’’جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی‘‘
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیےپھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو۔…آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمان نے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا ۔ اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔ غرضکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔ اور جماعت کےلوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں ۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
(ملفوظات جلد7صفحہ119تا120۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ادب مسجد
صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے مسجد میں آگئے اور اپنے اباجان (مسیح موعود علیہ السلام) کے پاس ہو بیٹھے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آجانے پر آپ دبی آواز سے کھِل کھِلا کر ہنس پڑتے تھے اس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
مسجد میں ہنسنا نہیں چاہیے
جب دیکھا کہ ہنسی ضبط نہیں ہوتی تو اپنے باپ کی نصیحت پر یوں عمل کیا کہ صاحبزادہ صاحب اسی وقت اُٹھ کر چلے گئے۔
(ملفوظات جلد 6صفحہ 333۔ایڈیشن 1984ء)
مساجد کی اصل زینت
دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا کہ
مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گِرا دی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 170۔ایڈیشن 1984ء)
مسجد خانہ خدا ہے
کہتے ہیں جب یہ آیت (اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ…المائدۃ:4)اُتری تو ابو بکر رو پڑے۔ کسی نے کہا اے بڈھے!کیوں روتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی بُو آتی ہے۔ کیونکہ یہ مقرر شدہ بات ہے کہ جب کام ہو چکتا ہے تو اس کا پُورا ہونا ہی وفات پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا دنیا میں بندوبست ہوتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو عملہ وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو بکرؓ والا قصہ سنا تو فرمایا سب سے سمجھدار ابو بکرؓ ہے اور یہ فرمایا کہ اگر دنیا میں کسی کو دوست رکھتا تو ابو بکر کو رکھتا اور فرمایا ابو بکرؓ کی کھڑکی مسجد میں کھلی رہے باقی سب بند کر دو۔ کوئی پوچھے کہ اس میں مناسبت کیا ہوئی؟ تو یاد رکھو کہ مسجدخانہ خدا ہے جو سرچشمہ ہے تمام حقائق و معارف کا ۔اس لئے فرمایا کہ ابو بکرؓ کی اندرونی کھڑکی اس طرف ہے تو اس کے لئے یہ بھی کھڑکی رکھی جاوے۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 400۔ایڈیشن 1984ء)
مساجد تو در اصل بیت المساکین ہوتی ہیں
غرباء نے دین کا بہت بڑا حصّہ لیا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں ۔ جن سے امراء محروم رہ جاتے ہیں وہ پہلے تو فسق و فجور اور ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں صلاحیت تقویٰ اور نیاز مندی غرباء کے حصّہ میں ہوتی ہے۔ پس غرباء کے گروہ کو بد قسمت خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ سعادت اور خدا تعالیٰ کے فضل کا بہت بڑا حصّہ اس کو ملتا ہے(البدر میں ہے: ‘‘خدا تعالیٰ کے ان پر بڑے فضل اور اکرام ہیں۔’’)
یاد رکھو حقوق کی دو قسمیں ہیں ایک حق اللہ اور دوسرے حق العباد۔حق اللہ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے۔ (البدر:حق اللہ میں بھی امراء لوگ ہنسی اختیار کرتے ہیں’’۔) اور تکبّر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا (البدر میں ہے:‘‘عار معلوم ہوتا ہے۔’’)معلوم ہوتا ہے۔ اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو در اصل بیت المساکین ہوتی ہیں۔ اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصّہ نہیں لے سکتے۔ غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ پاؤں دبا سکتا ہے۔ پانی لا سکتا ہے۔ کپڑے دھو سکتا ہے یہاں تک کہ اس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا، لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ و عار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 368۔ایڈیشن 2003ء)
٭…٭…٭