فتنوں ،مصائب اور مشکلات کے ادوار میں ’اولو العزم‘ سیّدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی
قوموں کی تاریخ میں بعض دن ایسے آیا کرتے ہیں کہ جن کا اثر ان قوموں پر صدیوں تک محیط رہتا ہے کیونکہ ان دنوں میں قوموں کےعروج کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
یہودیت کی تاریخ میں فرعون مصر سے رہائی کادن کہ بعد میں حضرت سلیمان ؑکے عہد زریں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔تاریخ عیسائیت میں رومی بادشاہ قسطنطین اعظم کا قبول عیسائیت کا دن عیسائیت کو روم کی تاریک catacombs (ایسی غاریں جہاں اولین عیسائی معاشرہ کے ظلم وستم سے بچنے کے لیے پناہ گزین ہو جاتے)سے نکال کر انہیں بلند و بالا شاہی محلات میں پہنچا دیا۔ اسلام کی اولین تاریخ میں صلح حدیبیہ کا دن جو فتح مبین یعنی فتح مکہ پر جاکر منتج ہوا اور جزیرہ نما عرب میں ایک عظیم اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا ۔ چنانچہ تاریخ احمدیت میں پیشگوئی یوم مصلح موعود کا دن بھی عظیم دنوں میں ایک ایساہی دن ہے۔بلاشبہ یہ دن اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
وہ دن بہت مبارک تھا جب حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے ایک تاریخ ساز سفرِ ہوشیار پورمیں اپنی عاجزانہ تضرعات کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور راز و نیاز میں مصرو ف تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی التجاؤں کو بپایہ قبولیت جگہ دی اور اور آپؑ کو ایک عظیم الشان وجود کی خوشخبری دی جس نے آپ کے تخم سے پیدا ہونا تھا۔ یہ وجود حضرت سیدنا مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کا تھا کہ جو پیشگوئی مصلح موعود کے تین سال بعد پیدا ہوئے اور پچیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کے عظیم الشان منصب پر سرفراز فرمایا اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک اس عظیم الشان منصب پر فائز رہے۔
زیر نظر مضمون میں مصلح موعود کی ایک علامت کہ ‘‘وہ اولوالعزم ہوگا’’ کے تحت اس بات کا ذکر ہو گا کہ کس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خداداد اولوالعزم ذات فتنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور مصائب کے منجدھار سے جماعت احمدیہ کی ناؤ کو نکالا۔
دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہےکہ قوموں کی تباہی کے اسباب داخلی یا خارجی ہوتے ہیں۔ اندرونی فتنے اور خارجی ہولناک مصائب قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں اور جو ایسے حالات سے نبرد آزما ہو کر ثابت قدم رہتی ہیں تو وہ کندن بن جاتی ہیں اور فتح اور کامرانی ان کے قدم چومتی ہے۔ حضرت سیدنا مصلح موعودؓ کے زمانہ میں احمدیت کو ہر دو طرح کے حالات کا سامنا کرناپڑا لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جیسے اولوالعزم وجود کی زیر قیادت جماعت کی ترقی کا سفر جاری رہا اور حضرت مسیح پاکؑ کے فیض کی روشنی میں آپؓ کے عہد زرّیں میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی ایسی راہیں متعین ہوئیں جن پر آج خلافت خامسہ میں بڑی تیزی کے ساتھ سفر جاری ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر ایک عظیم الشان عہد
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے سانحہ کے وقت جماعت ایک بہت بڑے صدمہ سے دو چار تھی اس نازک وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی عمر انیس سال تھی ۔ teenageکا زمانہ ہمارے معاشرہ میں کھیل کود کا عرصہ شمار ہوتا ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ذات میں ایک خدا داد عزم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا ہے۔اس مشکل گھڑی کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“آپ کی وفات کے معاًبعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہو گا…اس طرح بعض اور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہو گا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت انیس سال کا تھا مگر میں نے اسی جگہ حضرت مسیح موعود ؑکے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ
اے خدا !میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے، میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا۔”(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 178-179)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عہد محض وقتی ابال کے طور پر نہ تھا بلکہ یہ ایک خداداد عزم وہمت کی لازوال داستان کا باب اول ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی آئندہ کی ساری زندگی اس مقدس عہد کے ساتھ مضبوط عزم وہمت کےساتھ پوری طرح وفا کرنے کا ثبوت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ
“میاں محمودبالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ وہ سچا فرمانبراد نہیں مگر نہیں میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم (میں سے) ایک بھی نہیں۔”
( بدر قادیان 28؍جون 1912ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 1صفحہ 206)
نیز خلافت کے خلاف سازش کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
“تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کانام نہ لو مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔”
(بدر قادیان 28؍جون 1912ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 1صفحہ207)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کوحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین رضی اللہ عنہ کے متعلق جو یقین کامل تھا اس کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلافت احمدیہ کے سلطان نصیر کے طور پر جس اولوالعزم خالد بن ولید کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اس سے مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود رضی اللہ عنہ ہی تھے کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی نظر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اور کوئی بھی آپ کا مطیع نہیں تھا۔
خلافت ثانیہ کے وقت انکار خلافت کا فتنہ
جماعت احمدیہ کو اندرونی طور پر جن فتنوں سے نبرد آزما ہونا پڑا ان میں سخت ترین فتنہ خلافت ثانیہ کے وقت انکار خلافت کا تھا۔یہ وقت جماعت پر ایک کڑے ابتلا کا تھا چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت جو حالات جماعت کو پیش آئے ان کے چشم دید گواہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
‘‘یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا اور مؤلف رسالہ ہذا نے ان تاریک گھڑیوں میں ایک دو کو نہیں دس بیس کو نہیں بلکہ سینکڑوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے دیکھا…جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف سے بھیڑیے تاک لگائے بیٹھے تھے۔اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کر رکھی تھی اور گو خدا کے وعدوں پر ایمان تھا مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے۔’’
(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ227تا228)
ان سخت حالات میں خدا تعالیٰ نے جماعت مومنین سے کیا ہوا اپنا وعدہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا پورا فرمایا اور بادلوں کی سخت گھن گرج کے بعد خلافت ثانیہ کی صورت میں باران رحمت نازل فرمائی اور تھراتے ہوئے سینوں کو سکینت بخشی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نامساعد حالات میں خلافت کے عظیم منصب پر متمکن ہونے کے بعد اعلان فرمایا:
‘‘خدا تعالیٰ میرا مددگار ہو گا۔میں ضعیف ہوں مگر میرا آقا بڑا توانا ہے۔میں بلا اسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے۔میں بے مددگار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لیے نازل فرمائے گا۔انشاء اللہ’’
(کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے،انوارالعلوم جلد 2صفحہ 15)
تاریخ احمدیت کا ایک ایک ورق اس بات کا گواہ ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی اور آپ کا یہ احسان عظیم تھا کہ جماعت پر خلافت کا مسئلہ ایسے طور پر واضح فرما دیا کہ جس میں قیامت تک کے لیے کسی بھی قسم کے شک و شبہ اور لیت و لعل کی گنجائش باقی نہ رہی نیزنہایت جوانمردی اور مضبوط عزم و ہمت سےان سخت حالات کا مقابلہ کیا اور جماعت کے شیرازہ کو بکھرنے سے محفوظ رکھا۔
فتنہ احرار کے وقت اولوالعزمی کا اعلیٰ نمونہ
تاریخ احمدیت میں ایک سخت گھڑی اس وقت جماعت پر آئی جب 1930ء کی دہائی کے اوائل میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے جماعت احمدیہ نے اپنے اولوالعزم امام کی قیادت میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔چنانچہ دنیاوی قوتوں کو اس پر تشویش لاحق ہوئی تو کشمیری مسلمانوں کے لیے کی جانے والی جماعت کی مخلصانہ مساعی کو سبوتاژکرنے کے لیے جماعت کے مقابل پر احرار کو اتارا گیا اور یہ فتنہ تمام دنیاوی ہتھیاروں سے لیس ہوکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی ذات سے ٹکرایا۔ اور احراری ملاؤں نے اعلان کیا کہ
“ہم نے اب یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ لڑ کر چھوڑیں گے۔’’
(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 403)
یہ قطعی فیصلہ صرف احرار کا نہ تھا بلکہ اس مذموم مشن میں احمدی مخالفین کی ایک شاطر تکون کارفرما تھی۔یہ تکون احراری مولوی ،کانگریس کے سیاسی لیڈر اور حکومتی بعض افسران پر مشتمل تھی اور مخالفین کی تکون کا مرکز صرف یہ امر تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ذات پر ہر طرف سے حملہ ہو کر احمدیت کو ختم کیا جائے۔
احرار نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مرکز سلسلہ قادیان میں اپنا دفتر قائم کیا اور اس دفتر کے ذریعہ قادیان اور اس کے ارد گرد ماحول میں فتنہ کی آگ لگائی گئی اسی طرح احمدی اکثریتی علاقہ میں حکومت کی طرف سے احرار کو نہ روکا گیا اور اسی طرح انہیں جماعت مخالف جلسے جلوس کرنے کی بھی کھلی آزادی تھی ان حالات کا نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اس طرح کھینچا ہے:
‘‘ان ایام کی تاریخ ایک طرف نہایت دردناک ہے۔…دردناک اس لیے کہ مخالف طاقتوں نے نہایت اوچھے ہتھیاروں پر اتر کر جماعت کو ہر رنگ میں دکھ پہنچانے اور ذلیل کرنے اور نیچے گرانے کی کوشش کی۔’’
(سلسلہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 409)
احرار کا فتنہ جب اپنےعروج پر تھا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے اعلان فرمایا:
“تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں’’
حضرت مصلح موعود ؓنے مخالفین کے ہر حربہ کا خداد ادذہانت اور عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور کسی بھی وقت جماعت کا نہ حوصلہ گرنے دیا اور نہ ہی مخالفین کو قانون شکنی کا موقع فراہم ہونے دیا کہ جس سے دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکے۔ اسی طرح احرار کی اس تحریک کے مقابل پر “تحریک جدید” جیسی عظیم الشان انقلاب آفریں تحریک پیش کی۔
احرار کا یہ فتنہ مسلسل دو سال سے زائد عرصہ تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کےعزم و استقلال سے ٹکراتا رہا اور بالآخر یہ مہیب فتنہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی درج ذیل پیشگوئی کے مطابق ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا ہو گیا:
“ اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمن کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں۔وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے۔”
(الفضل 30؍مئی 1935ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد سوم صفحہ 295)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس فتنہ کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“احرار کی آب دوز کشتی جس سے وہ احمدیت کو تباہ کرنے نکلے تھے تاجدار احمدیت کی پے در پے ضربیں کھا کر پیچھے ہٹ گئی اور پھر خدا کی تیار کی ہوئی چٹان یعنی شہید گنج سے ٹکرا کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گئی۔ اور اب صرف اس کے چند شکستہ تختے پانی کی سطح پر ادھر ادھر بہتے نظر آتے ہیں۔” (سلسلہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 410)
شہید گنج لاہور کی پرانی مسجد تھی جسے سکھوں نے اپنے دور حکومت میں گردوارہ بنا لیا تھا۔ 1936ء میں مسلمانوں نے اسے واپس لینے کے لیے ایک خاص تحریک شروع کی۔احرار نے اس موقع پر مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے سکھوں کاساتھ دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں پر ان کی اصلیت ظاہر ہو گئی اور انہیں غدار ملت قرار دیا گیا ۔نیز احمدیت کی مخالفت میں بھی دیگر مسلمانوں نے احرار کا ساتھ چھوڑ دیا اور پھر یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مر گیا۔
تقسیم ہند اور حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزم قیادت
ہجرت قادیان جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام‘‘داغ ہجرت” کے تحت تھی اور جیسا کہ الہام کے ظاہری الفاظ اس امر کی غماضی کرتے ہیں کہ ہجرت کا یہ وقت جماعت کے لیے نہایت تکلیف دہ اور سخت ہوگا۔چنانچہ یہ جماعت کے لیے بڑا مشکل وقت تھاکہ انہیں اپنا وطن مالوف چھوڑنا پڑ رہا تھا ایسا وطن جس کی مبارک مٹی نے مسیح پاکؑ کے قدم چومے تھے ،ایسا وطن جس کے لیے انہوں نے اپنے وطنوں کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اپنے اعزاء اور اقرباء کو چھوڑ دیا تھا۔ایسا وطن چھوڑ نا آسان کام نہ تھا مگر خدائی نوشتوں کو کون ٹال سکتا ہے۔
ہجرت قادیان کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
‘‘شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتے ہوئے مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائیگی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لیے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے۔ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا۔ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے۔پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ قادیان سے باہر چلا جاؤں۔حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کےمطالعہ سےمیں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے۔’’
(الفضل 31؍جولائی 1949ء)
ہجرت کی اس کٹھن اور تکلیف دہ صورت حال میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے سامنے ایک عظیم الشان لائحہ عمل پیش کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
‘‘قادیان کے چھوٹ جانے کاصدمہ لازماً طبیعتوں پر ہوا ہے میری طبیعت پر بھی اس صدمہ کا اثر ہے۔لیکن میں نے جب قادیان چھوڑا یہ عہد کر لیا تھا کہ میں اس کا غم نہیں کروں گا…میری ایک لڑکی کے ابھی بچہ پیدا ہوا تھا اس کی تھوڑا ہی عرصہ ہوا شادی ہوئی تھی اور ایک سال کے اندر ہی اس کے بچہ پیدا ہوا تھا ان کی ماں وفات پاچکی تھی وہ میرے پاس رخصت ہونے کے لیے آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا خاموش رہو یہ وقت رونے کا نہیں بلکہ یہ وقت کام کا ہے چنانچہ میں نے اس عہد کو سختی سے نبھا یا ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائےگا مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب میں ایک عزم کر چکا ہوں تو میں اس عزم کو آنسوؤں کے ساتھ کیوں مشتبہ کر دوں ہم اپنے آنسوؤں کو روکیں گے یہاں تک ہم قادیان کو واپس لے لیں ’’
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ5)
حضرت مصلح موعودؓ کے اس لائحہ عمل پر افراد جماعت نے والہانہ لبیک کہااور باوجود اس کے کہ تقسیم ہند کے وقت برصغیر کا کینوس ایک خونی انقلاب کا منظر پیش کر رہا تھا مگر آپ ؓجیسے ذہین و فہیم اور اولوالعزم وجود کی بدولت جماعت ہلاکت سے بچ گئی اور آپ ؓکی مدبرانہ قیادت کی بدولت جماعت نے مصائب کا نہایت جواں مردی اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں جماعت کی ترقی کی نئی راہیں متعین ہوئیں نیزجماعت کی ترقی کی جڑیں جہاں زمین کے پاتال تک پہنچیں وہاں اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
ہجرت کے اس کڑے وقت میں اما م جماعت احمدیہ نے افراد جماعت کی ذہنی تیاری کا عمل بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔چنانچہ برصغیر میں پیدا ہونےو الی بھیانک صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیےجماعت کو روزوں اور دعاؤں کی تلقین فرمائی نیز اپنے خطبات و خطابات کے ذریعہ جماعت کو اپنے حقیقی ملجا و ماویٰ اور مولائے حقیقی کے حضور جھکنے اور اسی کے حضور گڑگڑانے کی تلقین فرماتے رہے۔ چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
‘‘دعائیں کرو دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اس سے دنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے۔’’( الفضل 11؍اگست 1947ء)
افراد جماعت کی مشکل وقت کے لیے تیاری کے بعد قادیان سے بحفا ظت جماعتی املاک و احمد ی آبادی کے انخلاکا عمل تھا جو آپؓ کے حسن تدبر کی بدولت نہایت احسن طور پر انجام پذیر ہوا۔اسی طرح پاکستان پہنچ کر آپ ؓکو جماعت کی از سر نوتنظیم سازی اور نیا مرکز آباد کرنے کے حوالے سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان مشکلات کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پرآپؓ نے فرمایاکہ
‘‘میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔’’(الفضل31؍جولائی1949ء)
چشم فلک گواہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جہاں جماعت کی ازسر نوتنظیم سازی کی وہاں باغ احمد کے پراگندہ اور منتشر اشجار کی ربوہ کی مقدس سرزمین میں آبیاری کی اور جماعتی ترقی کی از سر نو بنیاد ڈال دی اور یہ ثابت کر دیا کہ جماعت کی ترقی محض اتفاقاً نہ تھی بلکہ خدا تعالیٰ کا دست قدرت جماعت کے ساتھ تھا۔
1953ءکے فسادات اور حضرت مصلح موعود کی اولو العزمی کاشاندار نمونہ
جماعت پر ایک مشکل گھڑی اس وقت آئی جب 1953ء میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔ان فسادات کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔بلاشبہ یہ عمر کا ایسا حصہ ہوتا ہے جب انسانی قویٰ میں اضمحلال آنا شروع ہو جاتا ہے مگر اس دفعہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی ذات بابرکات میں خداداد عزم وہمت کا ایک بے مثال نمونہ نظر آتا ہے ۔
قیام پاکستان احرار ی ایجنڈا کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا کیونکہ ان کی تمام تر قوتیں مسلم لیگ اور پاکستان کے خلاف اور کانگریس کی حمایت میں تھیں لیکن تقسیم کے بعد جب ہندو مسلم فسادات ہوئے اور خطہ کے حالات خراب ہو گئے تو انہیں بھی مجبوراًپاکستان آنا پڑا اوریہاں پہنچ کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو برقرار رکھنے اور اپنی سیاست کی دکان چمکانے کے لیے اس طرح پر پینترا بدلا کہ احراری مولویوں نے جماعت مخالف اشتعال انگیز تقاریر شروع کر دیں۔اسی طرح 1951ء میں جب پنجاب میں انتخابات کا عمل مکمل ہوا تو ممتاز دولتانہ صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین صاحب کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔دولتانہ صاحب کی نظر وزیراعظم کے عہدہ پر تھی چنانچہ اس عہدہ کے حصول کے لیے دولتانہ حکومت نے احرار کے نیم مردہ جسم میں جان ڈالی اور اسے جماعت کے خلاف فسادات پھیلانے کے لیے پنجاب میں کھلا میدان دیا گیا تاکہ ملکی امن کی صورت حال خراب کر کے وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کر کے اس کا دھڑن تختہ کیا جاسکے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دو رس نگاہوں نے آئندہ آنے والے خطرات کو بھانپتے ہوئے احباب جماعت کی تیاری کی غرض سےفرمایا:
‘‘ہماری جماعت پر بھی یہ مصائب مختلف رنگوں اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں۔ہم پر وہ وقت بھی آیا جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہو گئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا۔ایسے موقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اسی سے مدد مانگی اور جب ہماری دعائیں اور گریہ زاری اس مقام پر پہنچ گئی جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئیں اور مخالفت ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا ہو کر رہ گئی۔یہ زمانہ بھی ہم پر ایسا آرہا ہے جب اندرونی اور بیرونی طور پر اور نیز بعض حکام کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی علماء کی طرف سے بھی اور امراء کی طرف سے بھی غرض ہر جتھہ اور ہر گروہ میں ایک حصہ ایسا ہے جو احمدیت کی مخالفت پر تلا ہوا ہے بہت سی باتیں تم جانتے نہیں اور بہت سی باتیں ہم تمہیں بتا نا بھی نہیں چاہتے۔اس لیے اگر ان باتوں کو ظاہر کیا جائے تو ہمارے مقابلہ کی طاقت کمزور پڑ جائے گی…اس قسم کے نازک مواقع پر میں جماعت کو اتنے حصہ میں شریک کرتا رہاہوں کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں۔اور مخلصین نے ہمیشہ میری اس تحریک کو قبول کیا ہے۔’’
اسی طرح حضورؓنے احباب جماعت کو چالیس روزوں، نوافل اور دعاؤں کی بھی تحریک فرمائی۔
(الفضل 11؍ فروری 1951ء صفحہ1تا2بحوالہ سلسلہ احمدیہ جلد2صفحہ 386-387)
احرار اس دفعہ بھی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے صف اول میں تھے اور قیام پاکستان کی خفت مٹانا چاہتے تھے ۔اس لیے اپنے وطیرہ کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف صوبہ بھر میں اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور بعد میں احرار کی دیکھا دیکھی دیگر مذہبی جماعتیں بھی جماعت کی مخالفت میں کود پڑیں اور افراد جماعت کو اپنے بغض کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔اس ابتلاکا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
‘‘ان دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع میں احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لیے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں اور لومڑ اپنی جان بچانے کے لیے کبھی ادھر بھاگتا ہے اور کبھی ادھر بھاگتا ہے ان ایام میں لاریاں کھڑی کر کے احمدی نکالا جاتا اور انہیں پیٹا جاتا اسی طرح زنجیریں کھینچ کر گاڑیوں کو روک لیا جاتا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں اور اگر کوئی نظر آتا تو اسے مارا پیٹا جاتا۔اسی طرح ہزاروں ہزار جتھے بن کر دیہات میں نکل جاتے اور گاؤں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کر دیتے یا اگر ایک ہی گھر کسی احمدی کا ہوتا تو اسی گھر پر حملہ کر دیتے مال و اسباب لوٹ لیتے احمدیوں کو مارتے پیٹتے اور بعض شہروں میں احمدیوں کے گھروں کو بھی آگ لگائی گئی۔بیسیوں جگہوں پر احمدیوں کے لیے پانی بھی روک دیا گیا اور وہ تین تین چار چار دن تک ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں مل سکا۔اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا بھی نہیں خرید سکے۔’’
(المصلح کراچی 14؍جولائی 1953ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلدچہارم صفحہ 357تا358)
ان فسادات میں احباب جماعت نے حضرت رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام کی سی قربانیوں کے نمونے پیش کیے۔حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے الفضل کے ذریعہ احباب جماعت کی داد رسی اور تسکین اور تشفی پر مشتمل پیغامات موصول ہوتے رہے اور آپ رضی اللہ عنہ نےجہاں احباب جماعت کے مورال کو گرنے سے بچائے رکھا وہاں انہیں صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگنے کی تلقین کرتے رہے اور کسی بھی احمدی کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکے رکھنے کے لیے مسلسل ارشادات فرماتے رہے۔چنانچہ جب حکومتی پابندی کی وجہ سے الفضل کی اشاعت پر پابندی لگی تو اس مقصد کے حصول کے لیے ’’الفاروق‘‘ اور ’’المصلح‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔
ان سخت حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
‘‘ الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔احمدیت کے باغ کو جو ایک نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔پس دعا ئیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں یا خطوط کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خد اتعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑ ے گا۔سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا آرہا ہے وہ میرے پاس ہے۔وہ مجھ میں ہے خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔سلسلہ کے کام وہ خود سنبھالے گا۔’’
(ہفت روزہ فاروق 3؍ مارچ 1953ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 4صفحہ 352)
اس پُرامید اور پُر تسکین پیغام کے بعد جلد ہی آزمائش اور ابتلاکی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔چنانچہ احرار نے صوبائی حکومت کی اشیر باد پر جب اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے غنڈہ گردی اور فساد کے دائرہ میں حکومتی املاک اور دیگر ملکی شہریوں کو بھی لینا شروع کیا تو اس سے پاکستان کا وجود ہی خطرہ میں پڑ گیا۔ وفاقی حکومت جو کہ احمدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر خاموش تھی احرار کی مزید ابتری پر مزید خاموش نہ رہی اور احرار کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے مارشل لاء نافذ کر دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فسادیوں سے چشم پوشی بند کر دی چنانچہ وفاقی حکومت کے اس اقدام سے حالات میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی اور امن عامہ کی صورت حال پیدا ہو گئی۔
1953ء کےفسادات تو جماعت کے لیے ایک ایسے ابتلاکے طور پر تھے جس کے بعد اللہ تعالیٰ نےجماعت کو کئی وسعتوں سے سرفراز فرمایا لیکن یہ احرار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے اور ان کے بعد احرار اپنی موت آپ ہی مر گئے اور اس کھیل کے دوسرے کردار ممتاز دولتانہ بھی ان فسادات کی وجہ سے سیاسی موت مر گئے۔ یہ فسادات پاکستان کی تاریخ کا ایک سیا ہ باب ہیں کیونکہ پاکستان میں موجود حالیہ شدت پسندی کے سوتے یہاں سے پھوٹے بلاشبہ اس کھیل کے کردار تو اپنی موت آپ مر گئے لیکن آئندہ آنے والے سالوں میں بھی مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ کھیل جماعت کے خلاف رچا یا جا رہا ہے۔یقیناً اس کھیل سے جماعت کی ترقی کو تو کوئی نقصان نہ ہوا البتہ پاکستان کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓکی اولو العزمی کا غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب آپ کے متعلق بیان کرتے ہیں:
‘‘مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا۔’’
(قلمی چہرے مصنفہ خواجہ حسن نظامی بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 2صفحہ 5)
مذکورہ بالا چند گزارشات کے ذریعہ حضرت مصلح موعود ؓکی اولوالعزمی کی ہلکی سی جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح جماعت احمدیہ اوپر تلے ابتلاؤں سے گذری لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اولوالعزم امام کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہر ابتلا سے سرخرو ہو کر نکلی اور جیسا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں اندرونی و بیرونی فتنوں کے ظہور کی جہاں پیشگوئی فرمائی تھی وہاں ان کا یہ علاج بھی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
“ اگر تم اللہ کا خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹے رہو اگرچہ اس وجہ سے تمہارا جسم لہو لہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔”(مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 403)
اس حدیث مبارک کی روشنی میں اگر آج ہم ہر قسم کے فتنوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہونا ہو گا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭