صحابہ ٔرسول کریم ﷺ کی شان اور مقام ومرتبہ (قسط دوم۔آخر)
’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں صحابہؓ کی شان اور مقام و مرتبہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحابہؓ کی شان میں اپنے ایک عربی قصیدہ میںفرماتے ہیں :
اِنَّ الصَّحَابَۃَ کُلَّھُمۡ کَذُکَاءِ
قَدۡ نَوَّرُوۡا وَجۡہَ الۡوَریٰ بِضِیَاءِ
تَرَکُوۡا اَقَارِبَھُمۡ وَ حُبَّ عِیَالِھِمۡ
جَاءُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ کَالۡفُقَرَاءِ
ذُبِحُوۡا وَمَا خَافُوا الۡوَرٰی مِنۡ صِدۡقِھِمۡ
بَلۡ اٰثَرُوا الرَّحۡمَانَ عِنۡدَ بَلَاءِ
تَحۡتَ السَّیُوۡفِ تَشَھَّدُوۡا لِخُلُوۡصِھِمۡ
شَھِدُوۡا بِصِدۡقِ الۡقَلۡبِ فِی الۡاَمۡلَاءِ
اَلصَّالِحُوۡنَ الۡخَاشِعُوۡنَ لِرَبِّھِمۡ
اَلبَائِتُوۡنَ بِذکۡرِہِ وَ بُکَاءِ
قَوۡمٌ کِرَامٌ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَھُمۡ
کَانُوۡا لِخَیۡرِ الرُّسُلِ کَالۡاَعۡضَاءِ
(سر الخلافہ، روحانی خزائن جلد8صفحہ397)
‘‘یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں ۔ انہوں نے مخلوقات کا چہرہ اپنی روشنی سے منوّر کردیا
انہوں نے اپنے اقارب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا اور رسول اللہ کے حضور میں فقراء کی طرح حاضر ہوگئے ۔
وہ ذبح کیے گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے بلکہ مصیبت کے وقت انہوں نے خدائے رحمٰن کو اختیار کیا۔
اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شہید ہوگئے اور مجالس میں انہوں نے صدقِ قلب سے گواہی دی ۔
وہ صالح تھے ، اپنے ربّ کے حضور عاجزی کرنے والے تھے وہ اس کے ذکر میں رو رو کر راتیں گزارنے والے تھے ۔
وہ بزرگ لوگ ہیں ۔ ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے ۔ وہ خیرالرسل کے لیے بمنزلہ اعضاء کے تھے ۔’’
(ترجمہ ازاَلۡقَصَائِدُ الۡاَحۡمَدِیَّۃُ صفحہ 197-198)
٭…‘‘مکہ میں بیٹھ کر جو مومنین قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی تھی جس حمایت میں کوئی دوسری قوم کا آدمی اُن کے ساتھ شریک نہیں تھا الّا شاذونادر وہ صرف ایمانی قوت اور عرفانی طاقت کی حمایت تھی نہ کوئی تلوار میان سے نکالی گئی تھی اور نہ کوئی نیزہ ہاتھ میں پکڑا گیا تھا بلکہ ان کو جسمانی مقابلہ کرنے سے سخت ممانعت تھی صرف قوت ایمانی اور نور عرفان کے چمکدار ہتھیار اور اُن ہتھیاروں کے جوہر جو صبر اور استقامت اور محبت اور اخلاص اور وفا اور معارف الہٰیہ اور حقائق عالیہ دینیہ اُن کے پاس موجود تھے لوگوں کو دکھلاتے تھے گالیاں سنتے تھے جان کی دھمکیاں دیکر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروا نہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے۔ دنیوی زندگی کے رُو سے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا رکھا تھا جس کی توقع سے وہ اپنی جانوں اور عزتوں کو معرض خطر میں ڈالتے اور اپنی قوم سے پرانے اور پُر نفع تعلقات کو توڑ لیتے اُس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی اور عُسر اور کَس نَپرسَد اور کَس نَشاسَد کا زمانہ تھا اور آئندہ کی امیدیں باندھنے کے لیے کسی قسم کے قرائن و علامات موجود نہ تھے سو انہوں نے اس غریب درویش کا (جو دراصل ایک عظیم الشان بادشاہ تھا) ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لیے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہوجاتا ہے ۔’’
(ازالۂ اوہام حصہ اوّل ، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 151-152حاشیہ)
٭…‘‘صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی… انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمائش نہ تھی ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھہرا …اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور ان کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہوکر ان کی طرف چلا آتا تھا۔ ’’
(الحکم نمبر 5جلد 5۔ 10؍فروری 1901ء صفحہ 1-2)
٭…‘‘ پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہمارے لیے حکم مشہود ومحسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب وغریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں ۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واتباع قرآن شریف کس رنگ میں آگئے اور کیسے اخلاق میں ، عقائد میں ، چلن میں ، گفتار میں ، رفتار میں ، کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہوکر طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا…یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے ۔ ’’(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 447-448)
٭…‘‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامل عارف، اخلاق کے حلیم اور فطرت کے رحیم تھے ۔ آپ نے انکساری اور تنہائی کا چولہ زیب تن کئے زندگی بسر کی ۔ آپ بہت عفو ، شفقت اور رحم کرنے والے تھے اور اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے ۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا تعلق بہت مضبوط تھا آپ کی روح خیرالوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی اور وہ اس نور سے ڈھکی ہوئی تھی جس نور نے آپ کے پیشوا اور خدا تعالیٰ کے محبوب کو ڈھانپ رکھا تھا۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور آپ کے عظیم فیوض میں نہاں تھے۔اور آپ فہم قرآن اور سیدالرسل و فخر بنی نوع انسان کی محبت میں سب لوگوں پر فوقیت لیے ہوئے تھے جب آپ پر اخروی زندگی کا مضمون اور دیگر سر بستہ الٰہی راز کھلے تو آ پ نے تمام دنیاوی تعلقات کو خیرباد کہہ دیا۔ جسمانی رشتوں سے الگ ہوگئے اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہوگئے ۔ آپ نے خدائے یگانہ کی خاطر کہ جو زندگی کا مقصد حقیقی ہے اپنی ہر چاہت کو چھوڑ دیا۔ آپ کی روح نفسانی آلائشوں سے ہر طرح مبرا، ذات حق کے رنگ میں رنگین اور رضائے ربّ العالمین میں محو ہوگئی ۔ جب سچی محبت الٰہی آپ کی نس نس میں ، آپ کے دل کی گہرائی اوروجود کے ذرہ ذرہ میں گھر کر گئی اور اس محبت کے انوار آپ کے افعال و اقوال ، نشست و برخاست میں ظاہر ہوئے تو آپ کو صدیق کا خطاب ملا اور جناب خیرالواھبین کے دربار سے آپ کو گہرا اور تازہ بتازہ علم عطاہوا۔ چنانچہ سچ آپ کی ذات میں راسخ ملکہ اور فطری عادت ہوگیا۔جس کے انوار آپ کی شخصیت کے ہر قول وفعل، ہر حرکت وسکون اور حواس و انفاس سے ظاہر ہوئے اور آپ کو آسمانوں اور زمین کے ربّ کی طرف سے منعم علیھم لوگوں میں شامل کیا گیا۔ آپ کتاب نبوت کے کامل پَر تو تھے اور اہل جودو سخا کے امام تھے ۔ اور آپ کا خمیر انبیاء کی بقیہ مٹی سے اٹھایا گیا تھا۔’’
(ترجمہ از عربی سرالخلافہ ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 355)
٭…‘‘صدیق اکبر کی حسنات اور خصوصیات خاصہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ سفر ہجرت میں مرافقت کے لیے چنے گئے اور حضرت خیرالبریہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات میں ان کے شریک اور ابتدائی مصائب میں آپ کے انیس خاص ہونے کے اعزاز سے آپ کو نوازا گیا تاکہ حضرت محبوب ربّانی کے ہاں آپ کی قدر ومنزلت ثابت ہوسکے اور اس بات میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ صدیق اکبر تمام صحابہ سے بڑھ کر شجاع ، متقیوں میں سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب اور بہادروں میں سے تھے ۔ آپ سرور کونین کی محبت میں فانی تھے اور ابتداء سے ہی آپ کی یہ عادت تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزاری کرتے اور آپ کے امور کا خیال رکھتے ۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کی ذات میں اپنے نبی کے لیے کڑے اوقات اور زندگی کی تلخیوں میں دلجوئی کا سامان رکھا، سو آپ کو صدیق کے نام سے نوازا گیا ۔ اور نبی ثقلین سے قرب بخشا گیا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ثانی اثنین (یعنی دو میں سے دوسرا) کی خلعت سے سرفراز فرمایا اور اپنے خاص در خاص بندوں میں شامل فرمایا۔’’
(ترجمہ از عربی سرالخلافہ ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 338-339)
٭…‘‘ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپؐ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے تھے اور آنجنابؐ نے نہ قیصرو کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلّی طورپر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالم وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا۔ ’’
(ایام الصلح ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 265)
٭…‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر ، حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اہل صلاح اور ایمان میں سے تھے ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ بنایاتھا اور وہ خدائے رحمان کی عنایات اور افضال سے خاص کئے گئے تھے ان کی خوبیوں پر بہت سے عارفوں نے گواہی دی ہے ۔ انہوں نے محض خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے وطنوں کو خیرباد کہا اور وہ ہر میدان جنگ میں گھس گئے ۔ انہوں نے موسم گرما کی دوپہر کی گرمی کی پروا نہ کی ، نہ موسم سرما کی رات کی سردی کا خیال کیا بلکہ وہ مردانِ خدا کی طرح دین کی راہ میں قدم مارتے چلے گئے اس راہ میں نہ وہ کسی قریبی کی طرف جھکے اور نہ کسی اور کی انہوں نے پرواہ کی ۔ انہوں نے ربّ العالمین کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا ان کے اعمال اور افعال سے خوشبوئوں کی لپٹیں آتی ہیں اور وہ تمام کی تمام ان کے درجات اور حسنات کے باغات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور ان کی بادِ نسیم اپنے عطر بیز جھونکوں سے ان کے اسرار کی خبر دیتی ہے اور ان کے انوار ہم پر ضو فگن ہیں ۔ ’’
(ترجمہ از عربی سرالخلافہ ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ326)
٭…‘‘لَا تُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِاللّٰہِ (النور:38)
یہ ایک ہی آیت صحابہؓ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں کہ اُن کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے ۔ بادیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت ،تعجب آتا ہے ۔ ’’
( ملفوظات جلد 3صفحہ 222،ایڈیشن 1988ء )
٭…‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو دیکھو کہ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنا خون بہادیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوگئے کہ وہ اس کے لیے ہر ایک تکلیف اور مصیبت اُٹھانے کو ہر وقت تیار تھے ۔ انہوں نے یہاں تک ترقی کی کہ رَضِیَ اللّٰہ عَنۡھُمۡ وَرَضُوۡاعَنۡہُ (البیّنۃ:9) کا سرٹیفکیٹ ان کو دیا گیا ۔
پس صحابہ کرام ؓکی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور وہ آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا ان کی نسبت آیا ہے مِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡھُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ(الاحزاب:24) یعنی بعض اپنا حق ادا کرچکے اور بعض منتظر ہیں کہ ہم بھی اس راہ میں مارے جاویں ۔ا س سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدروعظمت معلوم ہوتی ہے ۔ مگر یہاں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں ۔ اب کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتاہے ۔ تو وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ضائع کرنا چاہتا ہے پس وہی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی قدر کرسکتا ہے جو صحابہ کرام ؓکی قدر کرتا ہے جو صحابہ کرام ؓکی قدر نہیں کرتا ۔ وہ ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیںکرتا وہ اس دعویٰ میں جھوٹا ہے ۔ اگر کہے کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور پھر صحابہؓ سے دشمنی ۔
جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بُرا سمجھتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے ہیں وہ فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی نبوت کے روشن دلائل کو توڑتے ہیں ۔ ’’(ملفوظات جلد سوم صفحہ527، ایڈیشن 1988ء )
٭…‘‘صحابہ کرام ؓ کے حالات کو دیکھ کر سُن کر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے نہ گرمی دیکھی نہ سردی نہ عزت اور نہ آبرو۔ سب دنیوی فخروناز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر خاک میں ملادیا۔ ہر ایک ذلت آپ کی فرمانبرداری میں اور ہر ایک عزت آپ کی اطاعت میں ہی دیکھی ۔ بھیڑوبکری کی طرح آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ذبح ہوگئے ۔ کوئی قوم کوئی مذہب دنیا میں ہے جو سچی قربانی کی مثال صحابہؓ سے بڑھ کر دکھاسکے ؟ جان دیکر سچا اخلاص دکھانا اسی کو کہتے ہیں ۔ اُن کے نفس بالکل کدورتِ دنیا سے پاک ہوچکے تھے جیسے کوئی گھر سے نکل کر ڈیوڑھی پر کھڑا ہوکر سفر کے لیے تیار ہوتا ہے ویسے ہی وہ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے واسطے تیار تھے ۔ ’’
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 336،ایڈیشن 1988ءحاشیہ)
٭…‘‘حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال ومتاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دیدیا اور آپ کمبل پہن لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کیا دیا ۔ تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنادیا اور اسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے زندہ کیا اور مرتد عرب کو پھر فتح کرکے دکھا دیا اور وہ کچھ دیا جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ۔ غرض ان لوگوں کا صدق ووفا اور اخلاص ومروّت ہر مسلمان کے لیے قابل اُسوہ ہے ۔ صحابہؓ کی زندگی ایک ایسی زندگی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پائی جاتی ۔’’
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 286، ایڈیشن 1988ء )
٭…‘‘دیکھو اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق مہاجر اور انصار رکھا ہے اور اُن کو رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡھُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہ ُمیں داخل کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اورجو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسے فرمایا:
اِذَا جَاءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۔وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنَ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا(سورۃ النصر:3-2)
یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگرچہ وہ مسلمان تھے مگر اُن کو وہ مراتب نہیں ملے جو پہلے لوگوں کو دیئے گئے ۔
اور پھر مہاجرین کی عزت سب سے زیادہ تھی کیونکہ وہ لوگ اس وقت ایمان لائے جب اُن کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کامیابی ہوگی یانہیں بلکہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا اور کفر کا ایک دریا بہتا تھا۔ خاص مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی اور مسلمان ہونے والوں کو سخت اذیتیں دی جاتی تھیں ، مگر انہوں نے ایسے وقت میں قبول کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بڑے بڑے انعامات اور فضلوں کا وارث اُن کو بنایا ۔ ’’
(ملفوظات جلد 3صفحہ 15، ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘ صحابہ کرام ؓ کو خدا تعالیٰ نے توحید پھیلانے کے لیے پیدا کیا اور انہوں نے توحید پھیلائی ۔’’
(ملفوظات جلد 3صفحہ 330، ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘آنحضرت ﷺ کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہونے سے صحابہؓ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بُت پرستی اور مخلوق پرستی ہی سے منہ موڑابلکہ درحقیقت اُن کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہوگئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا۔ انہوں نے کامل اخلاص سے خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنے کے لیے وہ کام کئے جس کی نظیر بعد اس کے کبھی پیدا نہیں ہوئی اور خوشی سے دین کی راہ میں ذبح ہونا قبول کیا بلکہ بعض صحابہؓ نے جو یک لخت شہادت نہ پائی تو اُن کو خیال گزرا کہ شاید ہمارے صدق میں کچھ کسر ہے جیسے کہ اس آیت میں اشارہ ہے
مِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡھُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب:24)
یعنی بعض تو شہید ہوچکے تھے اور بعض منتظر تھے کہ کب شہادت نصیب ہو۔ ’’
(ملفوظات جلد 3صفحہ 428،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے بیس بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہوکر اُٹھے تھے اس لیے انہوں نے زندگی کا اصل منشاء حاصل کرلیا تھا۔ ’’
(ملفوظات جلد 3صفحہ 396،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قومِ عرب کے تمدن اور اخلاق اور رُوحانیت کا کیا حال تھا ۔ گھر گھر میں جنگ اور شراب نوشی اور زنا اور لوٹ مار ۔ غرض ہر ایک بدی موجود تھی ۔ کوئی نسبت اور تعلق خدا کے ساتھ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ کسی کو حاصل نہ تھا۔ ہر ایک فرعون بنا پھرتا تھا، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے آنے سے جب اسلام میں داخل ہوئے ایسی محبت ِ الٰہی اور وحدت کی رُوح ان میں پیدا ہوگئی کہ ہر ایک خدا کی راہ میں مرنے کےلیے تیار ہوگیا ۔ انہوں نے بیعت کی حقیقت کو ظاہر کردیا اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ دکھادیا۔ اب تو بعض لوگ بیعت میں داخل ہوتے ہیں تو ذرا سے ابتلاء سے گھبرا جاتے ہیں ۔ مال اور جسمانی آرام سے بڑھ کر جان پیاری ہوتی ہے ۔ صحابہ ؓنے سب سے پہلے اپنی عزیز جان کو فدا کیا۔’’ (ملفوظات جلد 4صفحہ 334،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ایک کشش اور جذب ہے وہ جذب خدا تعالیٰ اپنے کامل نبی میں رکھ دیتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے کس قدر وفاداری کا نمونہ دکھایا ۔ جس کی نظیر نہ پہلے تھی نہ آگے دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن خدا چاہے تو وہ پھر بھی ویسا ہی کرسکتا ہے ۔ ان نمونوں سے دوسروں کے لیے فائدہ ہے ۔ اس جماعت میں خدا تعالیٰ ایسے نمونے پیدا کرسکتا ہے ۔
خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے
مِنَ الۡمُؤۡ مِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ فَمِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡھُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ(الاحزاب:24)
مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچا کردکھایا جو انہوں نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔ سو اُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ ’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ 335، ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘آنحضرتﷺ نے جو جماعت تیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفا دار جماعت تھی کہ انہوں نے آپؐ کے لیے جانیں دے دیں ، وطن چھوڑ دیئے ، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غرض آپؐ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی ۔ یہ کیسی زبردست تاثیر تھی ۔ ’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ 630، ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘ صحابہ ؓکی جو تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اُن کی نسبت فرماتا ہے۔ مِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ (الآیہ)(الاحزاب:24)اور پھر ان کی نسبت رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ (البیّنۃ:9) فرمایا
(ملفوظات جلد 4صفحہ 671،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘قرآن شریف صحابہؓ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم اس کی نظیر نہیں رکھتی۔ پھر اُن کےلیے اللہ تعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی ۔ یہانتک کہ اگر باہم کوئی رنجش بھی ہوگئی تو اس کے لیے فرمایا
وَنَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِھِمۡ مِّنۡ غِلٍّ(الآیۃ) (الحجر:48)
حضرت عیسیٰ ؑنے بھی حواریوں کو تختوں کا وعدہ دیا تھا مگر وہ ٹوٹ گیا۔ کیونکہ بارہ تختوں کا وعدہ تھا مگر یہود ا اسکریوطی کا ٹوٹ گیا ۔ جب وہ قائم نہ رہا تو اَوروں کا کیا بھروسہ کریں ۔ مگر صحابہ کے تخت قائم رہے۔دُنیا میں بھی رہے اور آخرت میں بھی ۔ غرض یہ آیت اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ (المائدۃ :4)مسلمانوں کے لیے کیسے فخر کی بات ہے ۔ ’’(ملفوظات جلد 4صفحہ 672،ایڈیشن 1988ء )
٭…‘‘آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب خبیث اور منکر گروہ نے شرارتیں کرنی شروع کیں اور دُکھ اور ایذا رسانی کے منصوبے کیے ۔ اس وقت معلوم ہوا کہ کیسی کیسی خبیث روحیں ہیں ۔ ایک وہ لوگ تھے کہ انہوں نے آپؐ کی راہ میں سرکٹوا ڈالے ۔ ان کے حالات اور واقعات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ان میں کیسا اخلاص اور ارادت تھی ۔ فی الحقیقت اُن کا اُسوہ اُسوۂ حسنہ ہے یہاں تک کہ ان میں سے اگر کسی کا ایک ضَرب سے سَر نہیں کٹا تو اس کو شک ہوا کہ شہید نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں کیسے فدا تھے۔ لکھا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے مخالف کو ایک تلوار ماری ۔ اس کے نہ لگی مگر اپنے لگی ۔ دوسرے نے کہا کہ شہید نہیں ہوا ۔ آنحضرت ﷺ کے پاس لے آئے اور پوچھا کہ کیا شہید نہیں ہوا ؟ آپ ؐ نے فرمایا ۔ دو اَجر ملیں گے ایک یہ کہ دشمن پر حملہ کیا ور دوسرا اس لیے کہ اپنے آپ کو محض خدا تعالیٰ کے لیے خطرہ میں ڈالا ۔ اس قسم کا ایمان ان لوگوں کا تھا۔ پس جب تک اس قسم کا اخلاص اور استقامت اللہ تعالیٰ کے لیے حاصل نہ ہوکچھ نہیں بنتا۔ مَیں یہی نمونہ صحابہ کا اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ مقدم کرلیں اورکوئی امر ان کی راہ میں روک نہ ہو۔ وہ اپنے مال وجان کو ہیچ سمجھیں ۔’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ 422، ایڈیشن 1988ء )
٭…‘‘صحابہ ؓیہ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں خواہ اس راہ میں کیسی ہی سختیاں اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں ۔ اگر کوئی مصائب اور مشکلات میں نہ پڑتا اور اسے دیر ہوتی تو وہ روتا اور چلاتا تھا ۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ان ابتلائوں کے نیچے خدا تعالیٰ کی رضا کا پروانہ اور خزانہ مخفی ہے۔
ہر بلاکیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے ۔ اسے کھول کردیکھو ۔ صحابہؓ کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عملی ثبوت تھا ۔ صحابہ ؓ جس مقام پر پہنچے تھے اس کو قرآن شریف میں اس طرح بیان فرمایا ہے
مِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡھُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب:24)
یعنی بعض ان میں سے شہادت پاچکے اور انہوں نے گویا اصل مقصود حاصل کرلیا۔ اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ چاہتے ہیں کہ شہادت نصیب ہو۔ صحابہ ؓدنیا کی طرف نہیں جھکے کہ عمریں لمبی ہوں اور اس قدر مال ودولت ملے اور یوں بے فکری اور عیش کے سامان ہوں ۔ مَیں جب صحابہؓ کے اس نمونہ کو دیکھتا ہوں تو آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسی کمال فیضان کا بے اختیار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ کس طرح پر آپؐ نے ان کی کایا پلٹ دی اور اُنہیں بالکل رُو بخدا کردیا۔ ’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ 422-423،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘سچا ایمان ابوبکر ؓاور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا کیونکہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال تو مال جان تک کو دے دیا۔ اور اس کی پروا بھی نہ کی ۔ جان سے بڑھ کر اَور کوئی چیز نہیں ہوتی ، مگر صحابہ ؓنے اُسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردیا۔ انہوں نے کبھی اس بات کی پروا بھی نہ کی کہ بیوی بیوہ ہوجائے گی یا بچے یتیم رہ جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی آرزو میں رہتے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہماری زندگیاں قربان ہوں ۔
مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی عظمت کا نقش دل پر ہوجاتا ہے اور کیسی بابرکت وہ قوم تھی اور آپؐ کی قوتِ قدسیہ کا کیسا قوی اثر تھا کہ اس قوم کو اس مقام تک پہنچادیا۔ غورکرکے دیکھو کہ آپؐ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ ایک حالت اور وقت ان پر ایسا تھا کہ تمام محرمات ان کے لیے شیرِ مادر کی طرح تھیں ۔ چوری ، شراب خوری ، زنا ، فسق وفجور سب کچھ تھا ۔ غرض کونسا گناہ تھا جو اُن میں نہ تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شہادت دی اور کہا اَللّٰہ اَللّٰہ فِیۡ اَصۡحَابِیۡ ۔ گویا بشریت کا چولہ اُتار کر مظہراللہ ہوگئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہوگئی تھی جو
یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ (التحریم :7)
کے مصداق ہیں ۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہ ؓکی ہوگئی تھی ۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دُور ہوگئے تھے ۔
ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں ۔ نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو۔ بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ اور اس کے لیے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہوگئے ۔ قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے ۔
مِنۡھُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡھُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا (الاحزاب:24)
یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہوجانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہوجاوے۔ مگر صحابہ ؓکی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا ۔ جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو ۔ پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے ۔ ’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ 594-595،ایڈیشن 1988ء)
٭…‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت تیار کی وہ صدق واخلاص میں ایسی وفادار تھی کہ اس نے بھیڑ بکری کی طرح سر کٹوادیئے ۔ اس سے بڑھ کر حیرت انگیز تبدیلی کیا ہوگی وہ جو ہر قسم کے عیبوں اور معاصی میں مصروف رہنے والی قوم تھی۔ جب آنحضرتﷺ کے دامن کے نیچے آئے تو انہوںنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ مخلصانہ پیوند کیا کہ اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ ہی سے محبت کرتے تھے ۔ ’’
(ملفوظات جلد 5صفحہ 100،ایڈیشن 1988ء )
٭…٭…٭