صحابۂ رسولﷺ اور اصحاب احمدؑ میں مماثلت
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
سیدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق چودہویں صدی ہجری میں آپ کے روحانی فرزنداور عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مجدداورمسیح ومہدی بن کر مبعوث ہوئے۔جن کا مقصدسورۃ الجمعۃ کی آیت3کے مطابق دینِ اسلام کا احیاء تھا۔ آپ نے ‘‘آخرین’’کے مصداق اپنے اصحاب کو صحابہ رسولؐ سے مماثلت دیتےہوئے فرمایا:
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
سورۃ الجمعہ کی تفسیر نبویؐ
سورۃ الجمعہ کی آیت4 وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یلْحَقُوْا بِهِمْ۔ (یعنی (صحابہ)میں سے دوسرے لوگ(بھی)ہیں جو ابھی ان(صحابہ) سے نہیں ملے۔)کی رسول کریم ﷺ کی بیان فرمودہ تفسیرحضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپﷺ پر سورة جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نےوَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کی تلاوت فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ بعض دوسرے لوگوں میں بھی آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمائے گا جن کو آپ پھر کتاب و حکمت سکھائیں گے اور پاک کریں گےاورجن کا زمانہ صحابہ کے بعد ہے۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسولؐ! یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس سائل نے دو تین مرتبہ یہ بات پوچھی۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ہمارے درمیان سلمان فارسیؓ موجود تھے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمانؓ پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں یعنی قوم سلمانؓ میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے آئیں گے۔ (اور قائم کریں گے) بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک مرد یا کچھ لوگ ایمان کو واپس لائیں گے۔
(بخاری کتاب التفسیر سورة جمعةومسلم کتاب الفضائل باب فضل فارس)
سورۂ جمعہ میں مذکور صحابۂ رسولؐ کے مشابہ جماعت کی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:
‘‘اللہ جلّ شانہٗ ان کے حق میں فرماتا ہے کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والے خالص اور کامل بندے ہوں گے جو اپنے کمال ایمان اور کمال اخلاق اور کمال صدق اور کمال استقامت اور کمال ثابت قدمی اور کمال معرفت اور کمال خدادانی کے رو سے صحابہ کے ہم رنگ ہوں گے۔’’
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ213)
ناجی فرقہ
رسول کریمﷺ نےاپنی آخری زمانہ میں امت کی گمراہی اورانتشار کے نتیجہ میں 73فرقوں میں بٹ جانے پر ایک ناجی فرقہ کی بھی خبردی۔ جس کی ایک علامت یہ بیان فرمائی کہ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْکہ وہ لوگ میرے اور میرے صحابہ کے نمونہ اور نقش قدم پر چلنے والےہوں گے۔
(ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامة)
ایک اَور حدیث میں رسول کریمﷺنےناجی فرقہ کی نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ ایک متحد جماعت ہوں گے اوراپنی امت کو یہ نصیحت فرمائی کہ:‘‘تَلْزِمْ جَمَاعَۃُالمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامُھُمْ’’کہ مسلمانوں کی اس جماعت میں شامل ہونا جس کا ایک امام موجود ہو اور اگر کوئی ایسی جماعت نہ ملےتو فرقوں سے کنارہ کش رہنا خواہ درخت کی جڑیں کھا کر گزارہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے موت آجائے۔’’
(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام)
پھر اس امام سے وابستہ ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ فرقہ واریت اور گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کے زمانہ میں
‘‘فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللّٰهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزَمْهُ ’’
اگر تم خدا کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جانا خواہ تجھے مارا جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے۔
(مسند احمد جلد 5 صفحہ 403 دارالفکر العربی۔ بیروت)
ملت اسلامیہ گذشتہ ایک صدی سےانتشار کا شکار ہوکر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہی ہے ۔ حضرت مرزا صاحب اورآپ کی جماعت پر اس کے آغاز میں متحدہ ہندوستان میں اسی طرح کفر کے فتوے لگائے گئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو‘‘صابی’’ اور‘‘بے دین’’ کہا گیا۔تقسیم ملک کے بعد1974ء میں پاکستان کےتمام فرقوں نے مل کر متفقہ طور پر جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیّت قرار دیا اور یوں جماعت احمدیہ کو اپنے سے الگ کر کےوہی موعود نجات یافتہ جماعت ثابت کردیا۔بایں ہمہ صحابہ والی سب نیک اقدار اور اعلیٰ اخلاق بھی اس فرقہ میں من حیث الجماعت موجود ہیں جس کے غیر بھی معترف ہیں کہ آج روئے زمین پر ہر پہلو سے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سیرت کاٹھیٹھ اسلامی نمونہ اور اسوہ زندہ کرنے والی یہی ایک جماعت ہے۔ وہی جماعت جسےصحابہ رسولؐ کی طرح آج بھی کلمہ ، اذان، تبلیغ اور حج وغیرہ سے اسی طرح روکا جارہاہے۔اوریہ جماعت صحابہٴ رسول کی طرح مظلومیت کےجھومرسجائے،صبرو رضا کا شیوہ اپنائے، ایک امام سے وابستہ ہے ۔
اصحاب بدر سے مناسبت
پس صحابۂ رسولﷺاور حضرت مرزا صاحبؑ کے اصحاب کی واضح مماثلت ظاہر وباہر ہے۔خود آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ
‘‘یَخْرُجُ الْمَھْدِیُّ مِنْ قَرْیَۃٍیُقَالُ لَھَاکَدَعَہْ یُصَدِّقُہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَیَجْمَعُ اَصْحَابَہُ مِنْ اَقْصَی الْبِلَادِعَلٰی عِدَّۃِاَھْلِ بَدْرٍ بِثَلَاثِ مِائَۃٍوَّثَلَاثَۃَعَشَرَ رَجُلاًوَمَعَہٗ صَحِیْفَۃٌمَخْتُوْمَۃٌفِیْھَاعَدَدُاَصْحَابِہِ بِاَسْمَائِھِمْ وَبِلَادِھِمْ وَخِلَالِھِمْ’’
(جواہر الاسرار از شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی۔ بحارالانوارجلد53صفحہ310داراحیاءالتراث)
یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام قادیان سےمعرب ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا۔ یعنی تین سو تیرہ 313ہوں گے۔ اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔
ارشاد رسولؐ کے اس زمانہ میں پورا ہونے کے بارے میں خودحضرت بانی جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں:
‘‘اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں۔ لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سوتیرہ 313نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارہ اتمام حجت کے لئے تین سوتیرہ313 نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی۔ اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔’’
(ضمیمہ رسالہ انجا م آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ 324تا325)
چنانچہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف نے بھی اس پہلو سےبھی حضرت بانی جماعت احمدیہؑ کی تصدیق فرمائی کہ رسول اللہﷺکی پیشگوئی کے مطابق آپ کے ساتھ 313 اصحاب موجود ہیں جو آپ کی سچائی کی نشانی ہے۔
(اشارات فریدی جلد3صفحہ70مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ1320ھ)
دونوں دورکےاصحاب میں وجوہ مماثلت
سورۃ الجمعۃ کی آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْکی مزیدتفسیر کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نےصحابۂ رسولؐ کی جن خصوصیات وعلامات میں اپنے اصحاب سے مشابہت کا ذکرفرمایا ہے وہ قابل توجہ ہے۔فرمایا:
‘‘اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا۔ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اِس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیساکہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نُور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیساکہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔ بہتیرے اُن میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔بہتیرے اُن میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے اُن میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سِلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ اُن میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے ۔اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو وَآخَرِینَ مِنْهُم ْکے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!!’’
(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد14صفحہ306تا307)
اس بیان میں صحابۂ رسولؐ سےاصحاب احمدؑ کی دس مشابہتیں نمایاں ہیں
1۔معجزات اور نشان دیکھ کر نوِ ریقین حاصل کرنا۔2۔ راہِ مولیٰ میں مصائب پر صبر3۔پاکیزہ زندگی 4۔نمازوں اوردعاؤں میں انہماک 5۔سچی خوابیں اورالہام 6۔مالی قربانی 7۔موت کو یاد رکھنا 8۔نرم دلی 9۔تقویٰ 10۔ایمانی حکمت ۔اس لحاظ سےان دونوں گروہوں کی مشابہت دلچسپ اور ایمان افروزہے۔
1۔صحابہؓ کے چشمدیدمعجزات و نشانات
چنانچہ صحابۂ رسولؐ نے بے شمار قومی معجزات اورانفرادی نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔قابل ذکرقومی نشان یہ ہیں:
قرآن کی فصاحت و بلاغت کا نشان،شق قمر(چاند کے دو ٹکڑے ہونے) کانشان،رومیوں کے مغلوب ہوکر پھر غالب آنے کی پیشگوئی کا پورا ہونا،کھانے اور پانی میں غیرمعمولی برکت اوراضافہ کے متعددمعجزات،قبولیت دعا کے نشان جیسےمکہ میں قحط کے دور ہونے کی دعا پر موسلا دھار بارش کا سلسلہ اور دوبارہ دعا پر بارشوں کا رک جانا ، حضرت عمرؓ کاقبولِ اسلام اور اہلِ مکہ اور اہلِ طائف اور قبیلہ دوس کے حق میں ہدایت کی دعا کا قبول ہونا ، نامساعد حالات میں اپنے سے کئی گنازیادہ مسلح دشمن پر بدر اور احزاب میں فتح ، نہایت مختصر مدّت میں خیبر اور مکہ کی فتح۔یہ سب نشانات صحابۂ رسول ؐ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر نور یقین حاصل کیا۔
مسیح و مہدی کے نشان
اس زمانہ میں جب حضرت بانی جماعت احمدیہ کو مسیح و مہدی مبعوث کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت مستمرہ کے مطابق ان کی تائید میں نشانات کا سلسلہ شروع فرمایا۔چنانچہ1882ء میں دمدار ستارہ کا طلوع،1885ء میں شہاب ثاقب کا گرنا،1894ءمیں رمضان کے مہینہ میں کسوف وخسوف یعنی چاند اور سورج گرہن کانشان،1902ء میں طاعون کی پیشگوئی جس سے سچے احمدی محفوظ رہےاور دشمن ہلاک ہوئے،اسی زمانے میں طاعون کے خوف سے حج کے روکے جانے کی پیشگوئی کا پورا ہونا ،زلزلوں کی پیشگوئی کا پورا ہونا(1891ء میں ملک جاپان 1897ء میں آسام ہندوستان ،1902ء میں ویسٹ انڈیز ،1905ء میں کانگڑہ، 1906ء میں سان فرانسسکو امریکہ میں زلازل آئے جن سےہزاروں افراد ہلاک ہوئے ۔)،اونٹوں کا بیکار ہونا اور ریل کا جاری ہوناوغیرہ یہ سب حیرت انگیز نشان مسیح و مہدی کے حق میں ظاہر ہوئے جوآپ کے اصحاب نے دیکھ کر نورِ یقین پایا۔
پھرجیسےرسول اللہﷺ کے صحابہ نے انفرادی نشان دیکھے،حضرت ابوبکراورحضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کی صداقت اور راستبازی اور اخلاقِ فاضلہ کا نشان دیکھ کر آپؐ کی تصدیق کی۔حضرت عمرکلامِ الہٰی کی تاثیر کا معجزہ دیکھ کر ایمان لائے۔اسی طرح ا س زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ پر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ،حضرت شہزادہ عبد اللطیف صاحبؓ،حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ آپ کی راستبازی دیکھ کرفدا اور قربان ہوگئے۔
2۔مصائب پر صبرمیں مشابہت
الٰہی جماعتوں کی آزمائش مصائب پر صبرسے ہوا کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں حضرت یاسرؓ اور ان کے بیٹے عمار ؓاور حضرت بلالؓ اور حضرت خبابؓ جیسے کمزور صحابہ نے جس طرح قبول ِ اسلام کے بعد دشمنوں کی طرف سے مصائب پر صبر کیا۔اسی طرح حضرت بانی جماعت احمدیہ ؑکے ساتھیوں میں حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب،حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ صاحب طرح طرح کی اذیتوں کے بعد کابل میں شہید کر دیے گئے۔حضرت بھائی عبدالرحمانؓ صاحب قادیانی لڑکپن میں احمدی ہونے کی پاداش میں پابند سلاسل رہ کر اذیتوں کا نشانہ بنے۔حضرت مولوی برہان الدینؓ جہلمی کوسرِبازار مخالفوں نےمنہ میں گوبر ڈال دیا۔ انہوں نے قرون اولیٰ کا زمانہ یاد کرکے اپنی خوش قسمتی پر رشک کرتے ہوئے کہا:‘‘واہ او برہانیا! روز ایہہ نعمتاں کتھوں’’یعنی چودہ سو سال بعد خدا کا نبی آیا اور پھر یہ نعمتیں نصیب ہوئیں۔
حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ آف آگرہ کااپنابیان ہے کہ‘‘جب لوگوں کو میرے احمدی ہونے کا پورا یقین ہو گیا تو مجھے بھی تکلیفیں پہنچنے لگیں اور میرا پانی بند کر دیا گیا اور دوکانداروں سے لین دین بند کر دیا گیا اور بھنگی کو بھی منع کر دیا گیا یہاں تک کہ ہمیں دو دو تین تین دن کے فاقے ہونے لگے۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11صفحہ362)
حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب آف بریلی کےقبول احمدیت کے بعد مخالفین نےان کے خلاف جلسہ کیا۔انہیں باغی اور فسادی قرار دے کرلوگوں کواتنا بھڑکایا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔دوسرےروزجب مخالف لوگ ان کے گرد جمع ہوئے تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ‘‘خدا نے اپنی قدرت نمائی سے اب مجھے وہ طاقت بخش دی ہے کہ اگر تم لوگ آروں سے بھی میرے جسم کو چیر دو تو یہ دل اور یہ منہ اس صداقت سے اب پھر نہیں سکتے۔’’
(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ جلد 12صفحہ 278تا279)
الغرض حضرت بانی جماعت احمدیہؑ کے رفقاء کے ساتھ اس زمانہ میں وہی سلوک ہوا جو چودہ سو سال قبل صحابہ رسول ﷺ سے ہوا۔
3۔پاکیزہ زندگی کی کرامت
سورۂ ممتحنةآیت 13کی روشنی میں سنت رسولؐ کےمطابق شرک،چوری،زنا،قتل اولاد،بہتان تراشی اور معصیت جیسے جاہلیت کے بدخصائل سے بیعت توبہ لینےکا دستور تھا۔
اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مرزاصاحبؑ نے الٰہی منشاء کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے دورِحاضرکی خرابیوں سے بچنے کے لیے بیعت کی دس شرائط مقرر کیں اور 23؍مارچ1889ء کو اصحاب احمدؑنے مہدیٔ دوراں کے ہاتھ پر ان الفاظ میں تجدیدِبیعت کی کہ
‘‘آج میں احمدؑ کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت او ر سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لذات پر مقدم رکھونگا…’’
پھر جس طرح صحابۂ رسول ﷺ نےبیعت کے بعدا پنی زندگی میں ایک حیرت انگیز انقلاب پید اکیااور شرک،جھوٹ،بدکاری،قطع رحمی،ظلم و خیانت کو چھوڑ کر ایک پاک زندگی اختیار کی۔ (ماخوذ ازطبقات ابن سعد۔جلد 4،صفحہ 123)وہی لوگ جوپانچ وقت شراب کے دلدادہ تھے اب ان اوقات میں نمازیں اور تہجد ادا کرنے لگے ۔اور رسول ا للہؐ کے منادی کرنے والے سے حرمت شراب کا سن کر محفل بادہ میں شراب کےجام اوربرتن توڑدیے ۔اور مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔(بخاری کتا ب التفسیر۔تفسیر سورۃ المائدہ)اور خود رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہوگئے ہیں۔ان میں جس کی پیروی کروگے۔ہدایت پاؤگے۔
(الشريعةللآجري(متوفی:360ھ)جزء4صفحہ1690)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ پر ایمان لانے والوں نے بھی صحابہ رسول ﷺ کی طرح اپنے اندر ایسی ہی شاندار تبدیلیاں پیدا کیں۔جس کی شہادت خودحضرت بانیٔ جماعتؑ نے یوں دی!
‘‘براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے الْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃًمِنِّی وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْیعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا۔ اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے کہ جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنےنفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اورؔ بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا !درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔’’
(حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ239تا240)
اصحاب احمد ؑکی انفرادی زندگی میں پیدا ہونے والا انقلاب
میاں محمد دین صاحب پٹواریؓ کےاندرحضرت بانی جماعت احمدیہ کی تصنیف براہین احمدیہ کے مطالعہ سے ایسا انقلاب آیا کہ خود ان کے بیان کے مطابق ‘‘براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے … معاًمیری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا…زندہ ہو جاتا ہے۔’’
(اخبارالحکم۔14؍اکتوبر،1938ء)
تب سے انہوں نے محویت کے عالم میں ایسی نماز پڑھنی شروع کی جو پھر عمر بھر نہیں چھوڑی ۔
مالیر کوٹلہ کے رئیس نواب محمد علی خان صاحبؓ نے باوجود تمام وسائل غفلت اور عیاشی کے‘‘رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی۔اور عنفوان شباب میں پرہیزگاری کی زندگی گزاری۔’’
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد3صفحہ522)
حضرت منشی عطا محمد صاحبؓ پٹواری کے ہاں بارہ سال سے اولاد نہ تھی۔انہوں نے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ؑکو دعا کے لیے لکھا کہ خدا مجھے خوبصورت صاحب اقبال لڑکاتین بیویوں میں سے بڑی بیوی سے عطا کرے ۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ؑنے دعا کےساتھ فرمایا:‘‘شرط یہ ہے کہ آپ زکریا والی توبہ کریں۔’’ منشی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ میں ان دنوں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا…میں نے دھرم کوٹ کے مولوی فتح دین صاحب مرحوم احمدی سے پوچھا انہوں نے کہا کہ زکریا والی توبہ بس یہی ہے کہ بے دینی چھوڑ دو ۔حلال کھاؤ۔ نماز روزہ کے پابند ہو جاؤاور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو۔یہ سُن کر میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوٰۃ و صوم کا پا بند ہو گیا۔ کچھ عرصہ میں حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے ارد گرد سب کو کہنا شروع کیاکہ اب دیکھ لینا کہ میرے لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت مگر لوگ بڑا تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی بڑی کرامت ہے ۔آخر ایک دن رات کے وقت لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت ہوا ۔اس پربہت سے لوگوں نے بیعت کی اور میں نے بھی بیعت کرلی ۔
(ماخوذازسیرت المہدی حصہ اول صفحہ220تا221روایت نمبر241)
4۔نمازوں اور دعاؤں میں انہماک کی مثالیں
نمازوں اور دعاؤں میں صحابۂ رسول ﷺ کا شغف قابل تحسین تھا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ا یک دن میں بازار میں تھا نماز کا وقت ہو گیا ۔ تمام صحابہ کاروبار بند کر کے مسجد چلے گئے۔بلاشبہ قرآن کریم کی یہ آیت انہی کے بارہ میں ہے:‘‘رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۔(النور:38)‘‘یعنی ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے۔’’
حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا صحابی تھے ،مسجد اور ان کے مکان کے درمیان کی وادی بارش سے بھر جاتی تھی مگر اس کے باوجود ہزارمشکل سے وہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کر تےتھے۔
(بخاری کتاب المساجد۔باب المساجد فی البیوت)
دورثانی میں حضرت بانی جماعت احمدیہؑ اپنے ایک خادم شیخ حامد علیؓ کا حال بیان کرتے ہیں:
‘‘التزام نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے۔’’
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3صفحہ540تا541)
اپنے ایک اور مریدحضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیرکوٹلہ کے بارے میں فرمایا:
‘‘قادیان میں جب کہ وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں اُن کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں۔’’
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3۔صفحہ526تا527)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ سیالکوٹی کثرت پیشاب کی شدید تکلیف میں بعض دفعہ غش کھانے کے قریب ہو جاتے مگر نماز کے لیے مسجد تشریف لاتے۔جس پر حضورؑ کوبھی تعجب ہوتا۔
(ملفوظات جلد4صفحہ252ایڈیشن1988ء)
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ آخری عمر میں باوجود بیماری کے اپنے گھر دارالعلوم سے نماز باجماعت کے لیے مسجد مبارک آتے تھے۔(اصحاب احمدجلد7،صفحہ 10)
حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ نابینا تھے مگر ہر حال میں نماز کے لیے اول وقت میں پہنچتے…بارش ہو،آندھی ہو،کڑکڑاتا جاڑا ہو،تیز دھوپ ہو،وہ اول صف میں جگہ پاتے۔
(اصحاب احمد جلد13صفحہ290)
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ حضرت بانی جماعتؑ کی صحبت میں ایسے فانی فی اللہ ہوگئے کہ انتہائی سوز و گداز سے لمبی نماز پڑھتےتھے اور یہ احساس ایساغالب تھا کہ آپ اپنی صاحبزادی حلیمہ کو نزع کی حالت میں چھوڑ کر نماز کے لیے مسجد چلے گئے ۔فارغ ہو کر جلدی واپس آنے لگے توکسی نے وجہ پوچھی ۔ فرمایا!کہ بیٹی کو نزع کی حالت میں چھوڑ آیا تھا ۔اب فوت ہو چکی ہو گی جاکر اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے ۔یہ سن کر بعض دوسرے دوست بھی ساتھ آئے تو بچی واقعی فوت ہو چکی تھی۔(اصحاب احمدجلد5،صفحہ82)
حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ سیالکوٹی تہجد کی نماز ایسی ہی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے جیسے دوسری پانچ نمازیں۔
(اصحاب احمدجلد 7صفحہ200)
حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ ملکہ برطانیہ کے محل ونڈسر میں مدعوتھے۔دوران ملاقات نماز عصر کے وقت آپ کے چہرے پر فکر کے آثار نمودار ہوئے۔ملکہ کے استفسار پر بتایا کہ نماز کا وقت ہوگیاہے جس پر ملکہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے عملہ کوہدایت کی کہ چوہدری صاحب کی نمازوں کے اوقات نوٹ کرلیے جائیں اور اگر دوران ملاقات نماز کا وقت آجائے تو فوراً بتادیا جائے۔
(ماہنامہ خالددسمبر1985ءصفحہ89)
صحابۂ رسولؐ کی طرح اصحاب احمدؑکایہی حال دعاؤں میں استغراق کا تھا۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے بارہ میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے جو چاہوں گا، مانگوں گا۔ مگر جب مسجد مبارک میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اس کے الحاح کی وجہ سے مَیں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہوگیا اور میں بھی دعا میں محو ہوگیا کہ یا الٰہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے، وہ اس کو دے دے ۔ اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا: میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا؟ تو آپؓ نے فرمایا: مَیں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی! مجھے میری آنکھوں سے دین کو زندہ کرکے دکھا۔
(الفضل16؍فروری1968ء)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے منجھلے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے قبولیت دعا کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ انہوں نےرمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے احسانات بے پایاں اور اس کی رحمت و رأفت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی جناب میں عرض کیا کہ اے خدا! تو میرے روزوں کو قبول فرما اورمیرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ایک ظاہری نشان نازل فرما۔آپؓ نےیہ دعا بھی کی:‘‘میرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ظاہری نشان یہ ظاہر فرما کہ اس کی افطاری میں خود نہ کروں بلکہ باہر سے میرے لئے افطاری کا سامان آئے۔’’ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ پورے تیس روزوں کی افطاری آپ کو باہر سے آئی’’۔
(حیات بشیرصفحہ 169)
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کو حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام ملا کہ عالمی عدالت میں جج کی آسامی کے لیے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ امیدوار ہیں، ان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ آپؓ نے متواتر دعا اور استخارہ کیا جس کے نتیجہ میں آپ کو الہاماً یقینی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور برکت عطا ہونے کی بشارت ملی۔
(حیات قدسی حصہ پنجم صفحہ157-158)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی طرح حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ شاہجہانپوری بھی ایسے مستجاب الدعوات تھے کہ ا للہ تعالیٰ ان کی سب حاجات اپنی جگہ بیٹھے ہوئے پوری فرما دیتاتھا۔
(حیات حضرت مختارصفحہ138)
5۔سچی خوابوں اور الہام کے حیرت انگیزواقعات
رسول اللہﷺنے فرمایا ہےکہ سچی خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔اور اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں سے محبت کا ایک اظہارخواب کے ذریعہ پیش از وقت خوشخبری دے کر بھی فرماتا ہے۔نبی کریمﷺ کا دستور تھا کہ نماز فجر کے بعد اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے اور فرماتے کہ کسی کو کوئی خواب آئی ہوتو سنائے۔اور اچھی رؤیا پسند فرماتے۔
(بخاری کتاب تعبیر الرؤیا باب48)
چنانچہ حضورؐ کے صحابہ میں سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو قبول اسلام سے پہلے بھی خوابوں کے ذریعہ رہنمائی کی گئی ۔حضرت ام حبیبہؓ کو دوران ہجرت حبشہ رسول اللہﷺ سے عقد ہونے کی رؤیا ہوئی جو پوری ہوئی۔
حضرت ابوبکرؓ طبعاً انکساری کے باعث اپنے الہامات و کشوف کا ذکر نہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ کسی سوال کے جواب میں مجبوری سے ذکر کرناپڑاتو پتہ چلا۔آخری بیماری میں صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کی عیادت کو آئے تو عرض کیا کہ ہم آپ کے لیے کوئی طبیب نہ بلائیں؟ فرمایا میں نے ایک فرشتہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے آپ کو کیا بتایا؟ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا فرشتہ نے کہا ‘‘ہم(یعنی اللہ) جس بات کا ارادہ کریں وہ ضرور کردیتے ہیں۔’’(حلیۃ الاولیاء جلد 1صفحہ34) ظاہر ہے کہ اس الہام میں آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔
حضرت عمرؓ نے ایک لشکر حضرت ساریہؓ کی سرکردگی میں شام بھجوایا۔ایک دفعہ دوران خطبہ جمعہ حضرت عمرؓ نے کشفی حالت میں اس لشکر کودشمن کے نرغے میں دیکھ کربلند آواز میںفرمایا
‘‘یاساریة الجبل’’
اے ساریہ پہاڑ کی جانب جاؤ۔
(طبقات اسد الغابہ جزء2 صفحہ380،المقاصد الحسنة للسخاوی جزء1صفحہ737)
یہ الہامی آواز سینکڑوں میل دورحضرت ساریہؓ کے ساتھ لشکر نے بھی سنی اور اس کی تعمیل کرتے ہوئےپہاڑ کی اوٹ میں ہوگئے اور نتیجةًدشمن پرفتح پائی۔
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل جزء1صفحہ269)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے اصحاب میں بھی سچی خواب والہام کا یہ ایمان افروز سلسلہ جاری رہا۔آپؑ کے ایک رفیق حضرت خیردین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب آف دوجووال ضلع امرتسربیان کرتے ہیں کہ
‘‘ایک دفعہ خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صحابہ کرام میں سے ہے۔خوا ب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خواب آپ کے (یعنی حضرت اقدس مسیح موعودؑ) کے اس شعر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے اس کو ساقی نے پلادی
گویا اللہ تعالیٰ نے روحانی اور جسمانی طور پر تسلی دلا دی کہ یہ قرآن کریم کے مطابق سلسلہ ہے جیساکہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں فرمایا گیا ہے۔(رجسٹر روایات صحابہ جلد7صفحہ156تا157)
حضرت عبد الستا رصاحبؓ ولد عبد اللہ صاحب کشمیری سکنہ سوہل ضلع گورداسپور بیان کرتے ہیں میرے والد صاحب نے اپنا خواب بیعت سے آٹھ دس ماہ کے بعد یہ سنایا کہ میں نے دریائے راوی کے کنارے دیکھا کہ دو خیمے لگے ہوئے ہیں ایک مسیح موعودؑ کا ہے اور دوسرا رسول کریمﷺ کا ہے۔میں رسول کریمﷺ کے خیمے میں داخل ہوا اور یہ سوال کیاکہ مسیح موعودؑ کا دعویٰ کرنے والے بزرگ کیسے ہیں۔آپﷺ نے تین دفعہ انگلی کے اشارے سےفرمایا کہ یہ شخص بہت لائق ہے۔
(رجسٹرروایات جلد6صفحہ178)
حضرت مرزا غلام نبی صاحبؓ ولد مرزا اللہ دتا سکنہ پنڈی لالہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات نےبیان کیا کہ اچانک دوپہر کے وقت مجھ پر حالت غنودگی طاری ہوئی اور اس حالت میں آسمان سے ایک نیلگوں رنگ کا گھوڑا اترتا ہوا معلوم ہوا جوں جوں وہ زمین کے نزدیک آتا تھا اس کا رنگ شوخ ہوتا جاتا تھا۔اس کی گردن سے بجلی کی طرح ایک شعلہ نکلتا تھا میرے دل پر یہ القاء ہوا کہ یہ تمہارے مرشد کا نشان ہے۔عنقریب یہ روشنی زمین تک پہنچے گی اور دشمنوں کا رنگ زرد کردے گی۔اس کے چند ماہ بعد حضرت صاحب کا روشن ستارے والا نشان جو حقیقة الوحی میں درج ہے وہ نمودار ہوا۔
(رجسٹرروایات نمبر11صفحہ 234)
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ صوفی عبدالرحیم صاحب آف امرتسر کی خواہش پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور مَیں نے اُن کی ترقی کے لیے دعا کی۔ رات کو بھی خاص توجہ سے دعا کی تو رؤیا میں بتایا گیا کہ اُن کو ترقی مل جائے گی۔ اُن کے کہنے پر رؤیا اُن کو لکھ کر دیدی۔ چنانچہ وہ چار پانچ سو روپے ماہوار سے پندرہ سو روپے ماہوار تک جاپہنچے۔
(حیات قدسی حصہ پنجم صفحہ111تا112)
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوریؓ بیان کرتے ہیں کہ
‘‘25۔اگست 1957ءکو مکرم چوہدری محمد شریف وکیل کا تار آیا کہ 1955ء کے سیلاب کی طرح ہمارے گاؤں میں اب بھی سیلاب آنے والاہے۔دعائے خاص کی ضرورت ہے میں نے ایک دو دن دعا کی تو الہام ہوا۔ “اَلآنَ کَمَا کَانَ” یعنی پہلے کی طرح ان کا گاؤں انشاء اللہ بچایا جائے گا۔
الحمدللہ! کہ آج 10ستمبر 1957ء کو ان کا خط موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گاؤں کو محفوظ رکھا۔’’
(حیات بقا پوری حصہ سوئم صفحہ 134تا135)
حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ جو سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور پھرحق کی تلاش کرتے ہوئے احمدی ہو گئے۔ ان کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا…اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی بقیہ عمر کی مدت بتادی۔جب یہ مدت پوری ہونے کے قریب آئی تو ماسٹر صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی، بڑے روئے، گڑ گڑائے کہ یا الٰہی ابھی تو میرے بچوں کی تعلیم و تربیت مکمل نہیں ہوئی۔ بہت سی ذمہ داریاں میرے سر پر ہیں، میر ی عمر میں اضافہ فرما۔ کہتے ہیں کہ ابھی دو منٹ ہی دعا میں گزرے ہوں گے کہ آپ کو الہام ہوا۔ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْا َرْضِ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی عمرمیں اضافہ کر دیا کرتا ہے جو لوگوں کے لیے نافع وجود بن جائیں۔ اس پر آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کو تبلیغ احمدیت بہت پسند ہے اس لیے آپ نے تبلیغی اشتہارات شائع کیے اور روزانہ تبلیغ کرنے لگے اور پہلی بار جو مدت بتائی گئی تھی اس سے کئی سال زیادہ پاکرفوت ہوئے۔
(ماخوذ ازاصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ131جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت نور محمد صاحبؓ ولد منشی فتح محمدآف موضع مچھی موچی پورہ ڈاکخانہ کہروڑپکا ضلع ملتان کابیان ہےکہ
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اخبار میں یہ پڑھ کرکہ لوگوں کو ہمارے متعلق خدا سے پوچھنا چاہیے میں نے دعا کی تھی اور مجھے الہام ہوا تھا کہ ‘‘صادق ہے قبول کرلو’’۔اس کے بعد میری مخالفت شروع ہوگئی جب میں نے دیکھا کہ میں تنہا ہوں تو حضرت صاحب کے حضور روزانہ دعا کے لیے ایک کارڈ لکھنا شروع کیا۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہاں 12آدمی ایک سال کے اندر اندر احمدی بنائے اور اس کثرت سے مجھ پر الہامات کا دروازہ کھلا کہ کوئی رات نہ جاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی الہام نہ ہوتا۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5صفحہ77تا79)
6۔مالی قربانی کی شاندار نظیریں
خدا تعالیٰ کے پیاروں اور ماموروں کو خدمات دینیہ کے لیے اموال کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔اور وہ اپنے ماننے والوں کو اس کی تحریک کرکے اجر و ثواب کے مواقع بہم پہنچاتے ہیں ۔رسول اللہﷺ کے صحابہؓ نے مالی قربانی کے میدان میں بھی حق ادا کردکھایا۔حضرت ابوبکرؓ کے بارہ میں رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جب سب لوگوں نے میرا انکار کیا تو ابوبکرؓ تھا جس نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور جان سے میری مدد کی۔
(سیرت الحلبیہ جلد 1صفحہ295)
ایک موقع پر مالی قربانی کی تحریک پر حضرت ابوبکرؓ نے پورا مال لاکر پیش کردیا تو حضرت عمرؓ نصف مال لے آئے۔اس کے بعد غزوہ خیبر میں حضرت عمرؓ کو زمین کا ایک بڑا ٹکڑا ملا اور اسے راہ خدا میں وقف کردیا۔ (ابن سعد جلد3صفحہ358)
حضرت عثمانؓ غنی بڑے متمول تاجر تھے۔غزوہ تبوک میں آپ مالی قربانی میں تمام صحابہ پر سبقت لے گئے انہوں نے غزوہ تبوک میں شامل ہونے والے تیس ہزار میں سے دس ہزار مجاہدین کے لیے سامان جنگ مہیا کیا جس میں 950اونٹ اور50گھوڑوں اور دس ہزار درہم کی خطیر رقم تھی۔
(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عثمان بحوالہ سیرت صحابہ صفحہ 83)
آپؓ نے ہر جمعہ کو ایک غلام کو آزاد کرنے کا اپناعہدبھی خوب نبھایا۔اسی طرح حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ بڑے مالدار تاجر تھے ایک دفعہ مدینہ میں قحط پڑاتو انہوں نے سات سو اونٹوں پر مشتمل غلہ وغیرہ کا تجارتی قافلہ خرید کر خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کردیا۔(سیرت صحابہ رسولﷺ صفحہ154)
حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کا نہایت قیمتی باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا ۔جب سورة آل عمران کی آیت 93اتری کہ کامل نیکی یہ ہے کہ تم اپنی دلپسند اور پیاری چیز اللہ کی راہ میں پیش کرو تو ابو طلحہؓ نے اپنا یہ پیارا باغ اللہ کے نام پر صدقہ کردیا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ واہ یہ کیا ہی نفع بخش سودا ہے۔
(بخاری کتاب الزکوٰة و کتاب الوصایا)
صحابیات رسولؐ میں سے ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے مالی قربانی کا حق ادا کردکھایا۔جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی تھی جب ساری دنیا میرا انکار کررہی تھی اور اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب ساری دنیا مجھے جھٹلارہی تھی ۔ اور اس وقت اس نے اپنے مال کے ساتھ میری ہمدردی اور خیر خواہی کی جب تمام لوگ مجھے چھوڑ چکے تھے ۔’’
(مسلم کتاب الفضائل باب فضل خدیجہؓ،مسند احمد جلد6صفحہ117قاہرہ،المعجم الکبیر جزء23 صفحہ13، الاستیعاب جزء1صفحہ589)
اس دور میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کوآپؑ کی حرم حضرت اماں جان کے بارہ میں1881ءمیں الہام ہوا : اُشْکُر نِعمَتِی رَاَیْتَ خَدِیْجَتِی(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر4صفحہ558،روحانی خزائن جلد1صفحہ666)یعنی میراشکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کوپایا،انہوں نے بھی مالی قربانی کےشاندار نمونے دکھائے۔
حضرت اماں جان سیدنا حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ نے مینارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے مئی 1900ء میں ایک خاص تحریک پر لبیک کہتے ہوئے کل اندازہ خرچ جو دس ہزار روپے تھا کا دسواں حصہ ادا کیا اور اس کے لیے دہلی میں واقع اپنی ایک جائیداد فروخت کر دی۔
(سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم صفحہ242تا244)
ایک دفعہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ حضرت مرزا صاحب ؑنے فرمایا: حضرت اماں جان کا کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے اس کو بیچ دو اور اس سے اتنا لے لو جس سے رات کی مہمان نوازی کا سامان ہو جائے۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کرکے میرناصر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچایا۔
(سیرت المہدی حصہ چہارم غیر مطبوعہ روایات نمبر 1126صفحہ563تا564)
1898ءمیں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کو بعض اہم دینی ضروریات کے لیے روپیہ کی ضرورت تھی۔آپؑ نے قرضہ لینے کی تجویز کا ذکر گھر میں فرمایا۔حضرت اماں جان ؓنے فرمایا کہ باہر کسی سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے میرے پاس ایک ہزارر روپیہ نقد ہے اور کچھ زیورات ہیں آپ اس کو لے لیں۔اس طرح دینی ضروریات کے لیے حضرت اماں جان ؓنے مالی قربانی کی نظیر پیش کی۔(سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم صفحہ245)
یہی حال حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے دیگراصحاب کاتھا۔ سب سے پہلے نمبر پر مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ تھے۔جن کے بارے میں خود حضرت بانیٔ جماعتؑ نے فرمایا:
‘‘اُن کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ میں نے انکو طبعی طور پر اورنہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا… اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے۔’’
(ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد3صفحہ520)
مزیدفرمایا:
‘‘سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نُورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے میں اُن کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں۔اُن کے دلؔ میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اُس کے تصّور سے قدرت الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسّر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حُسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ اُنہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں۔ اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔’’
(فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد3صفحہ35)
اپنے ایک اور مریدحضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ کے بارہ میں فرمایا:
‘‘حِبّی فِی اللّٰہ حاجی سیٹھ عبدالرحمٰن اللہ رکھا صاحب تاجر مدراس ہیں…سیٹھ صاحب موصوف …نے کئی ہزار روپیہ ہمارے سلسلہ کی راہ میں محض للہ لگا دیا ہے۔اور برابر ایسی سرگرمی سے خدمت کررہے ہیں کہ جب تک انسان یقین سے نہ بھر جائے اس قدر خدمت نہیں کرسکتا…مباہلہ کے بعد ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے اور پہنچ رہی ہے میں اس کی نظیر نہیں دیکھتا۔’’(ضمیمہ انجام آتھم ،روحانی خزائن جلد11صفحہ312)
اسی طرح حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ کے حق میں فرمایا:
‘‘ حِبّی فِی اللّٰہشیخ رحمت اللہ صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ سیٹھ صاحب موصوف سے بعد نمبر دوم پر شیخ صاحب ہیں۔جو محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں۔ شیخ صاحب موصوف اس راہ میں دو ہزار سے زیادہ روپیہ دے چکے ہوں گے۔ اور ہر ایک طور سے وہ خدمت میں حاضر ہیں۔ اور اپنی طاقت اور وسعت سے زیادہ خدمت میں سرگرم ہیں۔’’
(ضمیمہ انجام آتھم ،روحانی خزائن جلد11صفحہ313)
ایک دفعہ دینی مالی ضرورت کی تحریک پر حضرت میاں شادی خاں صاحبؓ آف سیالکوٹ نے اپنے گھر کاساراسامان بیچ کرتین سو روپیہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش کر دیا۔آپؑ نے فرمایا کہ
‘‘یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب ديکھاجائے تو شايد تمام جائيداد پچاس روپیہ سے زيادہ نہ ہو … جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھيج ديا۔اوردرحقيقت وہ کام کيا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کيا تھا۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 314تا315)
یہ سن کر انہوں نے گھر میں جو چارپائیاں رہ گئی تھیں وہ بھی بیچ کر ان کی رقم حضرت صاحبؑ کے حضور پیش کر دی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے مقدمہ گورداسپور کے زمانہ میں مالی ضرورت پر تحریک کی تو حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ نےتقریباً 450 روپے ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضور کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ تو گھر کی ضروریات کےلئے رکھ لیتے انہوں نے کہا کہ ‘‘خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کےلئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کےلئے رکھ سکتا ہوں۔’’ (تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 296)
7۔موت کو یاد رکھنے میں مماثلت
رسول اللہﷺ کے صحابہ آپؐ پراور یوم آخرت پر ایمان لانے کے بعداپنی عاقبت کی بہت فکر کرنے لگے وہ موت کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ایک دفعہ ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے دیکھا فرمانے لگے بہت خوب اے پرندے!تو کھاتا پیتا ہے لیکن تجھ پر حساب نہیں ۔اے کاش کہ میں تیری طرح ہوتا۔
(شعب الایمان باب من خوف من اللّٰہ جلد1صفحہ 485)
حضرت عمرؓ کوہمیشہ عاقبت کا فکر دامن گیر رہتا تھا اور فرماتے تھے کہ میں اپنے آقا و مولا ﷺکے نمونہ پر چلوں گا تاکہ مجھے آخرت کی خوشحالی نصیب ہو۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک دفعہ بیمار ہوئے ۔صحابہ ؓنے کہا کہ آپ اس بیماری میں اتنے پریشان کیوں ہیں؟فرمانے لگے اس بیماری نے مجھے اچانک آن دبوچا ہے میں اپنے آپ کو آخرت کے سفر کے لیےتیار نہیں پاتا اس لیے پریشان ہوں۔
(ابن سعد جزء3صفحہ158)
یہی حال اس دور کے اصحاب احمد کا تھا۔حضرت خان عبد المجید کپورتھلویؓ حضرت نواب محمدعبد اللہ خان صاحبؓ کے بارہ میں بیان کرتے ہیں:‘‘جب بھی آپ سے ذکر کرتا کہ آپ کے لیے نمازوں میں دعا کیا کرتا ہوں تو اس کے جواب میں ہمیشہ یہ فرماتے کہ خان صاحب میرے لیے خصوصیت سے یہ دعا کیا کریں کہ میرا انجام بخیر ہو۔’’
(الفضل28؍نومبر 1961ء صفحہ5)
حضرت منشی عبدالرحمٰنؓ صاحب کپور تھلوی نےپنشن پانے کے بعد اپنی ملازمت کا محاسبہ کیا …وہ سرکاری سٹیشنری میں سےغریب طلباء یا بعض احباب کو وقتاً فوقتاً کوئی کاغذ، قلم اور دوات یا پنسل مانگنے پر دے دیا کرتے تھے۔انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا دراصل حق نہیں تھا۔ اعلیٰ ایمانداری کا تقاضا یہی تھا۔ پس آپ نے کپور تھلہ کے وزیراعظم کو لکھا کہ میں نے اس طریق پر بعض دفعہ سٹیشنری صَرف کی ہے،آپ صدر ریاست ہونے کی وجہ سے مجھے معاف کر دیں تاکہ مَیں خداتعالیٰ کے روبرو جوابدہی سے بچ جاؤں۔ ظاہر ہے کہ صدر ریاست نے اس سے درگزر کیا۔(ماخوذ ازاصحاب احمدجلد 4صفحہ22)
آپؑ کے ایک رفیق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اپنےخاتمہ بالخیر کی یہ دعا کیا کرتے تھے:
رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِين۔(المائدۃ:84تا85)(مناجات ولی اللہ صفحہ194)
اے ہمارے ربّ! ہم اىمان لائے پس ہمىں گواہى دىنے والوں مىں تحرىر کرلے ۔اور ہمىں کىا ہوا ہے کہ ہم اللہ اور اُس حق پر اىمان نہ لائىں جو ہمارے پاس آىا جبکہ ہم ىہ طمع رکھتے ہىں کہ ہمارا ربّ ہمىں نىک لوگوں کے زُمرہ مىں داخل کرے گا۔
حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ آف کریام بیان کرتے ہیں کہ
‘‘ایک احمدی اور ایک غیر احمدی نمبردار گاؤں کو جا رہے تھے۔ احمدی نے راستے میں چنے کی ایک ٹہنی توڑ کر منہ میں چنا ڈالا۔ پھرمعاً یہ خیال آنے پر تھوک دیا اور توبہ توبہ پکارنے لگا کہ پرایا مال منہ میں کیوں ڈال لیا۔ اس کے اس فعل سے نمبردار مذکور پر بہت اثر ہوا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ احمدی احمدیت سے پہلے ایک مشہور مقدمے باز، جھوٹی گواہیاں دینے والا، رشوت خور تھا۔ بیعت کے بعد اس کے اندر اتنی جلدی تبدیلی دیکھ کر کہ وہ پابند نماز، قرآن کی تلاوت کرنے والا اور جھوٹ سے مجتنب رہنے والا بن گیا ہے، نمبردار مذکور نے بیعت کر لی اور اس کے خاندان کے لوگ بھی احمدی ہو گئے۔’’
(ماخوز ازاصحاب احمد جلد 10صفحہ85)
8۔نرم دلی میں مشابہت
رسول اللہﷺ کے صحابہ کی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ‘‘رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ’’(الفتح :30)کہ وہ آپس میں محبت کا سلوک کرنے والے اور نرم دل ہیں۔ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں کسی بات پر تکرار ہوگئی تو حضرت ابوبکرؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓ بھی چلے آئے۔حضرت عمرؓ عرض کرتے تھے یا رسول اللہﷺ! زیادتی میری تھی اور حضرت ابوبکرؓ کہتے کہ نہیں مجھ سے زیادتی ہوئی۔
(بخاری کتاب المناقب باب قول النبیﷺلوکنت متخذ خلیلا)
حضرت ابوبکرؓ کی نرم دلی توبہت مشہور تھی۔رسول اللہﷺ کی آخری بیماری میں جب حضورؐ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیاتھا کہ وہ اتنےرقیق القلب ہیں کہ رقت کی وجہ سے اپنی آواز صحابہ تک نہیں پہنچا سکیں گے۔
(بخاری کتاب الاذان بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ)
حضرت عمرؓ کے دورخلافت میں ایک دفعہ قحط پڑا۔آپ کا دل اپنی رعایا کے لیے ایسا نرم تھا کہ دور دراز سے اشیاء منگوا کر لوگوں میں تقسیم کروائیں اور خود مرغوب غذاؤں کا استعمال ترک کردیا اور گھی مہنگا ہوگیا تو اس کی بجائے تیل کا استعمال کرنے لگے جس سے پیٹ میں تکلیف ہوتی تھی اور آپ نے فرمایا کہ اس وقت تک گھی نہ کھاؤں گا جب تک سب لوگ نہ کھانے لگ جائیں۔
(طبقات ابن سعد جزء3صفحہ312)
دورآخرین کےاصحاب احمد میں بھی باہمی رافت و رحمت کے یہ نمونےخوب تھے۔
حضرت میرناصر نواب صاحبؓ میں سیرت صدیقی کا یہ وصف بھی نمایاں تھا کہ ناراضگی کی صورت میں صُلح میں پہل کرتے تھے اور ہمیشہ بغض و کینہ سے اپنا سینہ صاف رکھتے تھے۔ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ تعلیم الاسلام سکول کے ہیڈماسٹر اور حضرت میر صاحب ناظم تھے۔کسی معاملہ پراختلاف ہوگیا مگرحضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے سمجھانے پرعرفانی صاحب نے میر صاحب سے معذرت کا ارادہ کرلیا۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ خود حضرت میر صاحب تشریف لائے اور بآواز بلند السلام علیکم کہہ کر عرفانی صاحب سے بغل گیر ہوکر صلح میں پہل کردکھائی۔(حیات ناصر صفحہ22)
ایک دفعہ حضرت میر صاحبؓ کی میاں الٰہ دین فلاسفر صاحب سے کسی بات پر تکرار ہوگئی اورفلاسفر صاحب پر کچھ زیادتی ہوگئی۔معاملہ حضرت مسیح موعودؑ تک پہنچا آپ نے فلاسفر صاحب کے حق میں فیصلہ کردیا۔حضرت میر صاحب اور بعض دوسرے دوستوں نے فلاسفر صاحب سے معافی چاہی اور حضرت میر صاحب سب سے پہلے پہنچے اورانہوں نے معافی مانگنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔(حیات ناصر صفحہ21)
ان کے صاحبزادےحضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی بہت نرم دل تھے وہ یتیموں کی خبرگیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ شدید بخار اور نقاہت تھی۔ کارکن نے آکر کہا کہ کھانے کے لیے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہورہا۔ لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا۔ آپؑ فوراً تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 17 اکتوبر 2003ء)
9۔تقویٰ کے خوبصورت نظارے
خدا تعالیٰ کے مامور اپنے ماننے والوں کے دلوں میں اس کا خوف اور خشیت پیدا کرتے ہیں۔صحابۂ رسولؐ نے اس پہلو سے بھی اپنے اندر ایک عجیب تبدیلی پیدا کی۔
حضرت ابوبکرؓ کاایک غلام ان کےلیے کمائی کرکے کھانا لاتا تھا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کچھ کھالیاتوغلام نے انہیں بتایا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کےلیے کہانت کی تھی یہ اس کا معاوضہ ہے سو یہ وہی کمائی ہے جس سے آپ نے کھایا ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی انگلی منہ میں ڈالی اور جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کردیا۔
(بخاری کتاب المناقب مناقب الانصار)
حضرت عمرؓ بہت تقویٰ شعار انسان تھے۔ایک دفعہ کسی باغ میں گئے۔اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:واہ عمر بن الخطاب! تو امیر المومنین ہوگیا ہے خدا کی قسم! اے خطاب کے بیٹے تمہیں تقویٰ اختیا رکرنا ہوگا ورنہ اللہ تمہیں عذاب دے گا۔
حضرت خبابؓ کی آخری بیماری میں صحابہ ان کی عیادت کو گئے اور دیکھا کہ وہ اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکیں گےتوکہا خباب آپ کو بشارت ہو کہ جلد یا بدیر اپنے بزرگ اصحاب رسول سے جاملوگے،اس پر وہ رونے لگے جب طبیعت سنبھلی تو فرمایا میں موت کے ڈر سے نہیں رویا۔خدا کی قسم !تم نے میرے ساتھی ان بزرگ اصحاب رسول کا ذکر کرکے مجھے ان کا بھائی قرار دیا۔ان کا مقام اور مرتبہ تو بہت بلند تھا نامعلوم میں ان کا بھائی ہونے کا اہل بھی ہوں یا نہیں۔اور ہمیں اس دنیا میں جو اجر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔وہ لوگ تو پہلے گزرگئے اور انہوں نے یہ اجر اِس دنیا میں نہیں پایا۔یہ وہ خشیت اور تقویٰ ہے جو صحابہ رسول پر طاری ہوتا تھا۔(طبقات ابن سعد جزء3صفحہ166)
دورثانی کے اصحاب احمدؑ کا بھی خشیت و تقویٰ میں یہی حال تھا۔
حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے تھے،آپ سٹیشن ماسٹر تعینات تھے۔ جو قلی آپؓ کے گھر سے آپؓ کا کھانا لاتا تھا، آپؓ اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے۔ایک مرتبہ آپؓ کی اہلیہ محترمہ ایک مرغی بذریعہ ٹرین لے آئیں۔ آپؓ کھانے کے وقت گھر آئے تو مرغی کا سالن پکا تھا۔ جب آپؓ کو علم ہوا کہ اہلیہ صاحبہ بلا ادائیگی کرایہ ریل مرغی لائی ہیں تو فوراً آپ نے اس کے کرایہ کی رسید کاٹ کر رقم ادا کردی۔
(اصحاب احمد جلد3صفحہ43تا55)
حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ نائب تحصیلدارکے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ کسی نے ہنس کر کہا:
بابا کبھی رشوت تو نہیں لی تھی؟ منشی صاحب پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی جوجوش صداقت سے مغلوب تھی طاری ہوئی اور سائل کی طرف دیکھ کرفرمایاکہ مَیں نے جب تک نوکری کی اور جس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے اور جس دیانت سے کیاہے اور جو فیصلے کئے ہیں اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے ہیں اور پھرجس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کوبچا یا ہے سب باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان سب کو سامنے رکھ کر مَیں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیر اندازکا تیر خطا کرسکتاہے لیکن میر ی وہ دعا ہرگز خطا نہیں کرسکتی۔
(بحوالہ روزنامہ الفضل 22؍ستمبر 2003ء)
10۔ایمانی حکمت کے نمونے
خدا تعالیٰ کے رسول اپنے ماننے والوں کواحکام الٰہی کی حکمت اور فلسفہ اورایسی دانائی کی باتیں سکھاتے ہیں جس کے آگے دنیا کی عقلیں ہیچ ہیں۔صحابیٔ رسولؐ حضرت سعد بن ربیعؓ نےمیدان احد میں بوقت شہادت یہ آخری پیغام بھجوایا کہ نبی کریمﷺ کو میرا سلام عرض کرنا اور میری اولاد اور قبیلہ کو کہنا کہ محمدﷺ خدا کی امانت ہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اس امانت کی حفاظت کی۔اب یہ امانت تمہارے سپرد ہے اگر اس میں ذرا برابر بھی کوتاہی ہوئی تو قیامت کے دن تمہارا کوئی جواب قابل قبول نہ ہوگا۔
(مؤطا کتاب الجہاد، ابن سعد جلد 3صفحہ 524،اسد الغابہ جلد 3صفحہ 377)
دورحاضر کے حضرت بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانیؓ نے مرتے وقت اپنی اولاد کو ایسی ہی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘جب تک یہ الٰہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے خدمت کی۔اب حکمت الہٰیہ کے مطابق یہ امانت آپ کے سپرد ہے۔اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔پس دیکھنا اسے اپنی جانوں سے زیادہ عزیزرکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔’’(اصحاب احمد جلد 9صفحہ422)
اسی طرح حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ آف قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ مَیں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعود ؑ کے درپر لے آیا ہوں اب میرے بعد اس دروازے کو کبھی نہ چھوڑنا۔
(اصحاب احمد، جلد 6صفحہ8تا9)
الغرض دونوں ادوار کے اصحاب کی باہمی مماثلت کے نمونے تو بے شمار ہیں مگر
دامان نگاہ تنگ و گل حسن تو بسیار
بہرحال اس دورآخرین میں اصحاب احمدؑ نے اخلاص و وفا میں صحابۂ رسولﷺ کے نقش قدم پر چل کر یہ ثابت کردیا کہ
وہی مے ان کو ساقی نے پلادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے اپنی جماعت کو یہ دائمی وصیت فرمائی ہے کہ
‘‘تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کرصحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔اطاعت ہوتو ویسی ہو۔باہم محبت اور اخوت ہوتو ویسی ہو۔غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔’’
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورة النساء زیر آیت 59)
صحابۂ رسولؐ سے اسی مناسبت پر ہمارے موجودہ امام سیدنا حضرت خلیفةالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاصحاب بدر کی سیرت و سوانح پر خطبات جمعہ کا ایمان افروز سلسلہ شروع فرمایا ہوا ہے۔آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کا مذکورہ بالا حوالہ پیش کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:
‘‘…اگر جماعتی ترقی کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے ،خلافت کے نظام کے دائمی رہنے کےلیے کوشش کرنی ہے تو پھر جماعت کے اندروہ نمونے بھی مستقل مزاجی سے قائم رکھنے پڑنے ہیں۔تبھی وہ ترقیات بھی ملیں گی جو پہلے ملتی رہی ہیں۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جون2018ءصفحہ9)
٭…٭…٭