ہر احمدی دعائیں کرے اور پھل پائے
جب تو میرے پیار میں مست ہوکر مجھے پکارے گا تو مَیں تیرے ساتھ پیار کروں گا اور تیری پکار کا جواب دوں گا
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں ہر احمدی کوآج اس دنیا میںیہ موقع ملا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور پھل پائے ۔آپؒ فرماتے ہیں:
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے ۔سندھ کے علاقے شروع شروع میں آباد ہونے لگے تھے پنجاب کے کئی لوگوں نے جاکر سندھ کی بڑی خدمت کی ہے چنانچہ انہی دنوں ‘‘ وِنجواں’’ (گائوں) کے ایک دوست جو صحابی تھے ، ان کے کچھ غیر احمدی رشتہ دار بھی وہاں چلے گئے تھے ۔ انہوں نے وہاں سے لکھا کہ اس علاقے میں سانپ بہت ہیں …اُن کے غیر احمدی رشتے دار جو سندھ میں جاکر آباد ہوگئے تھے اُن کے آپس میں جھگڑے پیدا ہوگئے اور اُن کو چونکہ خدا تعالیٰ نے سمجھ اور عقل اور دیانت عطا فرمائی تھی اس لیے غیر احمدی بھی انہی سے فیصلے کروایا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے لکھا کہ اس اس طرح ہمارے درمیان فساد جھگڑے پیدا ہوگئے ہیں تم آکر ہمارے جھگڑے دُور کروائو مگر چونکہ ان کو خبریں آرہی تھیں کہ وہاں بہت سانپ ہوتے ہیں اور یہ سانپوں سے بہت ڈرتے تھے اس لیے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا ۔کہنے لگے حضور اگر مجھے کوئی کہہ دے سانپ ! تو مَیں تو ڈر کے مارے چھلانگ لگا کر چارپائی پر چڑھ جاتا ہوں ۔ سانپ کو دیکھنا تو درکنار سانپ کے متعلق آواز سن کر ڈر جاتا ہوں ۔ آپ ؑنے فرمایا تم سندھ چلے جائو ۔ تمہیں سانپ سے ڈر نہیں لگے گا بلکہ سانپ تم سے ڈریں گے ۔ وہ چونکہ بڑے مضبوط ایمان والے صحابی تھے ۔ وہ حضور ؑ کے ارشاد پر سندھ چلے گئے ۔ تربیت یافتہ ذہن تھا ۔ میرا بھی ان سے واسطہ پڑا ہے ۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ میں اتنا نڈر ہوگیا تھا کہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ مَیں نے سانپ دیکھا ۔ میں اپنے رستہ پر چل رہا ہوتا اور سانپ آگے آگے بھاگ رہا ہوتا تھا ۔
…بہرحال سانپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ مظہرِ صفات باری بنے اور نہ کتےکو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ صفات الہٰیہ کا مظہر بنے لیکن وہ خدا کی مخلوق ہے اُسے جو خدا تعالیٰ کہتا ہے وہی کرتا ہے ۔ اُس کے حکم سے ایک ذرّہ بھر اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا مگر انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اُسے خدا تعالیٰ نے دعا کرنے کی طاقت بھی دی ہے اور یہ اختیار بھی دیا ہے کہ چاہے تو وہ دعا کرے اور چاہے تو نہ کرے لیکن اگر وہ دعا کرتا ہے اور شرائط دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا اور دعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کا اُسے وعدہ بھی دیاگیا ہے تاہم ساتھ ہی اُسے یہ انذار بھی کیا ہے کہ اگر تم شرائط دعا پوری نہ کرو گے اور میرے پیار کے حصول کے لیے پورے انہماک اور پوری توجہ سے اور انتہائی پیار کے ساتھ دعائیں نہ کرو گے تو میں تمہاری دعا ئوں کو قبول نہیں کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک عاجز انسان کو یہ چیز دے کر درحقیقت اس پر اتنا احسان کیا ہے کہ وہ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ آخر انسان ہے کیا چیز۔ ایک ذرّہ ناچیز، مگر خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ جب تو میرے پیار میں مست ہوکر مجھے پکارے گا تو مَیں تیرے ساتھ پیار کروں گا اور تیری پکار کا جواب دوں گا۔
…پس ہر احمدی کو آج اس دنیا میں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور پھل پائے کیونکہ وہ اس مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لایا ہے جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ایمان کو ثریاسے زمین پر لانے والے ہیں حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں بار بار اور بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ دعا بہت بڑا اثر رکھتی ہے ۔ دعا اللہ تعالیٰ کے پیارکو کھینچنے والی ہے شایدہی کوئی احمدی ہوگا جس نے دعائوں کے اثر کو اپنی زندگی میں نہ دیکھا ہو ظاہر ہے اگر کوئی ایسا ہے تو وہ نہایت ہی بدقسمت اور بدبخت ہے ۔
غرض احباب جماعت کو مَیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو! دعائوں کے رنگ میں اتنی بڑی بشارت تمہیں دی ہے تم اس سے فائدہ اٹھائو اور دعائوں میں لگ جائو اور اس طرح دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کی آواز نہ صرف بشارت کے رنگ میں بلکہ عملاً تمہارے کانوں میںآئے کہ تمہیں (کسی اورکی ) کیا پرواہ ہے ۔ مَیں جو تمہاری پرواہ کرنے والا ہوں ۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ ’’
(خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 694-698۔خطبہ جمعہ 25؍اکتوبر1974ء )
(ظہیر احمد طاہر ۔ نوئے ہوف ۔ جرمنی )