حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و لسلام کے اردو زبان پر احسانات
’’…جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘
اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں اگرچہ مختلف آرا پائی جاتی ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کی سرزمیں اکثر بیرونی اقوام کا مرجع رہی ہے۔ تفاصیل سے قطع نظر، یہ بات یقینی ہے کہ مقامی زبانوں نے ہندوستان میں آکر آباد ہونے والی بیرونی اقوام کی زبانوں سے مل کر اردو کو جنم دیا ہے۔ چودھویں صدی عیسوی میں امیر خسرو جیسے تخلیق کار نے اردو کے اس شیرخوار بچے کو بولنا سکھایا۔ اس ابتدائی زبان کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
غزل کا مطلع:
ز حالِ مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اےجاں! نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
ناخن کی پہیلی:
بیسیوں کا سرکاٹ لیا نہ مارا نہ خون کیا
دو سخنے:
گوشت کیوں نہ کھایا، ڈوم کیوں نہ گایا گلا نہ تھا
جوتا کیوں نہ پہنا، سنبوسہ کیوں نہ کھایا تلا نہ تھا
اس زمانے میں فارسی کا دور دورہ تھا۔ بعض لوگ گاہے ماہے اردو میں بھی طبع آزمائی کر لیتے تھے تاہم اردو کو اعلیٰ مضامین کے اظہار کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر سترھویں صدی میں ولؔی ایک ایسا شاعر ہوا جس نے اردو زبان کے اس ننھے سے بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ اب اردو اس قابل سمجھی جانے لگی کہ اس میں اعلیٰ مضامین بیان کیے جا سکیں اور ولؔی کی پیروی میں بہت سے صاحبِ طبع اردو دیوان بنانے پر کمربستہ ہوگئے۔ ولؔی کے چند اشعار پیش ہیں جن سے ان کے کلام کی سلاست اور خوبی کا اندازہ ہوسکتا ہے:
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
جلوہ پیرا ہو شاہدِ معنیٰ
جب زباں سوں اٹھے نقابِ سخن
گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے
جس نے دیکھا ہے آب و تابِ سخن
ہے تری بات اے نزاکت فہم!
لوحِ دیباچۂ کتابِ سخن
اس کے بعد اردو تیزی سے نشوونما پاتی گئی اور چونکہ اس کے مزاج میں ایک لطافت اور شائستگی تھی اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ، جو اردو کے ہم مزاج نہیں تھے، متروک ہوتے گئے۔ اردونے اپنا سفر طے کرتے ہوئے جب اسد اللہ خاں غالؔب کے زمانے میں قدم رکھا تو ابلاغ کے لحاظ سے گویا اپنے بامِ عروج پر پہنچ گئی تھی۔
نبی کی آمد کے ساتھ انتشارِ روحانیت
نبی کی آمد کے وقت آسمان میں ایک انبساط کی صورت پیدا ہوجاتی ہےاور جس میں جو استعداد ہو وہ انتشارِ روحانیت کی وجہ سے اپنے معراج کو پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ نبی کی بعثت کے زمانے میں اس کی قوم کی زبان بھی درجہ کمال کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہر نبی اپنی قوم کی زبان میں ہی پیغام لے کر آتا ہے اور نبی کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ پیغام کو کھول کر قوم کے سامنے رکھے۔ اگر زبان میں اظہار و ابلاغ کی پوری صلاحیت ہی نہ ہو تو نبی اپنا فرض کیونکر ادا کر سکتا ہے۔دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ساتھ اس کی زبان میں بکثرت مکالمہ ومخاطبہ کرتا ہے۔ چنانچہ کلام اللہ کا جلال اور شان بھی فصیح وبلیغ زبان کو چاہتی ہے۔
جب نبی کی بعثت ہی انتشارِ روحانیت کا موجب ہے جس کے نتیجے میں استعدادیں اپنا زور دکھاتی ہیں تو یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے قریب زمانے میں اُردو زبان میں جو غالؔب، ذوقؔ اور مومؔن وغیرہ نے جوہر دکھائے وہ بھی اسی انتشارِ روحانیت کا نتیجہ تھے اور اس لحاظ سے یقیناً یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کا بالواسطہ فیض تھا جس سے اُردو زبان بہرہ ور ہوئی۔
اشاعتِ اسلام کا اہم ذریعہ اردو زبان
آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ تکمیل اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ابلاغ کے ایسے ذرائع مہیا فرمائے ہیں جو پہلے وقتوں میں نہیں پائے جاتے تھے۔ ان ذرائع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اردو زبان کو بھی شامل فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اردو ملکِ ہند میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان بن گئی ہے۔
(تحفۂ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 262تا263)
جدید ہندی اور اُردو میں ماسوائے بعض الفاظ کے کوئی فرق نہیں۔جملوں کی ترکیب اور ساخت ایک جیسی ہے۔آج ہندی زبان دنیا کی تیسری اور اردو گیارھویں بڑی زبان ہے۔اور ایک ارب کے قریب لوگ یہ مشترکہ زبان سمجھتے ہیں اوریہ لوگ کرۂ ارض کے تقریباً ہر حصے اور ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ زبان بلاشبہ اشاعتِ ہدایت کا ذریعہ بن گئی ہے۔
اسلام کی صحیح تشریح کا ماخذ…اردو
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی قوم کی زبان اُردو تھی اس لیے آپ نے اردو ہی میں اپنا پیغام قوم کے سامنے پیش فرمایا۔ عربی چونکہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی زبان تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بطور معجزہ عربی زبان بھی سکھائی جس میں آپؑ نے بیس سے زائد کتب تحریر فرمائیں، لیکن آپ کی ساٹھ سے زیادہ کتابیں اُردو ہی میں ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے اشتہارات، مکتوبات اور ملفوظات کو بھی سامنے رکھیں تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں اسلام کی صحیح تشریح کا اصل ماخذ اُردو زبان ہی ہے جس میں آپ نے تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کا فریضہ سرانجام دیا۔ اب قیامت تک یہ کلام اردو ہی سے دیگر اقوامِ عالم تک پہنچتا رہے گا۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
‘‘اردو پڑھنا سیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔’’
(الفضل انٹرنیشنل 8؍فروری 2013ء)
در کلامے تو چیزیست…
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقانیتِ اسلام کے لیے ساری زندگی قلمی جہاد میں مصروف رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ‘‘سلطان القلم’’ کے خطاب سے نوازا۔ اسی طرح ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مخاطَب کرکے فرمایا کہ ‘‘در کلامِ تو چیزیست کہ شعراء را در آں دخلے نیست’’یعنی تمہارے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شعراء کو کوئی دخل نہیں۔ اللہ کا الہام اپنے اندر دقیق معانی اور لطیف معارف سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کی شاعری میں ایسی چیز ہے بلکہ فرمایا کہ آپ کے کلام میں کوئی غیرمعمولی خوبی ہے۔ کلام میں نظم ونثر دونوں آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی نظم ونثر دونوں میں یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ہے اور آپ کی تحریر میں ایک عجیب کشش ، جذب اور تاثیر ہے جو کسی اور کے کلام میں نظر نہیں آتی۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو انسان محسوس تو کر سکتا ہے لیکن الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اسے کوئی تعبیر یا نام دے کر محدود کرنے کی بجائے‘‘چیزیست’’ یعنی کوئی چیز ہے کہہ کر کھلا چھوڑ دیا ہے۔ پھر الہام کے دوسرے حصے میں ‘‘شعراء را در آں دخلے نیست’’ فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شعر حسن وخوبی اور لطافتِ بیان میں نثر کی نسبت اعلیٰ درجہ پر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ الہام کے منطوق میں نہیں مگر مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ تیرے کلام میں، چاہے وہ نظم ہو یا نثر، ایسی خوبی پائی جاتی ہے کہ نثرنگاران تو دور کی بات ہے شعرا ء کو بھی حاصل نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےکلام کا امتیاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کا امتیاز یہ ہے کہ یہ خاص تائید الٰہی سے لکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زبان کا کامل اور حقیقی علم تو صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو ۔’’
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ464)
تو کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص، جس نے اپنی کوشش سے زبان سیکھی ہو، ایسے شخص سے بڑھ جائے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود زبان اور انشاپردازی پر قدرت عطا کی ہو! ہرگز نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘مَیں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجازنمائی کو انشاپردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔’’
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ462)
اسی طرح فرمایا:
‘‘ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاپردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف وحقائقِ قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔’’
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ465)
آپ کے کلام کی بعض خصوصیات
یہ بہت وسیع موضوع ہے جس کو یہاں بیان کرنا ناممکن ہے۔ کتاب ‘‘ادب المسیح’’ اور ‘‘درثمین فارسی کے محاسن’’میں اس موضوع کا کسی قدر احاطہ کیا گیا ہے اور آئندہ بھی اس پر کام ہوتا رہے گا۔تاہم یہاں چند باتیں عرض ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام (نظم ونثر) تکلّف سے پاک ہے۔آپ نے ہمیشہ کسی مقصد کے تحت قلم اٹھایا۔ ناول نگاروں یا عام شعرا ءکی طرح بیٹھ کر تکلف سے کوئی مضمون بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جب بھی اسلام وبانیٔ اسلام ؐ کے دفاع اور قرآنی معارف وحقائق بیان کرنے کی ضرورت پیش آئی یا اپنے دعوے کی صداقت کے دلائل اور تائیداتِ الٰہیہ سے دنیا کو آگاہ کرنا منظور ہوا یا جماعت کی تعلیم وتربیت اور نظامِ جماعت کے قیام وانصرام کی حاجت محسوس ہوئی تب آپ نے قلم اُٹھایا۔اور یہ سب ایسے کام تھے جن سے آپ کو بحیثیت مامور من اللہ ہمہ وقت واسطہ رہا۔ اسی لیے آپ کا قلم براہین احمدیہ بلکہ اس سے بھی پہلے کے زمانے سے لے کر آخری دن تک چلتا رہا اور اردو ادب میں ایک ایسا خزانہ چھوڑ گیا جو قیامت تک طلابِ علم وادب کی جھولیاں بھرتا رہے گا۔
آپ اپنی اردو تحریرات کے دوران برجستہ چھوٹی بڑی نظمیں اور اشعاربھی رقم فرماتے جاتے۔ یہ نظمیں اور اشعار اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔(عربی کتب وعربی قصائد الگ ہیں، ان کا یہاں ذکر مقصود نہیں) دراصل اردو ادب میں فارسی کا بطور خاص بہت دخل ہے۔ اردو کے ہر بڑے ادیب وقلمکار کی تحریرات میں آپ کو فارسی اشعار اور ضرب الامثال ضرور ملیں گی۔ نیز بیشتر اردو اساتذہ شعرا ء اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی کلام کہہ لیا کرتے تھے۔ اس لیے فارسی کلام کو اردو کا حصہ ہی سمجھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں ہندوستان میں فارسی کا اچھا خاصا اثر باقی تھا ۔اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اگرچہ فارسی میں کوئی کتاب تحریر نہیں کی لیکن اپنی چند کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ضرور کروایا۔
آپ کے کلام میں ایسی جامعیت اور وسعت ہے جو انسانی طاقت سے بالا تر ہے۔ پرانی تحریریں اور براہین احمدیہ پڑھیں تو تحریر کا انداز انتہائی عالمانہ اور منطق وفلسفہ کی اصطلاحوں سے پُر نظر آتا ہے ۔لیکن اگر اسلامی اصول کی فلاسفی اور پیغامِ صلح وغیرہ پڑھیں تو انداز بالکل جدا اور انتہائی عام فہم دکھائی دیتا ہے، مگر ہرجگہ وہی تاثیر اور ویسا ہی سحر ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انشاپردازی تعلیم الٰہی سے ہےاس لیے اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اردو زبان کل کو عالمی زبان بننے والی ہے اس لیے آپؑ نے الٰہی قدرت وتصرف سے ایسی زبان تحریر کی ہے جس سے آئندہ مختلف قومیں سند حاصل کریں گی۔ مثلاً کہیں کہیں آپ نے انگریزی یا پنجابی الفاظ استعمال فرمائے اور بعض جگہ تذکیروتانیث میں تصرف فرمایا وغیرہ۔ لیکن یہ تصرفات عدم علم کی بنا پر نہیں تھے بلکہ بلاغت کی اغراض اور زبان کی وسعت کے پیش نظر کیے گئے تھے جو آئندہ اردو زبان کے اصول وضوابط طے کریں گے۔
آپ کے موضوعاتِ کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات ومنظومات میں عشقِ الٰہی، اسلام کی حقانیت کے دلائل، اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی صداقت اور آپؐ سے غیرمعمولی محبت کا اظہار، قرآن کریم کی عظمت وشان اور اس سے آپ کا عشق، معارف وحقائق قرآنیہ،اصلاحِ افکارِخاطئہ وتردیدِعقائدِ باطلہ، دعوت وتبلیغِ ہدایت، اصلاحِ اعمال وحصولِ عرفانِ الٰہی کے ذرائع، ہمدردیٔ خلق واخلاقِ فاضلہ کی ضرورت، بین المذاہب معاملات وقیامِ امن کے طریق، ہرطبقہ بشمول حکومت ورعایا کے حقوق و واجبات وغیرہ مضامین شامل ہیں۔ غرض اس زمانے کی ضرورت کا کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر آپ کے کلام سے اصولی یا تفصیلی رہ نمائی نہ ملتی ہو۔ اور یہ سب سرمایہ ہمیں اردو زبان میں میسر ہے۔ یہی وہ خزائن ہیں جن کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ موعود خزانے لٹائے گا یہاں تک کہ لینے والے نہ ملیں گے۔ ان علوم ومعارف کی بدولت اُردو زبان کا شملہ دنیا کی زبانوں میں ہمیشہ اونچا رہے گا۔
آپ کا نمونۂ کلام
یوں تو آپ کی کتب اور منظومات پڑھ کر ہی آپ کے کلام کی شان اور خوبی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔تاہم اگر مختلف موضوعات پر آپ کی تحریریں پڑھنی ہوں تو ‘‘مرزا غلام احمد ؑ اپنی تحریرات کی رو سے’’ ایک بہترین کتاب ہے۔ بہرحال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بطور نمونہ آپ کے کلام سےایک تحریر اور چند اشعار پیش کر دیے جائیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور علم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں۔ میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ مَیں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔ میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہؤا اور بےبہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدَر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا چاندی ہے۔ وہ ہیرا کیا ہے؟ سچّا خدا۔ اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اُس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اُس سے پانا۔ پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں۔ یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا۔ میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے۔ ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامنِ استعداد پُر ہو جائیں۔
(اربعین1، روحانی خزائن جلد17صفحہ344تا345)
اگر دِل میں تمہارے شر نہیں ہے
تو پھر کیوں ظنِّ بد سے ڈر نہیں ہے
وہی کرتا ہے ظنِّ بد بلا رَیب
کہ جو رکھتا ہے پَردہ میں وہی عیب
اگر عُشّاق کا ہو پاک دامن
یقیں سمجھو کہ ہے تریاق دامن
مگر مُشکل یہی ہے درمیاں میں
کہ گُل بے خار کم ہیں بوستاں میں
تمہیں یہ بھی سناؤں اس بیاں میں
کہ عاشق کِس کو کہتے ہیں جہاں میں
وہ عاشِق ہے کہ جس کو حسبِ تقدیر
محبت کی کماں سے آ لگا تِیر
نہ شہوت ہے نہ ہے کچھ نفس کا جوش
ہوا اُلفت کے پیمانوں سے مدہوش
لگی سینہ میں اُس کے آگ غم کی
نہیں اس کو خبر کچھ پیچ و خم کی
غیروں کے اعترافات
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم ایک عقیدت مند کی نظر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی توصیف وتعریف میں رطب اللسان ہیں لیکن حق یہ ہے کہ اگر تعصب کی عینک اتار کر غیرجانبداری سے کوئی بھی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو دیکھے تو وہ اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا کہ یہ غیرمعمولی کلام ہے جس کو کسی کی تعریف کی حاجت نہیں۔ ع
حاجتِ مشّاطہ نیست روئے دل آرام را
عربی میں کہتے ہیں کہ ‘‘والفضل ما شہدت بہ الاعداء’’کہ فضلیت تو وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔
اردو ادب کے بعض بڑے بڑے ادیبوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی فضیلت اور خوبی پرمنصفانہ گواہی دی ہے۔ ایسے ہی ادیبوں میں ایک بڑا نام جناب ابوالکلام آزاد کا ہے جن کا طوطی پورے ہندوستان میں بولتا تھا اور ہر اخبار اور رسالہ ان کے مضامین کو سرفہرست جگہ دیتا تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آپؑ کے بارے میں اپنے اخبار وکیل میں لکھا:
‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص، جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو، وہ شخص جو دماغی عجائبات کامجسمہ تھا،جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں، وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدارکرتا رہا… دنیا سے اُٹھ گیا… ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھاجاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نےان کے بعض دعاوی اوربعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ وہ ان کا ایک بڑاشخص ان سے جدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو ان کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ ان کی یہ خصوصیات کہ وہ اسلامک مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے… مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حا صل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدرومنزلت آج جب کہ وہ اپنا فرض پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے… آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔ (اخبار وکیل امرتسر 30؍مئی 1908ء)
اقبال نے حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی لکھا تھا کہ
‘‘آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں۔’’
(انڈین انکوائری جلد 29ستمبر 1900ء صفحہ237 بحوالہ الفرقان جون 1955ء)
مرزا حیرت دہلوی ایڈیٹر اخبار ‘‘کرزن گزٹ’’ دہلی لکھتے ہیں:
‘‘مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اورایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا…اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں…اس کا پُرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہوکر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔’’
(اخبار ‘‘کرزن گزٹ’’ دہلی یکم جون 1908ء)
آپ کی جماعت کی مذہبی زبان
آنحضرت ﷺ کی زبان عربی تھی اور عربی ہی میں آپ نے پیغام الٰہی اپنی قوم کو پہنچایا۔ آج اگرچہ قرآن وحدیث کے تراجم دنیا کی بہت سی زبانوں میں ملتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جیسے جیسے اسلام کا پیغام دیگر اقوام تک پہنچا اور انہوں نے اسے قبول کیا ویسے ویسے دیگر اقوام بھی عربی زبان سیکھتی گئیں اور آج تقریباً ساری قوموں میں مسلمان صرف اس لیے عربی زبان سیکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے کلام کو خود سمجھ سکیں۔ اسی طرح آج خلافت کے زیر سایہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام، جو کہ دراصل اسلام ہی کا صحیح پیغام اور اس کی تشریح ہے، دنیا کی تمام قوموں تک پہنچ رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہوتا جائے گا، انشاء اللہ۔ آج افریقہ، انڈونیشیا، ملائشیا، عرب ممالک، یہاں تک کہ بعض انگریز اور دیگر اقوام کے لوگ بھی صرف اس لیے اُردو زبان سیکھ رہے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کا کلام سمجھ اور پڑھ سکیں اور ان معارف سے اپنے سینے منور کر سکیں۔
حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں:
‘‘میں سمجھتا ہوں ایک اور چیز بھی ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہیے اور وہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں جو لوگ احمدی ہوں گے وہ اردو زبان بھی سیکھیں گے۔ اس لیے اشاعت احمدیت سے اردو زبان کو بھی بہت زیادہ تقویت پہنچے گی۔ انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہے۔ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ان میں سے بعض نے اردو زبان سیکھی اور پھر بعض نے اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بھیجا۔ مشرقی افریقہ میں اردو جاننے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو احمدی ہیں۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اردو زبان کے بہت ہی مخالف تھے۔ ایک دوست ابوالہاشم صاحب تھے، انہیں احمدی ہونے سے قبل صرف احمدیت سے ہی نفرت نہیں تھی بلکہ وہ اردو زبان کو بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے لیےبڑھاپے میں اردو زبان سیکھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی سکھائی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھی بعض دوست آئے ہیں اور انہوں نے اردو زبان سیکھی۔ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ سے آئے اور انھوں نے اردو زبان سیکھی اور مسٹر کنرے جرمنی سے آئے ہیں، وہ بھی اردو سیکھیں گے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان پھیلتی جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس جائیں گے اور چونکہ ان میں دوسری زبان سیکھنے کا بہت شوق ہے اس لیے یہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اردو سکھائیں گے اور یہ چیز اردو زبان کی ترقی کا موجب ہو گی۔
(انوار العلوم جلد 21صفحہ70تا71)
٭…٭…٭
ماشااللہ بہت ہی اعلی مضمون ہے۔کاپی پیسٹ کی بجائے خود بیان کیا ہے اور گاہے گاہے اچھی مثالیں پیش کی ہیں ۔جزاک اللہ و احسن الجزاء