خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ فروری 2020ء
مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ …وہی نوجوان بزرگ ہیں جو ہجرت سے قبل یثرب میں پہلے اسلامی مبلغ بنا کر بھیجے گئے اور جن کے ذریعہ مدینے میں اسلام پھیلا
حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ہجرت سے قبل جمعہ پڑھایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو یاد کرتے تو فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا
جمیل اور حسین اور اپنے خاندان میں عزیز و محبوب سمجھے جانے والے اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
رؤسائے اَوس سعد بن معاذ اور اُسید بن الحضیر رضی اللہ عنہما کے واقعۂ ایمان کا بیان
نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کی انتہائی درجہ پابندی اور اطاعت کرنے والے دو بزرگان، وقف کا حق ادا کرنے والے نائب ناظر ضیافت مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب اور محنت اور اخلاص و وفا کے ساتھ خدمتِ دین کی توفیق پانے والے پروفیسر منور شمیم خالد صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍فروری2020ء بمطابق 28؍تبلیغ 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ، اسلام آباد ، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جن صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت مُصعب بن عمیرؓ ۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو عبدالدار سے تھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ اس کے علاوہ ان کی کنیت ابو محمد بھی بیان کی جاتی ہے۔ حضرت مصعبؓ کے والد کا نام عمیر بن ہاشم اور ان کی والدہ کا نام خناس یا حَنَاس بنت مالک تھا جو مکہ کی ایک مال دار خاتون تھیں۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی والدہ نے ان کی پرورش بڑے ناز و نعمت سے کی۔ وہ انہیں بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہناتی تھیں اور حضرت مصعبؓ مکّے کی اعلیٰ درجےکی خوشبو استعمال کرتے اور حضرمی جوتا جو حضرِموت کے علاقے کا بنا ہوا جوتا تھا، امیر لوگوں کے لیے مخصوص تھا ، وہاں سے منگوا کےپہنا کرتے تھے۔ حضرِموت عدن سے مشرق کی طرف سمندر کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے۔ بہرحال اعلیٰ لباس، اعلیٰ خوشبو اور جوتا تک وہ باہر سے منگوایا کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کی بہن تھیں۔ حَمْنَہ بنت جحش سے ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو یاد کرتے تو فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ85- 86 ‘‘مصعب بن عمیر’’ ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175‘‘مصعب بن عمیر’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم مہاجرین حصہ اول صفحہ 270، 275 ، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد السابع صفحہ 71 ‘‘حمنہ بنت جحش’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 157 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت مصعب بن عمیرؓ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والے سابقین میں شامل تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دارِ ارقم میں تبلیغ کیا کرتے تھے اس وقت آپؓ نے اسلام قبول کیا لیکن اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشے سے اسے مخفی رکھا۔ حضرت مصعبؓ چُھپ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہؓ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں اور والدہ کو خبر کر دی۔ والدین نے ان کو قید کر دیا۔ آپؓ قید میں ہی رہے یہاں تک کہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ ان کو موقع ملا ، باہر آئے اور پھر ہجرت کر گئے۔ کچھ عرصے بعد بعض مہاجرین حبشہ سے مکہ واپس آئے تو حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ان میں شامل تھے۔ آپؓ کی والدہ نے جب آپؓ کی حالتِ زار دیکھی تو آئندہ سے مخالفت ترک کر دی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے پہلے حبشہ اور بعد میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ‘‘مصعب بن عمیر’’،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175 ‘‘مصعب بن عمیر’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مَیں نے آسائش کے زمانے میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی۔ اسلام کی خاطر انہوں نے اتنے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے جلداس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی ہے اور نئی جلد آتی ہے۔
(السیرة النبویة لابن اسحاق صفحہ 230، من عذب في الله بمكة من المؤمنين، دار الکتب العلمیة بیروت 2004ء)
یہ قربانی کے ایسے ایسے معیار تھے جو حیرت انگیز ہیں۔
ایک روز مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت مصعبؓ کے پیوند شدہ کپڑوں میں چمڑے کی ٹاکیاں لگی ہوئی تھیں۔ کہاں تو وہ کہ اعلیٰ درجےکا لباس اور کہاں مسلمان ہونے کے بعد یہ حالت کہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہؓ نے حضرت مصعبؓ کو دیکھا تو سر جھکا لیے کہ وہ بھی حضرت مصعب بن عمیرؓکی تبدیلی حالت میں کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓنے آ کر سلام کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا اور اس کی احسن رنگ میں ثنا بیان فرمائی۔ پھر فرمایا کہ الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔ میں نے مصعبؓ کو اُس زمانے میں دیکھا ہے جب شہرِمکہ میں اس سے بڑھ کر صاحبِ ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔ یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی مگر خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ‘‘مصعب بن عمیر’’ ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓکو دیکھا تو ان کی ناز و نعمت والی حالت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ رہا کرتے تھے۔ جو ان کی پہلی حالت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آئی کہ کس طرح اب قربانی کر رہے ہو۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓآئے۔ ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز ونعمت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں وہ اب تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جبکہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا یعنی اتنی فراخی پیدا ہو جائے گی کہ صبح شام تم کپڑے بدلا کرو گے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا یعنی کھانا بھی قسم قسم کا ہو گا اور مختلف کورسز (courses) سامنے آتے جائیں گے جس طرح آج رواج ہے۔ اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردے ڈالو گے جیسا کہ کعبے پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ بڑے قیمتی قسم کے پردے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ بالکل آج کل کے نظارے یا اس کشائش کے نظارے ہیں جب مسلمانوں کو بعد میں وہ کشائش ملی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے ایسی فراخی ہو گی، ایسے حالات ہوں گے تو پھر عبادت کے لیے بالکل فارغ ہوں گے اور محنت اور مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو ۔(سنن الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ حدیث 2476) تمہاری حالت، تمہاری عبادتیں، تمہارے معیار اس سے بہت بلند ہیں جو بعد میں آنے والوں کے کشائش کی صورت میں ہوں گے۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ہجرتِ حبشہ کے بارے میں لکھا ہے اس میں سے کچھ مَیں پہلے دوسرے صحابہؓ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں۔ مختصر یہاں ذکر کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ ِرجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔بہرحال قریشِ مکہ کو ان لوگوں کی ہجرت کا جب علم ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھااور یہ لوگ ناکام واپس لوٹے۔ حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 146-147)
بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقعے پر مدینہ سے آئے ہوئے بارہ افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب یہ لوگ واپس مدینہ جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓکو ان کے ساتھ بھجوایا تا کہ وہ انہیں قرآن پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ مدینہ میں آپؓ قاری اور مقری، استاد کے نام سے مشہور ہو گئے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175-176 ‘‘مصعب بن عمیر’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الرابع صفحہ 37 ‘‘مصعب بن عمیر’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء)
(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 199، باب ارسال الرسولؐ مصعب بن عمیر مع وفد العقبۃ، دار ابن حزم بیروت لبنان 2009ء)
مقری یعنی استاد اس کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق اوس اورخزرج کے انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ کوئی شخص ہمیں قرآن پڑھانے کے لیے بھیجیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓکو بھیجا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الاول صفحہ171 باب ذکر العقبۃ الاولیٰ الاثنی عشر، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
مدینے میں حضرت مصعبؓ نے حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے گھر قیام کیا۔ آپؓ نمازوں میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔
(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 199، باب ارسال الرسولؐ مصعب بن عمیر مع وفد العقبۃ، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت مصعبؓ ایک عرصےتک حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے گھر قیام پذیر رہے لیکن بعد میں حضرت سعد بن معاذؓ کے گھر منتقل ہو گئے۔
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم مہاجرین حصہ اول صفحہ 272، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیرؓاور ابن ام مکتومؓ تھے۔ مدینے پہنچ کر ان دونوں صحابہؓ نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر آئے۔ اس کے بعد نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔
(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ الاعلیٰ حدیث 4941)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مصعب بن عمیرؓکے بارے میں مزید بیان کرتے ہیں کہ
‘‘دارِ ارقم میں جو اشخاص ایمان لائے وہ بھی سابقین میں شمارہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں۔ اول مصعب بن عمیر’’ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘جو بنو عبدالدار میں سے تھے اور بہت شکیل اور حسین تھے اور اپنے خاندان میں نہایت عزیز و محبوب سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی نوجوان بزرگ ہیں جو ہجرت سے قبل یثرب میں پہلے اسلامی مبلغ بنا کر بھیجے گئے اور جن کے ذریعہ مدینے میں اسلام پھیلا۔’’
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ129)
پھر ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ہجرت سے قبل جمعہ پڑھایا۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت عقبہ ثانیہ سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینے میں نماز جمعہ کے لیے اجازت طلب کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓنے مدینے میں حضرت سعد بن خیثمہؓ کے گھر پہلا جمعہ پڑھایا۔ اس میں مدینے کے بارہ افراد شامل ہوئے۔ اس موقعے پر انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓاسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جمعےکی نماز پڑھائی۔ لیکن ایک روایت دوسری بھی ہے جس کے مطابق حضرت ابواُمَامہ اَسْعَد بن زُرارہؓ تھے جنہوں نے مدینہ میں پہلا جمعہ پڑھایا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ87-88 ‘‘مصعب بن عمیر’’ ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الاول صفحہ171 باب ذکر العقبۃ الاولیٰ الاثنی عشر، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
بہرحال حضرت مصعبؓ پہلے مبلغ تھے۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اسعد بن زُرارہ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلّوں میں تبلیغ کی غرض سے جاتے تھے۔ حضرت مصعبؓ کی تبلیغ سے بہت سے صحابہ مسلمان ہوئے جن میں کِبَارْ صحابہ مثلاً حضرت سعد بن معاذؓ ، حضرت عَبَّاد بن بِشؓر، حضرت محمد بن مَسلمؓہ، حضرت اُسید بن حُضیرؓ وغیرہ شامل تھے۔
(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 200، باب اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ321، ۳۲۶، ۳۳۸، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
حضرت مصعبؓ کی تبلیغی مساعی اور کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ
‘‘مکّہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نَو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آپﷺ نے مصعب بن عمیرؓکو جو قبیلہ عبدالدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مُقْرِیٔ کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھاکیونکہ یہی تبلیغ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مصعبؓ بھی یثرب میں مقریٔ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ مصعبؓ نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زُرارہؓ کے مکان پر قیام کیا جو مدینے میں سب سے پہلے مسلمان تھے اور ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور بااثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور چونکہ مدینہ میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب تھی اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اسعد بن زرارہؓ کی تجویز پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ بن عمیر کو جمعہ کی نماز کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا اور اوس و خزرج بڑی سرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا ۔چنانچہ بنو عَبدالْاَشْہَل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا۔ یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہ تھا اور اس کے رئیس کا نام سعد بن معاذ تھا جو صرف قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ہی رئیس اعظم نہ تھے بلکہ تمام قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ جب مدینہ میں اسلام کا چرچا ہوا تو سعد بن معاذ کو یہ برا معلوم ہوا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا۔’’ اسلام لانے سے پہلے یہ سعد بن معاذؓ بڑے مخالف تھے۔ ‘‘مگر اسعد بن زرارہ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی یعنی وہ ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسعد مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے سعد بن معاذ خود براہ راست دخل دیتے ہوئے رکتے تھے کہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہاکہ اَسعد بن زرارہ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے۔’’ مسلمان ہو گیا ہے اور اس کے ہاں تبلیغ کا ساتھ بھی دے رہا ہے۔ ‘‘مگر تم جاکر مصعبؓ کو روک دو ۔’’ بجائے اَسعد بن زرارہؓ کو روکنے کے حضرت مصعبؓ کو روک دو ‘‘کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں اور اسعد سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے۔ اُسید قبیلہ عبدالاشہل کے ممتاز رؤساء میں سے تھے۔ حتّٰی کہ ان کا والد جنگِ بُعَاث میں تمام اوس کا سردار رہ چکا تھا اور سعد بن معاذ کے بعد اسید بن الحضیر کا بھی اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا۔ چنانچہ سعد کے کہنے پر وہ مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کے پاس گئے اور مصعب سے مخاطب ہو کر غصہ کے لہجے میں کہا۔ تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو؟ اس سے باز آجاؤ ورنہ اچھا نہ ہو گا۔ پیشتر اس کے کہ مصعب کچھ جواب دیتے اسعد نے آہستگی سے مصعب سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک بااثر رئیس ہیں۔ ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا ۔چنانچہ مصعب نے بڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اسید سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں اور ٹھنڈے دل سے ہماری بات سن لیں اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کریں۔ اُسید اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے۔’’ سعید فطرت تھے، ‘‘اور مصعب نے انہیں قرآن شریف سنایا اور بڑی محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اُسید پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے کہ جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا۔ تم ٹھہرو میں اسے ابھی یہاں بھیجتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسید اٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سعد بن معاذ کو مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کی طرف بھجوا دیا۔ سعد بن معاذ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اسعد بن زرارہ سے کہنے لگے کہ دیکھو اسعد تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔’’ ابھی میں رشتہ داری کی وجہ سے چپ ہوں لیکن ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ۔ ‘‘اس پر مصعبؓ نے اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا۔’’ جیسے پہلے کو کیا تھا ’’اور کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سن لیں اور پھرا گر اس میں کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو (بے شک) ردّ کر دیں۔ سعد نے کہا۔ ہاں یہ مطالبہ تو معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے اور مصعبؓ نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی۔ ابھی زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ یہ بت بھی رام تھا۔’’ یعنی سعد بن معاذؓ جو تھے وہ بھی یہ باتیں سن کے رام ہو گئے۔ ‘‘چنانچہ سعد نے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعد بن معاذ اور اسید بن الحضیر دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعدؓ نے ان سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ اے بنی عبدالاشہل! تم مجھے کیسا جانتے ہو؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سردار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے۔ سعد نے کہا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ۔ اس کے بعد سعد نے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے اور ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی کہ تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسیدؓ نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کے بت نکال کر توڑے۔
سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن الحضیرؓ جو اس دن مسلمان ہوئے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اورانصار میں تو’’ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘انصار میں تو لارَیب ان کا بہت ہی بلند پایہ تھا۔’’ کوئی شک نہیں اس میں، بہت بلند تھے۔ ‘‘بالخصوص سعد بن معاذؓ کو تو انصارِمدینہ میں وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو مہاجرین ِمکہ میں حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھی۔ یہ نوجوان نہایت درجہ مخلص، نہایت درجہ وفادار اور اسلام اور بانیٔ اسلام کا ایک نہایت جاں نثار عاشِق نکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیسِ اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا اسلام میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ اَخَصّ صحابہ کو حاصل تھی اور’’ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘اور لارَیب۔ اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ سعدؓ کی موت پر تو رحمٰن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے۔ ایک گہری صداقت پر مبنی تھا۔ غرض اس طرح سرعت کے ساتھ اوس و خزرج میں اسلام پھیلتا گیا۔ یہود خوف بھری آنکھوں کے ساتھ یہ نظارے دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔’’
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ224تا 227)
حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے بہت سے افراد مسلمان ہوئے۔ آپؓ سن تیرہ نبوی میں حج کے موقعے پر مدینے سے ستّر انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں، مختلف روایتوں سے لے کر ،حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ
‘‘اگلے سال یعنی تیرہ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقعہ پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مصعبؓ بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ مصعبؓ کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مصعبؓ نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملا۔ آپؐ سے مل کر پھر تمہارے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔ ’’ یہ بات سن کے، یہ دیکھ کر کہ پہلے مجھے ملنے نہیں آئے ‘‘وہ بہت جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مصعبؓ نے کہا ماں! میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا ہے؟ مصعبؓ نے آہستہ سے جواب دیا۔ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکّی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قَسم ہے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مصعبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ بھاگ کر نکل گئے۔’’
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 227)
حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ذکر میں ابھی مزید ذکر بھی ہے جو جاری رہے گا لیکن کیونکہ آج دو جنازے غائب ہیں جو میں پڑھاؤں گا ۔ان کا ذکر بھی کرنا ہے۔اس لیے یہاں میں حضرت مصعبؓ کا ذکر ختم کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان ہو گا۔
جو جنازے پڑھانے ہیں ان میں سے ایک مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب ابن مکرم ملک مظفر احمد صاحب ہیں جو 22فروری کو 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کو ایک عرصے سے جگر کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے دس دن طاہر ہارٹ میں زیر ِعلاج رہنے کے بعد آپ خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ملک منور احمد جاوید صاحب کے دادا (صوبیدار میجر) حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ تھے اور ان کے نانا حضرت شیخ عبدالکریم صاحبؓ تھے جن کا تعلق غازی پور ضلع گورداسپور سے تھا اور دادا جو تھے وہ دھرم کوٹ رندھاوا کے تھے۔ دونوں بزرگوں نے یعنی دادا اور نانا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور صحابیت کا شرف پایا۔ ملک منور جاوید صاحب کی شادی 1968ء میں سلمیٰ جاوید صاحبہ سے ہوئی جو صوفی حامد صاحب مرحوم کی بیٹی تھیں۔ حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحبؓ مبلغ ماریشس صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی نیز حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی نواسی ہیں۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے۔ اس طرح ملک منور جاوید صاحب کے دادا اور نانا اوران کی اہلیہ کے دادا اور نانا چاروں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحابی تھے۔
اپنی زندگی وقف کرنے کے بارے میں ذکرکرتے ہوئے ملک صاحب نے ایک موقعے پر کہا کہ وقف کی توجہ مجھے اس طرح پیدا ہوئی کہ جب میں 1982ء کے انصار اللہ کے اجتماع میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی تقریر سن رہا تھا تو حضور نے اپنی تقریر میں وقف کی اہمیت بیان کی اور تقریر کے آخر پہ ایک جملہ جس کا مفہوم یہ تھا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارا آخری سانس وقف میں نکلے۔ کہتے ہیں یہ فقرہ جو تھا یہ میرے لیے ایک turning point تھا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا مَیں بھی وقف کر سکوں گا۔ بہرحال اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور 10؍اگست 1983ء کو انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی خدمت میں وقفِ زندگی کی درخواست کی جس پر حضور رحمہ اللہ نے 18؍اگست 1983ء کو آپ کا وقف منظور فرمایا اور وقف منظور فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ آپ اپنا کام سمیٹ کر بے شک آجائیں۔ اس وقت یہ اپنا کاروبار بھی کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے 28؍اگست 1983ء کو آپ کا ابتدائی تقرر کیا جو وکالتِ صنعت و تجارت میں تھا۔ مورخہ یکم اکتوبر 1983ء سے آپ وکالت صنعت و تجارت میں حاضر ہوگئے۔ وقف سے قبل آپ نے ابتدائی سولہ سال سیکرٹیریٹ حکومت پنجاب میں سروس کی۔ اس کے بعد تقریباً دس سال ذاتی کاروبار کرتے رہے۔ نومبر 1983ء میں آپ مینیجر رسالہ ریویو آف ریلیجنز مقرر ہوئے۔ 84ء میں معاون ناظر ضیافت مقرر ہوئے۔ 20؍اپریل 1987ء سے جولائی 2016ء تک بطور نائب ناظر ضیافت فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی۔ 1990ء میں جب کمیٹی کفالت یکصد یتامٰی قائم ہوئی تو کفالت یکصد یتامٰی کی کمیٹی کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے اور قریباً بیس سال تک آپ کو اس خدمت کی توفیق ملی ۔ 1968ء سے 1970ء تک مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان میں بطور قائد ضلع اور علاقہ لاہور رہے اور یہ تقریباً دس سال کا عرصہ خدمت کا بنتا ہے۔ انصار اللہ میں 84ء سے 14ء تک ان کو خدمت کا موقع ملا۔ 84ء سے 14ء اکتیس سال تک انصار اللہ پاکستان میں قائد تحریک جدید، قائد تربیت اور قائداشاعت اور پھر یہ آخری پانچ سال نائب صدر مجلس انصاراللہ پاکستان خدمت کی توفیق ملی۔
جب یہ سرکاری نوکری کرتے تھے تو اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دفعہ ملک صاحب نے کہا کہ سروس کے دوران ہمارے ایک انچارج تھے۔ بڑے متعصّب انسان تھے اور اکثر اپنے مولویوں کو میرے پاس مباحثے کے لیے لاتے تھے۔ اس طرح ایک بار وہ علامہ پروفیسر خالد محمود صاحب کو لائے جو اس وقت کے بڑے جید عالم تھے۔ ان سے مباحثہ شروع ہوا۔ جب ان عالم صاحب سے کوئی بات نہ بن پڑی تو انہوں نے غصہ میں گالیاں دینا شروع کر دیں جو عام مولویوں کا طریقہ ہے۔ تو کہتے ہیں کہ میرے جو افسر انچارج تھے وہ ڈر گئے کہ کہیں معاملہ خراب ہی نہ ہو جائے ۔ اس پر ان علامہ صاحب نے میرے انچارج کو جن کا نام عبدالرحمٰن تھا، حوصلہ دینے کے لیے کہا کہ، مولوی صاحب کے الفاظ بڑے ایسے ہیں جو دل سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ جماعت کے افراد کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے ۔کہتے ہیں کہ مولانا صاحب نے کہا کہ ، ان لوگوں نے خدا ، رسول اور کتاب یعنی کلام الٰہی پر اتنے ظلم کیے کہ اللہ ان کو ہلاک کر دیتا یعنی کہ اللہ تعالیٰ پر، رسول پر اور قرآن کریم پر احمدیوں نے اتنے ظلم کیےہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دیتا لیکن کیوں ہلاک نہیں کیا؟ مولانا صاحب کہنے لگے یہ ہر بار اس وجہ سے بچ جاتے ہیں۔یہ کیوں بچ جاتے ہیں ؟کیونکہ یہ اپنی نمازوں میں خوب روتے ہیں۔ تو ملک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا ۔علامہ صاحب! یہ بات آپ مجھے لکھ کر دے دیں۔ کہنے لگے کیوں؟ پنجابی میں کہنے لگے کہ ‘اَج میں لکھ دیواں تے کل تُسی اخبار وچ چھپوا دیو گے۔’ تو مطلب یہی ہے کہ ان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ احمدیوں کی گریہ و زاری جو ہے وہ ہر وقت ان کے کام آتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی سنتا ہے۔ اس کے باوجود کہ ہم غلط ہیں پھر بھی یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی آنکھیں بھی کھولے اور قوم کو جو انہوں نے غلط رستے پہ ڈالا ہوا ہے، غلط رہنمائی کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ قوم کو ان کے دجل اور فریبوں سے بھی بچائے۔
ہمارے معاون ناظر ضیافت اسامہ اظہر صاحب ہیں ۔کہتے ہیں کہ ملک منور احمد جاوید صاحب اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ راتوں کو اٹھ کر دارالضیافت کا چکر لگاتے۔ کارکنوں سے جائزہ لیتے اور موسم کے مطابق ان کے لیے چائے اور انڈوں وغیرہ کا انتظام کرواتے۔ کارکنان دارالضیافت سے ان کا بہت محبت، شفقت اور ہمدردی کا سلوک تھا۔ ہر کارکن کے گھریلو حالات سے باخبر رہتے اور خاموشی سے ہر ممکن مالی مدد بھی کرتے۔
ان کے داماد ندیم صاحب کہتے ہیں ا ور بھانجے بھی ہیں کہ ملک صاحب نے ایک دفعہ ان کو کہا ایک پہلی بات تویہ ہے کہ مجھے ہمیشہ نمازوں کی تحریک کرتے اور خلافت سے محبت اور خدمتِ دین کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں انہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ میں ریٹائرڈ ہو گیا ہوں اس لیے طوعی چندوں کو نصف کر دیتا ہوں۔ آمد، الاؤنس جو ہے وہ اب کم ہو گیا ہے لہٰذا میں نے اپنے وعدہ جات کی لسٹ بنائی اور سو گیا۔ رات کو کہتے ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے پاس آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مَیں عالمِ کَوْن کا خدا ہوں۔ سنا ہے کہ تم نے اپنے چندے آدھے کر دیے ہیں۔ آؤ میں تمہیں اپنی کائنات کی سیر کراؤں۔ لہٰذا اللہ نے مجھے خواب میں اپنے پہاڑ دکھائے، جنگل وادیاں دریا اور باغات دکھائے اور کہا کہ جب سب کا مَیں مالک ہوں تو تمہیں کس بات کی فکر۔ کہتے ہیں یہاں تک یہ بات میں نے سنی اور میری آنکھ کھل گئی اور مَیں نے جو چندے آدھے کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ ترک کر دیا اور اپنے چندے باقاعدہ اس طرح ادا کرنے شروع کر دیے۔
ان کی بیگم بتاتی ہیں کہ وقفِ زندگی سے پہلے جب یہ کاروبار کیا کرتے تھے تو بہت سی رقم جیب میں ڈال کر چادر اوڑھ کر سردیوں کی راتوں کو سڑک پر نکل جایا کرتے تھے اور کہتے تھے اس وقت ضرورت مند ملے گا تو وہ حقیقت میں بہت ضرورت مند ہو گا۔ لہٰذا ایک بار ایک آدمی کھڑا تھا جو بہت پریشان تھا اور اس نے بتایا کہ اس کی والدہ بہت سخت بیمار ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ انہوں نے وہ سارے پیسے اس کو دے دیے اور واپس گھر آ گئے۔
آصف مجید صاحب معاون ناظر ضیافت ہیں، مربی ہیں ۔کہتے ہیں کہ بعض دفعہ رَش زیادہ ہونے کی صورت میں مہمانوں کو رہائش کی مشکلات پیش آتی تھیں اور بعض مہمان تو سرِعام اور دفتر میں آ کر بھی بعض دفعہ سخت جملے اور الفاظ کہہ دیتے تھے مگر مرحوم بڑی خندہ پیشانی سے تمام بات سنتے اور بعض دفعہ تو کہتے ہیں مَیں نے انہیں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ تو مرحوم جن مہمانوں سے معافی مانگ رہے ہوتے ان میں سے بعض ان کے بچوں کی عمر کے بھی ہوتے تھے۔ایک دفعہ میں نے مہمانوں کے جانے کے بعد اظہار کیا کہ ملک صاحب مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے کہ آپ نے اس بچے سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ہے۔ تو کہنے لگے تمہیں کیوں تکلیف ہوئی ہے؟ ہاتھ تو میں نے جوڑے ہیں تم نے نہیں۔ اور یاد رکھو کہ جس کے یہ مہمان ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ تو مہمانوں کو منانے کے لیے ننگے پاؤں بھاگ کر مہمانوں کو راضی کر کے واپس لائے تھے۔
پھر آصف صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دن ایک بزرگ بہت غصے سے میرے دفتر میں داخل ہوئے اور پنجابی میں ملک صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم ملک منور جاوید ہو۔ ‘توں ای ملک منور جاوید ایں’۔ ملک صاحب کہنے لگے کہ میں ہی ملک منور جاوید ہوں۔ تو بزرگ مہمان مخاطب ہوئے اور کہنے لگے پنجابی میں کہ ‘تیرے پیو دا لنگر خانہ اے’۔ تمہارے باپ کا یہ لنگر خانہ ہے؟ ملک صاحب نے جواب دیا کہ نہیں بابا جی۔ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر خانہ ہے۔ میرے اور آپ کے مشترکہ باپ کا لنگر خانہ ہے۔ یہ جواب سن کے وہ بزرگ مطمئن ہو گئے اور بڑے آرام سے اور محبت سے اپنا معاملہ بیان کیا اور چلے گئے۔
بعض دفعہ مہمان بھی زیادتی کر جاتے ہیں۔ مجھے بھی شکایتیں آتی ہیں کہ جی دارالضیافت میں یہ سلوک ہوا، وہ سلوک ہوا لیکن تحقیق کرو تو پتا لگتا ہے کہ مہمانوں میں بھی صبر نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ہمیں، ہمارے شعبے کو ان کی عزت کرنی چاہیے لیکن مہمانوں کو بھی چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں اور جب بعض دفعہ ایسی صورت حال ہو تو انتظامیہ سے تعاون کرنے کی کوشش کیا کریں۔ بہرحال ملک صاحب نے اپنے وقف کا حق ادا کر دیا۔ اور جب میں ناظر اعلیٰ تھا تو اس وقت مَیں ناظر ضیافت بھی تھا اور یہ نائب ناظر ضیافت تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ جماعتی اموال کی بڑی درد سے فکر رکھتے تھے اور حق بات کہنے سے کبھی نہیں رکتے تھے۔ باوجود اس کے کہ میرے نائب تھے اگر جماعتی مفاد میں ان کے نزدیک کوئی چیز بہتر ہوتی اور میں نے کوئی اور بات کہی ہے تو بغیر جھجھک میری رائے کے خلاف مشورہ دیتے اور کہتے کہ یہ اس طرح ہو تو زیادہ بہتر ہے اور یہی خوبی ہے جو ہر واقفِ زندگی میں ہونی چاہیے کہ اپنی رائے کو ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے صحیح طرح پیش کریں۔ خلافت سے وفا کا تعلق تو بہت بلند تھا جس کا اظہار ان کے ہر خط سے ہوتا تھا اور جب بھی ملے، ہر ملاقات سے اس کا اندازہ ہوتا تھا ، وہ مجھے دو دفعہ ملے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بیوی اور بچوں کو صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی ان لوگوں کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب ابن شیخ محبوب عالم خالد صاحب کا ہے جو 16؍فروری 2020ء کو ربوہ میں تقریباً اکیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ جیسا کہ میں نے کہا ان کے والد شیخ محبوب عالم خالد صاحب تھے جو پہلے ٹی آئی (TI)کالج میں پروفیسر تھے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کو ناظر بیت المال آمد بنایا۔ بڑالمبا عرصہ یہ ناظر بیت المال آمد رہے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کاصدر صدر انجمن احمدیہ کا تقرر کیا ۔ یہ شمیم خالد صاحب ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ ثانی شاہدہ منور شمیم صاحبہ ہیں اور پہلی اہلیہ سے جو وفات پا گئی تھیں ان کا ایک بیٹا ہے۔ خالد انور صاحب جو کینیڈا میں ہیں۔ 1964ء میں جب حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ کالج کےپرنسپل تھے اور صدر صدر انجمن احمدیہ بھی تھے اس وقت انہوں نے منور شمیم خالد صاحب کا نکاح مسجد مبارک میں پڑھایا تھا اور اس موقعے پر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالثؒ نے یہ بھی فقرہ کہا کہ پروفیسر منور شمیم خالد جو میرے گہرے دوست پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب کے بیٹے ہیں مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز ہیں۔ خلیفة المسیح الثالثؒ کا ان کے والد صاحب کے ساتھ بھی بہت تعلق تھا۔ مجلس انصار اللہ مرکزیہ پاکستان میں ان کا خدمات کا سلسلہ اٹھائیس سال پر محیط ہے۔ جب تک کالج نیشنلائزڈ نہیں ہوئے یہ ٹی آئی کالج میں پروفیسر رہے۔ اس کے نیشنلائزڈ ہونے کے بعد بھی میرا خیال ہے ان کا زیادہ عرصہ ربوہ کے کالج میں ہی گزرا۔
یہ تو میں نے بتا دیا کہ وہ محبوب عالم خالد صاحب کے بیٹے تھے اور ان کے شمیم خالد صاحب کے دادا مولوی فرزند علی صاحب خان صاحب تھے۔ مولوی فرزند علی صاحب جو سابق امام مسجد لندن بھی رہے ہیں اور ناظر بیت المال بھی رہے ہیں۔
منور شمیم خالد صاحب کی دوسری اہلیہ شاہدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہتی ہیں کہ منور شمیم خالد صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ سب سے پہلا وصف خلیفۂ وقت سے والہانہ محبت اور عقیدت اور اطاعت تھی اور خطبات بہت غور سے سنتے تھے اور پھر بڑے نکات نکالا کرتے تھے۔ پابند صوم و صلوٰة، تہجد گزار، باجماعت پنجوقتہ نماز کے پابند، بیماری کی وجہ سے جب مسجد جانا ختم ہو گیا تو بہت محسوس کیا کرتے تھے اور اکثر رقت طاری ہوتی تھی کہ مَیں مسجد نہیں جا سکتا ۔ انہوں نے اپنی بیماری کا عرصہ بھی بڑے صبر اور حوصلے سے اور ہمت سے گزارا ہے۔ کبھی اُف تک نہیں کی۔ نہ کوئی گلہ زبان پر لائے۔ ہمیشہ الحمد للہ زبان پر رہا ۔ خدمتِ دین میں اخلاص و وفا اور محنت ان کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ بڑی خاموشی سے خدمت کرنے والے تھے۔ نہایت شفیق، باوفا اور محبت سے پیش آنے والے وجود تھے۔ کالج میں جب پڑھاتے رہے ہیں تو کچھ عرصہ مَیں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں اور جب مَیں امیر مقامی یعنی ناظرِ اعلیٰ تھا تو اس کے بعد انتہائی ادب اور احترام کا سلوک انہوں نے مجھ سے رکھا ۔کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ تم میرے شاگرد رہے ہو۔ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کی انتہائی درجہ پابندی کرنے والے اور اطاعت کرنے والے تھے اور خلافت کے بعد بھی ان کا جو اظہارِ تعلق تھا وہ غیر معمولی تھا۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ ان کے لواحقین کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان دونوں کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان شاء اللہ۔
(الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2020ء صفحہ 5تا9)