حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں مغربی ممالک سے قادیان آنے والے افراد
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ و یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتدائے دعویٰ سے ہی یہ خبر دی تھی کہ
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ و یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گی اور وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راستے لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہوجائیں گے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایسی ہی بہت سی پیش خبریوں کے عین مطابق یہ باتیں پوری ہوئیں اور اکناف عالم کی کئی اقوام سےتعلق رکھنے والےمختلف رنگ و نسل کےلوگ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےحضور حاضر ہو کر اکتساب فیض کرتے رہے۔ اورپھر ان میں سے کئی سعید روحوں نے قبول احمدیت کی بھی توفیق پائی اور اپنی قوم و ملک کے لیے ایک حجت ٹھہرے۔
زیر نظر مضمون میں ایسے ہی افراد کا تذکرہ کیاگیا ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی حین حیات میں قادیان دارالامان حاضر ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےحضور زانوئے تلمذ تہ کرتے رہےاورشرف ملاقات سے مشرف ہوتے رہے۔
اس ضمن میں عرض ہے کہ مغربی ممالک سے قادیان آنےوالے افراد کی یہ ایک ابتدائی فہرست ہے ۔امید ہے کہ مزیدتحقیق سےکئی اوراشخاص کےنام اوراُن کے سوانح بھی سامنےآئیں گے۔ اس سلسلہ میں اہل قلم احباب سے تعاون کی بھی درخواست ہے۔
مسٹر جان ویٹ
(Ernest John Sombre White)
مسٹرجان ویٹ کے قبول حق کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مکتوب بنام حضرت مولانا نورالدین صاحب میں تحریر فرماتے ہیں :
‘‘میں آپ کو اطلاع دیتاہوں کہ سردار ویٹ خان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافتہ قوم انگریز دانشمندمدبر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں اور کرنول احاطہ مدراس میں بعہدہ منصفی مقرر ہیں۔ آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے۔’’
(مکتوب گرامی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بتاریخ13؍جنوری 1892ء ازمکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 131)
مسٹرجان ویٹ(ERNEST JOHN SOMBRE WHITE) کی تاریخ پیدائش19؍جولائی 1859ءہے۔انہوں نے15؍نومبر1879ءکوسرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ ابتدائی عہدہ ہیڈکلرک ریذیڈنسی مجسٹریٹ کورٹ مدراس تھا بعد ازاں ترقی پاکر بطور ڈسٹرکٹ منصف مقرر ہوئے۔ 20؍اگست 1888ء کو کرنول میں تقرری ہوئی اور اسی دوران جان ویٹ 1892ءمیں قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی توفیق پائی لیکن بعد ازاں یہ اپنے عہد بیعت پرقائم نہ رہ سکے۔
John Whiteنےجلد ہی ایک الگ مکتبِ فکرقائم کرلیااور اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ تعلیمات پرمشتمل عقائدکاپرچارکرنےلگے۔عورتوں کو قدرےآزادی کے ساتھ مسجد میں عبادت کرنے کی بھی اجازت دی۔ John Whiteنے اردو زبان میں ایک دعائیہ کتاب بھی شائع کی۔1893ء میں انہی مشترکہ تعلیمات پر مزید پمفلٹس شائع کیے،جس میں اپنے پیروکاروں کو ہدایت دی کہ وہ ان قوانین کی پابندی کریں جنہیں حضرت عیسیٰ ؑنے مکمل کیااور پولوس کی تحریرات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ا س نےاپنےماننے والوں کو ہدایت کی کہ وہ توحید کے متعلق جاننے کے لیے قرآن کریم کا مطالعہ کریں۔اس نے ناصرہ کا حج اپنے فرقہ کے اہم ترین فرائض میں سے قرار دیا۔کرنول میں بہت ہی تھوڑے افراد نے اس کا ساتھ دیا،گو ان چند افراد میں کرنول کے نواب خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔ لیکن بہت ہی تھوڑی مدت تک یہ مکتبہٴ فکرقائم رہ سکا۔
(Modern Religious Movements in India by John Nicol Fraqohar. The Disintegration of Islam by Samuel M. Zwemer p.148 to 149)
(نیزماخوذ ازتحقیق مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب ریسرچ سیل+مکرم آصف محمود باسط صاحب کیوریٹراحمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سینٹر)
ہیروی ڈیوٹ گرس وولڈ
(Hervey De Witt Griswold)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں:
‘‘19اپریل 1901ء کو لاہور سے فورمین کالج امریکن مشن کے دو پادری مع ایک دیسی عیسائی کےقادیان آئے تھے۔ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ملے اور اُنہوں نے کچھ سوالات …کئے جن کا جواب حضرت اقدس علیہ السلام دیتے رہے۔ ہم چونکہ بعد میں پہنچے تھے اس لئے ابتدائی سوال اور اس کا جواب نہ لکھ سکے۔ہمارے ایک بھائی نے اسے لکھا تھا مگر افسوس ہے کہ وہ اس کو محفوظ نہ رکھ سکے اور وہ کاغذ ان سے گم ہو گیا…’’
(ڈائری 19؍اپریل 1901ءبحوالہ الحکم 10؍مئی1901ء صفحہ 1)
الحکم کی رپورٹنگ میں لاہور سے آنے والے ان صاحبان کے نام تحریر نہیں ہیں لیکن بعض قوی قرائن سے یہ علم ہوتا ہے کہ ان آمدہ افراد میں سے ایک شخص ہیروی ڈیوٹ گرس وولڈ بھی تھے۔
ہیروی ڈیوٹ 24؍مئی 1860ءکوDryden نیویارک میں بنجیمن اور لاؤرا الیزا گرس وولڈ(Benjamin And Laura Eliza Griswold) کے ہاں پیدا ہوئے۔ہیروی ڈیوٹ نے 1881ء تا 1885ء میں Schenectady کے یونین کالج اور پھر 1885ء تا 1888ء نیویارک شہر کے Union Theological Seminary میں تعلیم حاصل کی۔ اگلے دو سال انہوں نے آکسفرڈ اور برلن یونیورسٹی کے رکن کی حیثیت سے گزارے۔ہیروی ڈیوٹ نے 1890ءمیں جھانسی ہندوستان میںPresbyterian چرچ کے فارن مشنز کےلیے بطور مبلغ اپنی خدمات کا آغاز کیا۔
1894ءمیں ہیروی ڈیوٹ فارمین کرسچن کالج لاہور میں فلاسفی کے پروفیسر بنے اورساتھ ہی تاریخ اور انگریزی بھی پڑھانے لگے۔ لائبریری فارمین کرسچن کالج میں انہوں نے بطورلائبریرین بہت سی مذہبی اور فلسفہ کی کتب کا اضافہ کیا۔انہوںنےPresbyterianمشنز انڈین کونسل کے سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔اس دوران ہیروی ڈیوٹ نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1900ءمیںCornell Universityسے اپنے مقالہ بعنوان برہمن (ہندوستانی فلاسفی)کےساتھPhDکی اور1910ءمیںDoctor of Divinityکی اعزازی ڈگری حاصل کی۔
ہیروی ڈیوٹ گرس وولڈکئی کتب اور کتابچوں کے مصنف بھی تھے۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی دو پیپرز لکھے:
(i) The Mehdi And Messiah of Qadian (1902)
یہ پیپرانڈیا کے شہر میسور میں پڑھا گیا جس میں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھتے ہیں:
“I heard from his own lips at Qadian”
یعنی میں نے یہ بات (حضرت) مرزا صاحب کے منہ سے خود قادیان میں سنی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ قادیان گئےتھے۔
(ii) Messiah of Qadian (1905)
یہ پیپر لندن میں پڑھاگیاتھا۔ان کےاس پیپرمیں حضرت اقدس علیہ السلام سے وہی باتیں منسوب کی گئی ہیں جوکہ الحکم کی رپورٹنگ میں اس وفد سے گفتگو کے ضمن میں درج کی گئی ہیں۔
ہیروی ڈیوٹ گرس وولڈ اپنے تبلیغی کام سے1926ءمیں ریٹائر ہوئے۔ان کی تاریخ وفات 11؍مئی 1945ء ہے۔
(The Burke Library Archives MRL section 3; Hervey Dewitt Gris Wold Papers, 1893–1941)
(نیزماخوذ ازمضمون غلام مصباح بلوچ صاحب بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 18؍مارچ 2016ء صفحہ 11)
مسٹرڈی-ڈی- ڈکسن
(Mr D. D Dixon)
مسٹرڈی ڈی ڈکسن ایک برطانوی سیاح تھے جوقادیان آئےتھے۔ان کا تفصیلی تعارف ابھی تلاش کیا جارہا ہے۔ سردست ان کی آمد اور قادیان میں بعض مصروفیات کی تفصیل دی جارہی ہے۔
17؍نومبر1901ء کا واقعہ ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کے لیے گئے اور واپسی پر حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے مطب میں بیٹھ گئے۔اسی دوران ایک یورپین السلام علیکم کہتے ہوئے مطب میں آپہنچے ۔حضرت اقدس علیہ السلام کے ایماء پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ترجمان مقرر ہوئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اُن کے آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ معلوم ہواکہ ڈی۔ ڈی ڈکسن نامی ایک فرنگی سیاح ہیں جو عرب،کربلا اور کشمیر کی سیاحت کرتے ہوئے یہاں صرف ایک دن کے قیام کا پروگرام لے کر آئے ہیں اور آئندہ مصر ، الجیریا اور سوڈان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔حضرت اقدس علیہ السلام نے ان سے باصرار کہا کہ جب آپ نظارہ عالم کے لیے گھر سے نکلے ہیں تو قادیان میں بھی ایک ہفتہ کے لیے ٹھہر ئیے مگر اصرار کے باوجودصرف ایک رات رہنے پر رضامندہوئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام یہ ہدایت دے کر کہ شیخ مسیح اللہ خانساماں ان کےحسب منشاء کھانا تیارکریں اوراُن کوگول کمرہ میں ٹھہرایاجائے، اندرون خانہ تشریف لے گئے۔ مولوی محمدعلی صاحب اور بعض دوسرے احباب انہیں مدرسہ تعلیم الاسلام دکھانے لے گئے ۔سکول کی لائبریری میں ناٹووچ روسی سیاح کی کتاب ‘‘مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات ’’دیکھ کر ڈکسن نے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی جسے پورا کر دیا گیا۔ کتاب لیے وہ گول کمرے میں آئےجہاں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب مناسب رنگ میں انہیں تبلیغ کرتے رہے ۔
مسیح کی قبرِ کشمیر ،عربی ام الالسنہ اور جماعت احمدیہ کی امتیازی خصوصیات کے بارے میں خصوصاً گفتگو ہوتی رہی۔عصر کی نماز کے بعد انہوں نے حضرت اقدس ؑ کے تین فوٹو لیے۔دو فوٹو آپ کے خدام کے ساتھ اور ایک فوٹو صرف آپ کا الگ لیا۔ دوسرے دن صبح چونکہ ڈکسن صاحب نے بٹالہ کی طرف واپس جاناتھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی مشایعت کے لیے بٹالہ کی طرف ہی سیر کو نکلے اور نہر کے پل تک تشریف لے گئے اور انہیں الوداع کہا۔دوران سیر حضور ؑنے ڈکسن صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے دعویٰ کی غرض و غایت بتائی کہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ۔ ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھےدیا ہے۔اور مجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعل تاباں کے حصول کی راہ بتا دوں۔ اس راہ پر چل کر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقیناً یقیناً اس کو حاصل کرے گا۔ فلاسفر آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کرکے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہیے۔ مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتاہوں۔
مسٹر ڈ کسن حضرت اقدس علیہ السلام کے دینی خیالات آپ کے حسن سلوک اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے اور بالخصوص یہ دیکھ کر تو وہ دنگ ہی رہ گئے کہ کس طرح آپ کی شخصیت نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جس میں دنیاوی اعتبار سے کوئی کشش موجود نہیں مشرقی و مغربی علوم کے ماہر جمع کر دئیے ہیں۔ (تاریخ احمدیت جلد2صفحہ195تا197)
ڈاکٹر ٹی ایل پنیل
(Dr.Theodore Leighton Pennell)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ڈاکٹر ٹی ایل پنیل کا ذکر کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:
‘‘بنوں میں ایک بہت جوشیلے پادری ڈاکٹر پینل نام ہوا کرتے تھے جن کو اشاعت عیسویت کا بڑا جوش تھا اور انہوں نے اپنے کام کے واسطے بنوں کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ 1904ء میں جب کہ عاجز راقم قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈماسٹر تھا ، ایک صبح پادری پینل صاحب بائیسکل پر سوار قادیان پہنچے۔ ایک اور نوجوان بھی ان کے ساتھ دوسرے بائیسکل پر سوار تھا جس کو وہ اپنا بیٹا کہتے تھے اور بظاہر وہ مسلمان تھا۔ پادری صاحب نے گیروی رنگ کے کپڑے دیسی طرز کے پہنے ہوئے تھے۔ سر پر پگڑی تھی۔ پاؤں میں جرابیں نہ تھیں اور سرحدی طرز کی ایک چپلی پہنے ہوئے تھے۔ میں ان کی شکل دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ کوئی انگریز ہے جو دیسی لباس پہنے ہوئے ہے اور میں نے انگریزی میں اس سے بات شروع کی۔ لیکن انہوں نے جواب اردو میں دیا ،اور معلوم ہوا کہ انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ چند ماہ پنجاب کے مختلف شہروں میں دورہ کر کےمسلمانوں کے صوفیاء اور فقراء سے ملاقاتیں کریں۔ میں نے جلدی سے ان کے ٹھہرانے کے لئے مدرسہ کے ایک کمرہ میں انتظام کر دیا۔ لنگر خانہ سے کھانا منگوایا گیا جو انہوں نے بے تکلفی سے ہندوستانیوں کی طرح ہاتھ سے کھایا اور پھر حضرت مولوی نورالدین صاحب کے درس حدیث میں اور لوگوں کے درمیان چٹائی پر بیٹھ کر درس سنتے رہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طبیعت علیل ہونے کے سبب پادری صاحب کی ملاقات ان سے نہ ہو سکی۔ ان کا پروگرام قادیان میں صرف ایک ہی دن ٹھہرنے کا تھا لیکن میں نے ان کو نہایت مفصل احمدیت کی تبلیغ کی۔ اس تقریر کا ایک حصہ اخبار الحکم جنوری 1904ء میں شائع ہوا تھا۔’’(ذکر حبیب صفحہ312تا313)
ڈاکٹر ٹی ایل پنیل (Dr. Theodore Leighton Pennel, MD,FRCS)ایک برطانوی مشنری تھے۔ جنہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی چرچ مشنری سوسائٹی کو پیش کر دی اور اسی کے تحت ان کی تقرری بنوں (صوبہ خیبر پختون خواہ ۔ پاکستان ) میں ہوئی۔ جہاں انہوں نے قریباً 20سال گزارے۔ یہاں یہ ایک اردو اخبار ‘‘تحفہ سرحد’’کے بھی پروپرائٹررہے جس میں وقتاً فوقتاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مضامین شائع ہوتےتھے۔ 1904ء میں ڈاکٹر پنیل نےبذریعہ سائیکل بنوں سے لے کر پورے پنجاب کا سفرکیا۔ اس سفر میں انہوں نے قادیان کو بھی اپنی منزل بنایا اور 4؍جنوری کو قادیان آئے۔
ڈاکٹر پینل نے قادیان کے اس قیام کا ذکر اپنی ایک کتاب میں کیا ہے جس میں وہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء و سٹاف کے متعلق لکھتے ہیں:
“… In Particular I noticed that, though the next morning was chilly and drizzly, yet all were up at the first streak of dawn, and turned methodically out of their warm beds into the cold yard, and proceeded to the mosque, where all united in morning prayers, after which most of them devoted themselves to reading the Quran for half an hour to one hour. Many of the masters, too, seemed very earnest in their work, and had given up much higher emoluments to work for quite nominal salaries in the cause to which they had devoted themselves.
… We had been kindly and hospitably received, and there was something inspiring in seeing a number of educated men thoroughly zealous and keen in the active pursuit of religion…”
(Among the Wild Tribes of The Afghan Frontier By T.L Pennell Page 248,249 published by service & co limited. 38 Great Russell Street, London, 1909)
ترجمہ:خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ گو اگلی صبح سرد ہوا اور ہلکی بارش تھی لیکن پھر بھی سب فجر کے پہلے حصے میں بیدار ہو چکے تھے اور منظم طور پر اپنے گرم بستروں سے باہر نکل کر باہر ٹھنڈے صحن سے ہوتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھے جہاں سب نے مل کر صبح کی نماز ادا کی جس کے بعد اکثریت نے نصف گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک اپنا وقت تلاوت قرآن کریم کے لیے وقف کیا۔ کئی اساتذہ بھی، اپنے کام میں نہایت ایماندار معلوم ہوئے اور وہ بڑی بڑی تنخواہیں چھوڑ کر اس مقصد کے لئے جس کی خاطر اپنے آپ کو وقف کیا تھا ، معمولی تنخواہ پر کام کرتے…۔
ہمارا استقبال خوش دلی اور خاطر داری سے کیا گیا اور ایسے متعدد تعلیم یافتہ آدمیوں کو دیکھ کر جو مذہب کی جستجو میں جوش و خروش سے سرگرم تھے ، ایک متاثر کن بات پائی جاتی تھی۔(ماخوذ ازمضمون غلام مصباح بلوچ صاحب بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 18؍مارچ 2016ء صفحہ 11)
مسٹر چارلس فرانسس سیورائٹ
(Mr. Charles Francis Sievwright)
آپ اگرچہ آسٹریلیا سے تعلق رکھتے تھے لیکن بعد ازاں امریکہ منتقل ہو جانے کی وجہ سے اس فہرست میں ذکر کیا جارہا ہے۔
مسٹرچارلس فرانسس نے کئی سال ‘‘برٹش اینڈ انڈین ایمپائر لیگ’’ کے نمائندے کے طور پر انڈیا کا سفر کیا۔ ایک ایسے ہی سفر کے دوران اکتوبر 1903ء میں آپ کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات ہوئی۔جس کی وجہ یہ بنی کہ لاہور میں آپ کی ملاقات حضرت میاں معراج الدین عمر صاحب اور طیب نور محمد احمدی صاحب سے ہوئی جنہوں نے آپ کو قادیان چلنے کی تحریک کی۔ چنانچہ آپ 22؍اکتوبر 1903ء کو قادیان پہنچےجہاں آپ کا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ آپ دو دن قادیان میں رہے جہاں آپ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے درس قرآن کریم کے معارف سے مستفید ہوئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور بعض سوالات پوچھے ۔(البدر23؍اکتوبر1903ء صفحہ 317تا318البدر29؍اکتوبر1903ءصفحہ322تا325)
Mr. Charles Francis Sievwright میلبورن میں1862ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا ایک کیتھولک گھرانے سےتعلق تھا اورایک سعادت مند آسٹریلوی باشندہ تھےمسٹرچارلس نے 1896ء میں اسلام قبول کر کے اپنا نام‘‘محمد عبدالحق’’رکھ لیا تھا۔ آپ 22؍اکتوبر1903ء کوقادیان پہنچےاورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔حضرت محمد عبدالحق صاحب دو روز قادیان میں رہنے کے بعد واپس چلے گئے اور ہندوستان سے سنگاپور، ویسٹر ن آسٹریلیا اور پھر ساؤتھ آسٹریلیا سے ہوتے ہوئے واپس میلبورن آگئے۔حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے ملاقات کے بعد جب آپؓ آسٹریلیا واپس آئے تو دو اڑھائی سال کی تحقیق اور دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی پھر 1906ء میں بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔
آپ کا احمدیت میں شمولیت کا اعلان اپریل 1906ء کے رسالہ “Review of Religions”میں شائع ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدآپؓ امریکہ شفٹ ہوگئے اور ساؤتھ کیلیفورنیا میں اپنے طور پر تبلیغ کرتے رہے۔ جب 1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بطور مبلغ امریکہ پہنچے تو آپؓ کا حضرت مفتی صاحبؓ سے باقاعدہ رابطہ رہا۔
1922ء میں جماعت احمدیہ امریکہ کے رسالہ “The Muslim Sunrise” کے شمارہ نمبر 4میں آپؓ کا ایک مضمون شائع ہوا اور آپؓ کی تصویر بھی شائع ہوئی جس میں آپ نے اپنے احمدی ہونے کا ذکر کیاہے۔ آپ اپنے اس مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
‘‘میرے مشرق بعید کے اس سفر کے دوران مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا لیکن قادیان میں میرے سارے شکوک و شبہات دُور ہوگئے اور ایک عجیب روحانی احساس کے ذریعہ مجھے اس بات کا ثبوت مل گیا کہ جو الٰہی پیشگوئیاں مسیح موعود کےبارے میں کی گئی تھیں وہ آپ (حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ) کے وجود میں پوری ہوگئیں۔1903ء میں قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی سے ملاقات اسلام کی صداقت کا ایک حیرت انگیز ثبوت تھا کہ جس وجود کے بارے میں وہ الفاظ جو تیرہ صدیاں قبل کہے گئے تھے،آپؑ کی ذات میں پورے ہوگئے۔ میرے لیے اپنی زندگی میں تمام سفروں کے دوران پیش آنے والے مختلف واقعات میں سے اس سے حیرت انگیز واقعہ نہیں گزرا۔ جب میں قادیان کی بستی میں اس کے مسیح کے سامنے تھا اور آخرکار جب مجھے ان کے سامنے پیش کیا گیا اور ہماری آنکھیں ملیں تو مجھے دیکھتے ہی وہ جان گئے کہ میں حق اور سچائی کا متلاشی ہوں اور انہیں دیکھتے ہی مَیں جان گیا کہ یہ وہی الٰہی وجود ہے جس کو اس زمانہ میں مومنوں کے اکٹھا کرنے اور اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ملاقات کا اہتمام اللہ تعالیٰ ہی نے میرے لیے کیا تھا اور وہی ہے جس نے میرے جسم اور میری روح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ڈالی۔ بالآخر کئی ماہ کی سوچ، تحقیق اور دعا کے بعد میں نے اپریل 1906ء میں یہ اعلان کیا کہ میں جماعت احمدیہ آف قادیان کا ایک ممبر ہوں اور اس طرح میں ساری دنیا میں اسلامی تعلیمات کو پھیلانے والی سب سے منظم اور فعّال محمڈن مشنری ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک ہوا اور یہ اعلان دنیا کے ایک دُوردراز ملک نیوزی لینڈ سے بھجوایا گیا تھا۔
جو الفاظ میں نے اوپر لکھے ہیں، مَیں اپنے دل کی گہرائیوں سے ان پر یقین رکھتا ہوں اور آج سے 19سال قبل جب میں نے اپنے آقا کو قادیان میں الوداع کہا تھا، میں تب سےان کی صداقت کا قائل ہوں اور مفتی محمد صادق صاحبؓ کی یہاں آمد کے بعد میں اس آرٹیکل کے ذریعہ اپنے عہد کی تجدید کر رہا ہوں کہ میں جماعت احمدیہ سے منسلک ہوں اور پہلے بھی مفتی محمد صادق صاحبؓ کی یہاں آمد کے بعد ان کی مدد کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی اسلامی تبلیغ کی مساعی میں مدد کرتا رہوں گا۔’’
(The Moslem Sunrise pg. 143 to 145)
امریکہ گورنمنٹ کےریکارڈسے ثابت ہے کہ حضرت عبد الحق صاحبؓ نےامریکہ کی طرف 1906ء میں اپنی بیوی روسلین(Rosaline) کے ساتھ ہجرت کی اورپہلےFresno, Californiaمیں مقیم رہے۔پھر 1914ء میںLos Angelesمنتقل ہوگئے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں، پہلی بیٹی Carrollجو 1908ء میں پیدا ہوئی اور دوسری Irisجو1913ءمیں پیداہوئی۔
1923ء میں حضرت محمد عبد الحق صاحبؓ نے رمضان کےمہینے میںLos Angeles Examiner کے اخبار میں انٹرویو دیااور رمضان کی حقیقت بیان کی۔اس کےایڈیٹرنےحضرت محمد عبد الحق صاحب ؓکووہاں کا Ministerقراردیا اور یہ بھی ساتھ لکھا کہ ان کے مطابق اور بھی کئی مسلمان اس شہر میں رہتے ہیں۔
انہیں ایام میں حضرت محمد عبد الحق صاحبؓ نے نہ صرف تبلیغ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی خدمت کی بلکہ مالی قربانی اس رنگ میں کی کہ قرآن کریم خریدتے تھے اور The Muslim Sunriseمیں باقی لوگوں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ بھی قرآن کریم کو خریدیں اور اس کو پڑھنا روز کا معمول بنائیں۔
آپ کی وفات لاس اینجلیز میں ہی ہوئی اورتدفین لاس اینجلیز کے قبرستان “Forest Lawn-Glendne” میں ہوئی ۔ آپ کی وفات کا سال ابھی واضح طور پر ریکارڈ میں نہیں آیا ، ممکن ہےکہ Tombstoneسے مٹ گیا ہو یا قبرستان نے فی الحال شائع نہ کیاہو۔ تاہم ایک تحقیق کے مطابق آپ کی وفات 1933ءمیں ہوئی ہے۔
آپ کی قبر کی تفصیل درج ذیل ہے :
قبرستان:Forest Lawn- Glendale
جگہ: Section Acacia ,Map 1, Lot 179, Space 4
آپ کی اہلیہ کی وفات 1967ء میں ہوئی اور ان کی قبر بھی اسی قبرستان میں آپ کی قبر سے ملحق ہے۔
(سہ ماہی اسماعیل اپریل تا جون2014ء صفحہ 37تا40)
(تحقیق محترم انعام الحق کوثر صاحب حال امیر جماعت آسٹریلیاازتاریخ احمدیت آسٹریلیا غیر مطبوعہ)
(myheritage.com/names/Charles_sievwright)
سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب
(Sir James Wilson)
چارلس مانٹیگو کنگ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
(Charles Montague King)
سرجیمز ولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب ایک روزہ دورہ پر21؍مارچ1908ءصبح گیارہ بجے قادیان آئے۔ ان کے ہم راہ چارلس مانٹیگو کنگ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپورومہتمم بندوبست ضلع اور ایک پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔پھریہ وفد22؍مارچ1908ء کو قادیان سے واپس چلا گیا۔ان کامختصرتعارف درج ذیل ہے۔
i. سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب
سرجیمزولسن 1853ء میں پیدا ہوئے ،آپ ریورنڈ جان ولسن (ڈاکٹر آف ڈونیٹی)PerthShireکے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیمPerth Academy میں حاصل کی اورپھرEdinburgh UniversityاورBalliol College Oxfordمیں داخل رہے۔ پنجاب میں1875ءمیںC.S.Iمیں داخل ہوئےاور1900ء میں ڈپٹی کمشنر بنے۔ 1898ء میں گورنمنٹ کے چیف سیکرٹری کے طور پراور1899ء میں سیٹلمنٹ کمشنر نیزممبر آ ف لیجسلیٹو کونسل کے طورپرکام کیا۔سرجیمز ولسن 1903ء میں ہندوستانی گورنمنٹ کے سیکرٹری اور 1907ء سےتین سال پنجاب کے فنانشل کمشنر رہ کر1910ءمیں ریٹائر ہوگئے۔سرجیمزولسن کی وفات 22؍ستمبر 1926ء کوAnnieslea, Crieffسکاٹ لینڈمیں ہوئی۔
(The Times 24 Dec 1926)
ii. چارلس مانٹیگو کنگ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
چارلس مانٹیگوکنگ نے سینٹ پال سکول سے تعلیم حاصل کی اوربعد ازاں بیلوؤل کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 1890ءمیں سول سروس میں شامل ہوئےاور1901ء میں ڈپٹی کمشنر بنے۔چارلس 1918ء میں کمشنر پنجاب بنے اور پھر 1923ء میں فنانشل کمشنربن گئے۔یہ پنجاب گورنمنٹ کے ریونیو سیکرٹری بھی رہےاور 1928ء میں ریٹائر ہوئے۔
(Who, s who 1931. An Annual biographical Dictionary with which is incorporated Men and Women of the Time, Page 1837)
قادیان آمداور حضرت اقدس علیہ السلام سے فنانشل کمشنر صاحب کی ملاقات
سرجیمز ولسن صاحب اور چارلس مانٹیگو کنگ صاحب ایک روزہ دورہ پر21؍مارچ1908ءصبح گیارہ بجے قادیان آئے۔ ان معزز مہمانوں کے استقبال کے لیے مدرسہ تعلیم الاسلام کی مجوزہ زمین کے کھلے میدان میں خیمے نصب کیے گئے۔ داخلہ کے لیے ایک دروازہ بھی بنایا گیا جس پر سنہری حروف میں (Welcome)یعنی خوش آمدید لکھا ہوا تھا ۔20؍مارچ کی شام کو خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ فنانشل کمشنر کے استقبال کے لیے آگے جانا چاہیے۔ حضورؑ نے فرمایا مجھے ان تکلفات سے نفرت ہے۔ باقی استقبال وغیرہ کرنا کمیٹیوں کاکام ہے۔ آپ چند آدمی اپنے ساتھ لے لیں اوران کا استقبال کریں ۔چنانچہ خواجہ صاحب موصوف حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اورخواجہ جمال الدین صاحب کے ساتھ 21؍مارچ کی صبح کو گھوڑوں پر سوار ہوکر قادیان سے بغرض استقبال گئے۔ کوئی گیارہ بجے صبح ڈپٹی کمشنر ضلع اورپرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ قادیان میں داخل ہوئے۔ خیمہ کے ساتھ مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلبہ دورویہ قطار میں کھڑے تھے ۔حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام نے جو (جو صف کے سرے پر کھڑے تھے) استقبال کیا۔ کمشنر صاحب نے ان سے مدرسہ کے حالات دریافت کیے۔ آگے چبوترہ پر جماعت احمدیہ کے معزز اراکین بیٹھے تھے جن میں سے اکثر وہ تھے جو خاص طور پر اس تقریب کے لیے باہر سے آئے تھے۔ مولوی محمدعلی صاحب نے ان کا تعارف کروایا اورخواجہ کمال الدین صاحب نے جماعت کی طرف سے شام کے کھانے کی پیش کش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ چنانچہ حضورؑ کے ارشاد کے مطابق لنگر سے پکاپکایا کھانا کیمپ میں پہنچادیا گیا۔ اثنائے گفتگو میں فنانشل کمشنر صاحب نے حضرت اقدسؑ سے ملاقات کے لیے خواہش کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ حضورؑ اپنے بعض خدام کے ساتھ شام کے پانچ بجے تشریف لے گئے۔ اس وقت عجیب نظارہ تھا کیمپ کے اردگرد مخلوق خدا کا ایک تانتا بندھا تھا۔ فنانشل کمشنر صاحب نہایت اخلاق واکرام سے احتراماً آگے آئے اوراپنے خیمہ کے دروازہ پرحضور ؑکا شایان شان استقبال کیا۔ حضرت اقدسؑ اور دوسرے احباب کرسیوں پر بیٹھ گئے اورنہایت اچھے ماحول میں سلسلہ کلام شروع ہوا۔ حضورؑ پون گھنٹہ تک اسلام کی خوبیوں اوراپنے سلسلہ کے اغراض ومقاصد مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے ۔فنانشل کمشنر صاحب حضور ؑکی ملاقات پر بہت ہی خوش ہوئے۔ازاں بعد حضورؑ واپس تشریف لے آئے۔ واپسی پراتنا ہجوم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پرگرے پڑتے تھے ۔ خدام نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضورؑ کے اردگرد حلقہ بنالیا۔ حضورؑ بہت ہشاش بشاش تھے۔رستہ میں حضورؑنے خود ہی بتایا ہم نے خوب کھول کھول کر فنانشل کمشنر کو اسلام کی خوبیاں سنائیں اور اپنی طرف سے حجت پوری کردی۔ مہدی خونی کے بارے میں بھی صاحب نے سوال کیا ہم نے بتایا کہ ہمارے فلاں فلاں رسالہ کو دیکھو ۔ہم خونی مہدی کے عقیدہ کو غلط سمجھتے ہیں ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ دین اسلام دلائل قویہ اورنشانات آسمانی سے پھیلا ہے اوراسی سے آئندہ پھیلے گا اورجو جنگیں اسلام میں ہوئیں وہ سب دفاعی تھیں ۔اسلام کا تلوار سے پھیلنے کا غلط عقیدہ مخالفوں کی اختراع ہے ۔صاحب فنانشل کمشنر نے اور بھی باتیں کرنا چاہیں وہ دنیا وی باتیں تھیں۔ میں نے کہا آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کے لیے روحانی حاکم بنایاہے جس طرح آپ کے وقت کاموں کے مقرر ہیں اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہوگیا ۔ ہم کھڑے ہوگئے ۔فنانشل کمشنر بھی کھڑے ہوگئے اورخوش خوش ہمارے ساتھ خیمہ تک باہر آئے اورٹوپی اتار کر سلام کیا اورہم چلے آئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 517تا518)
مسٹر جارج ٹرنربمعہ اہلیہ لیڈی بارڈون
مورخہ 7؍اپریل 1908ء کو قادیان میں شکاگو کے ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی لیڈی بارڈون او ر ایک سکاچ مین مسٹر بانسر کے ہمراہ قریباً دس بجے قادیان آئے ۔مسجد مبارک کے نیچے دفاتر میں ان کو بٹھایا گیا۔اورچونکہ انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی اس لیے حضرت اقدس ؑبھی وہیں تشریف لے آئے۔ ڈپٹی مجسٹریٹ علی احمد صاحب ایم ۔اے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ترجمان بنے۔ سیاح نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے مسٹرڈوئی کو کوئی چیلنج دیا تھا۔ کیا یہ درست ہے ؟ اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ ہم نے ڈوئی کو چیلنج دیا تھا۔
اس کے بعد سوال و جواب کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا ۔ کچھ دیر بعد امریکن سیاح نے سوال کیا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے اس کی سچائی کے دلائل کیا ہیں؟ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ خود آپ کا اتنے دور دراز ممالک سے یہاں اک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ہماری صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کہ ہم بالکل گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا یَاتُوْنَ مِنْ کُل فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے اور خدا کی مدد ایسی راہوں سے آئے گی کہ وہ لوگوں کے بہت چلنے سے گہرے ہو جائیں گے سیاح نے سوال کیا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیاہے ؟ حضورؑ نےاس کا مفصل جواب دیا۔
اس گفتگو کے بعد ان کے سامنے کھانا رکھا گیا ۔ اس دوران میں انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓسے پوچھا کہ مرزا صاحب (علیہ السلام)کی وفات کے بعد کیا ہوگا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے یوں جواب دیا کہ آپ کی وفات کے بعد وہ ہوگا جو خدا کو منظور ہوگا اور جو ہمیشہ انبیاء کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے۔ کھانے کے بعد یہ لوگ مدرسہ تعلیم الاسلام میں گئے جہاں ایک طالب علم نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور رخصت ہو کر بٹالہ چلے گئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 519)(نوٹ:مسٹر جارج ٹرنر اور لیڈی بارڈون کے تفصیلی تعارف کی تلاش جاری ہے)
کلیمنٹ لنڈلے ریگ
(Clement Lindley Wragge)
کلیمنٹ ریگ اپنی اہلیہ اور ایک بچے کے ہم راہ 12؍مئی1908ء کو لاہورمیں مکرم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے گھر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کا شرف پایا۔ یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام تھے۔آپ اس ملاقات سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ دوبارہ درخواست کر کے 18؍مئی کوپھر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے بعض سوالات عرض کر کےجوابات سے مستفید ہوئے۔
ان کےبارےتاریخ احمدیت جلد دوم میں درج ہے کہ انگلستان کےماہر ہیئت دان پروفیسر ریگ ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ان سے ملاقات کی اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دعاوی اوردلائل وغیرہ ان کو سنائے جس پر پروفیسر صاحب نے حضرت اقدسؑ سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا ۔ چنانچہ12؍مئی 1908ء کو قبل ظہر ان کو شرف باریابی نصیب ہوا۔ پروفیسر صاحب نے دوران ملاقات حضورؑسے کئی سوالات کئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ528-529)
محترم کلیمنٹ ریگ صاحب 18؍ستمبر 1852ءمیں انگلستان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک لمبا عرصہ آسٹریلیا میں علم ہیئت کے شعبہ میں خدمات سر انجام دیں اور موسمی پیشگوئیوں کے شعبہ میں آپ نے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ انہیں Father of Modern Day Meteorology یعنی جدید موسمیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ آپ کے کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ اور اب تک مؤقر جرائد میں ان کے بارے میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آپ نے کئی رصد گاہیں(Observatories)پہاڑوںپرتعمیرکیں۔کلیمنٹ ریگ نے ہی پہلی بار سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کی روایت ڈالی ۔
ریٹائرمنٹ کے بعدآک لینڈ میں8-Awanui Street , Birkenheadپراپنا گھر بنایااورWairta Tropical Gardenنامی باغ بھی تیارکیاجس میں کئی قسم کے پھلدار درخت لگائےنیزوہاں ادرک اور ہلدی بھی کاشت کرتے تھے۔ آپ نے اپنا ذاتی موسمیات کا ادارہ بھی بنایا جس کا نام Wragge Institute and Museumتھا۔ کلیمنٹ ریگ 10؍دسمبر1922ء کوسترسال کی عمرمیں نیوزی لینڈ میں وفات پاگئے۔ آپ کی وفات کے بعد اس ادارہ کا سربراہ آپ کا بیٹا Kismet K Wraggeبنا۔ اور اسی نے اپنے والدین کی قبروں پر (جو اکٹھی ایک ہی احاطہ میں ہیں) پر کتبہ لگوایا تھا ۔
2006ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان ممالک کے دورہ پر تشریف لائے تو7مئی 2006ء کو نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں واقع ان کی قبر پر بھی دعا کے لیے تشریف لے گئے۔ان کی قبر Pompallierقبرستان کےایک حصہ Anglicanقبرستان کے بلاک Bکے پلاٹ نمبر 47میں ہے
(الفضل انٹرنیشنل 13؍مئی 2011ءصفحہ12 الفضل انٹرنیشنل30؍جون2006ءصفحہ 3)
(پروفیسرکلیمنٹ ریگ کے متعلق اسی شمارے میں الگ سے ایک مفصل مضمون شامل اشاعت ہے۔) الغرض حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پاس آپ کی زندگی میں کئی لوگ مغربی ممالک سے قادیان آئے جن میں سے بعض نےاس نور کو بھی قبول کیا جس کے ساتھ آپؑ مبعوث ہوئے تھے۔ان میں سے ہر ایک کا قادیان جیسی گم نام بستی میں اُس زمانے میں پہنچنا اپنی ذات میں معجزے سے کم نہیں۔
٭…٭…٭