شمائلِ مہدی علیہ السلام: آپؑ کی دعاؤں کا بیان(حصّہ سوم)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بیان(حصّہ سوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اے میرے رب میرے دل پر اتر اور میری فنا کے بعد میرے باطن سے ظہور فرما میرے دل کو نور عرفان سے بھردے۔ اے میرے رب ! تو ہی میری مراد ہے پس تو مجھے میری مرادعطا فرما ! اے رب الارباب تیرے منہ کی قسم مجھے کتوں کی موت نہ مارنا ۔اے میرے رب ! میں نے تجھے چن لیا تو مجھے چن لے میرے دل کی طرف نظر التفات کر اور میرے پاس آ ۔پس تو ہی اسرار کو جاننے والا ہے۔اور ان تمام امور سے خوب آگاہ ہے جو اغیار سے مخفی رکھے جاتے ہیں ۔اے میرے رب ! اگر تو جانتا ہے کہ میرے دشمن ہی سچے اور مخلص ہیں تو مجھے اسی طرح تباہ کر جس طرح جھوٹے تباہ کئے جاتے ہیں۔اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے اور تیری جناب سے ہوں تو میری مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہو کیونکہ میں تیری مدد کا محتاج ہوں اور میرا معاملہ ان دشمنوں کے سپرد نہ کر جو مجھ پر استہزاء کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔تو دشمنوں اور حیلہ سازوں سے میری حفاظت فرما ۔تو ہی میری راح و راحت ہے۔میری جنت اور میری سپر ہے۔ پس میرے معاملے میں میری مدد فرما اور میری گریہ و زاری سن اور خیرالمرسلین اور امام المتقین محمدﷺ پر درود بھیج اور آپؐ کو وہ مراتب عطا فرما جو تونے نبیوں میں سے کسی اور کو عطا نہیں کئے۔اے میرے رب ! جن نعمتوں کے مجھے عطا کرنے کا تونے ارادہ فرمایا ہے وہ سب نعمتیں آنحضرتﷺ کو عطا کردے پھر اپنے کرم سے میری مغفرت فرما کیونکہ تو ارحم الراحمین ہے۔سب تعریف تجھے زیبا ہے کہ تیرے فضل سے ہی یہ کتاب حرف عین کے عدد (یعنی ستر دنوں) کی مدت میں دو عیدوں کے درمیان ماہِ مبارک میں بروز جمعہ طبع ہوئی ۔اے میرے رب ! تو اسے اپنے فضل سے متلاشیان حق کے لیے مبارک اور نفع بخش اور سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کرنے والی بنا دے ۔اے دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرنے والے ! آمین ثم آمین ’’
(اردو ترجمہ اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ150-152)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدیؐ اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلاویں۔”
(مکتوبات احمدیہ جلد اول مکتوب نمبر 4بنام میر عباس علی صاحب محررہ 9فروری 1883ءص5)
دعاؤں کے خصوصی اہتمام کے لیے آپؑ نے بیت الدعا تعمیر کروایا اور اس کی تعمیر میں جماعت کے لیے بھی ایک نصیحت تھی کہ دعا کا خاص اہتمام جماعت اپنا خاصہ سمجھ لے۔یہ 1903ء کا واقعہ ہے جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے آخری ایّام تھے،آپؑ فرماتے ہیں :
“سو اس نے مجھے بھیجا اور اب میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ میں ایک حجرہ بیت الدعا صرف دعا کے واسطے مقرر کروں”
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 259)
دعا کا آغاز آپؑ کیسے فرماتے تھے اس کے متعلق بھی آپؑ اپنے عمل سے اپنی پیاری جماعت کو تلقین فرماگئے،حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف سیرت حضرت مسیح موعودؑ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ سے منسوب ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ
“حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں مَیں ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا۔کہ ہر مجلس میں اور ہر موقع پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں بعض دفعہ جب کوئی دوست حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعاء کی تحریک کرتے اور حضور اس مجلس میں دعاء کے لیے ہاتھ اُٹھاتے۔تو میں بہت قریب ہو کر یہ سننے کی کوشش کرتا۔کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں ۔باربار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا، کہ حضرت مسیح موعودؑ ہر دعا میں سب سےپہلے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحب 521)
آپؑ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے دعا فرمایا کرتے تھے، آپ کی دعا میں مباحثات کےمؤثر نتائج کے لیے دعا، آسمانی فیصلوں کے لیے دعا، اپنوں کے لیے دعا ،غیروں کے لیے دعا،عربی تصنیفات کے لیے دعا، مریضوں کے لیے دعا، شک کے ازالے کے لیےدعا ،اولاد کے حق میں دعائیں ، زندوں کے لیے، مردوں کے لیے ، پیشگوئیوں کے ظہور کے لیے ، الہامی دعاؤں کا تو خاص کر اہتمام فرمایا کرتے تھے، قوموں اور تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے اسی کا ایک نمونہ یہاں درج کیا جاتا ہے ،آپؑ خدا کے حضور کچھ اس طرح سےگریاں ہو تے ہیں :
“اے خدا وند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفٰی ﷺ اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں ۔تاکہ ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں ۔اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو ناصرف عُقبیٰ میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں …”
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ28)
“ دشمن کی ہلاکت اور اپنے لیے حفاظت کی دعا اور جماعتی مجالس میں بھی یہی دعا فرمایا کرتے تھے ، معرفت الٰہی کے لیے، قرآن کے فہم کے لیے ، اس بارے میں ایک نہایت خوبصورت واقعہ آپؑ کی حیات مبارکہ میں ملتا ہے کہ جب آپؑ سیالکوٹ میں ملازم تھے توآپؑ کی یہ عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کرلیا کرتے تھے، یہی طرزِ عمل آپ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔جب کچہری سے فارغ ہوکر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے… بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں ،ایک دن ان ٹوہ نکالنے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کاروائی کا سراغ مل گیا اور وہ یہ تھا کہ آپؑ مصلّے پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لیے دعا کر رہے ہیں کہ یااللہ! تیرا کلام ہے مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں ۔”
(حیات النبی از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ جلد 1 نمبر 2صفحہ110)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کادوردورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک کرکے اس موذی مرض کا شکار ہورہے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعودؑکو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محوحیرت ہو گئے۔حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں:
“اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درداورسوزش تھی کہ سننے والے کا پِتہ پانی ہوتاتھا اور آپؑ اس طرح آستانہ الٰہی پر گریہ وزاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردزہ سے بیقرار ہو۔میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق خداکے واسطے طاعون سے نجات کے لیے دعا فرمارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ الٰہی!اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔”
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ594)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں:
“حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے متعلق ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں۔ دعا کے لیے ایک مخصوص جگہ بنا لیا کرتے تھے اور وہ بیت الدعاء کہلاتا تھا۔ میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا کے لیے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی ہے کہ ایک وقت دعا کے لیے الگ کر لیا۔ قادیان میں ابتداءً تو آپ اپنے اس چوبارہ میں ہی دعاؤں میں مصروف رہتے تھے۔ جو آپ کے قیام کے لیے مخصوص تھا پھر بیت الذکر اس مقصد کے لیے مخصوص ہو گیا جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ازلی نے بیت الذکر بھی عام عبادت گاہ بنا دیا ۔اور تخلیہ میسر نہ رہا تو آپ نے گھر میں ایک بیت الدعاء بنایا جو اب تک موجود ہے۔ جب زلزلہ آیا اور حضور کچھ عرصہ کے لیے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کے لیے تعمیر کرا لیا۔ گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو کچھ عرصہ کے لیے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعاء کا اہتمام تھا۔ غرض حضرت کی زندگی کا یہ دستور العمل بہت نمایاں ہے آپ دعا کے لیے ایک الگ جگہ رکھتے تھے بلکہ آخر حصہ عمر میں تو آپ بعض اوقات فرماتے کہ بہت کچھ لکھا گیا اور ہر طرح اِتّمام حجت کیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعائیں کیا کروں۔
دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک خاص مناسبت تھی۔ بلکہ دعائیں ہی آپ کی زندگی تھی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے آپ کی روح دعا کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ ہر مشکل کی کلید آپ دعا کو یقین کرتے تھے اور جماعت میں یہی جذبہ اور روح آپ پیدا کرناچاہتے تھے کہ دعاؤں کی عادت ڈالیں اور دعاؤں میں آپ خدا کی تمام مخلوق پر شفقت فرماتے تھے اور ہر شخص کے لیے خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا ہو درخواست کرنے پر دعا کیا کرتے تھے۔ اور آپ اپنی دعاؤں میں اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی شریک فرمایا کرتے تھے۔ ’’
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ504-505)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا۔ کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے۔ اوردعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خداتعالیٰ سے طلب خیر کرنا۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 508-509)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دوران ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابوسعید نامی کو جو ابوسعید عرب کے نام سے مشہور تھے۔ لاہورسے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کر لیں۔ اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اوربیتِ مبارک میں احباب جمع تھے۔ وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرار پائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابوسعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کر لیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اورپھر لاہورچلے گئے اورجس مقصد کے واسطے بھیجے گئے۔ اس میں کامیاب ہو کر واپس آئے۔”
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 509)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“ گو بعض دفعہ کسی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کر دیا کرتے تھے۔ مگر عام طورپر آپ کا طریق یہ تھا کہ نمازوں کے اندر دعا کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اورپنج وقتہ نمازوں کے علاوہ کسی دوسرے وقت بھی تحریک دعا ہوتی۔ تو آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے اوردعا کرتے۔ چنانچہ ایک دفعہ 1904ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بہت بیمار ہو گئے تھے۔ اور اس بیماری کی حالت میں ایک وقت تنگی اور تکلیف کا ان پر ایسا وارد ہوا کہ ان کی بیوی مرحومہ نے سمجھاکہ ان کا آخری وقت ہے۔ وہ روتی چیختی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں۔ حضورنے تھوڑی سی مشک دی کہ انہیں کھلاؤ اورمیں دعا کرتا ہوں یہ کہہ کر اسی وقت وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ صبح کا وقت تھا۔ حضرت مفتی صاحب کو مشک کھلائی گئی اور ان کی حالت اچھی ہونے لگ گئی۔ اورتھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل گئی”۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 510)
(……باقی آئندہ)