھا اور عمر بھرافراد جماعت کو اس راہ کی طرف اپنے خطبات، خطابات اور مضامین کےذریعہ توجہ دلاتے رہے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button