اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حکومت پاکستان کو کار آمد نصیحت
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس (António Guterres) گذشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے بابا گورونانک کے مزار پر بھی حاضری دی اور کرتار پور راہداری کے کھولے جانے والے اقدام کو سراہا۔ پاکستان گذشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے حوالے سے عالمی راہنماؤں کی طرف سے تنقید کا سامنا کر رہا ہے اس لیے مہمانوں کی طرف سے کیا جانے والا کوئی بھی مثبت تبصرہ ہماری ریاست کے حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ خوشی کا موجب بن جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جو کہا اس پر حقوق انسانی اور اقلیتی امور کی وزیر شیریں مزاری نے تو خاموشی اختیار کیے رکھی البتہ حکومتی ترجمان فردوس عاشق اعوان اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر پرویز الہی نے جو کہا اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کو سینے سے لگا رکھا ہے اور ان کے ہر حق کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اپنی من پسند اقلیتوں کو شاید سینہ سے لگایا ہو لیکن حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان کا ماہانہ رسالہ جو بیان کرتا ہے اس سے فردوس عاشق اعوان کے بیان کی نفی ہوتی ہے۔ جس دن وزیر صاحبہ نے سینے سے لگانے والا بیان داغا اس روز قصور کے نواحی گاؤں میں حکومتی کارندوں نے سو سال سے زیر استعمال مسجد کو ایک ‘مذہبی اقلیت’ جو اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں سے چھین کر سرکاری مسلمانوں کی تحویل میں دے دیا۔ اس حوالے سے جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین احمد کی پریس ریلیز ملاحظہ ہو (جس کا اخبارات نے بائیکاٹ کیا )
‘‘چند شرپسند عناصر کی خوشنودی کے لیے سرکاری انتظامیہ نے احمدیوں کی عبادت گاہ حملہ آور ہجوم کے منتظمین کے حوالے کر دی ۔جبکہ اس سے پیشتر احمدیوں پر دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ از خود عبادت گاہ سے دستبردار ہو جائیں ۔یہ عبادت گاہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ کے زیر انتظام ہے۔…’’ پریس ریلیز کے مطابق اس حوالہ سے اعلیٰ سرکاری حکام کو خطوط لکھے گئے اور درخواست کی گئی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے احمدیوں کو ان کی اس مسجد سے محروم نہ کیا جائے مگر تا حال اس ضمن میں کوئی بھی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی ۔ پریس ریلیز میں کافی تفصیل ہے جس کو سمونے کی کالم میں گنجائش نہیں ۔ لیکن جن زیادتیوں ،محرومیوں اور حکومتی بے حسی کا ذکر اس پریس ریلیز میں ملتا ہے یہ ان حکمرانوں کے خلاف ایف۔آئی۔آر (F.I.R)ہے جو کہتے ہیں کہ حکومت نے اقلیتوں کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس بہیمانہ ظلم سے ملتے جلتے واقعات کی اطلاعات آئے دن موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ مثلاً جلالپور جٹاں میں مسجد کی چھت ڈالی جا رہی تھی کہ حکومتی کارندوں نے آکر کام روکنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ۔ مردان میں مسمار کی جانے والی مسجد کی دوبارہ تعمیر کرنے کی درخواست دینے پر مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا ۔جس کی قیادت تحریک انصاف کے رہنما ،کونسلرساجد اقبال مہمند کر رہے تھے ۔جس کو فخر کے ساتھ ٹی وی پر بھی دکھایا گیا ۔ جوہر ٹاؤن لاہور کی بیت الرحمان میں صرف ان احمدیوں کو عبادت کی اجازت ہے جو اس گلی میں رہائش پذیر ہیں ۔ہر نماز کے وقت مسجد کے باہر ختم نبوت کے کارندے کنٹرول کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں جن کو علاقے کی انتظامیہ نے اس حرکت کی اجازت دے رکھی ہے ۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے ٹی وی مذاکرہ میں جو زبان درازی کی اس کا کسی ریگولیٹری اتھارٹی نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ ابھی دو روز پہلےڈسکہ میں ایک گرلز سکول کی ویڈیو گردش میں تھی جس میں صبح سکول اسمبلی میں بچوں سے فرقہ وارانہ نفرت آمیز فقرات دہروائے جا رہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں پولیس افسران ہال میں سامنے صوفہ سیٹ پر بطور مہمان خصوصی براجمان ہیں اور مقرر احمدیوں کو پاکستان سے چلے جانے اور بصورت دیگر برے انجام کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ بیت المال کی رقوم سے چلنے والے ہسپتالوں میں مریضوں سے فارم پر کروایا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق شیعہ یا احمدیہ کمیونٹی سے نہیں ہے۔ یہ ہے اس ملک کی ہلکی سی تصویر جس کے حکمران ملک کو میثاقِ مدینہ کے اصولوں پر چلانے کے دعوےدار اور مذہبی اقلیتوں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔
پاکستان جن وجوہات کی بنا پر دنیا میں اکیلا ہوتا جا رہا ہے ان کی بنیادی وجوہات میں انتہاپسندی ،مذہبی جبر اور مذہبی آزادی کا فقدان شامل ہیں۔ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے بارہ ممالک کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف حکومت وہ ایکشن نہیں لے رہی جس کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کر رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایک عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں کے ماحول میں خوف ،ناکافی مشاورت،عدم تعاون، اندرونی رسہ کشی، باہمی تعلقات میں بگاڑ، ناکافی اقدامات، ایک ٹیم بن کر کام کرنے کا فقدان اور سیاسی عدم اتفاق جیسے مسائل پائے جاتے ہیں۔ معاشی طور پر چینی ،آٹے کے بحران اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر اس زمین سے خریدنے پر مجبور ہیں جس کو چھوڑ کر ہمارے آباواجداد نے پاکستان کا رخ کیا تھا ۔ حکومت کو اپنی استعدادیں ان مسائل کو حل کرنے پر صرف کرنی چاہئیں نہ کہ مذہبی نام نہادوں کے مطالبات کو پورا کرنے پر۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ نہ تو ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے مطالبات کبھی ختم ہوئے اور نہ یہ کسی حکمران سے راضی رہے۔ ان کا مقصد ملک میں بد امنی کا ماحول برقرار رکھنا اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہب کے ڈراوے دے کر اپنی روٹی چلانا ہے ۔ شاید اسی لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے لمز (LUMS)یونیورسٹی میں تقریر کے دوران تعلیم پر زور دینے اور پاکستانی سکولوں میں نصابِ تعلیم تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ جس کو فردوس عاشق اعوان اپنی بریفنگ میں گول کر گئیں۔
جہاں تک احمدیوں سے ان کی عبادت گاہوں کو چھیننے کا تعلق ہے۔ تو آج اور آنے والے کل کے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ قائم کریں اور اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھیں ۔ معبد خدا کے ساتھ انسان کے تعلق کا اظہار ہے ۔جو ہر مذہب کے پیروکاروں کی ضرورت ہے۔ اسلام میں مذہبی آزادی کی اتنی اہمیت ہے کہ وہ مذہبی جبر کو فتنہ کہتا اور اس فتنے کے خلاف تلوار اٹھانے کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔
احمدی خلافتِ احمدیہ کی بے مثال قیادت کے زیرِ سایہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے پر امن شہری ہیں۔ وہ کبھی بھی ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیں گے، کسی جبرواستبداد کے آگےتلوار نہیں اٹھائیں گے لیکن احمدیہ مساجد پر قبضہ کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔
٭…٭…٭