کیایہ اتفاق ہے؟
یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں
کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکاروں کا کار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے شخصی،علاقائی، قومی، زمانی، زمینی اور آسمانی نشانات کا تذکرہ
کیا یہ اتفاق ہے …کہ بانی جماعت احمدیہ، مسیح موعود اور مہدی ہونے کے مدعی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی دمشق کے عین مشرق میں قادیان کے قصبہ میں پیدا ہوئے جیسا کہ حدیث نبوی میں لکھا تھا شرقی دمشق۔ یعنی مسیح دمشق کے شرقی جانب نازل ہو گا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ غلام احمد قادیانی کے اعداد بحساب جمل پورے 1300بنتے ہیں جو 13ویں صدی ہجری کے خاتمہ پر دلالت کرتے ہیں اور آپ کے چودھویں صدی ہجری کے موعود مصلح ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آپ 1250ہجری میں پیدا ہوئے اور 1326 ہجری میں فوت ہوئے اس طرح 13ویں صدی ہجری کا نصف آخر آپ نے پایا اور 14ویں صدی ہجری کے پہلے 26سال بھی پائے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اسلامی اورعیسوی دونوں صدیوں کا زمانہ پایا ۔نیز دنیا کےتمام معروف قوموں کے کیلنڈر آپ کی زندگی میں نئی صدی میں داخل ہوئے جیسا کہ ذوالقرنین کی پیشگوئی میں اشارہ موجود ہے یعنی دو صدیاں پانے والا۔اور آپ نے اس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قرار دیا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آپ کے آباء واجدادفارسی سلطنت سے ہجرت کرکے ہند میں آئے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ آنے والا مامور اس کی قوم میں سے ہوگا اور فارسی الاصل ہوگا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آپ کے وہ جد امجد جو فارسی سلطنت کے شہر سمرقند سے نکل کر ہندوستان میں آئے تھے ان کا نام ہادی بیگ تھا اور انہی کی نسل سے وہ شخص پیدا ہوا جس نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مرزاہادی بیگ نے ھند میں آکر جس قصبہ کی بنیاد ڈالی اس کا نام اسلام پور رکھا کیونکہ اس نے اسلام کا نیا مرکز بننا تھا مگر حکمت الٰہی سے یہ نام اسلام پور قاضی۔قادی۔ وغیرہ مراحل سے گزرتا ہوا قادیان بن گیا جس کا ذکر ہندو لٹریچر میں قدون اور حدیث نبوی میں کدعہکے لفظ سے ملتا ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے … کہ اس مدعی کا نام غلام احمد رکھا گیا جو احمد پاک ﷺ کی غلامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یہی آپ کا دعویٰ ہے کہ میرا مقصود تو صرف اور صرف حضرت رسول کریم ﷺ کی عظمت اور اسلامی تعلیمات کو دنیا میں قائم کرنا ہے وہی کلمہ وہی قرآن وہی نماز وہی روزہ وہی حج وہی شریعت محمدیہ۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح موعود کی پیدائش میں ندرت تھی اور آپ توام پیدا ہوئے جیسا کہ سپین کے مشہور صوفی بزرگ حضرت محی الدین ابن عربی نےپیشگوئی کی تھی ۔ حضرت مسیح ناصری کی پیدائش بھی منفرد تھی اور آپ بن باپ پیدا ہوئے تھے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح بن باپ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھے اور مرزا صاحب بھی نسلی طور پر قریش میں سے نہ تھے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں جہاں آپ کی پیدائش ہوئی پہلا عیسائی مشن 1835ء میں قائم ہوا اور اسی سال وہ شخص پیدا ہوا جس نے کاسر صلیب ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ عیسائیت کی شکست میرے ہاتھوں مقدر ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آنے والے موعود کو احادیث میں حارثاور حراثکے نام سے بھی پکارا گیا ہے یعنی وہ زمیندارہو گا۔ حضرت مسیح موعود کا خاندان بعینہ اس کے مطابق زمیندارہ کے کام سے منسلک تھا اور بہت سے گاؤں کے نظم و نسق کا ذمہ دار تھا ۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آپ نے 14ویں صدی کے چھٹے سال 1306ھ میں اپنی جماعت کی بنیاد رکھی اور جب اس بات کی اچھی خاصی شہرت ہو گئی اور موافق اور مخالف طبقے وجود میں آ گئے تو 5سال بعد 1311ھ میں چاند سورج گرہن کا وہ نشان ظاہر ہوا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارے مہدی کے لیے یہ دو نشان ظاہر ہوں گے۔ یہ گرہن مقررہ شرائط کے ساتھ ظاہر ہوئے اور یہ دونوں گرہن قادیان کی سرزمین سے مکمل طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔
کیا یہ اتفاق ہے … کہ حدیث میں یہ پیشگوئی تھی کہ مسیح موعود باب لُدّ پردجال کو قتل کرے گا ۔حضرت مرزا صاحب نے اپنے وطن قادیان کو چھوڑ کرشہر لدھیانہ میں اپنی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا پہلا حصہ لُدہے اور روایت ہے کہ لدھیانہ کے ایک مخلص مرید صوفی احمد جان نے مدّت پہلے بیعت کرنے اور اپنے گھر کو دار البیعت بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر بیعت کے وقت وہ فوت ہو چکے تھے اس کے باوجود مرزا صاحب نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مدعی مہدویت کی پیدائش کے سال، اس کے دعوے کے سال، اس کے ماموریت کے عالمی پیغام کے سال اور وفات کے سال غیر معمولی دمدار ستارے ظاہر ہوئے اسی طرح اس کی زندگی میں ستاروں کے گرنے کے نشان ظاہر ہوئے جیسا کہ احادیث اور انجیل میں ذکر ملتا ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے…کہ اس نے پنجاب میں تباہ کن طاعون پھیلنے کی پیشگوئی کی اور اعلان کیا کہ خدا مجھے اور میرے پیروکاروں کو اس سے محفوظ رکھے گا اس نے اپنے ماننے والوں کو طاعون کا ٹیکہ لگوانے سے بھی منع کیا ۔چنانچہ طاعون آئی اور اس نے شہروں اور آبادیوں میں تباہی مچا دی مگر احمدی اس سے محفوظ رہے جبکہ ٹیکے لگوانے والے دھڑا دھڑ اس کا شکار ہوتے رہے۔ یاد رہے کہ کہ حضرت مسیح ؑکو صلیب پر لٹکانے کے بعد یہود میں بھی طاعون پھیلی تھی۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ آپ کا حلیہ حدیث اور آثار میں مذکور مسیح موعود کے حلیہ کے عین مطابق تھا رنگ گندمی ،بال لمبے اور سیدھے،زبان میں معمولی سی لکنت ،باتیں کرتے ہوئے رانوں پر ہاتھ مارنا وغیرہ۔
کیا یہ اتفاق ہے…کہ وہ مامور دو سخت بیماریاں لے کر آیا۔ایک جسم کے اوپری حصے میں اور ایک نچلے حصہ میں۔ اور وہ ساری عمر ان کا شکار رہا اور اس نشان کو اپنی صداقت کے لیے پیش کرتا رہا ۔حدیث میں اسے دو زرد چادریں کہا گیا ہے اور علم رویا میں زرد چادر سے مراد بیماری ہوتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح موعود کی پیدائش سے پہلے ہندوستان سے مسلمانوںکی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا جیسا کہ مسیح ناصریؑ کی پیدائش کے وقت یروشلم سے یہودی حکومت ختم ہو کر قیصر کا غلبہ ہو گیا تھا۔
کیایہ اتفاق ہے …کہ اس کے زمانہ میں 1899ء، 1900ء میں بیماری کی وجہ سے حج روکا گیا جیسا کہ حدیث میں پیشگوئی تھی۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح موعود کی پیدائش سے تھوڑا پہلے ہندوستان میں ریل گاڑی کا آ غاز ہو گیا اور وہ ذرائع سفر میسر آ گئے جن سے مسیح موعود کا پیغام کل عالم میں پہنچ سکتا تھا ان ایجادات کے متعلق سورۃالتکویر اور احادیث میں پیشگوئیاں موجود ہیں جیسا کہ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ میں ذکر ہےاور یہ ذرائع مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور ان ایجادات سے سب سے زیادہ مثبت فائدہ اٹھانے والی اس کی جماعت ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح موعود کے زمانہ میں وہ ذرائع اشاعت بھی ایجاد ہو گئے جن سے ہزاروں کتابیں اور رسائل تھوڑے وقت میں شائع کی جا سکتی ہیں اور دنیا کے دور دراز علاقوں میں بھیجنی ممکن ہو گئی ہیں اسی طرح پرانی کتب اور صحائ اور آ ثار قدیمہ بھی انسان کی دسترس میں آ گئے ہیں جیسا کہ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْمیں ذکر تھا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کے زمانہ میں دریا پھاڑے گئے اور نہریں نکال کر مردہ دریاؤں کو رواں کر دیا گیا اور اسی کے علاقہ پنجاب میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنایا گیا جیسا کہ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْمیں ذکر تھا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے اپنی جماعت کا نام جماعت احمدیہ یا احمدی جماعت رکھا ۔عالم اسلام میں 1400سال میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں فرقے وجود میں آئے بہت سے مٹ گئے مگر آج صفحہ دنیا پر احمدیہ کے نام سے اور کوئی فرقہ موجود نہیں حالانکہ احمد نام امت محمدیہ میں بہت معروف اور محبوب نام ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ مسیح موعود کی زندگی میں آپ کے خاندان کے 70کے قریب مرد موجود تھے۔آپ نے فرمایا خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے آباء واجداد کی نسل کاٹی جائے گی اور خاندان کا آغاز مجھ سے ہوگا ۔چنانچہ آج کا دن بتاتا ہے کہ اس وقت ان تمام افرادکی موجودگی کے باوجود آج 150سال بعد اس کا خاندان اسی سے پہچانا جاتا ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے…کہ اس نے اعلان کیا کہ اب اسلام کو جہاد بالسیف کی ضرورت نہیں کیونکہ اب دشمن اسلام پر تلوار سے حملہ نہیں کرتابلکہ قلم سے کرتا ہے اس لیے اب اسلام کے قلمی جہاد کا زمانہ ہے اور اب جو بھی اسلام کے لیےمسلح جدوجہد کرے گا وہ لازما ًناکام ہو گا اور اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر فرد گواہی دے گا کہ گذشتہ 100سال میں اسلام کے نام پر لڑی جانے والی ہر لڑائی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے سیاسی لڑائیوں کا سلسلہ الگ ہے اس کے اپنے قوانین ہیں آج مسلم دانشور بھی جہاد بالقلم کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے عیسائی پادریوں کو ان کے مذہبی عقائد اور انسان کو خدا بنانے کی وجہ سے دجال اور مغربی عیسائی قوموں کو ان کے سیاسی عروج اور فتنوں کی بنا پر یاجوج ماجوج قرار دیا جو مسیح موعود کے زمانہ کی اہم علامات تھیں اس نے کہا کہ یہ نام کسی فرد کو نہیں بلکہ قوموں کو دیے گئے ہیں اور ان پر وہ تمام علامات تمثیلی رنگ میں پوری اترتی ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں اور ان کے عقائد ،اور فتنہ انگیزی اور سائنسی ایجادات خصوصا ًسواریاں اس پر گواہ ہیں جن کو دجال کا گدھا کہا گیا ہےاور آج ایک عرصہ بعد دانشور اور صاحب علم اس کی تائید کر رہے ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کا پیغام اس کی زندگی میں ہی امریکہ ،یورپ ،افریقہ آسٹریلیا ،برطانیہ، جرمنی ،نیوزی لینڈ، روس اور افغانستان میں پہنچ گیا تھا ۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ خدا میری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائےگا اور آج دنیا کے 213ممالک میں اس کی جماعت قائم ہے اور دنیا کے تمام معروف زمینی کناروں تک اس کے مخلص پیروکار موجود ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ ہندوستان کے ایک پسماندہ گاؤں کا رہنے والا جس نے کبھی کسی سکول کا منہ نہ دیکھا ہو وہ فصیح و بلیغ عربی میں نہ صرف کتابیں لکھتا تھا بلکہ قرآن کی منفرد اور اچھوتی تفسیر بھی کرتا تھا جو پہلی کتابوں میں نہیں پائی جاتی اور پھر علما ئے اسلام کو چیلنج بھی کرتا تھا کہ میرے مقابلہ میں عربی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھیں اور کوئی اس کے مقابلہ پر نہ آ سکا مگر اس کی کتب آج بھی دعوت مقابلہ کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے…کہ جب اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا اعلان کر کے عیسائیت پر کاری ضرب لگائی تو اسی زمانہ کے لگ بھگ انجیل کے وہ قدیم نسخے بھی دریافت ہونے لگے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ناصری ؑکے آسمان پر اٹھائے جانے والی آیات الحاقی ہیں اور بعد میں شامل کی گئی ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے اعلان کیا کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد ہجرت کر کے کشمیر تشریف لے گئے اور 120 سال کی عمر پا کر محلہ خانیار سری نگر میں مدفون ہوئے ۔آپ نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھیں اور اس کے بعد بیسیوں محققین نے تحقیق کر کے اس بات کی تائید کی اور آج تک نئے نئے دلائل اس کے حق میں نکلتے آ رہے ہیں۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے چیلنج کیا کہ میرے مخالفین اور ان کی اولاد اور ان کی اولاد کوئی بھی مسیح کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی اور اس چیلنج پر 130سال گزر گئے اور مسیح کے آسمان سے آنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
کیایہ اتفاق ہے …کہ ہزاروں لوگوں نے اس کے حق میں تصدیقی خوابیں دیکھیں ۔سینکڑوں نے استخارہ کر کے رسول خدا ﷺ سے اس کی سچائی کی خبر پائی اور اس کو قبول کیا۔یہ رویا اور کشوف قسمیں کھا کر بیا ن کیے گئے اور کتابوں میں اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔
کیایہ اتفاق ہے …کہ اسے قبول کرنے والے اکثر دیندار اور نیک طبع لوگ تھے یا اگر بد تھے تو اس کو قبول کرنے کے بعد ان کی زندگیاں شریعت کے پیرایہ میں ڈھل گئیں اور ان کے عزیزوں اور گھر والوں نے اس کا اعتراف کیا کہ یہ نیک ہو گیا ہے یا پہلے سے زیادہ عامل شریعت ہے کیا کسی جھوٹے کے ساتھ بھی یہ واقعہ ہوا ہے ۔
کیایہ اتفاق ہے …کہ اس کے دعویٰ کے وقت امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا تھا امت 72فرقوں میں بٹ چکی تھی اور ہر فرقہ دوسرے کو کافر اور جہنمی قرار دے رہا تھا کیا ایسے وقت میں ضرورت نہیں تھی کہ کوئی ان کو اتحاد کی طرف بلاتا اور ٹوٹے ہوئے دلو ں کوللّٰہی محبت عطا کرتا۔اور خدا کی طرف سے حَکَمْ بن کر فیصلے کرتا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کی بعثت کے وقت مسلم علما٫بگڑ چکے تھے اور امت کو منتشر کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ انہی کا تھا ان کا کردار تعمیری نہیں تخریبی تھا اور ہے اور اس کی گواہیاں خود علما٫کے بیانات اور روز مرہ کے اخبارات میں بھری پڑی ہیں کیا امت کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا اور شتر بے مہار والا معاملہ ہوتا جیسا کہ اب تک جماعت احمدیہ سے باہر نظر آتا ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے تصویر کھنچوائی تو علما ٫نے تصویر کے خلاف شرع ہونے کا فتویٰ دیا مگر آج سب کسی نہ کسی عذر سے تصویر کو جائز قرار دے رہے ہیں اورکیا یہ بھی اتفاق نہیں کہ آج دنیا میں صرف 2نبیوں کی تصویریں موجود ہیں ایک حضرت مسیح ناصری ؑکی اور دوسری مسیح موعود ؑہونے کے مدعی کی ۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کی ہزاروں دعاؤں کو قبولیت نصیب ہوئی جن کے گواہ اس کے ماننے والے ،اس کے دشمن اور آج کی نسلیں بھی ہیں اس کی دعاؤں سے بے اولاد وں کو اولاد ملی مریضوں کو شفا اور لمبی عمر ملی غریبوں کو دولت اور خوشحالی ملی اس کے دشمن ذلیل اور نامراد ہوئے کوئی ہندوستان میں قتل ہوا کوئی امریکہ میں فالج کا شکار ہواکوئی افغانستان میں بے نام ہوا کوئی پھانسی پر لٹک گیا کوئی ہوا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کتنے ابتر ہو گئے۔ ہزاروں طاعون اور زلازل اور جنگوں میں مارے گئے ۔اس کے خلاف بد دعائیں کرنے والوں پر وہ دعائیں الٹ پڑیں اور اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں اس نے چیلنج کیا تھا کہ اگر میرے خلاف دعائیں کرتے کرتے سجدوںمیں تمہارے ناک گل جائیں اور آنکھیں آنسو بہاتے اندھی ہو جائیں تب بھی خدا انہیں نہیں سنے گا۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کے بعد اس کی جماعت تتر بتر نہیں ہوئی بلکہ ایک ہاتھ پر اکٹھی ہے او ر جیسا کہ اس نے خدا سے خبر پا کر لکھا تھا اس کے بعد جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم ہوا جس کا پہلا مظہر اس کے خاندان سے نہیں تھا تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ عام پیروں کی طرح ایک خاندانی گدی ہے اور اس کے بعددوسرا خلیفہ مرزا صاحب کا بیٹا ہوا جس کی عمر 25 سال تھی ۔لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ناتجربہ کار اور مریض اور ان پڑھ نوجوان جماعت کو لے ڈوبے گا ۔مگر اس نے 52سال قیادت کی اور جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دیا اور یہ سلسلہ خلافت اس کی جماعت میں قائم ودائم اور مسلسل ترقی پذیر ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس نے 52سال کی عمر میں یہ دعویٰ کیا کہ 6 سال کے اندر میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا جو میرا جانشین ہو گا اور میرے مشن میں ممد و معاون ہو گا اس نے اپنے بیٹے کی 50کے قریب علامات بیان کیں جو سب حیرت انگیز ہیں مثلاًیہ کہ وہ لمبی عمر پائے گا وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا وہ کلا م اللہ کا مرتبہ ظاہر کرے گا اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔عجیب بات ہے کہ سارے واقعات ایسے ہی رونما ہوئے وہ بیٹا 6سال کے اندر پیدا ہوا باپ کی وفات کے 6سال بعد جماعت کا خلیفہ منتخب ہوا اس نے باوجود متعدد بیماریوں اور قاتلانہ حملہ کے 77 سال عمر پائی اس نے علوم قرآن اور علوم اسلامیہ میں منفرد لٹریچر پیدا کیا اور دشمنوں پر دھاک بٹھا دی اس نے کئی قوموں کو آزادی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائی جو بڑھتی جا رہی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے…کہ اس نے خدا کی طرف منسوب کر کے یہ اعلان کیا کہ ‘‘بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’اس پیشگوئی کے لمبے عرصہ بعد افریقہ کے بادشاہوں نے اس کے کپڑوں کا تبرک طلب کیا ۔کپڑے موجود تھے اور ان میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر بھجوایا گیا ۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کا خلیفہ ٹی وی کے ذریعہ خطاب کرتا ہے اور اس کی تصویر اور آواز دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جاتی ہے اور بیسیوں زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو تا ہے کیونکہ بزرگان امت کی پیشگوئیوں میں یہ ذکر ہے کہ امام مہدی یا اس کا منادی ایک جگہ سے خطاب کرے گااور تمام دنیا اسے دیکھے گی اور اس کی آواز سنے گی اور ہر قوم اپنی اپنی زبان میں اس کو سنے گی پردہ میں رہنے والی لڑکی بھی اسے دیکھ سکے گی ۔امام کے ماننے والے مختلف ملکوں میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے جیسا کہ ایم ٹی اےپر ہو رہا ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے …کہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں زلازل کی تعداد اور تباہ کاریوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ حدیثوں اور دیگر پیشگوئیوں میں کہا گیا تھا کہ امام مہدی کے زمانہ میں کثرت سے زلزلے آئیں گے۔چنانچہ سائنسدانوں کے جائزے بتاتے ہیں کہ گذشتہ سو سال میں ان کی آمد میں بہت ترقی ہوئی ہے ۔بعض زلزلے تو اس کی زندگی میں معین پیشگوئیوں کے مطابق آئے اور بہت تباہی پھیلائی۔
اگریہ محض اتفاقات ہیں تو مذہبی دنیا کے تمام قوانین ٹوٹ گئے ہیں ۔7ہزار سال کا روحانی عالم الٹ گیا ہے تمام اصول پارہ پارہ ہو گئے ہیں ۔کُل ماموروں کی صداقت مشتبہ ہو گئی ہے کیونکہ ان کے ساتھ بھی تو ایسے ہی اتفاقات ہو سکتے تھے جو ان کی راستی کا نشان بن گئے نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کے وعدوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
مگر اے دیدہ ورو !آنکھیں کھول کر دیکھو !یہ اتفاق نہیں خدا تعالیٰ کی تقدیر کی مربوط لڑی ہے۔ہر واقعہ ایسے دوسرے واقعات کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو سوائے خدا تعالیٰ کے دستِ قدرت کے ظہور پذیر ہونا ممکن نہیں کیونکہ زمین وآسمان پر اسی کی بادشاہی ہے ۔تخلیق اور فناکا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے ۔دلوں پر اسی کا تسلط ہے ۔کیا ندرت کے ساتھ موعود وقت میں پیدا ہونا ، معنی خیز نام رکھنا،کسی مخصوص نسل سے ہونا ،خاص علاقہ میں ہونا ،آسمان پر سورج ،چاند اور ستاروں میں غیر معمولی تغیرات اور زمینی انقلابات کسی انسان کے اختیار میں ہیں ۔مستقبل کی پیشگوئیاں کرنا اور سابقہ پیشگوئیوں کو اپنی ذات اور خاندان اور علاقہ اور زمانہ میں پورا کر دینا اگر کسی کے ہاتھ میں ہے تو کسی اور جھوٹے یا آپ کے کسی مخالف نے کیوں نہیں کر لیا؟
پس ان سارے واقعات کا ایک ہی وقت میں ایک ہی شخص کی ذات میں اوراس کے گرد اکٹھےہونا یقینا ًاس کے مامورمن اللہ ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔ہر آنے والا دن اس کی صداقت پہ نئی نئی مہریں لگا رہا ہے اور ہر نیا سورج اس کی راستبازی کا پیغام دیتا ہے ۔یہی سنت الٰہی ازل سے جاری ہےاور اسی کے قبول کرنے میں سعادت مندوں کی نجات ہے ۔
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار
٭…٭…٭