سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل، گھانا)

’’… یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے …اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں‘‘

اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبیوں کی آمد کا سلسلہ دو غرض سے ہوا کرتا ہے ایک جانب تو وہ ایمان لانے والوں کے لیے بشارات لے کر آتے ہیںاور ان کا دور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی موسلا دھار بارش کا دور ہوا کرتا ہے تو دوسری طرف وہ اللہ کی طرف سے ان لوگوں کے لیے انذار اور اتمام حجت کا کام بھی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے دنیا کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھ بیٹھتے ہیں۔ان کی آمد سے دنیا ایک نئے رنگ میں آجاتی ہے، گویا ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے اورعام چلنے والے قوانین قدرت بھی خاص قوانین کے تابع ہوجاتے ہیں۔ ایسے خاص حالات میں نافرمان لوگ حرف غلط کی طرح مٹا دیے جاتے ہیں اور صرف وہی لوگ حقیقی نجات پاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مامورین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزارتے ہیں جو مومن بن کر قوت یقین میں ترقی کرتے ہیں ۔ صرف وہی لوگ خود کو محفوظ خیال کرسکتے ہیں جو امام وقت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر حوادث زمانہ سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ کی چاردیواری میں آجاتے ہیں کیونکہ اس سے باہر عافیت کا تصور بھی محال ہوا کرتا ہے۔ قرآن کریم نے اس اصول کو سمجھانے کے لیے ہمیں بہت سی مثالیں بھی دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کی مثال دیتا ہے تو کبھی عاد، ثمود اور قوم لوط کی تباہی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ کبھی تمام تر طاقت کے مالک فرعون کی غرقابی کا قصہ چھیڑتاہے تو کبھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے مخالفین کو یہ بتاتا ہے کہ اب نجات صرف اور صرف آپ کے وجود کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہے اور اس قلعہ سے باہر رہ کر امن ، سکون، سلامتی اور نجات کا خواب محض ایک خواب ہی ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔

جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ محفوظ ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَنْ عَادَلِیْ وَلِیًّافَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ(الحدیث)

جوشخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتاہے۔ اب دیکھ لوکہ متقی کی شان کس قدربلندہے اور اس کا پایہ کس قدرعالی ہے۔ جس کا قرب خداکی جناب میں ایساہے کہ اس کا ستایا جاناخدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدرمعاون ومددگارہوگا۔

لوگ بہت سے مصائب میں گرفتارہوتے ہیں ،لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتاہے۔ مصائب کی کوئی حد نہیں۔ انسان کا اپنااندراس قدرمصائب سے بھرا ہواہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزارہا مصائب کے پیدا کرنے کوکافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میںہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔’’

( ملفوظات جلد اوّل صفحہ10ایڈیشن1988ء)

دنیا کے جنگل میں موجود درندے

دنیا میں آج جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جائے نفسانفسی، دنیا طلبی اور مادہ پرستی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔دنیا میں آج زیادہ پیسے کے حصول کو کامیابی سمجھ لیا گیا ہے اور دنیاوی ترقیات کو زندگی کی معراج۔ اگر یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے حاصل ہوں تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں ورنہ یہ انسان کے لیے اسی دنیا میں جہنم کا ایندھن بنتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ بد عادتیں، شیطانی افعال اور تقویٰ کے برخلاف طور طریقے وہ درندے ہیں جو انسان کو عافیت کے حصار میں جانے سے پہلے ہی چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور انسان کو بچنے یا سنبھلنے کا موقعہ بھی نہیں ملتا۔دنیا کے جنگل میں موجود درندوں میں ہر وہ امر اور بری عادت اور گناہ شامل ہے جو ہمیں عافیت کے اس قلعے میں نہیں جانے دیتا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں ہماری حفاظت کے لیے بنایا ہے۔ شیطان کی طرف سے بچھایا گیا ہر ایک جال ہمیںامن و سلامتی کے راستے سے ہٹا کر ان درندوں کے منہ میں پھینکنے والا ہے ۔اگر ہم ان درندوں کو پہچانیںگے نہیں اور اپنے حقیقی دشمن کی شناخت نہیں کریں گے تو نجات کے حصن حصین اور عافیت کے حصار تک پہنچنا بھی ہرگز ہرگزممکن نہیں ہے۔آنحضرت ﷺ نے اسی مضمون کو نہایت خوبصورتی سے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ

فَانَّ الشَّیْطَانَ یَجْريْ مِن أحَدِکُم مَجْرَی االدَّمِ۔ قُلْنَا وَمِنْک؟ قَالَ وَمِنِّیْ ولَکِن اللّٰہَ أعَانَنِی عَلَیہ فأسْلَمَ۔

(سنن الترمذی،کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ الدخول علی المغیبات)

شیطان تو انسان کے خون میں دوڑتا پھرتا ہے، پوچھاکہ پھر آپ یا رسول اللہؐ ؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف میری مدد کی اور میرا شیطان مسلمان اور فرمانبردار ہوچکاہے۔

پس اگر ہم آج کے اس دجالی دور کے فتنوں اور ان زہروں اور خوفناک روحانی امراض کو نہیں جانیں گے جو ہمیں ہلاک کرسکتی ہیں تو نجات اور حفاظت ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ ایک معمولی سے وائرس سے بچائو کے لیے تو ہر ایک حیلہ اور وسیلہ اختیار کرلیتے ہیں لیکن روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے کوئی خاص توجہ اپنے اندر نہیں پاتے اور اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ ان زہرناک بیماریوں سے بے خبر ہیں جو دراصل ان کی ہلاکت کی وجہ بن سکتی ہیں۔

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

یہ تقویٰ جو انسان کو دنیا میں خدا تعالیٰ کاولی بنا دیتا ہے اوراس کا چہرہ دکھا دیتا ہے اس کا حصول کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ راہ جو تقویٰ کی منزلوں کی طرف لے کر جاتی ہے بہت باریک اور تنگ راہ ہے لیکن چلنے والوں کے لیے آسان کردی جاتی ہے جیسا کہ

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

دلبر کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے

بہت سے لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان کردیا کہ میرا وجود عافیت کا حصار ہے تو گویا اس مضمون میں ہر اس شخص کی حفاظت کی ضمانت دے دی ہے جو آپ پر ایمان لے آتا ہے خواہ وہ خود ان درندوں سے بچنے کے لیے کوئی بھی کوشش اور جدو جہد نہ کرے۔ یہ خیال ہرگز درست نہیں کیونکہ حضور ؑنے اپنی بے شمار تحریرات اور فرمودات میں اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کچھ نہیں جب تک ہم آپ کے اسوہ اور تعلیم کے مطابق خود کو دنیا کے جنگل میں موجود درندوں سے محفوظ نہ کرلیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّیۡ اُحَافِظُ کُلَّ مَنۡ فِی الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں…۔’’

( کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 10)

تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘مجھے بہت سوزو گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو۔ جو نقشہ اپنی جماعت کی تبدیلی کامیرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ۔(الشعراء:4) مَیں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لیے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔ ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیحؑ کی وفات حیات پر جھگڑے اور مباحثہ کرتے پھرو۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے۔ یہ تو ایک غلطی تھی، جس کی ہم نے اصلاح کر دی، لیکن ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دُورہے اور وُہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیداکرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جائو، اس لیے ہر ایک کوتم میں سے ضروری ہے کہ وُہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں اور ہوں۔’’

( ملفوظات جلد اول صفحہ351-352)

گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ انؔ سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا۔ دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجزوعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سےاور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرّ ف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہّد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص اموؔر معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی،فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔’’

( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19، صفحہ 18-19)

بیماری کی شناخت سے علاج آسان ہوجاتا ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا تعلیم میں دنیا میں موجود تقریباً تمام روحانی زہرناک بیماریوں کا تذکرہ فرما دیا ہے ۔ ان کی ایک پہچان اور خلاصہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اوریہ انسانی تجربہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی ہلاکت خیز بیماری پھیلتی ہے تو اس کے علاج کی پہلی شرط اس بیماری کو پھیلانے والے امور کی شناخت ہوا کرتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مرض پھیلانے کا سبب کون سا وائرس ہے تو اس کے خلاف مدافعتی نظام بنانا بھی آسان ہوجاتا ہے اور اس سے بچائو کے ذرائع بھی سوچے جاسکتے ہیں۔ پس یہ امور جنہیں حضور نے ‘‘تعلیم ’’ کے نام سے اپنی کتاب کشتی نوح کا حصہ بنایا ہے اور جن کو مان کر اور جن پر عمل کرکے ہم آپ کی پیروی کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہیںبہت ہی واضح ہیں اور درحقیقت ہمیں عافیت کے اس حصار میں لے کر جانے والے ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پھیلنے والی شدید طاعون ہو یا آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے 1918سے 1920تک پھیلنے والا تاریخ کا مہلک ترین انفلوئینزا جس میں مختلف اندازوںکے مطابق پانچ سے دس کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے،SARSکی تباہ کاریاں ہوں، افریقہ میں چند سال قبل پھیلنے والا ایبولا وائرس ہو یا اس وقت دنیا بھر کو خوفزدہ کرنے والا COVID-19یہ تمام وبائیں اور تباہ کاریاں اگر ہمیشہ عذاب کے طور پر نہ بھی آئیں تب بھی بنی نوع انسان کے لیے ان میں بہت سے سبق اور اشارے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد تو نمایاں شدت آچکی ہے۔ یہ وبائیں بنی نوع انسان کے لیے پیغام لے کر آتی ہیں کہ جس طرح تم دنیاوی معاملات میںقوانین قدرت کی معمولی سی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے تکلیف میں پڑ جاتے ہو بالکل ایسے ہی دینی معاملات میں بھی اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل میں ہی نجات ہے اور بھلائی ہے۔

جس طرح تمام دنیا ا ن معمولی وائرس اور جراثیموں کے خلاف متحد ہوکر پوری کوشش سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مستعد اور تیار کھڑی ہو جاتی ہے، خدارا اپنی ان روحانی بیماریوں کی بھی فکر کرو جو نہ صرف اس دنیا بلکہ دونوں جہانوں میں انسان کو عذاب میں ڈالنے والی ہیں۔کیا چند سال کی یہ زندگی کسی بھی اعتبار سے ایک لامتناہی اور لامحدود زندگی پر مقدم ہو سکتی ہے۔

جس طرح اس معمولی وائرس کے نقصان سے بچنے کے لیے ظاہری صفائی کی تلقین کی جاتی ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں اور جسم کو صاف رکھو بالکل اسی طرح روح کی بیماریوں سے بچنے کی غرض سے روحانی صفائی اور طہارت کی ضرورت ہے جو انسانوںکو ہلاکت کی راہوں سے بچا سکتی ہے۔

جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں

دل کو جو دھوئے وہی ہے پاک نزد کردگار

جس طرح ان وبائوں کے ایام میںہر شخص ان لوگوں سے دور رہنا پسند کرتا ہے جو بیماری کا شکار ہوچکے ہوں یا جن کے متعلق بیماری کا شائبہ بھی ہو ، یہاں تک کہ دنیا کے بعض ممالک میں تو اس حوالے سے غیر معمولی جذبات بھی دیکھنے میں آتے ہیں بالکل اسی طرح روحانی طور پر بیمار لوگوں سے بچنا بھی لازم ہے تاکہ ان کی صحبت کہیں باقیوں کی ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔

جس طرح ان بیماریوں سے بچنے کے لیے انسان اپنے منہ،جسم اور دیگر اعضاء کو ڈھانپ رہا ہے، کیا روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی یہ ایک اچھا اور موثر طریق نہیں ہے ؟

جس طرح ان آفتوںسے بچنے کے لیے شہروں اور ملکوں کے راستے بند کیے جا رہے ہیں کیا روحانی امراض سے بچائو کے بھی ہر اس راستے کو بند کرنا ضروری نہیں ہے جو ہمیں روحانی ہلاکت کی جانب لے کر جاسکتا ہے؟

جس طرح ان ایام میں معمولی نزلہ زکام اور کھانسی بھی فکر مند کردیتی ہے کہ کہیں یہ وبائی مرض کی شروعات نہ ہو بالکل اسی طرح دن رات اپنی روحانی حالتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے اور کسی معمولی سی روحانی کمزوری کی علامت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے مبادا وہ کسی بڑی ہلاکت کا پیش خیمہ بن جائے۔

غرضیکہ یہ اور ایسی ہی بہت سی احتیاطی تدابیر انسان اپنے اس فانی جسم کی حفاظت کے لیے اختیار کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اپنی روحانی حالتوں سے بے خبر رہتے ہوئے اپنی عاقبت تباہ و برباد کر بیٹھتا ہے۔ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی امن اور سلامتی صرف اور صرف خداتعالیٰ کی طرف سے میسر آسکتی ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ اسلامی اور قرآنی تعلیم ہی ہے جو ہمیں حقیقی عافیت کے حصار میں لا سکتی ہے کیونکہ اس سے باہر تو کوئی بھی خود کو محفوظ خیال نہیں کر سکتا۔

ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘ ہر احمدی جانتا ہے کہ یہ آسمانی اور زمینی آفات جو دنیا میں آرہی ہیں اور ہو رہی ہیںمسیح موعود کی تائید میں ہیں۔ کاش کہ دنیا اس کو سمجھ جائے ۔یہ عذاب جو دنیا میں آتے ہیں یہ ہمیں بےچین بھی کردیتے ہیں کہ اگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے اشاروں کو نہ سمجھا تو بڑی تباہی بھی آسکتی ہے۔اور اس بے چینی میں پھر ہمارا رُخ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف ہوتا ہے ۔ اپنے اللہ کی طرف ہوتا ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے پیاروں کو مبعوث فرماتا ہے۔دنیا کو بچانے کے لئے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے۔’’

( خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اکتوبر2010ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍اکتوبر2010ءصفحہ6)

میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں

گذشتہ ایک صدی سے جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک مامور کو دنیا میں بھیجا ہے دنیا کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے ان آفتوں اور طوفانوں میں بھی شدت آتی چلی جارہی ہے اور اگر دنیا اپنے خدا کی طرف اور اس کی بیان کردہ تعلیمات کی جانب واپس نہ آئی تو یہ طوفان شدید سے شدید تر بھی ہوسکتے ہیںجن سے امن میں رہنااللہ تعالیٰ کے رحم کے سوا کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوںسُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔’’(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 269)

کیا گذشتہ ایک صدی میں دنیا بھر میں آنے والے سینکڑوں زلزلے، بیسیوں تباہ کن طوفان اور تاریخی سونامی، بیماریوں اور آفتوں کی یلغار جنہوں نے بسا اوقات دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لاکھوں کا صفایا کر ڈالا، جنگ عظیم اوّل اور دوم کی تباہ کاریاں اور اس کے نتیجے میں روتی بلکتی انسانیت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس انذار کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے؟

نفس کا جہاد ضروری ہے

دنیا بھر میں جیسے جیسے مادہ پرستی بڑھتی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ کی توحید کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا جا رہا ہے۔ روزمرہ آنے والی نت نئی ایجادات انسان کو اس تکبر میں مبتلا کردیتی ہیں کہ گویا وہ قادر مطلق بن چکا ہے لیکن پھرہر چند سال بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا کوئی امتحان یہ ثابت کردیتا ہے کہ انسانی ترقیات اور سائنسی کمالات بسا اوقات ایک نئے وائرس، ایک نئے زلزلہ، ایک نئے طوفان یا ایک نئے حادثے کے مقابل پر بے بس ہو جاتے ہیں اور ان مواقع پر اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو وہ اپنے مطیع اور فرمانبردار بندوں کو عطا کرتا ہے اور جس کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ اور امام وقت کی اطاعت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس غضب سے بچنے اور عافیت کے حصار میں آنے کے لیے اپنی اصلاح اور نفس کا جہاد کس قدر ضروری ہے اس کا ذکر فرماتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘… یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں د اخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی۔ اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں۔ آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعائوں سے ہونی ہے اور دعائوں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔’’

( خطبہ جمعہ فرمودہ6؍مارچ2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍مارچ2009ءصفحہ6)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button