ملت کا سچا فدائی
تھی رفتا ر میں بجلیوں کی سی تیزی جب اس نے سنبھالی زمامِ خلافت
تسلسل ہے عہدِ مسیحا کا گویا ہے جاری و ساری نظامِ خلافت
وہ تھا ایک جہدِ مسلسل کا رسیا پہاڑوں سے اونچے تھے سب کارنامے
مگر سب سے ارفع یہ تھا کارنامہ جو محکم کیا تھا مقامِ خلافت
بہت دکھ اُٹھائے بہت درد جھیلے جگر گویا زخموں سے چھلنی ہوا تھا
اولو العزم نے بار سارے اٹھائے مگر اونچا رکھا پیامِ خلافت
وہ تھا کل کا بچہ مگر فضلِ رب نے تھمائی کلید اس کو فتح و ظفر کی
زمانے نے دیکھا وہ اک شیرِ نر تھا جب آیا کہیں پر بھی نامِ خلافت
وہ سچا فدائی تھا ملت کا بر حق،خد ا اس پہ بارش کرے رحمتوں کی
لہو دے کے زندہ کیا دیں کو اس نے وہ ٹھہراہے رازِ دوامِ خلافت
کریں ا پنی نیکی کے معیار اونچے کہ مانا ہے ہم نے مسیحِ زماں کو
دعا ہے کہ ہم اس بلندی کو چھولیں ہوا جس غرض سے قیامِ خلافت