صداقتِ احمدیت (قسط نمبر03)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اختلاف فرقہائے مسلم کا طریق فیصلہ
اس نکتہ کو مدنظر رکھ کر اسلام کی صداقت اور حقیقت کا سمجھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے۔ پھر عام طور پر مسلمانوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا فیصلہ بھی اسی کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب تجربہ اور مشاہدہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاؑء سے اعلیٰ اور ہر طرح اور ہر رنگ میں افضل ہیں۔ تو اسلام کے ہر مسئلہ کے متعلق غور کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہی عقیدہ درست اور صحیح ہو سکتا ہے۔ جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور سب کمالات کا جامع ہونا ثابت ہو اور جس عقیدہ سے یہ ثابت ہو کہ آپؐ کسی سے افضل نہیں رہتے۔ یا اس کے اختیار کرنے سے آپؐ کے کسی کمال میں نقص پایا جاتا ہے۔ تو وہ عقیدہ قطعاً اسلام کے خلاف ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو گا۔ وہ اسلام کا پیش کردہ عقیدہ نہیں ہو سکتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کم کرنے والا اور آپ کی عظمت کو بٹہ لگانے والا ہو۔
اس نقطہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں کسی مسلمان کو خواہ وہ کسی فرقہ کا ہو۔ اہلحدیث ہو یا اہلسنت، سہروردی ہو یا دیوبندی، شیعہ ہو یا سنی غرض کسی فرقہ کا ہو اسے اس امر میں اختلاف نہ ہو گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اور کوئی ایسا عقیدہ درست نہیں ہو سکتا جس سے آپ کی شان اور عظمت کم ہو۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں جو ایک اختلاف پیدا ہوا ہے کہ ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ عیسائیت تمام مذاہب کو عموماً اور اسلام کو خصوصاً کھاتی جارہی ہے خدا نے میرا نام مسیح رکھا ہے تاکہ میں عیسائیت کو پاش پاش کر کے اس پر اسلام کو غالب کروں اور اس لحاظ سے کہ مسلمان اسلام سے دور ہو گئے، شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کرتے، ان کا اکثر حصہ نمازیں نہیں پڑھتا جو پڑھتا ہے وہ طوطے کی طرح پڑھتا ہے ان مفاسد کو دور کرنے کے لیے میرا نام مہدی رکھا گیا ہے۔
مدعی کاذب بڑا مجرم ہے
اب اگر یہ دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہو تو اس سے بڑھ کر کافر کون ہو سکتا ہے۔ خود خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ مجھے خدا نےالہام کیا حالانکہ خدا نے نہ کیا ہو اور اس کا دعویٰ جھوٹا ہو تو اس سے بڑھ کر مجرم کون ہو سکتا ہے؟ ہاں ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے اور غور کرے کہ دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا۔ دیکھو اگر ایک چوہڑا چمار معمولی ڈھنڈورا دیتا پھرے تو لوگ اس کی طرف دوڑتے جاتے اور معلوم کرتے ہیں کہ کیا کہتا ہے۔ لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لیے آیا ہوں اس کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ اگر وہ جھوٹا بھی ہو تو خداتعالیٰ ان لوگوں سے جنہوں نے اس کے دعویٰ پر غور نہیں کیا ہو گا پوچھے گا کہ تمہیں بغیر غور کئے کس طرح معلوم ہو گیا کہ یہ جھوٹا تھا۔ دراصل تمہاری نیت ہی ٹھیک نہ تھی۔ ورنہ تم اس کے دعویٰ پر ضرور غور کرتے اور غور کے بعد اس کے جھوٹے یا سچے ہونے کا فیصلہ کرتے۔ تمہارے دل میں خدا کا ادب اور توقیر ہی نہ تھی۔ ورنہ وہ جس نے خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کیا تھا اس کے دعویٰ کی طرف تم ضرور توجہ کرتے۔
سعید انسان کی سعادت
خداتعالیٰ کا ادب جس انسان کے دل میں ہوتا ہے۔ اس کی عجیب حالت ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر کہا آپ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا کا نبی ہوں۔ یہ سن کر اس نے کہا میں آپ کو قبول کرتا ہوں۔ یہ بھی ادب کی ایک حد ہے۔ لیکن یہ ادب بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے ۔عام لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کے دعویٰ کو چھوڑ کر باقی خوبیاں تو مانتے جاتے ہیں۔ لیکن دعویٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
دعویٰ کی سچائی پر مخالف رائے
دیکھوحضرت مرزا صاحبؑ کے متعلق مخالف یہ تو مانتے ہیں کہ آپ سلطان القلم تھے۔ چنانچہ آپ کی وفات پر اخبار وکیل میں لکھا گیا کہ
‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے۔ اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لیے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شورِ قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا۔’’
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر 3 صفحہ565، 566 مطبوعہ 1962ء)
کیا جس شخص کی یہ تعریف ہو اس کو پاگل یا مجنون کہا جا سکتا ہے ہرگز نہیں۔ اب اس کے متعلق یا تو یہ کہا جائے گا کہ چالاک اور لسّان آدمی ہے لوگوں کو فریب میں لانا چاہتا ہے۔ یا یہ کہ سچا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے۔ بس یہی دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ یا تو جھوٹا ہے اور خداتعالیٰ پر افتراء کرتا ہے اس لحاظ سے اس سے برا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یا سچا ہے اور واقع میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لحاظ سے اس کے دعویٰ کو ماننا ہر شخص پر فرض ہے۔
پس ایک ایسا شخص جو پاگل نہیں اور خداتعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کی بات کو سننا نہایت ضروری اور اہم ہے۔ اگر وہ جھوٹی ہو تو بے شک اسے رد کر دیا جائے، لیکن اگر سچی ہو تو پھر اس کا رد کرنا آسان نہیں۔ آگ سے کھیلنا آسان ہے، لیکن اس کی بات کا رد کرنا آسان نہیں کیونکہ آگ صرف جسم کو جلاتی ہے اور اس کا انکار روح کو جلاتا ہے۔ پھر آگ تو پچاس ساٹھ یا سو سال کی زندگی کا خاتمہ کرتی ہے لیکن اس کی وجہ سے کروڑوں کروڑ سال کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ پھر آگ دنیا کی خوشی اور آرام سے علیحدہ کرتی ہے مگر اس سے عقبیٰ کا آرام اور اطمینان کھویا جاتا ہے۔ پھر آگ عارضی رشتوں اور تعلقوں سے جدا کرتی ہے مگر اس سے خالق اور مالک اور سب سے بڑھ کر محبوب خدا سے جدائی ہو جاتی ہے۔ پس اس نہایت ہی ضروری مسئلہ پر جس قدر بھی غور کیا جائے تھوڑا ہے اور ہر ایک انسان کا فرض ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرنےو الے کے دعویٰ کو سنے اور اس پر غور کرے۔
دعویٰ حقّہ پر عظمت نبی پاک
اب رہا یہ کہ کس طرح غور کیا جائے۔ اس کے متعلق میں بتاتا ہوں۔ غور کرنے کے اور بھی طریق ہیں لیکن ایک اس وقت پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اب جو شخص خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے متعلق یہ دیکھا جائے کہ اس کے دعویٰ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہوتی ہے یا ہتک۔ اگر اس کے دعویٰ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے تو خواہ سورج کو اپنے دائیں اور چاند کو اپنے بائیں رکھ کر بھی دکھا دے تو اس کا دعویٰ مردود ہو گا۔ لیکن اگر اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کی شان بڑھتی ہے تو وہ قابلِ قبول ہو گا اور کسی مومن کے لیے سوائے اس کے چارہ نہیں کہ اسے قبول کرے۔
وفات مسیح و صداقت حقّہ
اب دیکھئے اس زمانہ میں جس انسان نے خدا کی طرف سے ہونے کادعویٰ کیا۔ اس نے پہلی بات یہ پیش کی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جن کو خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے بھیجا تھا فوت ہو گئے ہیں اور میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لیے آیا ہوں۔ اس کے متعلق ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات میں اور ان کے دوبارہ آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اصلاح کرنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے یا ہتک۔ اگر ہتک ہو تو ہم اس عقیدہ کو ہرگز درست تسلیم نہ کریں گے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ہر طرح سے دلائل کے ساتھ ثابت ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اپنے بزرگوں کو جو افضل نہیں ہیں سب انسانوں سے افضل قرار دیتے ہیں۔ مگر ہمیں تو خداتعالیٰ نے سردار ہی ایسا دیا ہے کہ اس کی جتنی بھی عزت و توقیر کریں تھوڑی ہے اور اس کو سب سے افضل کہنا بالکل سچ ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس بات کو مدنظر نہ رکھ کر بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں اور کہیں نکل گئے ہیں۔ اس وقت ہم اس بات کو لیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی وفات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ہے یا ان کی زندگی میں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو خداتعالیٰ نے ان کے دشمنوں سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپؐ کو خداتعالیٰ نے 63 سال کی عمر میں وفات دے دی اور آپؐ اسی زمین میں مدفون ہیں۔ آپؐ کو اپنی زندگی میں کئی تکلیفیں پیش آئیں۔ مکہ سے آپؐ کو نکلنا پڑا۔ لڑائیوں میں آپؐ کو زخم لگے، دشمنوں نے آپ کو تنگ کیا، لیکن اس ساری زندگی میں خداتعالیٰ نے انہیں آسمان چھوڑ پہاڑپر بھی نہ اٹھایا۔ حضرت عیسیٰ ؑ پر تو جب ایک ہی مشکل وقت آیا تو خداتعالیٰ نے انہیں فوراً آسمان پر اٹھا لیا۔ لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر دکھ پر دکھ آئے مصیبتوں پر مصیبتیں پڑیں مگر خداتعالیٰ نے انہیں اسی زمین میں رکھا آسمان پر نہ اٹھایا۔ اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ حالت ہے کہ خداتعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ رات اور دن خداتعالیٰ کی اطاعت کے سوا انہیں کوئی کام ہی نہیں اور خداتعالیٰ کے سوا انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ حتٰی کہ عیسائی بھی کہتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور تو خواہ کچھ کہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا، سوتا جاگتا، صبح و شام، شادی و غمی، حتٰی کہ میاں بیوی کے تعلقات میں، کپڑے پہنتے وقت، پاخانہ پھرتے وقت غرضیکہ ہر گھڑی اور ہر لحظہ خدا کا ہی نام لیتا ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا کے متعلق اسے جنون تھا۔ تو وہ شخص جو خداتعالیٰ کی محبت میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک عیسائی کہتا ہے کہ خدا کا اس کو جنون ہو گیا تھا اس کی تو خداتعالیٰ مشکلات اور تکالیف میں اس طرح مدد نہیں کرتا کہ آسمان پر اٹھائے۔ لیکن جب عیسیٰ ؑ کو ذرا تکلیف آتی ہے تو خدا انہیں آسمان پر اٹھا لیتا ہے۔ پھر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے راتوں رات مکہ سے جانا اور ایک غار میں چھپنا پڑتا ہے مگر حضرت عیسیٰؑ کے لیے خداتعالیٰ مکان کی چھت پھاڑ کر انہیں آسمان پر اٹھا لیتا ہے۔ اب بتاؤ ان دونوں میں سے خداتعالیٰ کا زیادہ پیارا اور محبوب کون ہوا؟
(………باقی آئندہ)