شرائط بیعت اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی انقلاب
حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لیے ایک کمرے میں ہر ایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ سے لی
رسول اللہﷺصحابہ کے درمیان تشریف فرما تھےکہ آپؐ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی۔ آیت
وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة:4)
کی تلاوت فرمائی توایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہؐ ! وہ دوسرےکون لوگ ہوںگے جن کى طرف بھى (آپؐ کو مبعوث کىا گیاہے)اورجو ابھى ملے بھی نہیں۔ آپؐ خاموش رہے۔سائل نےاپناسوال دو تین دفعہ دہرایا۔حضرت سلمان فارسیؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔رسول اللہﷺ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسیؓ پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں یعنی حضرت سلمان ؓکی قوم میں سے کچھ لوگ یا ایک مرد اسے واپس لے آئے گا۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر )
انیسویں صدی کے وسط میں اسلام کی جودگرگوں حالت تھی وہ بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے پوراہونے کا وقت تھا۔ہندوستان میں تمام مذاہب کی طرف سے اسلام اوربانیٔ اسلام ﷺپر توہین آمیزحملے کیےجارہےتھےاور کوئی مرد مجاہد ایسا نہ تھا جو ان حملوں کے آگے سینہ سپر ہوکر اسلام کا دفاع کرتا۔مسلمان زندہ مذہب کو چھوڑ کرجوق در جوق دیگر مذاہب خصوصاً عیسائیت کی آغوش میں گرتے چلے جارہے تھے اور کوئی ان کو بچانے والا نہ تھا۔اسلام ایک ایسا قلعہ رہ گیا تھا جس کا کوئی حاکم نہ تھا اور فوج بغیر کماندار کے دشمنوں کے سامنے نہتی شکستہ دل کھڑی تھی۔اوریہ وہ پُرآشوب زمانہ تھا جوقرآنی آیت
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم :42)
اوررسول اللہﷺ کی پیشگوئی
لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ
(شعب الإيمان جزء3صفحہ318) کا مصداق تھا۔
اس زمانہ کے لوگ بھی اس صورت حال سے بخوبی آگاہ تھے چنانچہ الطاف حسین حالی مرحوم نے 1879ء میں اپنی مشہور مسدّس میں لکھا:
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
(مسدّس حالی بند نمبر 108)
پھر اسلام کو ایک باغ سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں:
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں زندگی کا کہیں نام جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل
ہوئے راکھ جس کے جلانے کے قابل
(مسدّس حالی بند نمبر 111)
مسلمان کی اخلاقی و روحانی حالت بیان کرتے ہوئے اقبال لکھتاہے:
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں
(بانگِ درا ۔زیرِ عنوان جوابِ شکوہ)
پھرمسلمانوں کی عملی حالت کا نقشہ یوں کھینچتاہے کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
پس وہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں تھااورعلماء سمیت تمام مسلمان کسی مسیحا کے متلاشی تھے۔ایسے وقت میں رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق ایک رجل فارس میدان میں آیا جس نے ایمان کو ثریا سے لاکر دنیا میں قائم کیااور زندہ مذہب اسلام کی حقانیت اور صداقت کو تمام ادیان باطلہ پر ثابت کردکھایااور دشمنان اسلام کو چاروں شانے چِت کردیا۔وہ جری اللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعودؑہیں۔جنہوں نے1882ء کے اوائل میں مسجد اقصیٰ میں ایک کشف دیکھا کہ ایک باغ لگایا جارہا ہے اور آپؑ اس کے مالی مقرر ہوئے ہیں۔
(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ305)
یہ ماموریت کی پہلی بشارت تھی۔پھر آپؑ نے براہین احمدیہ جیسی معرکہ آراء تصنیف میں اسلام کی صداقت کے سینکڑوں ثبوت پیش کیے اور زندہ خدا کے زندہ نشانات دکھانے کی تمام اہل دنیا کو دعوت دی۔جس پر جہاں اہل اسلام میں خوشیوں کی لہر دوڑی وہاں مخالفین کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔آپؑ نے کیا ہندو،کیا آریہ،کیا عیسائی،سب مخالفین کو چیلنج دیا کہ وہ اسلام پر اپنے مذہب کی برتری ثابت کردکھائیں۔لیکن کسی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپؑ کے اس چیلنج کو قبول کرتا۔مسلمانوں کو تو ایک ناکتخدا مل گیا جو اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارہ پر لے آیا۔
براہین احمدیہ حصہ سوم کا حاشیہ تحریر فرمانے کے دوران حالت کشف میں رسول اللہﷺ سے زیارت و معانقہ کا شرف پایا اور دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک سے نور کی کرنیں نکل نکل کر آپؑ کے اندر داخل ہورہی ہیں۔اس کے بعدآپؑ پرالہام الٰہی کا سلسلہ بکثرت شروع ہوگیا۔اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا جو کم و بیش ستر فقرات پر مشتمل تھا،جس کا آغاز یَااَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ سے ہوا۔
آپ کی اسلام کے لیے ان خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپ کے معتقدین یہ بات جانتے تھے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی اسلام کی شان و شوکت کو دوبارہ قائم کرسکتا ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔اگرچہ مخلصین کے دلوں میں آپ کی بیعت کی تحریک جاری تھی اورلدھیانہ کے ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب جوحضرت مسیح موعودؑپر حسن اعتقاد رکھتے تھے نے فرمایا:
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لیے
اسی طرح مولوی عبد القادر صاحب نے حضرت اقدسؑ سے بیعت لینے کا کہامگر آپ کا یہی جواب ہوتا: لَسْتُ بِمَاْمُوْرٍ یعنی میں مامور نہیں ہوں۔
آپؑ نے بیعت نہ لینے کاسبب بیان کرتے ہوئےفرمایا:
‘‘چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔
لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔’’
(حیاتِ احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ150)
لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کوبیعت لینے کا واضح حکم ملا تو یکم دسمبر 1888ء کو آپ نے ‘‘تبلیغ’’کے نام سے اشتہار میں بیعت کا اعلان عام کرتےہوئے فرمایا:
‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ188)
اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ استخارہ کے بعد بیعت کے لیے حاضر ہوں۔
اس اعلان میں حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت کے لیے معین رنگ میں کوئی خاص شرائط تحریر نہیں فرمائی تھیں۔مگر جس دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی ولادت 12؍جنوری 1889ء کو ہوئی تو اسی دن آپؑ نے ‘‘تکمیل تبلیغ’’ کے نام سے ایک اشتہار تحریر فرمایا اور اس میں بیعت کی دس شرائط تحریر فرمائیں۔اس لحاظ سے جماعت احمدیہ اور پسر موعود حضرت مصلح موعودؑ کی پیدائش توام(جڑواں) ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23؍مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں دس شرائط پربیعت لی اور تاریخی ریکارڈ کے لیے ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس کا نام ‘‘بیعت توبہ برائے تقویٰ و طہارت’’رکھا گیا۔اس زمانہ میں حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لیے ایک کمرے میں ہر ایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ سے لی۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں نے اپنی بیعت توبہ کا حق ادا کر دکھایا اوراصحاب رسولﷺ کے نمونے پھرزندہ کر دیے ۔جس طرح صحابہ ؓکو خدا اور اس کا رسولؐ ہر چیز سے زیادہ پیارے تھےاور عبادت الٰہی میں وہ راتوں کو زندہ کرتے اور سجود و قیام میں راتیں گزارتے تھے اور اپنے خالق و مالک کے احکام کی بجاآوری کرنے والے تھے وہی مثالیں دَور آخرین کے اصحاب احمد نے بھی قائم کیں۔
شرائط بیعت اور صحابہ حضرت مسیح موعود کاروحانی انقلاب
اجتناب شرک
پہلی شرط بیعت یہ ہے کہ بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔
صحابہ حضرت مسیح موعودؑ نے شرائط بیعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے اندر حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں اور
وَ آخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ
کے مصداق بنے۔محبت الٰہی ان کے دلوں میں رچ بس گئی اور غیر اللہ سے نفرت پیداہوگئی اور مشرکانہ اعتقادات والوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور خدا کا دامن مضبوطی سے تھام لیا۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘ مولوی محمد حسین بٹالوی احمدیت سے بہت پہلے کے میرے دوست تھے۔ایک دفعہ وہ چینیاں والی مسجد لاہور میں نماز پڑھا رہے تھے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور اپنی علیحدہ نماز ادا کی۔مولوی صاحب نماز سے فارغ ہوکر مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور بہت خوش ہوئے۔میں نے کہا مولوی صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مغرب کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے وہ آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے۔مولوی صاحب متعجب ہوکر کہنے لگے کہ دوسرے احمدیوں کا تو یہ عقیدہ نہیں تو میں نے کہا کہ خدا فرماتا ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبٰى (التوبة :113)
تو کیا آپ کے عقائد مشرکانہ نہیں؟مجھے تو آپ کے عقائد مشرکانہ لگتے ہیں اور یوں بھی میں بحیثیت اما م اپنے غیر احمدی مقتدی کے لیے کیا دعا کروں گا کہ یااللہ مجھے بخش اور اس کو بھی بخش دے جو تیرے مسیح کا منکر ہے اور اسے گالیاں دیتا ہے۔’’
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12 صفحہ81تا82)
شرافت علی صاحب ابن حضرت مولوی جلال الدین صاحب ؓبیان کرتے ہیں کہ
‘‘حضرت مولوی جلال الدین صاحب متوکل انسان تھے۔ بیان کیا کرتے تھے کہ ہم کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے خدا تعالیٰ خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔ ہمیں ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی سے کہیں۔کہا کرتے تھے کہ مجھے… انجمن نے ملازم رکھا۔ بیس پچیس روپے دینے مقرر کئے۔ ان دنوں غلہ بہت گراں تھا…۔ منشی فرزند علی خاں صاحب ناظر بیت المال فیروز پور میں تھے۔ والد صاحب ان کے تحت تھے۔ ایک دن یہ کہہ بیٹھے کہ آپ کو تنخواہ ملتی ہے۔ اس لئے آپ تن دہی سے کام کرتے ہیں۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور میں نے کہہ دیا کہ میں نے کیا آپ سے تنخواہ مانگی تھی۔ اب نہیں لوں گا۔ خاں صاحب فرمانے لگے کہ کام پہلے کی طرح یا اپنی مرضی سے ۔ فرمایا کہ پہلے سے بھی زیادہ تن دہی سے اور اصل اطاعت سے۔ یہ بات کہہ کر اپنے تبلیغی وعدہ پر چلا گیا۔ پیدل جا رہا تھا۔ کہ رستے میں یہی خیالات آنے شروع ہو گئے کہ ان روپوں سے وقت کٹ جاتا تھا۔ آجکل تنگی ہے۔ اب کس طرح وقت کٹے گا۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ میں انہی خیالات میں جا رہا تھا کہ ناگہاں ایک گرج کی سی آواز آئی۔ جس سے میرا دل دہل گیا۔آگے اتنی مدت تم کو کوئی تنخواہ دیتا آیا ہے کیا تنخواہ لے کر تم اتنے بڑے ہوئے ہو ؟ اس آواز اور زجر کا میرے کان میں پڑنا ہی تھا کہ میرے تمام ہم وغم کا فور ہو گئے۔ اور میں نے نہایت ہی عاجزی سے عرض کی کہ یا باری تعالیٰ مجھ کو ان کی تنخواہوں کی کیا ضرورت ہے۔ تیرے مقابلہ میں یہ کیا ہستی رکھتے ہیں۔ اس کے بعد میرا وقت آگے سے بھی اچھا گزرنے لگا۔مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ خان صاحب میرے دیرینہ دوست تھے۔ یہ لفظ ویسے ان کی زبان سے نکل گئے۔ جو کہ بعد میں تنخواہ والے شرک کو توڑنے کا باعث بنے۔
(رجسٹر روایات نمبر 12 غیر مطبوعہ)
حضرت مولانا محمدابرہیم صاحب بقاپوریؓ بیان کرتے ہیں کہ
‘‘1904ء میں میں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا۔ ان سب کامضمون یہ تھا کہ میں زبان سے تو بے شک خداتعالیٰ کا اور حشرو نشر کامقر ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امر واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ کے وجود میں ہی شک ہے اس لئے مجھے ایسے مرشد کی تلاش ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جاگزیں ہوجاوے وغیر ہ وغیرہ۔دوسروںکی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے ۔ آپ یہاں آجاویں ۔حدیث شریف میں وارد ہے کہوَمَنْ اَتَیْ الیّ شِبْراً۔ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہوگیا۔’’
(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ252تا253)
معاصی سے بچنا
دوسری شرط یہ ہے کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
صحابہ حضرت مسیح موعودؑ نے شرک سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے دینی ،اخلاقی اور معاشرتی اقدار کے اعلیٰ معیارکو بھی قائم کیا اور آئندہ احمدیت میں شامل ہونے والوں کے لیے ایک نمونہ قائم فرمایا۔
حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ اوائل 1903ء میں قادیان تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والوں کا روحانی انقلاب یوں بیان کرتے ہیں کہ
‘‘ان دنوں ایک دکاندا ر شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو شیر فروشی کا کام کرتے تھے ان کی دکان پر بعض لوگ خود ہی حسب ضرورت دودھ پی لیتے اور خود ہی قیمت ر کھ جاتے ۔جماعت احمدیہ کی دینی و اخلاقی حالت نہایت اعلیٰ دیکھی گئی ۔ ایک دفعہ میں مسلسل ایک ماہ قادیان میں رہا جب میں اپنے گاؤں کریام آیا ۔ایک شخص کو گالی نکالتے سنا۔ میں نے کہا پورے ایک ماہ بعد یہ آواز ناشائستہ میرے کانوں (میں)پڑی ہے۔’’
(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 80تا81)
حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ کے بارہ میں ملک صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:
‘‘آپ نہایت صادق اورامین مشہور تھے ۔ اغیار بھی اپنے مقدمات میں آپ کو ثالث مقرر کرلیتے چنانچہ ایک غیر احمدی خاندان کی جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا آپ کے فیصلہ سے طے ہوا وہ سب چاہتے تھے کہ آپ جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا…۔
حضرت حاجی صاحب لین دین کے معاملات میں نہایت محتاط تھے اور ہر ایک سے معاملہ صاف رکھتے تھے ۔ ایک دفعہ حاجی صاحب کودوتین صد روپیہ قرض کی ضرورت تھی ۔ میں روپیہ لے کر حاضر ہوا ۔ باوجود میرے انکار کے آپ نے فوراً ایک ورق پر رسیدی ٹکٹ لگا کر مجھے پرونوٹ لکھ دیا۔اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب لین دین کر و تو تحریر میں لے آیا کرو۔ اسی طرح ایک دفعہ مجھے ضرورت پیش آئی آپ کے پاس موضع کریام پہنچا ۔ آپ نے قرض دیا ۔ اور ساتھ ہی کا غذ اور رسیدی ٹکٹ دے کر مجھ سے پرونوٹ لکھوالیا ۔ ایک دفعہ آپ گاؤں واپس جارہے تھے کہ میرے پاس ڈاکخانہ نواں شہر میں (جہاں میں ملازم تھا ) تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں فلاں سے (جو وہاں سب ججی میں ملازم تھے) پانچ روپے یہ کہہ کر لے آیا کہ کل واپس کردونگا اب یاد آیا کہ کل تو جمعہ ہے اس لئے کل تونہیں آسکتا اس لئے آپ میری طرف سے کل ان کو پانچ روپے دیدیں تاکہ وعدہ خلافی نہ ہو۔میں نے کہا کہ وہ تو اپناآدمی ہے اس میں کیا مضائقہ ہے آپ جب چاہیں ادائیگی کردیں لیکن آپ نے وعدہ خلافی کو ناپسند کیا ۔ اور آپ کی تاکید کے مطابق میں نے ادائیگی کردی ۔ متعدد بار ایسا ہو اکہ قادیان میں یا نواں شہر میں کسی دکان پرہم نے اکٹھی چائے یا سوڈا پیا ۔ اور میں نے رقم ادا کردی تو آپ باصرار اپنے حصہ کی رقم ادا فرماتے اور میں قبول کرنے سے انکار کرتا تو فرماتے کہ دکان نہ میرا گھر ہے نہ آپ کا یہ مشترکہ جگہ ہے ۔ اس لئے میں پیسے دیتا ہوں۔ ’’
(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ110تا112)
ملک صلاح الدین ایم اے بیان کرتے ہیں:
‘‘قاضی اشرف علی صاحب ؓ مرحوم کو غیبت اور چغلی بہت ناپسند تھی۔ چنانچہ اقارب کی مستورات کو ہمیشہ ہی اس بات سے اجتناب کی تاکید کرتے تھے۔ مبالغہ کی حد تک امین تھے کوئی امانت رکھے تو بعینہ وہ رقم پوٹلی میں باندھ کے رکھتے اور عندالطلب واپس کرتے اس امر کو ناپسند سمجھتے تھے کہ امانت کی رقم بعینہ اور اصل ہی واپس نہ کی جائے ۔’’
(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ204)
حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحبؓ نرم طبع تھے اس لیے جو کوئی سوال کرتا امداد حاصل کرلیتا۔ ایک تحصیلدار ایک روز کہنے لگاسیٹھ صاحب! لوگ آپ کو دھوکہ دے کر روپیہ لے جاتے ہیں۔ آپؓ ہنس کر فرمانے لگے کہ شکر ہے میں کسی کو دھوکہ نہیں دیتا۔اسی شخص نے شدید ضرورت بتاکر ایک ہزار روپیہ آپ سے قرض لیا جو سترہ سال گذرنے پر اب تک ادا نہیں کیا۔
(اصحاب احمد جلد1صفحہ224)
محمد اکبر صاحب ولد اخوند رحیم بخش خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ
‘‘چودھری نذر محمد صاحب ساکن ادرحمہ …اپنا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی۔ اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو متروک کر رکھا تھا ۔ جب وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو ان کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہوا۔ چنانچہ اس شوق میں وہ قادیان روانہ ہوگئے۔ مگر قادیان جاکر معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کسی مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ گورداسپور چلے گئے اور ایسا موقع میسر آیا کہ حضرت اقدس اکیلے چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ انہوں نے حضور کومٹھیاں بھرنی شروع کردیں اور دعا کے لئے عرض کیا۔ حضور نے فرمایا ‘‘ہم دعا کرینگے’’۔ اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی زیارت کے لئے آئے۔ انہوں نے دوران ملاقات میں بیان کیا کہ انکے سسرال نے ان کو بڑا تنگ کیا کہ اس کی بیوی کو نہ بھیجتے تھے۔ اب ا ن کی بیوی ان کے پاس آگئی ہے اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ اس کو اپنے میکے نہ بھیجیں گے۔ جب اس دوست نے یہ بات بیان کی تو حضور کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا اور حضور نے بڑے غصہ سے اس کو کہا کہ ‘‘فی الفور چلا جائے کہیں اس کی وجہ سے ہم پر بھی عذاب نہ آجاوے’’۔ چنانچہ وہ دوست اٹھ کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا اور کہاکہ حضور ! میں نے توبہ کی ہے۔ مجھے معاف فرمایا جاوے۔ جس پرحضور نے پھر اس کو بیٹھنے کی اجازت دی۔ چوہدری صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے کہ جب انہوں نے یہ واقعہ دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے اور سوچا کہ اس دوست کی بات تو معمولی تھی۔ لیکن انہوں نے ایک عرصہ سے اپنی بیوی پرظلم روا رکھا ہوا ہے اور اپنے سسرال سے بُرا سلوک کیا ہوا ہے۔ ان کا قصور اس دوست سے کئی گنا بڑھ کر ہے اور اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو خدا جانے کتنا بڑا عذاب آویگا۔ اس لئے وہیں بیٹھے بیٹھے توبہ کی اور عہد کیاکہ اب جاکر اپنی بیوی اور سسرال کو راضی کرونگا۔ چنانچہ واپسی پر لاہور سے اپنی بیوی کے لئے کئی تحائف خریدے اور ڈیرہ غازی خان پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس جاکر اس کو تحفے دیئے اور اس سے معافی مانگی کہ پچھلا قصور اس کا معاف کردیوے آئندہ اس سے بدسلوکی نہ ہوگی۔ بیوی حیران رہ گئی کہ اس میں اتنا عظیم الشان تغیر کس طرح ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ احمدی ہوگیا ہے۔ اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے موقع پر یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس لئے اس نے توبہ کی ہے۔ اس پر ان کی بیوی بہت خوش ہوگئی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہزار ہزار دعائیں دینے لگی کہ انہیں کی برکت سے اس کا اجڑا گھر آباد ہوا ہے۔ ورنہ اس کی کوئی امید نہ تھی اور اسکے سسرال بھی اس پر خوش ہوگئے۔’’(رجسٹر روایات جلد 3)
حضرت عزیز الدینؓ صاحب بیان فرماتے ہیں:
‘‘ایک وقت میں قادیان میں تھا کہ سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراس والے وہاں آئے ہوئے تھے جن کا اسباب کا لدا ہوا جہاز گم ہو گیا تھا اور وہ ابتلاء میں تھے۔ حضرت صاحب سے مشورہ لیتے تھے کہ جہاز گم ہو گیا ہے اور روپے کی زیر باری ہو گئی ہے۔ قرض خواہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر کیا دیوالیہ نکال دیا جائے یا اور جو تجویز آپ فرما ویں عمل میں لائی جائے اور دعا بھی کریں۔ حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے یعنی ظاہری جائیداد اور باریک در باریک چیزیں قیمتی بھی جو تمہارے پاس ظاہر اور نہاں ہیں قرض خواہوں کے آگے پیش کر دیں اور ہم انشاء اﷲ دعا بھی کریں گے۔
چنانچہ سیٹھ صاحب نے ایسا ہی کیا یعنی وہ چیزیں جو نہاں در نہاں پردہ میں ان کے پاس تھیں انہوں نے سب قرض خواہوں کو بلا کر پیش کر دیں۔ جب قرض خواہوں نے ظاہر جائیداد کے علاوہ اور قیمتی چیزیں بھی دیکھیں جو ان کے خواب خیال میں بھی نہیں آسکتی تھیں کہ ان کے پاس ہوں گی تو تمام قرض خواہ سیٹھ صاحب کی ایمانداری پر قربان ہو گئے اور انہوں نے ان کی تمام جائیداد زیورات اور قیمتی چیزیں سب کی سب واپس کر دیں اور کہا کہ ہمارا دل مطمئن ہو گیا ہے ۔تم اس روپے سے یا اور ضرورت ہو تو ہم سے لے کر اپنا کاروبار جاری رکھو اور جب تمہارے پاس روپیہ ہو جائے تو ہمارا قرض ادا کر دیں۔ خدا کی قدرت کہ تین سال بعد گم شدہ جہاز کہیں پکڑا گیا اور آخر وہی جہاز مع تمام اسباب کے ان کو دستیاب ہو گیا۔ یعنی تقریباً تین لاکھ کا مال ان کو مل گیا جس سے سیٹھ صاحب نے تمام قرض بھی اتار دیا اور ان کا حال بھی آسودہ ہو گیا۔ اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی تجویز پر عمل کرنے اور دعا سے سیٹھ صاحب کی بگڑی بن گئی۔’’
(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 86تا87)
پنجوقتہ نماز ،تہجد،درود،استغفار،شکر
تیسری شرط یہ ہے کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ؐ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اپنی جماعت کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھےکہ‘‘تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔’’
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ15)
حضرت مسیح موعودؑ نے اس پاک تعلیم پرخود عمل کرکے اپنے اصحاب کو نمونہ دیا۔آپ پنجوقتہ نماز باجماعت کے ساتھ تہجد کے بھی پابند تھے۔حضرت خواجہ غلام فرید صاحب جو نواب بہاولپور کے پیر تھے فرماتے ہیں کہ ‘‘مولوی حکیم نور الدین صاحب …ایک دفعہ میرے پاس بہاولپور آئے تھے۔انہوں نے فرمایا کہ میں مرزا صاحب کا جو مرید ہوا ہوں ان کی اور کرامات دیکھ کر نہیں ہوا بلکہ تین امر دیکھ کر ہوا ہوں۔ان میں سے ایک یہ کہ ہم نے حضرت مرزا صاحب کو رات دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف و مشغول دیکھا ہے۔’’
(حیات نور باب چہارم صفحہ 203)
حضرت مسیح موعودؑنے1863ء میں قادیان کی گلیوں میں پھرنے والے ایک پندرہ سولہ سالہ نابینا لڑکےحافظ معین الدین صاحب کو اپنے ساتھ اکٹھے نمازیں پڑھنے اوراس کوقرآن شریف یاد کرانے کے لیے اپنےپاس رکھ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کے دل میں نماز باجماعت کے اہتمام کے لیے کس قدر جوش تھا۔
اس بیعت کے نتیجہ میں روحانی انقلاب کی بے شمار مثالوں میں سے ایک حضرت میاں محمد دین پٹواری صاحب کی ہے جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ‘‘براہین احمدیہ’’ کے مطالعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین کے ساتھ ایسی محبت پیدا ہوئی جس نے ان کی نمازوں کوزندہ کر دیا۔خود بیان کرتے ہیں:
‘‘براہین کیا تھی آبِ حیات کا بحر ذخّار تھا۔ براہین کیا تھی ایک تریاق کوہِ لانی تھا یا تریاق اربعہ دافع صرع و لقوہ تھا۔ براہین کیا تھی ایک عین روح القدس یا روح مکرم یا روح اعظم تھا۔ براہین کیا تھی
یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلۤائِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہِ
تھی ایک نورِ خدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافور ہو گئی۔آریہ، برہمو، دہریہ لیکچراروں کے بد اثر نے مجھے اور مجھ جیسے اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں صفحہ 90کے حاشیہ نمبر1 پر اور صفحہ 149 کے حاشیہ نمبر11 پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا…زندہ ہوجاتا ہے۔’’
(اخبار الحکم 14؍ اکتوبر 1938ء)
‘‘سردی کا موسم جنوری 1893ء کی 19تاریخ تھی۔آدھی رات کا وقت تھا۔جب (براہین کا مطالعہ کرتے ہوئے)وہ ‘‘خداہونا چاہیے’’ اور ‘‘خداہے’’ کے مقام پر پہنچے تو کہتے ہیں: پڑھتے ہی میں نے…توبہ کی۔کورا گھڑا پانی کا بھرا بار صحن میں پڑا تھا۔سرد پانی سے…تہہ بند پاک کیا۔میرا ملازم مسمّیٰ منگتو سو رہا تھا وہ جاگ پڑا۔وہ مجھ سے پوچھتا تھا کہ…کیا ہوا؟ لاچہ(تہہ بند) مجھ کو دو،میں دھوتا ہوں مگر اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔آخر منگتو اپنا سارازور لگاکر خاموش ہوگیا اور میں نے گیلا لاچہ پہن کر نماز پڑھنی شروع کی اور منگتو دیکھتا رہا۔محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی منگتو تھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا۔پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔یہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک عظیم معجزہ کا اثر تھا۔اس پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔’’
(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ24تا25)
یہ تو ایک مثال ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے دین اسلام کو از سر نو زندہ کرکے اپنی تعلیم اور فیض صحبت سے ایسے کئی محمد دین پیدا کیے۔جنہوں نے محبت الٰہی سے سرشار ہوکر عبادت اور دعاؤں کے اعلیٰ نمونے دکھائے۔ان میں سب سے پہلے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے خلفاء حضرت مولانا نورالدین صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہیں پھر آپؑ کے اہل بیت ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کی پاک صحبت کا ہی یہ حیرت انگیز اثر ہے کہ آپؑ کی مبشراولاد بھی اسی اسوہ پر ہمیشہ قائم رہی۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تو اس مرتبہ میں الہام کے مطابق ‘‘قمر الانبیاء’’کے مقام پر فائز ہوئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمدصاحب نے اپنا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں رات کو سویا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓکی باری امّ ناصر کے ہاں تھی۔ آدھی رات کو اچانک بڑے ہی دردناک رونے کی آواز سے میری آنکھ کُھل گئی۔ میں خوف سے سہم گیا کہ خدایا کیا ہوا ہے؟ کیونکہ کسی کے رونے کی بڑی دردناک آواز آرہی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آواز ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ آپ تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے اور بڑے ہی کرب سے درد اور الحاح سے دعا کر رہے تھے اور ایسے رو رہے تھے جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو۔صاحبزادہ صاحب فرمانے لگے کہ بلا مبالغہ میں آدھ گھنٹہ تک جاگتا رہا اور حضور اتنے درد سے رو رو کر ایک ہی فقرہ ‘‘اھدنالصراط المستقیم’’ بار بار دہرارہے تھے۔
(ماہنامہ خالد فروری 1991ء صفحہ 11)
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ ہمارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دادامحترم کے بارہ میں الہام ہوا: ‘‘وہ بادشاہ آیا’’ اور وہ دین و دنیا کے بادشاہ ٹھہرے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف صاحب نماز باجماعت کا بہت خیال رکھتے تھے۔
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ بیان کرتے ہیں کہ
حضرت صاحبزادہ صاحب تاکید فرمایاکرتے تھے کہ سفر میں نماز کو ہمیشہ پہلے وقت پڑھ لینا چاہیے۔اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ کافی وقت ہے پڑھ لیں گے۔ہمیشہ اول وقت میں نماز کی ا دائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔آپؓ کو نماز کاکتنا خیال ہوتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک موقع پر گجرات میں دورہ کے سلسلہ میں 6بجے شام پہنچنا تھا لیکن مجبوراً یہ پروگرام بدلنا پڑا اور تار دے دی کہ رات بارہ بجے بذریعہ ٹرین پہنچیں گے لیکن تار بھی وقت پر نہ پہنچ سکی اور میاں صاحب کوئی ایک بجے چوہدری اعظم علی صاحب سیشن جج(جوکہ اس وقت گجرات کی جماعت کے امیر تھے)کے مکان پر پہنچے،رات کھانے سے فارغ ہوئے تو دو بج گئے۔حضرت میاں صاحب نے فرمایا اب تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اور اس کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر سوئیں گے۔کیونکہ اگر اب سو گئے تو صبح کی نماز ضائع ہوجائیگی۔’’
(سیرت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 30تا31)
حضرت مولوی شیر علی صاحب جن کے بارےالہام ہوا کہ ‘‘ شیر علی فرشتہ’’ایسے وجود تھے کہ محبت الٰہی سے معمور تھے اورخلوت و جلوت میں آپ کی زبان پر ذکر الٰہی جاری رہتا۔پاس بیٹھنے والا انسان آپ کی تسبیح و تحمید و تمجید کو بخوبی سن سکتا تھا۔یہ آپ کا عزیز ترین مشغلہ تھا۔بوقت وفات بھی آپ کی زبان پر لاالہ الَّا اللّٰہکا ورد جاری تھا۔
محترم ملک غلام فرید صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی غیرموجودگی میں ایک بار حضرت مولوی صاحبؓ نے نماز جمعہ پڑھائی اور پھر سنتیں شروع کیں تو اتنی لمبی ہوگئیں کہ مسجد نمازیوں سے خالی ہوگئی۔ مجھے کسی دوست کا انتظار تھا اس لئے بیٹھا رہا۔ آپؓ نماز پڑھتے رہے، پڑھتے رہے یہانتک کہ میں بھی چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد دوست کے ہمراہ واپس مسجد پہنچا تو مولوی صاحبؓ وہاں اکیلے اپنے بازوؤں کا تکیہ بنائے سو رہے تھے۔ شدید گرمیوں کے دن تھے۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ یہ مولوی صاحبؓ آجکل ہمارے امیر ہیں اور ہم ان کی اسی طرح فرمانبرداری کرتے ہیں جیسے امیرالمومنین کی لیکن یہ غریب دل انسان کس سادگی سے خالی زمین پر سو رہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی نماز کے متعلق فرمایا کہ
‘‘میں نے دیکھا کہ اکثر وہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ پراس طرح اٹک جاتے جس طرح ریکارڈ کی سوئی اٹک جائے۔اتنا پڑھتے تھے اتنا پڑھتے تھے کہ گویا ابھی دل کی تسکین نہیں ہوئی۔’’
(خطاب جلسہ سالانہ ماریشس 20؍دسمبر 1993ء بحوالہ نجم الہدیٰ صفحہ8)
فاضل دیوبندحضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑکی صحبت میں آکرفنا فی اللہ وجود ہوگئے۔آپ انتہائی سوزو گداز کے ساتھ لمبی نماز پڑھتےجس میں آپ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب کر ذکر الٰہی کیا کرتے تھے۔نماز سے کافی دیر پہلے آکر دو رکعت نماز تحیةالمسجدکے طور پر ضرور پڑھتے تھے۔یعنی اپنی نماز کا آغاز مسنون طریق پر رب العزت کے حضور نوافل کے تحفہ سے کرتے۔سخت سردی اور سخت گرمی اور بارش بھی باجماعت ادائیگی نماز میں روک نہ بنتی تھی بلکہ بسا اوقات سخت بخار کی حالت میں بھی آپ مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔
آپ کو نماز باجماعت کا جس قدر احساس تھا کہ آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان ہوگئی۔آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سپرد کرکے مسجد چلے گئے۔بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا اب فوت ہوچکی ہوگی۔اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی وفات پاچکی تھی۔
(رفقائے احمد جلد5حصہ سوم صفحہ82بحوالہ حضرت سیدسرور شاہ صاحب صفحہ 26)
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ نے پر تعیش زندگی چھوڑ کر قادیان آکر حضرت مسیح موعودؑ کے در پہ درویشانہ زندگی اختیار کر لی اور آپ کی دامادی کا شرف پایا۔نواب صاحب نماز باجماعت کے پابنداورتہجد گزار تھے جس کا التزام سفر میں بھی رکھتے۔آپ نمازیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے۔آپ کی اہلیہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اس بارہ میں بیان فرماتی ہیں:
‘‘رات کو تہجد میں دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خدا تعالیٰ کا نور کمرہ میں نازل ہورہا ہے اور اس طرح دعائیں کرتے اور اس قدر گریہ و زاری کرتے کہ نیند اڑ جاتی۔’’
(حضرت نواب محمد علی خان صاحب از فخر الحق شمس صفحہ26)
پھر ان کے صاحبزادےحضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحبؓ بھی نماز کے عاشق تھے۔اورآپ پنجوقتہ نماز باجماعت کے نہایت شدت کے ساتھ پابند تھے۔میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال ان کے ساتھ گزارے۔میں ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کی طرح تمول اور تنعم میں پرورش پایا ہوانماز کا ایسا پابند انسان ساری عمر نہیں دیکھا…جن حالات میں آپ نے پرورش پائی ان کو دیکھتے ہوئے ان کا ایسا پابند صوم و صلوٰة ہونا ان کے باخدا انسان ہونے کی ایک زندہ دلیل ہے۔سوائے نماز کے ان کو کبھی روتے نہیں دیکھا گیا۔
(الفضل 30؍ستمبر1961ء)
حضرت مسیح موعودؑ کے جلیل القدرصحابی اور زبردست مقررحضرت مولانا عبد الکریمؓ صاحب سیالکوٹی جن کے بارےمیں مسلمانوں کے لیڈر کا الہام ہوا،کثرت پیشاب کی شدید تکلیف میں بعض دفعہ غش کھانے کے قریب ہوجاتے مگر نماز باجماعت کے لیے مسجد تشریف لاتے۔جس پر حضرت مسیح موعودؑ بھی تعجب کا اظہار فرماتے۔
حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ شہید کی عبادت کا بھی اپنا رنگ تھا۔جب قادیان سے واپس تشریف لے جارہے تھے تو راستہ میں ٹمٹم میں بھی آپ قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو نماز اتر کر پڑھی اس اثناء میں بہت سخت بارش ہوئی لیکن شہید مرحوم نے بارش کی کوئی پرواہ نہ کی اپنے مزہ سے خوب نماز پڑھائی۔
(شہید مرحوم حضرت صاحبزادہ عبد اللطیفؓ کے چشمدید واقعات ازسیدنوراحمد کابلی صفحہ12)
حضرت میاں کرم الٰہی صاحبؓ …کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ حسب سابق وہ مسجد مبارک میں امام کے قریب کھڑے ہوکر باجماعت نماز ادا کریں اور اپنے بعض رفقاء کو ساتھ لے کر آنے کی تاکید کرتے تھے۔نماز ظہرکے لیے بالعموم بہت پہلے آجاتے اورظہر و مغرب کے بعد دیر تک نوافل ادا کرتے اور مغرب کے وقت آکر عشاء پڑھ کر ہی اپنی قیام گاہ کوجاتے ۔اور جو شخص ان کاہاتھ پکڑ کر ان کو سیڑھیوں تک لے جاتا ایسے شخص کی رفاقت تک اس کے لیے ہی دعائیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک نیت بنائے وغیرہ ۔ اگر کوئی ان کو قیام گاہ تک پہنچا تا تو دریافت کرتے کہ کون ہو۔کس مکان میں قیام ہے ۔او راس کی خدمت کے باعث دعائیں دیتے۔ غرض ان کی زندگی کاطرئہ امتیاز دعائیں کرناہی تھا ۔کئی سال سے شنوائی میں بھی بھاری پن آگیا تھا اور ا یک سال سے توبہت مشکل سے بات سن سکتے تھے۔اور بالعموم اپنی چار پائی پر نوافل ادا کرتے دیکھے جاتے تھے۔غریب طبع او ر صابر شاکر تھے ۔معذوری سے قبل بھی کم گو ہی پائے گئے ۔خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہہ کر دیار محبوب کی آبادی کے لیے آجانا ۔
(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 199)
نافع الناس وجود
چوتھی شرط یہ ہےکہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
‘‘حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ ابن حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے تھے…آپ طبیعت کے بہت حلیم اور بردبار تھے۔کسی شخص نے کتنا ہی دکھ دیا ہو لیکن اگر وہ گھر پر آجاتا اور امداد کی درخواست کرتا تو بڑی محبت سے پیش آتے…طبیعت میں غصہ نہیں تھا اگر آتا تھا تو پی جاتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اپنے برادر بزرگ سے جاکر کل واقعہ کہہ دیتے تھے۔جھڑکی دینے یا ناراض ہونے کی عادت نہ تھی۔’’
(سید محمود اللہ شاہ حیات و خدمات از احمد طاہر مرزا صفحہ82)
اسی طرح حضرت مولوی ابراہیم بقاپوری صاحبؓ تھے جنہیں جب کسی پر غصہ آتا تو اسے گلے لگا لیا کرتے تھے۔
(حیات بقاپوری صفحہ357)
حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ اگرچہ تعلیم یافتہ اوربڑے زمیندار خاندان سے تھے اور دنیاوی و دینی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز تھے مگر پھر بھی اپنے غریب ساتھیوں سے اس طرح باتیں کرتے تھے کہ جس طرح دو برابری کے دوست باہم بے تکلف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور مسائل بھی دریافت کرتے اور ان کے حل کے لیے مناسب مشورہ بھی دیتے اور اپنی طرف سے ہر ممکن امداد بھی کرتے۔آپ بہت مہمان نواز تھے اگر کسی مہمان کی تکلیف کا علم ہوتا تو آپ کو بہت دکھ ہوتا۔آپ اپنے ساتھی کارکنان کو ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام فرمایا تھا کہ‘‘لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ’’۔آپ فرماتے کہ حضورؑ آئے اور خدا کے پاس چلے گئے ان الہامات کے مخاطب حضورؑکے بعد ہم لوگ ہیں اس لیے ہر آنے والے کو خوش خلقی اور فراخ دلی سے ملو اور ہر آنے والا تم سے مل کر خوش ہو اور اس کا دل تسلی پائے…حضرت چوہدری صاحب مظلوموں کی مدد کو اپنا فرض جانتے تھے اور علاقہ کا ہر مظلوم بغیر تفریق رنگ و نسل و مذہب حضرت چوہدری صاحب کو اپنا ہمدرد اور غمگسار سمجھتا تھا۔مظلوموں کی امداد ایسے رنگ میں فرماتے تھے کہ مظلوم کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہوتا۔’’
(حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب صفحہ17تا18)
خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ، راضی بقضا اور ذلت و دکھ قبول
پانچویں شرط یہ ہے کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہو گا اور ہر ایک ذِلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔
حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ نے وفاداری کی عظیم الشان مثال قائم کی کہ اللہ کی راہ میں اپنے وطن،گھر بار کو خیرباد کہہ دیا۔اپنا مال و متاع اسلام کی خدمت میں بے دریغ قربان کر دیا۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ جو ایک رئیس جوان تھے۔انہوں نےحضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرکے رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی اور منکرات اور مکروہات سے مجتنب ہوگئے۔جائیداد،محل،نوکر چاکر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض خدا تعالیٰ کی خاطر قادیان میں ڈیرے لگالیے۔اور حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ آپ گواہ رہیں میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لیے توبہ کرلی۔اپنے بھائی نواب احسن علی خاں صاحب کے بلانے پر یہی جواب دیا کہ
‘‘میرے پیارے بزرگ بھائی !میں یہاں خداکے لیے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا ہی کے لیے ہے۔’’
(اصحاب احمد جلد 2صفحہ118)
حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابیؓ مخالفانہ خیالات سے توبہ کرکے سلسلۂ بیعت میں داخل ہوئے تھے اور کمال محبت کا نمونہ دکھایا۔
‘‘جب حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان میں تشریف لے جاتے تو مولوی صاحب بے قرار اور دیوانہ ہوجاتے تھے اور کبھی ٹہلتے اور کبھی بیٹھے بیٹھے رویا کرتے تھے اور کسی پہلو چین نہ پڑتا اور بار بار کہتے کہ اتنے روز جو میری طرف سے مخالفت ہوئی یا میری زبان سے الفاظ گستاخانہ نکلے۔قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔پھر استغفار کرتے اور سخت بے قراری اور ندامت سے روتے۔جب حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لاتے تو مولوی صاحب کو چین آتا اور دل کو تسلی ہوتی۔’’(حیات احمد جلد اول صفحہ141)پرانے دوستوں کی مخالفت کے باوجود نہایت استقامت سے آخر دم تک ڈٹے رہے۔
اللہ کی راہ میں ذلت و دکھ قبول
جب حضرت مسیح موعودؑ سفرِسیالکوٹ سے واپس قادیان جانے لگے تو حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ بھی آپ کو الوداع کہنے کے لیے اسٹیشن پر گئے۔ جب لوگ حضرت مسیح موعودؑ کو چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کر دیں۔مولوی صاحب کے پیچھے بھی واپسی پر غنڈے لگ گئے اور آپ پر گند پھینکا…دیکھنے والوں نے بتایا کہ جب مولوی برہان الدین صاحب کو جبراً پکڑ کر ان کے منہ میں زبردستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا ‘‘واہ او برہانیا!الحمدللہ ایہہ نعمتاں کتھوں۔مسیح موعودؑ نے روز روز آناں وے؟ یعنی الحمدللہ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں۔کیا مسیح موعودؑ جیسا انسان روز روز آسکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے۔’’
(الفضل 10؍ اکتوبر 1945ء صفحہ2)
حضرت حافظ محمد فیض الدین صاحبؓ کے آباء و اجداد عرب سے آکر سیالکوٹ میں آباد ہوئے تھے۔ آپ کے دادا میاں حسن صاحب اور والد بزرگوار مولوی غلام مرتضی صاحب ایک وسیع حلقہ ارادت رکھتے تھے اور ان کی خاندانی بزرگی کا عوام پر یہ اثر تھا کہ ان کا خاندان ‘‘اللہ لوک’’(یعنی اللہ والے لوگ) مشہور تھا اور جس محلہ میں آباد تھا وہ ‘‘محلہ اللہ لوکاں’’ کہلاتا تھا۔ آپؓ کی والدہ بھی مشہور سجادہ نشین خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قبول احمدیت کے ساتھ ہی آپ کی شدید مخالفت شروع ہوگئی لیکن آپؓ نے صبر و استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ اپنے ہی خاندان سے شدید گالیاں اور صلواتیں سنیں۔ آخر آپؓ کی بیوی کو بھی ترک تعلقات پر مجبور کرکے دھوکہ سے میکہ بھجوادیا گیا جہاں وہ طاعون سے فوت ہوگئی۔ آپ پر مقدمات کیے گئے۔تلوار سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔بھینسوں کی زبانیں باندھ کر دمیں کاٹ دی گئیں۔لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ‘‘حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنہ پر مکان برباد کر دیتے ہیں۔ آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا۔’’کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتا رہا بلکہ میرے دل میں وہ زلیخا کا شعر یاد آیا:
جمادے چند دادم جان خریدم
بحمد اللہ عجب ارزاں خریدم
یہ مشہور ہے کہ زلیخا نے مصر کے خزانے دے کر یوسف علیہ السلام کو خریدا تھا۔ اُس وقت کہا تھا کہ چند پتھر دیے ہیں اور جان خرید لی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی سستا سودا خریدا ہے۔ کہتے ہیں مَیں بھی اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہیں آ گئے اور مکان اُس سے کئی درجہ بہتر دیا۔ بیوی بھی دی اور اولاد بھی دی۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ132-133روایات حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی)
راضی بقضاء
حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب ؓایک امیر کبیرتاجر تھے۔سلسلہ کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار اور مالی امداد بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔ غریبوں سے خاص کر محبت کرتے تھے اور کئی غریب لڑکیوں کی شادی کروائی۔جو کوئی بھی آپ سے روپیہ مانگنے آتا اسے کبھی نا نہ کرتے۔اور کچھ نہ کچھ ضرور دیتے اگر اپنے پاس اس وقت نہ ہوتا تو کہتے کہ کسی سے قرض لے لو میں اسے ادا کر دوں گا۔ اسی وجہ سے ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ کو تجارت میں لاکھوں کا نقصان ہوا۔گھر کے لوگ اور ملازمین سارے پریشان تھے۔ ان دنوں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی مالیت کے بارہ دیوانی مقدمات آپ پر دائر ہو چکے تھے آپ رنگون تجارت کے لیے گئے ہوئے تھے۔گھر سے فوری واپسی کے لیے تار آیا۔ آپ دعائیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ جب جہاز مدراس کی گودی میں لنگر ڈال رہا تھا۔ تو آپ کی زبان پر بار بار لَاغْلِبَنَّ لامْرَی یا ۔لَاغْلِبَنَّ عَلَی اَمْرِی کے الفاظ جاری ہوئے۔ چنانچہ آپ کو کامل اطمینان ہو گیا۔
مخالفین سلسلہ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ چونکہ سیٹھ صاحب نے جھوٹے سلسلہ کی خا طرمال و دولت خرچ کی اس لیے ان کا گھر بربا د ہو گیا شیخ حسن اب ختم ہو ااب اس کا زندہ رہنا مشکل ہے چنا نچہ ایک دفعہ جمعہ کے بعدآپ نے مسجد احمدیہ یاد گیر میں کہا کہ میں دوستوں کو کچھ سنا نا چا ہتا ہوں لو گ میرے خسارہ کو دیکھ کر ایسی باتیں کر تے ہیں میں مسجد میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کر تاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے با ر بار بتا یا ہے کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک کہ تجارت کی حالت پہلے جیسی نہ ہو جائے نیز فر ماتے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ضا ئع نہیں کرے گا۔
(ماخوذ ازاصحاب احمد جلد1صفحہ224)
بدرسوم سے بچنا
چھٹی شرط بیعت یہ ہے کہ اتباعِ رسم اور متابعتِ ہواوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔
حضرت چوہدری محمد علی صاحبؓ آف کریام کے بارہ میں ہے کہ
‘‘عموماً آپ ایسی مجالس میں شرکت سے احتراز کرتے تھے جہاں رسومات وغیرہ بجالائی جاتیں ۔چنانچہ اپنے ایک بھائی کی شادی میں جو قریب کے موضع کریہہ میں ہوئی تھی ۔رسومات باجا اور آتش بازی کے باعث آپ نے اس میں شرکت نہ کی کہ آپ ان امور کو خلاف شریعت سمجھتے تھے ۔ آپ خلاف شریعت امور دیکھ کر دلیری سے اور بغیر ہچکچاہٹ کے نفرت کا اظہار کردیتے تھے۔’’(اصحاب احمد جلد 10صفحہ156)
حضرت حاجی غلام محمد صاحبؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ
‘‘آپ نے اصلاح رسومات کی ایک کمیٹی بنائی جس کے آپ صدر تھے ۔ اس کے ذریعہ شادی بیاہ وغیرہ کی فضول رسوم۔ باجا۔ راگ رنگ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔دیہات سدھار کمیٹی آپ کی زیر نگرانی کام کرتی تھی گاؤں کے مشترکہ فنڈ سے جو آپ کے پاس رہتا تھا ۔ سڑکوں اور گلیوں کی فرش بندی اور صفائی کاکام ہوتا ۔ شادی بیاہ کے لئے دیگیں اور دریاں خریدی گئیں۔آپ کے حسن تدبر تلقین اور ذاتی قربانی سے اشتمال اراضی کاکام سرانجام پایا ۔چنانچہ اس بارہ میں آ پکو افسران کی طرف سے پروانہ خوشنودی بھی عطا ہوا ۔’’ (اصحاب احمد جلد 10صفحہ110)
حضرت منشی فیاض علی صاحب آف کپور تھلہ حقّہ نوشی کے عادی تھے۔ جالندھر میں حضرت اقدس ؑنے وعظ فرماتے ہوئے حقّہ نوشی کی مذمّت فرمائی۔ حضرت منشی صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ حقہ چھوڑنا مشکل ہے دعا فرمائی جائے تو چھوٹ جائے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آؤ ابھی دعا کریں چنانچہ دعا کروائی گئی۔ اس کے بعد حضرت منشی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت نفیس حقہ آپ کے سامنے لایا گیا آپ نے حقہ کی نَے منہ سے لگانی چاہی تو نَے سیاہ سانپ بن کر لہرانے لگی۔ اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپ نے سانپ کو مار دیااور پھر حقہ نوشی نہیں کی اور اس سے نفرت ہو گئی۔
(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 44تا45)
عاجزی
ساتویں شرط یہ ہے کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔
محترم مولوی تاج الدین صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ جلسہ سیرۃ النبیؐ میں تقریر کیلئے جالندھر جاؤں۔ میں نے بخار کی وجہ سے معذرت کردی۔ اگلے روز آپؓ نے ہدایت کی کہ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کروں جو میں نے بھیج دیا۔ جلسہ سے ایک روز پہلے آپؓ میرے مکان پر تشریف لائے اور حال دریافت کرنے کے بعد مجھے کچھ رقم دے کر فرمایا یہ جالندھر جانے کا خرچ ہے …مجھے کوئی اور موزوں آدمی نہیں مل سکا اسلئے آپ تشریف لے جائیں میں آپ کی صحت کیلئے دعا کروں گا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے کچھ اس انداز سے جانے کا ارشاد فرمایا کہ میں انکار نہ کرسکا اور اگلے روز علی الصبح گاڑی پر سوار ہونے کیلئے پلیٹ فارم پر پہنچا تو دیکھا کہ آپؓ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے ہیں۔ میں نے مصافحہ کیا تو حضرت مولوی صاحبؓ مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا :‘‘میں ایک جاہل اور بیوقوف آدمی ہوں۔ دراصل اپنے کلرک کے کہنے پر میں نے آپ سے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ طلب کرلیا تھا ورنہ میری طبیعت ایسا نہیں چاہتی تھی۔ میں بہت شرمسار ہوں اور معافی مانگنے آیا ہوں’’…یہ سراپا عجز و انکسار وہ شخص تھا جسے حکومت نے سول جج کا عہدہ پیش کیا تھا۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ایک عزیز مکرم بدر سلطان صاحب کا بیان ہے کہ میں نو دس برس کا تھا جب پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ پر قادیان آیا اور آپؓ کے ہم راہ جلسہ گاہ پہنچا۔ آپ جوتوں کے قریب ہی خالی جگہ پر بیٹھ گئے تو یہ امر مجھے طبعاً ناگوار گزرا اور میں نے فوراً پوچھا کہ چچا جان لوگ تو آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جگہ تلاش کرتے ہیں آپ کیوں جوتوں میں بیٹھتے ہیں۔ فرمایا ‘‘بیٹا!میں نے جوتوں میں ہی رہ کر سب کچھ حاصل کیا ہے!’’(سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صفحہ 195)
حضرت حاجی غلام احمد صاحب کے بارہ میں ملک صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:
‘‘مرحوم ؓ اس درجہ فروتن اور منکسرالمزاج تھے کہ اس کی کوئی حد نہ تھی۔ میں نے کئی سفر ان کے ساتھ کئے ۔اگر سواری کاپورا انتظام نہیں ہوا توجو سواری ملی وہ ساتھی کے لئے وقف کردیتے ۔ ساتھی خواہ کتنا ہی اصرار سے عرض کرتا کہ یہ خلاف ادب ہے آپ ہررنگ میں آرام کے زیادہ مستحق ہیں ۔پھر بھی آپ نہ مانتے۔ میرے معاملہ میں تو اکثر میرے موٹاپن اور عادات کی سستی پر رحم فرماکر مجھے سوار کرادیتے کبھی اگر میں بہت اصرار کر کے اتنی سی بات منوانے میں کامیاب ہو بھی جاتا کہ مرحوم کو سوار ہونے پر مجبور کرلوں تو جب گاؤں نزدیک آتا تو اتر پڑتے اور مجبور کرکے مجھے سوار کرالیتے ۔جہاں قیام فرماتے جو اونچی اور اچھی چارپائی اور اچھابستر ہوتا وہ دوسرے کو دیتے ۔اگر دوسرا نہ مانے تو اَلاَمْرُ فَوْقَ اَلاَدَبْ فرما کر بھی اپنی بات منوالیتے۔
ایک دفعہ اس عاجز نے خواب میں دیکھاکہ یہ عاجزحضرت مسیح موعود ؑکے پاؤں دبا رہا ہے ۔ بعض مجبوریوں کی بنا پر عاجز قادیان نہیں جاسکتا تھا۔اس لئے خیال آیاکہ کریام جاؤں اورحضرت حاجی صاحب جو حضور علیہ السلام کے صحابی ہیں ،کے پاؤں دبا کر خواب پورا کروں ۔ چنانچہ یہ عاجز کریام گیا ۔ سردیوں کاموسم تھا خاکسار نے مسجد میں ہی بستربچھوالیا ۔عشاء کے بعد حضرت حاجی صاحبؓ مرحوم اور یہ عاجز اکیلے رہ گئے تو عاجز نے اپنا خواب سنا کر پاؤں دابنے کی درخواست کی ۔حضرت حاجی صاحب ؓ نے سختی کے ساتھ میری درخواست رد کردی۔ میں نے پھر اصرار کیا تو پاؤں آگے کر دیا ۔ اور کوئی ایک دو منٹ کے بعد کھینچ لیا۔اور فرمایا اب تم پاؤںآگے کرو ایسا نہ ہو کہ میرا نفس موٹا ہوجائے کہ کسی نے میرے پاؤں دبا ئے ہیں۔’’
(اصحاب احمد جلد 10صفحہ128)
جان ومال و وقت وعزت کی قربانی
آٹھویں شرط یہ ہےکہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
جان کی قربانی
حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید بڑے رئیس اور عالم تھے۔پچاس ہزار ان کے مرید تھے۔شاہِ کابل کے مقرب تھے۔مگرمسیح موعود وامام مہدی کو پہچان کر قبول کر لیا تو اس کے لیے اپناجان،مال،فرزند سب قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں:
‘‘عبد اللطیف کے لیے وہ دن جو اس کی سنگساری کا دن تھا کیا مشکل تھا۔وہ ایک میدان میں سنگساری کے لیے لایا گیا۔اور ایک خلقت اس تماشا کو دیکھ رہی تھی مگر وہ دن اپنی جگہ کس قدر قدرو قیمت رکھتاہے۔اگر اس کی باقی ساری زندگی ایک طرف ہو اور وہ دن ایک طرف تو وہ دن قدرو قیمت میں بڑھ جاتا ہے۔’’(ملفوظات جلدسوم صفحہ 516تا517)
مالی قربانی
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓکی مالی قربانی کے بارہ میں 1926ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا:
‘‘اُن کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ ؑپر مقدمہ گورداسپور میں…تھا اور اس میں روپیہ کی سخت ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں کو تحریک کی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ لنگر خانہ تو دو جگہ پر ہو گیا ہے۔ ایک قادیان میں اور دوسرا گورداسپور میں۔ اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے۔ لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اُسی دن اُن کو تنخواہ تقریباً 450روپے ملی تھی۔ وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضور کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ تو گھر کی ضروریات کےلئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کےلئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کےلئے رکھ سکتا ہوں۔ غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کےلئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب ان کو مالی قربانی کی ضرورت نہیں۔’’
(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 296)
‘‘منارۃ المسیح بنانے کی تجویز حضرت اقدس ؑ کے زیر غور تھی۔ ان دنوں آپ(حضرت منشی شادی خانصاحب) راجہ امر سنگھ جموں کے ہاں ملازم تھے۔حضرت اقدسؑ نے دس ہزار کا تخمینہ لگایا اور دس ہزار کو سو، سو کے حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ حضرت منشی شادی خان ؓکے ذمہ بھی روپیہ لگا تھا۔ انہوں نے اپنے گھر کا تمام سامان بیچ کر تین سو روپیہ پیش کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ‘‘شادی خان صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابوبکرؓ نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا۔’’ حضرت میاں شادی خان صاحب رضی اﷲ عنہ نے یہ سنا تو گھر میں جو چارپائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ان کی رقم حضرت صاحبؑ کے حضور پیش کر دی…’’(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 181)
ایک سائیں دیوان شاہ نارووال کے رہنے والے تھے اور وہ پیدل قادیان جایا کرتے تھے۔راستہ میں قاضی قمر الدین صاحب کے پاس بھی رکتے۔قاضی قمر الدین صاحبؓ نے جب کبھی ان سے پوچھا کہ آپ کو قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے یا شوق ملاقات سے جا رہے ہیں تو سائیں صاحب کہتے کہ ‘‘میں چونکہ غریب آدمی ہوں،چندہ تو دے نہیں سکتا،اس لیے قادیان جارہا ہوں کہ مہمان خانے کی چارپائیاں ہی بُن آؤں تاکہ میرے سر سے چندہ اتر جائے۔’’
(ماخوذ از رجسٹر روایات نمبر 2غیر مطبوعہ، روایت قاضی قمر الدین صاحب گورداسپور)
اور اس طرح وہ مہمانوں کے لیے لنگر خانے کی چارپائیوں کی بنائی کرکے خدمت کی توفیق پاتے۔
وقت کی قربانی
حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ اپنا وطن،گھر بار، ہسپتال قربان کرکے مسیح محمدی کے آستانہ پر آپڑے۔اسی طرح حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ جیسے عالم سیالکوٹ سے،حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ہزاروں مریدوں کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعودؑکے قدموں میں آبیٹھے۔
عزت کی قربانی
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓکا بیان ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کر دینے کے لیے فرمایامگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔اتفاقاًاس وقت حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی صاحبزادی امة الحئی صاحبہ جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ ‘‘مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی(مہترانی) کے لڑکے کو دیدو تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔’’یہ کلمہ سخت عشق ومحبت کا تھا۔مگر نتیجہ دیکھ لو کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود حضرت مسیح موعودؑ کا حسن و احسان میں نظیر تھا(یعنی حضرت مصلح موعودؓ)۔’’
(حیات نور جلد4صفحہ 187تا188)
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
‘‘میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے، جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا۔ مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر مَیں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں؟مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے میں نہیں رہ سکتا۔ ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں، پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔ پس میری دولت میرا مال، میری ضرورتیں اس امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں۔’’
(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 132)
خدمت خلق
نویں شرط یہ ہے کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ محض للہ خلق خدا کی خدمت میں مشغول رہتے۔خلیفہ صباح الدین تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار نے ایک دوست سے یہ و اقعہ سنا کہ ایک دفعہ حضرت میاں صاحب اپنے مکان سے باہر تشریف لارہے تھے۔کسی ضرورتمند نے آپؓ سے اپنی ضرورت بیان کی۔آپ نے اپنی جیب دیکھی جس میں سو روپے کا نوٹ تھا۔آپؓ نے وہی اس کو عنایت فرمایا۔اس سے بڑھ کر بادشاہی اور غریب پروری اور کیا ہوسکتی ہے۔
ایک دفعہ ربوہ کی ایک بیوہ عورت کی لڑکی دماغی عارضہ میں مبتلا ہوئی ڈاکٹروں نے اسے فوراً ہسپتال میں داخل کرنے کا مشورہ دیا۔آپؓ نے اس غریب بیوہ کی لڑکی کو اپنے ایک خادم کے ہمراہ اپنے خرچ پر لاہور بھجوایا اور ساتھ سفارشی خط بھی تحریر فرما کر ہرسہولت مہیا فرمائی نیز گاہے گاہے اس کے لواحقین سے اس کی خیریت دریافت فرماتے رہتے تھے۔’’
(سیرت حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب صفحہ 19تا20)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
‘‘(آپ) یتیموں کی خبرگیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے اور دارالیتامیٰ میں اتنے یتیم تھے، دارالشیوخ کہلاتا تھا توان کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ بخار میں آرام فرما رہے تھے اور شدید بخار تھا۔ نقاہت تھی، کمزور ی تھی۔ کارکن نے آ کر کہا کہ کھانے کے لئے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہو رہا۔ لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا فوراً تانگہ لے کر آؤ اور تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا۔ تو یہ جذبے تھے ہمارے بزرگوں کے کہ بخار کی حالت میں بھی اپنے آرام کو قربان کیا اور یتیم بچوں کی خاطر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔’’
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 17؍اکتوبر2003ء)
ایک دفعہ موسم سرما میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نماز فجر کے بعد مسجد مبارک کی سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ ایک آدمی نے عرض کیا کہ میں ایک غریب مسافر ہوں اور سردی سے بچنے کےلیےمناسب کپڑے نہیں ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے اُسی وقت اپنے کندھوں پر سے اٹلی کا بنا ہوا نیا کمبل اتار کر اُسے دے دیا اور خود بغیر کمبل کے اپنے گھر تشریف لے گئے۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ غرباء و مساکین اور خصوصاً بیوگان کی خبرگیری اس توجہ سے کرتے تھےکہ آپؓ کی وفات پر متعدد بیوہ مستورات نے بے حد صدمہ کا اظہار کیا کہ اب ہم مفلوک الحال ہوئی ہیں۔
(اصحاب احمد جلد1صفحہ85)
حضرت مرزا رسول بیگ صاحبؓ کے دل میں غربا اور خصوصاً بیوگان کے لیے بے حد درد تھا اور ان کی خبرگیری بہت ہمدردی اور توجہ سے کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ سائل کو خالی واپس نہیں کرنا چاہیے۔ اگر پاس کچھ نہ ہو تو لطیفہ یا دلجوئی کی بات سنا کر ہی اسے خوش کردینا چاہیے۔
حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے امارت کے ساتھ ہی حد درجہ فیاض دل بھی عطا کیا تھا۔ آپؓ غربا، یتامیٰ اور بیوگان کی اپنے گھر میں عزیزوں کی طرح پرورش کرتے اور انہیں کبھی خادم خیال نہ کرتے۔ کسی کے سوال کو ردّ کرنا جانتے ہی نہ تھے۔ جذامیوں کے ایک پورے خاندان کی اُن سب کی وفات تک پرورش کی۔ آپؓ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ غرباء اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ کئی خاندانوں کو روپیہ دے دیا تاکہ چھوٹاموٹا کاروبار کرکے آہستہ آہستہ رقم ادا کرتے جائیں۔
(اصحاب احمد جلد1صفحہ224)
حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام رضی اللہ عنہ مخلوق خدا کے لیے کیسا پر شفقت دل اپنے سینہ میں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مقدمہ تھا جس میں احمدی مدعیان اور ایک غیر احمدی عورت مدعیٰ علیہاتھی۔ قانونی لحاظ سے احمدیوں کامقدمہ مضبوط تھا ۔عورت کے والدکو یہ بات سوجھی کہ وہ حضرت حاجی صاحب ؓ کے پاس گیا اور عرض کی کہ شرعی لحاظ سے عورت کو بھی کچھ نہ کچھ حق پہنچتا ہے۔ حضرت حاجی صاحب ؓ نے اس عاجز سے ذکر کیا ۔اور راضی نامے کی ایک صورت نکل آئی ۔ اس دن افسر مال کا مقام قصبہ کرتا رپورمیں تھا۔ میں نے نواں شہر کی کچہری سے جو اسٹیشن سے میل سوا میل کے فاصلے پر ہے جانا تھا۔کچہری سے مدعیان اورمدعیٰ علیہا حضرت حاجی صاحب اور یہ عاجز پیدل اسٹیشن کے لیے چل پڑے ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ گاڑی کی سیٹی کی آواز آئی۔اب اس مقدمہ میں اگر کسی کو فائدہ پہنچتا تھا یا مدعیان اور مدعیٰ علیہم تھے ۔اور یا یہ عاجز تھا جس نے محنتانہ لیا ہوا تھا لیکن گاڑی کی آواز سنتے ہی سب سے پہلے بے اختیار جو ٹکٹوں کے لیے دوڑ پڑا وہ ہمارے عمر رسیدہ بزرگ حضر ت حاجی صاحب تھے ۔جنہیں دنیوی لحاظ سے مقدمہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ صرف خدا کی رضا کا شوق رگوں میں خون بن کردوڑ رہا تھا ۔ جو انہیں دوڑنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ اور رگوں میں بوڑھے کوجوانوں سے زیادہ جو ان ہمت بنائے رکھتا تھا ۔ تھوڑی دوردوڑنے پر اطلاع ملی کہ ابھی یہ گاڑی راہوں جائے گی پھر واپس آئے گی ۔ اس پرحضرت حاجی صاحب ٹھہر گئے ۔(اصحاب احمد جلد 10صفحہ131)
اطاعت
دسویں شرط یہ ہے کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیردنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اپنے مطب میں بیٹھے تھے اور اردگرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب! حضورؑ یاد فرماتے ہیں۔یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔گویا دل میں یہ تھا کہ حضور کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔پھرجب خلیفہ ہوگئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نور الدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتےتھے۔نور الدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔یہی کامل اخلاص و وفا اور اطاعت کا نمونہ تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:مولوی نور الدین صاحب اس طرح میری پیروی کرتے ہیں۔جس طرح انسان کی نبض اس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے۔نیز فرمایا:
چہ خوش بودے اگر ہریک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ‘‘میں یہاں قادیان میں صرف ایک دن کے لئے آیا اور ایک بڑی عمارت بنتی چھوڑ آیا۔ حضرت صاحبؑ نے مجھ سے فرمایا۔ اب تو آپ فارغ ہیں۔ میں نے عرض کیا ارشاد۔ فرمایا آپ رہیں۔ میں سمجھا دو چار روز کے لئے فرماتے ہیں۔ ایک ہفتہ خاموش رہا۔ پھر فرمایا آپ تنہا ہیں ایک بیوی منگوا لیں۔ تب میں سمجھا زیادہ دنوں رہنا پڑے گا۔ تعمیر کا کام بند کرادیا۔ چند روز بعد فرمایا کتابوں کا آپ کو شوق ہے یہیں منگوالیجئے۔ تعمیل کی گئی۔ فرمایا: اچھا دوسری بیوی بھی یہیں منگوالیں۔ پھر مولوی عبد الکریم صاحب سے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے لَا تَصبون الی الوطن فیہ تھان وتمتحن (وطن کی طرف واپس جانے کا کبھی خیال بھی نہ کر کیونکہ اس میں تیری اہانت ہو گی اور تجھے تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی)۔ یہ الہام نورالدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ مجھ سے فرمایا: وطن کا خیال چھوڑ دو۔ چنانچہ میں نے چھوڑ دیا اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا’’۔
حضرت منشی محمدخان صاحبؓ کا حضرت مسیح موعودؑ سے صدق و اخلاص کا ایسا تعلق تھا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادے بشیر اول کی وفات ہوئی تو آپ نے صدمہ سے ان جذبات کا اظہار کیا کہ ‘‘اگر میری ساری اولاد بھی مرجاتی اور ایک بشیر جیتا رہتا تو کچھ رنج نہ تھا۔’’حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نے اس موقع پر فرمایا کہ ‘‘یہ شخص تو ہم سے بھی آگے نکل گیا ہے۔’’
حضرت مسیح موعودؑ کے لیے میاں صاحب بہت غیرت رکھتے تھے۔ جب میاں صاحب فوت ہوئے تو حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا:
‘‘اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے’’حاضرین کو تعجب ہوا۔ دریں اثناء اسی مجلس میں حضرت میاں محمد خاںؓ کی وفات کی خبر ملی تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ الہام انہی کے بارہ میں تھا (آپ کی وفات یکم جنوری 1904ء کو ہوئی) پھر حضرت اقدسؑ نے اپنے اس عاشق کے بارہ میں فرمایا:
‘‘مجھے 2جنوری کو ایسی حالت طاری ہوگئی تھی جیسے کوئی نہایت عزیز مر جاتا ہے۔ ساتھ ہی الہام ہوا۔اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا’’ چنانچہ میاں صاحب کے فرزند اکبر منشی عبدالمجید خاںؓ صاحب آپ کے بعد افسر بگھی خانہ مقرر ہوئے اور بالآخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوئے اور اسی عہدہ سے پنشن پائی۔اسی طرح باقی خاندان بھی اس الہام کا مصداق ٹھہرا۔
(313اصحاب صدق و صفا صفحہ 36تا37)
پس یہ تھا روحانی انقلاب جودس شرائط بیعت پرعمل کے نتیجہ میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑمیں پیدا ہوا اوروہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔اس مضمون میں تو چند مثالیں ہی پیش کی جاسکی ہیں جبکہ ہزارہا بیعت کنندگان میں حضرت مسیح موعودؑ کی قوت قدسیہ اور شرائط بیعت پر عمل سے عظیم روحانی انقلاب برپا ہوا۔چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘میں حلفاً کہہ سکتاہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پرایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ اُن کے گریبان تر ہو جاتے ہیں۔ مَیں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتاہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پرایمان لائے تھے ہزاردرجہ ان کو بہتر خیال کرتاہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتاہوں۔ ہاں شاذونادر کے طورپر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص اور صلاحیت میں کم رہاہو تو وہ شاذونادر میں داخل ہے۔میں دیکھتاہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہاجائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردارہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں۔ پھربھی مَیں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتاہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگردل میں خوش ہوں’’۔
(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 150)
بیعت کے نتیجہ میں صحابہ میں ہونےوالے روحانی پاک انقلاب کاغیروں نے بھی اعتراف کیا۔ اقبال نے لکھاکہ
‘‘پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔’’
(قومی زندگی اور ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر صفحہ84)
عبدالرحیم اشرف آزادنے تحریر کیا کہ
‘‘ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی۔ دنیاوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں…ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اسے حقیقت سمجھ کر اس کے لئے مال و جان اور دنیاوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا۔ بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی۔’’
(ہفت روزہ المنبر لائلپور2؍مارچ1952ء صفحہ 10)
٭…٭…٭
بلاشبہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا حق ادا کیا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان اصحاب کے نمونے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ تعالیٰ لکھاری کو جزاء دے کہ اتنا معلوماتی مضمون دیکھنے کو ملا۔ اللھم زد فزد