لجنہ اماء اللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے25؍دسمبر 1922ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی
(حصّہ اول)
سیدنا حضرت مسیح موعوؑد اور حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانۂ مبارک میں جو مجالس قائم ہوئیں وہ سب مردوں کی تھیں۔ مثلاً ‘‘اشاعت اسلام۔ صدر انجمن احمدیہ۔ تشحیذ الاذہان۔ مجلس احباب۔ مجمع الاخوان۔ مجلس ارشاد’’وغیرہ۔ لیکن مستورات کی کوئی علمی دینی اور تمدنی انجمن اس وقت تک موجود نہ تھی۔ لہٰذا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی حرم ثانی حضرت امۃ الحئی صاحبہؓ کی تحریک پر 25؍ دسمبر 1922ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امۃ الحئی صاحبہ تھیں۔
حضرت امۃ الحئی صاحبہ کے بعد یہ اہم خدمت حرم حضرت سارہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہما کے سپرد ہوئی۔ جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی ممبرات نے حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیں اور غالباً پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا۔ لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت ام ناصرؓ کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لئے نامزد فرما دیا۔ چنانچہ حضرت ام ناصر اپنی وفات(31؍ جولائی1958ء ) تک یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں۔ اگست 1958ء سے حضرت ام متین صاحبہ نیز دیگر بزرگ خواتین کی زیرِ صدارت یہ تنظیم ترقیات کی طرف گامزن نظر آتی ہے ۔
لجنہ اماء اللہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 15؍ دسمبر 1922ء کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام مندرجہ ذیل مضمون تحریر فرمایا:
‘‘السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیےجس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکیں۔
اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔
دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔
ان امور کو مد نظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد شروع کر دیا جائے۔
1۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
2۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔
3۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔
4۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں۔
5۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو۔
6۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں۔
7۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدّ نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔
8۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحادِ جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مقرر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو۔
9۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے۔ اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے۔
10۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ۔ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسولؐ، مسیح موعودؑ اور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔
11۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔
12۔چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔
13۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائی جائیں۔ اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہو اپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔
14۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔
15۔ چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں، چھوٹے بڑے، غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میںمحبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
16۔اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔
17۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔
ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں
جو ہماری پیدائش میں اس نے مد نظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکھے۔ یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے۔
اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کر کے پاس کئے جا رہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہربانی کر کے اس کاغذ پر دستخط کردیں۔ بعد میں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے۔’’
(باقی آئندہ)