متفرق مضامین

’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘

جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے ایک کالم پر تبصرہ

روزنامہ دنیا کے 30؍نومبر2019ء بروز ہفتہ کے شمارےمیں مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک کالم بعنوان ‘‘رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ’’شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے ان القابات کے استعمال سے متعلق ایک سائل کو تفصیلی جواب دیا اور وہ بحث جو جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان کے قانون اور آئین کا حصہ ہیں اس کو ایک مختصر کالم میں سمو دیا۔

سائل نے لکھا کہ

‘‘عرصہ دراز سے علماء اہلسنت کا اجماع رہا ہے کہ نبی ورسول اور پیغمبر حضرات کے ناموں کے ساتھ ‘‘عَلَیْہِ السَّلام’’ اور حضور اکرم کے لیے ‘‘ ﷺ ’’ صحابہ کے ناموں کے ساتھ ‘‘رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ’’ اوراولیائےکرام کے ناموں کے ساتھ‘‘ رَحْمَةُ اللّٰہِ عَلَیْہ’’لکھا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ فوت شدہ علماء اورعام صالحین کے ناموں کے ساتھ ‘‘عُفِیَ عَنْہُ’’کی ڈگری /اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔مگر آج کل بعض حضرات ان کلمات کو تخفیف (Abbreviation) کے ساتھ لکھ دیتے ہیں نیز بعض اوقات اولیائے کرام کے نام کے ساتھ بھی رضی اللہ عنہ لکھ دیتے ہیں اور ثبوت کے طور پر التوبہ:100کا حوالہ دیتے ہیں مگر مستند اور جامع تاریخ کے حوالے سے یہ بات فیصلہ کن ہے کہ نبیوں، رسولوں،پیغمبروں اور صحابہ کی ڈگری /اصطلاح حتمی وتصدیقی اور ثبوت کے معنوں میں استعمال ہوتی ہےمگراولیا اور مومنین کی ڈگری دعائیہ معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کی یہ آیات اصل میں صحابہ ہی کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ غورطلب بات یہ ہے کہ پچیس تیس سال قبل کی تحریر کردہ دینی کتب اورخاص کرامام احمد رضا خان قادری کی تحریر میں کسی ولی کے لیے رضی اﷲ عنہ کے کلمات استعمال نہیں ہوئے’’۔

(پیراگراف نمبر 1)

اس سوال کا جواب جماعت احمدیہ کی جانب سے شریعت کورٹ میں پیش کیا جا چکا ہے۔ حکومت پاکستان کےآرڈیننس 20کے مطابق اگر کوئی احمدی یہ لفظ استعمال کرے تو اس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298Cکے تحت مقدمہ بن کر تین سال تک قید اورجرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔

قرآن کریم میں عام مومنین کے لیےان الفاظ کا استعمال

مفتی صاحب موصوف نے سائل کے جواب میں اوّلاً قرآن کریم میں مذکور مختلف القاب پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ یہ الفاظ عام مومنین کے لیے بھی استعمال ہوسکتےہیں ۔ اور ان آیات مبارکہ کی نسبت بھی، جو کہ عام طور پر صحابہ کے متعلق ہی گمان کی جاتی ہیں، یہ بیان کیا کہ عام مومنین بھی اس میں مراد لیے جا سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ

‘‘پہلے ان کلمات کے معانی سمجھ لیں: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے معنی ہیں: اللہ اُن سے راضی ہوگیا، رَضُوْا عَنْہُ کے معنی ہیں: وہ اللہ سے راضی ہوگئے، رَحْمَةُ اللّٰہ عَلَیْہ کے معنی ہیں: اُن پر اللہ کی رحمت ہو، رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰیکے معنی ہیں: اللہ اُن پر رحم فرمائے، عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ کے معنی ہیں: اللہ انہیں معاف فرمائے، عُفِیَ عَنْہُ کے معنی ہیں: انہیں معاف کردیا جائے، غَفَرَ اللّٰہُ لَہ کے معنی ہیں: اللہ اُن کی بخشش فرمائے، غُفِرَ لَہٗکے معنی ہیں: اُن کی بخشش فرمائی جائےوغیرہ ۔

الفتح :18توتخصیص کے ساتھ اصحابِ بیعتِ رضوان کے لیے نازل ہوئی ہے، البتہ دیگرآیاتِ مبارکہ میں جو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ آیا ہے،وہ صحابہ ،اُن کے متبعین اور مومنین صالحین کے لیے بطورِ عموم آیا ہے اور یہ خبر اور دعا دونوں معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر ایک انعام ،اکرام ، شرف اور اعزاز ہے۔دیگر کلمات دعا کے لیے ہیں اور عربی زبان میں دعائیہ کلمات یا تو امر کے صیغے کے ساتھ آتے ہیں جیسے:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ(اے اللہ!بخشش فرما) یاکبھی ماضیِ معروف اورکبھی ماضیِ مجہول کے صیغے کے ساتھ آتے ہیں جیسے: غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ اور غُفِرَ لَہٗ،اسی طرح عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ اورعُفِیَ عَنْہُوغیرہ۔

عرف ِعام میں چونکہ صحابہ کرام کے اسماء گرامی کے ساتھ ‘‘رضی اللہ عنہ’’ لکھااوربولا جاتا ہے، بلکہ تقریباً اس کا التزام کیا جاتا ہے اس لیے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید یہ صحابہ کرام کا خاص لقب ہےلیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صحابۂ کرام کے لیے بھی آیا ہے اور غیرِ صحابہ مومنینِ صالحین کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

‘‘اورمہاجرین اور انصار میں سے (نیکی میں) سبقت کرنے والے اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا اﷲ ان سے راضی ہوگیااور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے’’(التوبہ:100)
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہواکہ مہاجرین وانصار صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہمُ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے احسان کے ساتھ اُن کا اتباع کرنے والوں کو بھی اپنی رضا (یعنی رضی اللہ عنہ) کے اعزاز سے نوازا ہے۔دوسرے مقام پرفرمایا:

‘‘یقینا ًجو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں،ان کا صلہ ان کے رب کے پاس (ہمیشہ) رہنے کے باغ ہیںجن کے نیچے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گےاﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے’’(البینہ:8)

اس آیت کے سیاق وسباق بلکہ پوری سورۂ اَلْبَیِّنَہ میں خاص طور پر صحابۂ کرام کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اعزاز واکرام کے مستحق عام اہلِ ایمان اور صالحین بھی ہیں ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘(روزِقیامت) اللہ فرمائے گا: یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔ان کے لیے باغات ہیںجن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے’’

(المائدہ:119)

اس آیۂ مبارکہ کے سیاق وسباق میں بھی صحابۂ کرام کا کہیں ذکر نہیں ہےبلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بے پایاں صلہ وانعام اور اعزازجمیع مومنینِ صادقین کے لیے ہے ۔’’

(روزنامہ دنیا 30؍نومبر 2019ء)

مذکورہ بالا حوالہ جات میں مفتی صاحب موصوف نے واضح طور پر اس بات کو بیان کرنا چاہا ہے کہ قرآن مجید میں صرف سورة الفتح میں صحابہ کرام کے لیے تخصیص سے یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ دیگر مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ‘‘جمیع مومنین صادقین’’ کے لیے بھی یہ الفاظ بطور انعام واعزاز استعمال فرمائے ہیں۔

علمائے سلف کے اقوال

پھر مفتی صاحب نے دیگر علماء کے اقوال درج کیے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ غیر صحابہ رسول ﷺ کے لیے بھی یہ الفاظ مستعمل ہو سکتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابۂ کرام شرفِ صحابیت کے ساتھ ساتھ مومنین صالحین، خَیْرُالْبَرِیَّہ اورصادقینِ کاملین کے بطریقِ اَولیٰ مصداق ہیں اور ان کے اتباع میں امت کے دیگراولیا،صلحا،علما وعاملین ‘‘مُخْلِصِیْن لِلّٰہ’’(جنہوں نے اپنے دین کو اللہ کے لیے خاص کردیا ہے) ا ور ‘‘ مُخْلَصِیْن مِنَ اللّٰہُ’’(جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے چُن لیا ہے) ہیں۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

‘‘صحابہ کے لیے ‘‘رضی اللہ عنہ’’ کہنا مستحب ہے۔اسی طرح اُن شخصیات کے لیے جن کی نبوت میں اختلاف ہے جیسے ذوالقرنین ولقمان ۔بعض مفسرین نے انہیں انبیا میں اور بعض نے حُکَمَاوصُلَحَا میں شمار کیا ہے۔ راجح قول کے مطابق ‘‘رحمة اﷲ علیہ’’ تابعین اور بعد کے علما ،عباد(صالحین)اور بقیہ اہلِ خیر کے لیے مستحب ہے اوراس کا عکس بھی جائز ہے۔یعنی کسی صحابی کے نام کے ساتھ ‘‘رحمۃ اﷲ علیہ’’ بھی لکھ سکتے ہیں اور کسی تابعی یا بعدکے عبدِ صالح کے لیے ‘‘رضی اللہ عنہ’’ بھی لکھ سکتے ہیں۔اسے قرمانی نے ذکر کیا۔ ‘‘زیلعی’’نے کہا:بہتر یہ ہے کہ صحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ،تابعین کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ اور بعد والوں کے لیے ‘‘غَفَرَ اللّٰہُ لَھُمْ یا عَفَااللّٰہُ عَنْھُمْ’’کہاجائے۔’’

(ردالمحتارعلی الدر المختار، جلد 10صفحہ 402، بیروت )

امام نووی لکھتے ہیں:

‘‘صحابہ کرام ،تابعین اور ان کے بعد آنے والے علماء عابدین اور تمام نیک لوگوں کے لیے رضائِ الٰہی اور رحمت کی دعا کرنا مستحب ہے۔ پس رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہا جائے گا اور بعض علما ءنے جو کہا ہے کہ رضی اللہ عنہ کہنا صحابہ کے ساتھ خاص ہے اور غیر صحابہ کے لیے صرف رحمہ اللہ کہاجائے گا، تو ایسا نہیں ہے۔صحیح بات وہی ہے جو جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ صحابہ وغیرصحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا مستحب ہے اور اس کے دلائل بہت زیادہ ہیں۔ پس اگر کسی ایسے صحابی کا ذکر ہو جو کسی صحابی کے بیٹے ہوں تو یوں کہے ‘‘قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا’’ اسی طرح ابن عباس،ابن زبیر،ابن جعفر اور اسامہ بن زید وغیرہ صحابہ کرام ہیں(المجموع شرح المہذب،جلد6صفحہ172)’’

(روزنامہ دنیا 30؍نومبر 2019ء)

نتیجہ

بالآخر ان مذکور بالا امور کی روشنی میں مفتی صاحب موصوف اس امر کے متضاد بات بیان کر گئے جس کو بنیاد بنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف ظالمانہ قانون بنایا گیا۔ لکھتے ہیں کہ

‘‘رَضِیَ اﷲ عَنْہُ’’،‘‘رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ’’،‘‘رَحِمَہُ اللّٰہ تَعَالٰی’’،‘‘غَفَرَ اللّٰہ لَہٗ’’،‘‘غُفِرَلہٗ’’،‘‘عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ’’، ‘‘عُفِیَ عَنْہٗ’’دعائیہ کلمات ہیں،ڈگریاں نہیں ہیں۔دعائیہ کلمات کے لیے امر یا ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔یعنی ہمیں اللہ کی عطا پر یقین ہے کہ وہ اپنے ان محبوب مکرّم اور مقرّب بندوں کو اپنی خصوصی رحمت سے نوازے گااور ہم اسی کی دعا کرتے ہیں۔اسی طرح بیع وشرا ،نکاح،طلاق وغیرہ کے یقینی طور پر نافذ ہونے کےلیے ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پرہے:‘‘اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے،وہ صالحین کا دوست ہے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے،اللہ مومنوں کا دوست ہے،عزت اللہ اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے ۔’’

(روزنامہ دنیا 30؍نومبر 2019ء)

اس امر پر اجماع نہیں ہوا!

مضمون کے اختتام پر مفتی صاحب موصوف اپنے اس اجماع سے بھی انکار کر گئے جو 1400سال بعد تاریخی اجماع مسلم امہ کہلاتا ہے ۔ جس اجماع کی روشنی میں ان کے مطابق جملہ فرق ہائے اسلام کا جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بنیادی عقیدہ پر اجماع ہوا۔ اور یہ اجماع قانون کی صورت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں شامل کیا گیا۔ اخباروں کی شہ سرخیوں پر اس اجماع کا شائع ہونا اس امر کا تاریخی ثبوت ہے۔ اور مفتی صاحب کے الفاظ کہ ‘‘بندے کی کیا مجال کہ نعمتِ باری تعالیٰ کی تخصیص و تحدید اپنی جانب سے کرے!’’ اس میں اپنی عاجزی کا اظہار تو کر گئے لیکن یہ بات بھول گئے کہ وہ جماعت احمدیہ کے خلاف خدا تعالیٰ کی ایک جاری نعمت و فیضان کی تخصیص بھی کر چکے ہیں اور اس نعمت پر اجماع کرتے ہوئے تحدید بھی کرنے کی مجال پر دست درازی کی جسارت بھی کر چکے ہیں۔ اور ان کے دعاوی کے بطلان کی دلیل یہی ہے کہ ایک دعویٰ کے ثبوت میں حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور دوسرے دعویٰ کے ثبوت میں اس حقیقت کا انکار ہے۔ مولانا صاحب لکھتے ہیں کہ

‘‘یہ بات درست ہے کہ صحابی کے نام کے ساتھ ‘‘رضی اﷲ عنہ’’لکھنا عرف بن گیا ہے ،تاہم آپ کا لکھنا کہ ‘‘اس پراہلسنت وجماعت کا اجماع ہوچکا ہے کہ یہ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہے’’ یہ درست نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے اس اعزازوانعام کو ‘‘مُتَّبِعِیْن بِالْاِحْسَان’’ اور‘‘مؤمنین صالحین’’کے لیے بھی عام رکھاہے، تو بندے کی کیا مجال کہ نعمتِ باری تعالیٰ کی تخصیص و تحدید اپنی جانب سے کرے۔ ہاں! اس عرف پر عمل کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ نام کے ساتھ ‘‘رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ’’لکھنے سے قاری سمجھ لیتا ہے کہ یہ صحابی کا نام ہے ،لیکن اللہ کے جن محبوب بندوں کا صحابی نہ ہونا قارئین یا سامعین پر واضح ہوان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھنے یا بولنے سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا امکان نہیں رہتا۔

امام احمد رضا قادری نے غوث الاعظم عبدالقادرجیلانی کے نام کے ساتھ کئی مقامات پر‘‘رضی اﷲعنہ’’ لکھا ہے،لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ انہوں نے غیر صحابی کےلیے کہیں بھی رضی اللہ عنہ کا کلمہ استعمال نہیں کیا،درست نہیں ہے۔(ملاحظہ ہو فتاویٰ رضویہ جلد26صفحات:597,569مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صحیح مسلم کے شروع میں ہے: ترجمہ:‘‘امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی مدد سے ہم آغاز کرتے ہیں اور اُسی کی مدد پر اکتفا کرتے ہیں اور ہمیں خیر کی ہر توفیق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوتی ہے۔

( مسلم جلد1صفحہ26مطبوعہ کراچی)’’

البتہ عالَمِ عرب کے جدید مکتبوں کی مطبوعات میں ‘‘رحمہ اللہ تعالیٰ’’ لکھا ہوا ہے۔ امام مسلم نہ صحابی تھے ، نہ تابعی،اسی طرح غوث الاعظم کا زمانہ بھی عہدِ صحابہ وتابعین کے بہت بعدہے۔نیز ہمارے عرف میں ‘‘مرحوم’’ کا لفظ فوت شدہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیہ بھی کلمۂ دعا ہے اور اس کے معنی ہیں : ‘‘ان پراللہ کی رحمت ہو’’۔

جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی سے سوال ہوا: ‘‘غیر صحابی کو رضی اللہ عنہ کہنا کس دلیل کے تحت جائز ہے ۔انہوں نے لکھا:رضی اللہ عنہ ایک دعائیہ کلمہ ہے اس کے معنی ہیں :اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ عرف کے اعتبار سے یہ کلمہ صحابہ کے لیے استعمال ہوتاہے لیکن اپنے دعائیہ معنی کے اعتبار سے غیر صحابی کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے بشرطیکہ التباس لازم نہ آتا ہو قرآن کریم کی سورۃ الْبَیّنَہ میں نیکو کار مومنین کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہآج کل عام لوگ اس کلمے کو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْکے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور اس جملے سے ان کا ذہن صحابہ کی طرف جاتا ہے اس لیے ان کے سامنے غیر صحابی کے لیے اس جملے کے استعمال سے گریز اچھا ہے۔’’(روزنامہ دنیا 30؍نومبر2019ء)

خلاصہ کلام

خلاصہ یہ کہ مفتی صاحب نے اپنے اس کالم میں صحابہ کے علاوہ دیگر مؤمنین ، صالحین، اولیاء و صوفیائے کرام کے لیے بھی ‘‘رضی اللہ تعالیٰ’’ کا لفظ استعمال کے حوالے سے افادۂ عام کے لیے مہیا فرما دیا۔ اس طرح کے حوالہ جات جماعت احمدیہ کی جانب سے شریعت کورٹ میں بھی پیش کیے گئے تھے۔ معزز جج صاحب کو جب دلائل میں یہ باور کرایا گیا کہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ قرآن کریم اور سابقہ طریق سلف پر غیر صحابہ اور مومنین کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔ تو انہوں نے بالآخر وہی حربہ استعمال کیا کہ ڈکلیئرڈ نان مسلم کے لیے یہ کہنا کس طرح جائز ہے۔ تب محترم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ نے اس بات کا حوالہ بھی دیا تو جج صاحب موصوف مبہوت رہ گئے ۔

ڈکلیئرڈ نان مسلم کے لیے رضی اللہ عنہ کے الفاظ

مکرم حافظ مظفر احمد صاحب اس حوالہ سے اپنے ایک مضمون میں شریعت کورٹ کے اس واقعہ سے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ

‘‘مجھے یاد ہے 1984ء میں بھی آرڈیننس نافذ ہونے پربعض احمدیوں نے اسے شریعت کورٹ میں چیلنج کیا تھا کہ یہ قانون مذکورہ بالا دلائل کی وجہ سے قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

ان درخواست دہندگان میں یہ خاکسار بھی بطورسائل کے شرعی عدالت میں جناب مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ کے ہم راہ پیش ہوا تھا۔لاہورشرعی کورٹ میں جب صحابی کے بارہ میں مذکورہ بالا دلائل پیش کیے گئے تو ایک جج صاحب نے کہا کہ امت کے کسی عام فرد کے لیے صحابی کے لفظ کا استعمال دکھا دیں تواس پرمتعددحوالے پیش کردیے گئے :

1۔رسالہ‘‘ چودہ ستارے ’’ میں امام جعفر صادق کے صحابی کا ذکر موجود ہے۔

(چودہ ستارے مولفہ مولوی سید نجم الحسن صاحب کراوی صفحہ 256سن اشاعت 1973ء)

2۔‘‘تذکرة الاولیاء’’ میں ابن سیرین کے ایک صحابی کا ذکر ہے۔(تذکرة الاولیاء اردو صفحہ88 در ذکر امام ابو حنیفہ)

3۔‘‘انوار اصفیاء’’میں درج ہے کہ خواجہ حسن بصری نے اپنے احباب سے فرمایا تم رسول اللہﷺ کے اصحاب کی مانند ہو۔ (انوار اصفیاء صفحہ19مرتبہ تصنیف شیخ غلام علی)

پھر سوال اٹھا کہ احمدی مرزا صاحب کے رفقاء کو یہ دعا دیتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہو۔تو عدالت میں سورة توبہ کی آیت 100پیش کی گئی جس میں صحابہ کی بہترین پیروی کرنے والے اگلی نسل تابعین کے لیے بھی رضی اللّٰہ عنھمکے الفاظ ہیں۔

اس پر جسٹس قاسمی فرمانے لگے کہ امت میں اس اصطلاح کا استعمال صحابہ کے علاوہ ثابت کرکے دکھائیں تو اس پر یہ حوالے پیش کر دیے گئے:

‘‘جامع الثناء’’ میں حضرت غوث الاعظم عبد القادر جیلانی اور امام لیث بن سعد،امام ابو الحسن شاذلی،شیخ احمد بن عطاء اللہ اور حسن البکری کو رضی اللہ عنہ کہا گیا ہے۔

‘‘الیواقیت الجواہر’’ میں امام شعرانی نے شیخ محمد طاہر، محی الدین ابن عربی، ناصر الدین مالکی کو رضی اللہ عنہ لکھا ہے۔

‘‘تذکرة الاولیاء’’ میں امام جعفر صادق ،امام باقر اور امام شافعی کو رضی اللہ عنہ لکھا ہے۔(تذکرة الاولیاء اردو صفحہ 18)

اس پر جسٹس صاحب جھلّا کرکہنے لگے کہ دراصل آپ لوگ قانوناًڈکلیئرڈناٹ مسلم ہیں۔کسی غیر مسلم کے لیے رضی اللہ عنہ ثابت کرکے دکھائیں ۔

ہمارے مجیب الرحمان ایڈووکیٹ صاحب نے برجستہ عرض کیاکہ جناب والا! آپ نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کے لیے تورضی اللہ عنہ کہنے کے ضرور روادار ہوں گے۔اور آپ کو یہ بھی علم ہوگا حکومت یزید کے سرکاری قاضی شریح نے انہیں حکومت وقت کا باغی اور کافر ، دین محمد مصطفیٰ سے خارج قرار دے دیا تھا۔گویا وہ بھی ہماری طرح یزیدی حکومت کے ڈکلیئر ڈ ناٹ مسلم تھے۔ جب ان کے لیے رضی اللہ عنہ جائز ہے تواس دور کے ڈکلیئرڈ ناٹ مسلم کے لیے یہ دعا کیوں جائز نہیں؟

مجھے یاد ہے یہ غیر متوقع جواب سن کرجسٹس صاحب سکتے میں آگئےتھے۔’’

(مضمون بعنوان‘‘اعتراض بابت صحابہ وغیرہ اصطلحات کا استعمال’’از حافظ مظفر احمد۔ماخوز از ویب سایٹ: (www.askahmadiyyat.org)

پس ان تمام امور کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہے کہ رضی اللہ عنہ نہ کوئی ڈگری ہے اور نہ کوئی اصطلاح ۔ یہ سب کے لیے ایک دعائیہ کلمہ ہے اور ہر مومن کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button