روحانی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے طبی دنیا کے لئے رہنما اصول
روزنامہ الفضل ربوہ کی اشاعت 26؍ مارچ 2004ء میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا ایک مضمون زیر عنوان ’روحانی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے طبی دنیا کے لیے رہنما اصول‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون دنیا کے موجودہ حالات کی مناسبت سے ہدیہ قارئین الفضل انٹرنیشنل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امامِ وقت کی سیرت و سنّت پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(مدیر)
چشم بصیرت سے مطالعہ
سیدنا و امامنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ (1908-1835ء) نے اپنی روحانی آنکھ اور چشم بصیرت سے جہاں ’’علم الادیان‘‘ پر ایسی انقلابی روشنی ڈالی کہ دن چڑھا دیا وہاں ’’علم الابدان‘‘ یعنی میڈیکل سائنس اور طب کے سلسلہ میں بھی پوری عمر بے شمار روحانی تجربات و مشاہدات کے بعد دنیائے طب کے لئے ایسے بیش قیمت رہنما اصول رکھے جو صرف اور صرف ایک ربانی مصلح ہی کی خدانما شخصیت سے مخصوص ہو سکتے ہیں اوردعویٰ سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک طب اور میڈیکل سائنس کے ماہر فاضلوں کا لٹریچر کئی پہلوؤں کے اعتبار سے بہت حد تک خاموش ہے۔ حالانکہ اس مایہ نازعلم کو آنحضرتﷺ نے علمِ ادیان کے بعد دوسرا درجہ بخشا ہے اور جیسا کہ آپؐ کے احقرالغلمان حضرت بانی جماعتؑ نے بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ
’’صحت عمدہ شے ہے۔ تمام کاروباردینی اوردنیاوی صحت پر موقوف ہے صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ344)
علاج اور توکل میں ہم آہنگی
قبل اس کے کہ دائمی شان کے حامل ان طبی اصولوں کو سپردِ قرطاس کیا جائے حضرت اقدس ہی کے پیش فرمودہ دو بنیادی حقائق کا حرزِ جان بنانا از بس ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سب اصولوں کی روح وروواں یہی دوحقائق ہیں۔
اوّل یہ کہ علاج اور توکّل میں ہرگز کوئی تضاد نہیں چنانچہ فرماتے ہیں:
’’پیغمبرِ خداﷺ خود کس قدر متوکّل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تھے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ406)
مشہور مستشرق پروفیسرایڈورڈ جی براؤن نے’’طب العرب‘‘ میں اگرچہ یہ اعتراف تو کیا ہے کہ پیغمبر خداﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ‘‘ یعنی ہر مرض کی دوا ہے مگر ساتھ ہی ازراہِ تعصّب یہ بے بنیاد نظریہ بھی وضع کر لیا ہے کہ عام طبی معلومات کے اوربعض دوسرے فنی امور کے علاوہ کتب احادیث سے اور کچھ نہیں ملتا (پہلا لیکچر) حالانکہ یہ واقعہ کے سراسر خلاف ہے اور حق یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ صحاح ستہ خدائے حکیم کے مظہر اتمّ محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کے مجوزہ علاج اور ادویہ کے ذکر سے لبریز ہیں بلکہ محدثین عظام نے’’کتاب الطب‘‘ کے زیرعنوان حضورکی اہم طبی ہدایت کو مستقل ابواب کی صورت میں مزین فرما دیا ہے۔علاوہ ازیں دوسری صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک مندرجہ ذیل بزرگان سلف نے’’طبِ نبوی‘‘ ہی کے نام سے متعدد کتب سپرد قلم فرمائیں۔
مثلاً دوسری صدی ہجری میں عبدالملک بن حبیب اندلسی، تیسری صدی کے اواخر میں حضرت امام شافعیؒ کے شاگرد محمد بن ابوبکراورمحدث اورابونعیم اصفہانی نےاسی نام سے مجموعے مرتب کئے۔ ائمہ اہلِ بیت میں سے حضرت علی بن موسیٰ رضا اور حضرت امام کاظم نے اسی موضوع پر رسائل مرتب فرمائے۔ ازاں بعد چوتھی صدی میں فتوح الحمیدی، عبدالحق الاشبیلی، حافظ السخاوی اور حبیب نیشاپوری کو اس عظیم خدمت کا اعزاز حاصل ہوا۔ پھر ساتویں سے نویں صدی ہجری کے دوران ابوجعفرمستغفری، ضیاء الدین المقدسی، السید مصطفیٰ، شمس الدین البعلی، کمال بن طرخان ابن قیّم، علامہ جلال الدین سیوطی اور عبدالرزق بن مصطفیٰ الانطاکی جیسے علمائے حق کی کاوشیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر دنیا بھر کے لئے پیامبر شفا کا کام دے رہی ہیں۔ بلاشبہ سلسلہ انبیاء میں یہ فیض و برکت بھی کوثرونسیم کی طرح صرف شہنشاہِ رسالت ہی کاجاری و ساری ہے۔ عہدِ حاضرمیں جناب خالد غزنوی کے قلم سے ’’طب نبوی اور جدید سائنس‘‘ کے زیر عنوان اکتوبر 1987ء میں ایک معلومات افروزاور پرمغزتحقیقی کتاب شائع ہوئی۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اورجنوری 1991ء میں الفیصل اردو بازار لاہور نے اس کا چھٹا ایڈیشن شائع کیا ہے۔ جناب ڈاکٹر خالد غزنوی نے اپنی کتاب کی تمہید میں مندرجہ بالا بزرگوں کے لٹریچر کا جامع رنگ میں تذکرہ فرمایا ہے۔
شفاء کا آسمانی محکمہ
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:
’’طب تو ظاہری محکمہ ہے ایک اس کے وراء محکمہ پردہ میں ہے۔ جب تک وہاں دستخط نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 353)
اگر احادیث کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی مبارک ادعیہ میں اس دائمی صداقت کی نمایاں جھلک ملتی ہے وجہ یہ ہے کہ نہ صرف آنحضورؐ خود یہ دعا اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدنِیْ التزام سے کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الادب)
بلکہ بیماروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے چنانچہ ابن ماجہ میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوہریرہؓ بیمار ہوئے۔ آنحضرتﷺ عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور فرمایا نماز پڑھو کیونکہ نماز میں شفا ہے۔ بخاری شریف میں وہ دعا بھی ہے جو آنحضرتﷺ مریضوں کی عیادت کے وقت کرتے تھے۔ یہی نہیں خادم الرسول حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مریضوں کی عیادت کرواوران سے درخواست بھی کیا کرو کہ وہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کیونکہ بیمار کی دعا مقبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
(الترتیب و الترھیب۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’طب نبوی‘‘ صفحہ216تا 222 از حافظ نذر احمد پرنسپل شبلی کالج۔ ناشر مسلم اکادمی۔ علامہ اقبال روڈ لاہور۔ اشاعت یکم جنوری 1973ء)
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نےبیماریوں کی کثرت کا فلسفہ درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تاکہ ہرطرف سے انسان اپنے آپ کوعوارض اور امراض میں گھرا ہوا پاکراللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے ثباتی کا ہردم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اورغافل ہو کرموت کو نہ بھول جاوے اورخدا سے بے پرواہ نہ ہو جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 217)
اس ضمن میں مزید ہدایت فرمائی:
’’ سچ یہی ہے کہ خداتعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا۔ توبہ و استغفار بہت کرنی چاہئے تاخداتعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خداتعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 242 جلد پنجم صفحہ 60)
’’ہر ایک مرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلّط ہے جب اللہ چاہتا ہے مرض مٹ جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ295)
حضرت اقدس نے اپنے ملفوظات میں خصوصاً بیماری سے شفا کے لئے دعاؤں کی بار بار تحریک فرمائی ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں:
1۔ ’’میں بہت دعا کرتا ہوں۔ دعا ایسی شے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لاعلاج کہہ دیتے ہیں ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 265)
2۔’’میرا مذہب بیماریوں کے دعا کے ذریعہ سے شفا سے متعلق ایسا ہے کہ جتنا میرے دل میں ہے اتنا میں ظاہر نہیں کر سکتا۔ طبیب ایک حد تک چل کر ٹھہر جاتا ہے اور مایوس ہو جاتا ہے مگر اس کے آگے دعا سے راہ کھول دیتاہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ299)
ایک بار حضرت اقدس نے مسلم اطباء کی نسبت اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’مسلمان اطباء میں کیا عمدہ بات ہے کہ نبض دیکھنے سے پہلے طبیب یہ پڑھا کرے سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ (البقرہ:33) تُو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں سوا اس کے جو تو نے ہم کو سکھایا تحقیق تو علم اور حکمت والا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ281)
’’مسلمان جب ان علوم کے وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی…… نسخہ لکھنے کے وقت ہوالشافی لکھنا شروع کیا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ296)
سبحان اللہ! دین مصطفیٰ نے کس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں بے شماراہل اللہ پیدا کر دیئے۔
آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہیں اس لئے آپؐ کے ادنیٰ غلام اور چاکر بھی صدیوں سے ان روحانی اقدار کا پرچم بلند سے بلند تر کرتے چلے آرہے ہیں۔ا نیسویں صدی کے آخر میں 2 مئی 1898ء کو پورے ملک میں عید کی مبارک تقریب منائی گئی۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے قادیان دارالامان میں شرقی جانب واقع بڑ کے درخت کے نیچے ایک بصیرت افروز خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ
’’رعایت اسباب ہماری اسلامی شریعت میں منع نہیں ہے۔ کسی شخص نے حضرت رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم دوا کریں آپ نے جواب میں فرمایا کہ ہاں دوا کرو کوئی مرض ایسا نہیں جس کی دوا نہ ہو…… طبیبوں اور ڈاکٹروں کو چاہئے کہ متقی بن جاویں دوا بھی کریں اور دعا بھی تنہائی میں بہت بہت دعا کریں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 165)
’’ازاں بعد اپنے وصال سے کچھ عرصہ قبل دوبارہ یہ پرزور ہدایت فرمائی کہ
’’طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے لیکن یاد رکھو موثرِحقیقی خداتعالیٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہئے کہ انسان دوا بھی کرے اوردعا بھی کرے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلا دیتاہے۔ اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر بڑا احسان کرتا ہے۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتلا دیتا ہے یہ اس کا احسان ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ51-53)
مندرجہ بالا دونوں انقلاب آفریں حقائق کے پُرنور آئینہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زبان مبارک سے صحت و شفا سے متعلق چند نہایت اہم امور اور بیش قیمت اصول سنئے:
ہر نوع کی طب سے استفادہ کی ضرورت
27 ؍اکتوبر1907ء کو دہلی میں حضرت اقدسؑ نے طبیہ کالج کے سٹاف اور طلباء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُوْمِنِ‘‘ حکمت کی بات مومن کی اپنی ہے…… ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہئے کہ مفید بات جہاں سے ملے وہیں سے لے لے۔ ہندی، جاپانی، انگریزی ہرطب سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے……تب ہی انسان کامل طبیب بنتا ہے۔ طبیبوں نے عورتوں سے بھی نسخے حاصل کئے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 507-508)
علاج کی پانچ صورتیں
اسی طرح فرمایا:
’’علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں دوا سے، غذا سے، عمل سے، پرہیز سےعلاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہے وہ توجہ ہے…… دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے۔ توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 280)
بہت عمدہ پیشہ
فرمایا: ’’تحصیل دین کے بعد طبابت کا پیشہ بہت عمدہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ334)
مامور وقت کے یہ الفاظ طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے ایک سنہری سرٹیفیکیٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔
نماز اور وضو کے طبی عجائبات
حضور نے 26 ؍دسمبر 1900ء کو علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی نواب عماد الملک فتح نوازجنگ سید مہدی حسین صاحب بارایٹ لاء کو شرفِ ملاقات بخشا اور انہیں دوران گفتگو یہ زبردست نکتہ بتایا کہ
’’نماز کا پڑھنا اور وضو کرنا طبی فوائد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں۔ …… کیسی عمدہ بات ہے منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے۔ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دور ہوتی ہے۔ دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتا ہے۔ پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ناک میں کوئی بدبو داخل ہو تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے…… اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اوراس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے…… پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیّع اوقات سمجھا جاتا ہے جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 407)
مضر صحت چیزیں مضر ایمان ہیں
حضرت اقدس نے 14؍ جون 1902ء کی مجلس عرفان میں پان، حقہ، زردہ، تمباکو، افیون وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے نہایت حکیمانہ انداز میں بتایا کہ
’’عمدہ صحت کو کسی بے ہودہ سہارے سے کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے ان سب کی سردار شراب ہے یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 219)
وبائی ایام کے لئے ضروری ہدایات
حضرت اقدس نے 13 ؍جنوری 1903ء کو ظہر کے وقت اپنے نہایت مخلص مرید اور فدائی و شیدائی سید فضل شاہ صاحب سے فرمایا:
’’آپ کا کمرہ بہت تاریک رہتا ہے اور اس میں نم بھی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ آج کل وبائی دن ہیں۔ رعایت اسباب کے لحاظ سےضروری ہے کہ وہاں آگ وغیرہ جلا کر مکان گرم کرلیا کریں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ690)
صفائی سنت نبویؐ
قبل ازیں 15؍دسمبر 1902ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کی نسبت بھی دریافت کر کے یہ حکم دیا کہ
’’اس کے مالکوں کو کہو کہ روشن دان نکال دیں اورآج کل گھروں میں خوب صفائی رکھنی چاہئے۔ کپڑوں کو بھی صاف ستھرا رکھنا چاہئے آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا تو سنت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ576)
تداخل طعام بیماری کا موجب
24 ؍دسمبر 1901ء کو آپ نے ایک آسٹریلوی سیاح عبدالحق صاحب سے دوران گفتگو فرمایا:
’’تداخل طعام درست نہیں ہے یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ اَور کھا لیا پھر کچھ اَور۔ اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوء ہضم ہو کرہیضہ یا قَے یا کسی اَور بیماری کی نوبت آجائے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ81)
ورزش جسمانی
حضورؑ نے 18؍ستمبر 1907ء کو بوقت سیر فرمایا:
’’حکیم لکھتے ہیں کہ ریاضت بدنی ادویہ کی مشق سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 290)
درازی عمر کا قرآنی نسخہ
آخر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ایک خصوصی ارشاد مبارک (جسے طب روحانی کا شاہکار کہنا چاہئے) ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ حضورؑ نے 14 ؍جون 1902ء کو ارشاد فرمایا کہ
’’ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر درازہو…… قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد:18) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں ان کی عمر دراز ہوتی ہے۔ …… ہمدردی خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کرکے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا عمر دراز ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ221)
حضرت اقدس نے ایک موقع پر اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں فرمائی کی:
’’انسان کو لازم ہے کہ وہ خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسِ بننے کے واسطے سوچتا رہے اورمطالعہ کرتا رہے۔ جیسے طبابت میں حیلہ کام آتا ہے اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 353)
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
(روزنامہ الفضل ربوہ 26؍ مارچ 2004ء صفحہ 3-4)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہت اعلیٰ مضمون ۔ دنیا کے تمام اطبآء کے لیئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات مشعل راہ ہیں۔ مضمون لکھنے والے نے بھی کمال کیا ہے۔
اسی طرح پرانے علمآء کے مضامین جو پرانی الفضل کی تاریخوں میں شائع ہوئے ہیں اگر وہ بھی دوبارہ وقتًا فوقتًا شائع ہوتے رہیں تو کمال ہوجائے ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم مولوی دوست محمد شاہد صاحب کے درجات بلند فرمآئے آمین