نیک کو کچھ غم نہیں گو بڑا گرداب ہے
4 ؍فروری2020ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سٹیٹ آف دی یونیں خطاب میں کہا کہ:’ ’نوکریاں عروج پر ہیں، آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے، غربت میں تیزی سے کمی آرہی ہے، جرائم کی شرح کم ہو رہی ہے، اعتماد بڑھ رہا ہے اور ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے۔‘‘
(https://www.youtube.com/watch?v=Xb1xHhGJjJk – Accessed 29thMarch 2020)
ڈونلڈٹرمپ 21.44 ٹریلین ڈالر کی زوردار امریکی معیشت کے بارے میں پر جوش تھے۔ یاد رہے کہ چین کی جی ڈی پی 14.4 ٹریلین ڈالر، انڈیا کی دو اعشاریہ آٹھ ٹریلین اور پاکستان کی 320 بلین ڈالرہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی حصص بازار میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا تھا اور’’ڈو جونز‘‘ (Dow Jones) جونیویارک سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والی 30 بڑی کمپنیوں کی کارکردگی ناپنے کا انڈیکس ہے پہلی مرتبہ 29 ہزار سے اوپر کی سطح تک گیا۔ بے روزگاری کی شرح تقریباً تین اعشاریہ چھ فیصد کے لگ بھگ رہی جو کہ 50 سال کی کم ترین سطح ہے۔ یہ وہ ایام تھےجب’’نول کورونا ‘‘ نامی ایک ارضی وبا چین میں ظاہر ہوچکی تھی اور اس جرثومے سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے اور کئی ہزار لوگ اس سے متاثر ہو چکے تھے۔ پھر اس وائرس نے ایشیا کے دوسرے ممالک میں سر اٹھایا اوردنیاوی لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ اوربہترین طبی سہولتوں سے مالامال یورپ میں اپنے پنجے گاڑے اور آج’’ COVID-19،یعنی کورونا وائرس سے پھیلنے والا مرض‘‘ سنگین عالمی وبا کی صورت میں انسانی جان اورعالمی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ چین کے بعداٹلی اور سپین میں ہزاروں افراد موت کی آغوش میں جا چکے ہیں اور یورپ کےتقریباً تمام ممالک سمیت شمالی اور جنوبی امریکہ اور جزائر کے لوگ گھروں میں پناہ لینے پر مجبورہو گئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ جو کل تک اسے ’’چائینیز وائرس‘‘ کہہ رہے تھے آج ان کے اپنے ملک میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اس وائرس سے متائثر ہوچکے ہیں جبکہ کئی ریاستوں کوآفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ عالمی سطح پراس وبا کے شکارافراد کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ذرائع آمدو رفت معطل ہوگئے ہیں۔ کروڑوں لوگ گھروں میں بند ہو گئے ہیں۔ سڑکیں اور بازار سنسان ہیں اور آبادیاں ویرانوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
متعدی اور وبائی امراض کے حوالے انسان کاملﷺ کے ارشادات
٭… عن عائشة رضي الله عنها، قالت:” لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك ابو بكر، وبلال، فكان ابو بكر إذا اخذته الحمى، يقول: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله وكان بلال إذا اقلع عنه الحمى يرفع عقيرته يقول: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة وهل يبدون لي شامة وطفيل قال: اللهم العن شيبة بن ربيعة، وعتبة بن ربيعة، وامية بن خلف، كما اخرجونا من ارضنا إلى ارض الوباء، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة او اشد، اللهم بارك لنا في صاعنا وفي مدنا وصححها لنا، وانقل حماها إلى الجحفة”، قالت: وقدمنا المدينة وهي اوبا ارض الله، قالت: فكان بطحان يجري نجلا تعني ماء آجنا‘‘
(صحيح البخاري كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللّٰہ عنہما بخار میں مبتلا ہو گئے، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے: ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے: کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔ پھر کہتے اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر۔ انہوں نے ہمیں اپنے وطن سے اس وبا زده زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اُسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت افزاء کر دے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔‘‘
پس متعدی اور وبائی امراض سے بچنے کے لیے، آب و ہوا کو ماحول دوست اورانسانی صحت کے لیے سازگار بنانے کے لیے ،ضرررساں اور نقصان دہ جراثیم سے بچنے کے لیے دست ِدعا دراز کرنا مظہر اتم الوہیت کی پاکیزہ سنت ہے۔
٭… من طريق سعيد بن ميناء، قال: سمعت أبا هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’’لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صَفَر، وفر من المجذوم كما تفر من الأسد ‘‘ (صحيح البخاري، كتاب الطب، باب الجذام)
حضرت سعید بن میناء بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، اُلو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں، البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے‘‘۔ یعنی جس شخص کو متعدی مرض ہو اُس سے الگ رہنا لازمی ہے ۔
٭… عن عمرو بن الشريد ، عن ابيه ، قال:” كان في وفد ثقيف رجل مجذوم فارسل إليه النبي صلى اللّٰه عليه وسلم إنا قد بايعناك فارجع۔ (صحيح مسلم كِتَاب السَّلَامِ باب اجْتِنَابِ الْمَجْذُومِ وَنَحْوِهِ)
حضرت عمرو بن شرید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں اپنے باپ سے سنا کہ بنو ثقیف کےوفد میں ایک جذامی شخص تھا، جو بیعت کا خواہاں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہلا بھیجا: ”تو لوٹ جا ہم تیری بیعت لےچکے۔“
٭…عن عائشة زوج النبي صلى اللّٰه عليه وسلم انها اخبرتنا:” انها سالت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن الطاعون، فاخبرها نبي اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، انه كان عذابا يبعثه اللّٰه على من يشاء، فجعله اللّٰه رحمة للمؤمنين، فليس من عبد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا يعلم انه لن يصيبه إلا ما كتب اللّٰه له، إلا كان له مثل اجر الشهيد”
(صحيح البخاري، كتاب الطب)
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے متعلق پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اُس پر اس کو بھیجتاہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑی ہو اور یہ یقین رکھے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا اُس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر طاعون میں اُس کا انتقال ہو جائے تو اسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔‘‘
٭… عن ابي هريرة ، حين قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: "لاعدوى ولا صفر ولا هامة”، فقال اعرابي: يا رسول اللّٰه فما بال الإبل تكون في الرمل كانها الظباء، فيجيء البعير الاجرب فيدخل فيها فيجربها كلها، قال:” فمن اعدى الاول؟‘‘
(صحيح مسلم كِتَاب السَّلَامِ۔ باب لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ وَلاَ نَوْءَ وَلاَ غُولَ وَلاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیماری کا لگنا کوئی چیز نہیں اور صفر اور ہامہ کی کوئی اصل نہیں، تو ایک گنوار بولا: یا رسول اللہ! اونٹوں کا کیا حال ہے ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن ،پھر ایک خارشی اونٹ آتا ہے اور اُن میں گھل مل کر سب کو خارشی کر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارش میں مبتلا کیا؟۔‘‘
٭… ان ابا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف حدثه، ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:” لا يورد ممرض على مصح ‘‘۔
(صحيح مسلم كِتَاب السَّلَامِ۔ باب لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ وَلاَ نَوْءَ وَلاَ غُولَ وَلاَ يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کسی بیمار کو تندرست کے پاس نہ لایا جائے ۔“
پس سائنسی انقلاب کے اس دور میں جہاں آجکل مشکوک افراد کو قرنطینہ میں رکھا جارہا ہے اور متائثرین کے لیے آئسولیشن وارڈز تیار کیے جارہے ہیں، طبیب اعظم ﷺنے پندرہ سو سال قبل اس کی تعلیم دی ۔
وبائی امراض اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ارشادات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
’’اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا والرُّجْزَ فاھْجُر یعنی’’ ہر ایک پلیدی سے جُدا رہ‘‘ یہ احکام اِسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔ عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو ،خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دُور رہو اور مُردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔…..جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گِر کر رُوحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے۔ مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنیٰ صفائی کے درجہ پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے اُن میں سے مُردار کی بُو آئے گی۔ آخر دانت خراب ہو جائیں گے اور اُن کا زہریلا اثر معدہ پر گِر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا۔ خود غور کر کے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر کسی بوٹی کا رگ و ریشہ یا کوئی جُز پھنسا رہ جاتا ہے اور اُسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بدبو اُس میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی بد بُو آتی ہے جیسا کہ چُوہا مرا ہوا ہوتا ہے۔ پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیا جائے اور یہ تعلیم د ی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو نہ خلال کرو اور نہ مسواک کرو اور نہ کبھی غسل کر کے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لیے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے۔ ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لیے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیںؔ جسمانی صحت کے لیے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اُس کے بد نتائج یعنی خطرناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تو اُس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکمے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے اور یا چند روز دکھ اٹھا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترکِ قواعدِ حفظان صحت سے اوروں کے لیے وبالِ جان ہو جاتے ہیں اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتے ہیں وبا کی صورت میں مشتعل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے۔ اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے پس دیکھو کہ قرآنی اصولوں کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کر کے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پرہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور منہ سے دور نہیں کرتے اُن کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوعِ انسان کے لیے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔ اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتیں ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام اس جائیداد سے جو جان کاہی سے اکٹھی کی تھی دست بردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے؟ ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لا پروائی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لیے عین موزوں اور مؤید ہے یا نہیں؟ پس قرآن نے کیا بُرا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیا میں یکدفعہ فالج کی طرح گِرتا اور عدم تک پہنچاتا ہے۔ پھر دوسرے جہنم سے محفوظ رہنے کے لیے وہ صراطِ مستقیم بتلایا جو انسانی فطرت کے تقاضا کے عین موافق اور قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے۔….. جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں اور اپنی بدرؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اور کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ پس گویا وہ اس طرح پر یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے وعدے سے فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پروا نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں ان کو آپکڑتی ہیں۔‘‘
(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد 14،صفحہ 332 -337)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ حضرت ِاقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
’’آپ کو دیکھ کر کوئی شخص ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا تصنع ہے یا زیب و زینت دنیوی کا دلدادہ ہے۔ ہاں البتہ والرُّجْزَ فاھْجُر کے ماتحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتےاور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے۔صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہو تو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتےتھے۔‘‘
(سیرت المھدی حصہ دوم ،صفحہ 418۔ مطبوعہ قادیان، ایڈیشن جولائی 2008ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پلیگ ڈیوٹی پر جانے والے ایک ڈاکٹر صاحب کو نصائح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’بہت سے بیماروں کی وجہ سے بے احتیاط نہ ہو جانا…مثلاً ہاتھوں کو اینٹی سیپٹگ ادویہ سے صاف کرلو۔۔۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت احتیاط کیا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کارڈ کو جو وبا والے شہر سے آیا ہو، چھوتے تو ہاتھ دھو لیتے۔‘‘
(الفضل 13مئی 1924 ء ۔صفحہ 9۔جلد 11،شمارہ 88)
آنے والے کل کے لیےرحمت للعالمین کے امید افزا ارشادات
عن ابي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال: ’’ما انزل اللّٰه داء إلا انزل له شفاء‘‘
(صحيح البخاري، كتاب الطب)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔‘‘
عن جابر، عن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم، انه قال: ” لكل داء دواء فإذا اصيب دواء الداء برا بإذن اللّٰه عز وجل "
(صحيح مسلم كِتَاب السَّلَامِ باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابُ التَّدَاوِي)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بیماری کی ایک دوا ہے جب وہ دوا پہنچتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفا ہو جاتی ہے۔ “
حرف آخر
یقیناً یہ دنیا کے تمام ملکوں کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے کڑے امتحان کا دور ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ قائدانہ صلاحیت کے اظہار کا عملی موقع ہے۔ موجودہ دور کی سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ وہ اس نازک وقت میں کیا فیصلے کرتی ہے۔کون سی قیادت کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتی ہے اور ملکی وسائل کتنے مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرتی ہے، تاریخ اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھے گی۔ وہ اہل علم جو اس مہلک وائرس کے علاج سے فی الحال لاعلم ہیں اوررنگ، نسل، مذہب اور ملک کا فرق دیکھے بغیر انسانیت کو بچانے کے لیے اس مرض کا شافی علاج تلاش کرنے میں مصروف ہیں وہ رحمٰن و رحیم مولائے کُل ان کی سچی محنت کا پھل دے گا اوراپنی مخلوق پر رحمت کے ساتھ رجوع کرے گا ، کیونکہ ازل سے یہی تقدیر جاری ہے کہ
’’وَلَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔‘‘
اب تک کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس دراصل جانوروں اور پرندوں میں بیماری پیدا کرنے والا وائرس ہے۔یہ بیماری انسانوں میں چین کے شہر(Wuhan) وُوہان میں دسمبر 2019ء میں شروع ہوئی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اس بیماری کے زیادہ تر مریضوں کا تعلق ایک ایسی مارکیٹ سے تھا جو وُوہان میں مختلف جانوروں کے گوشت کی فروخت کرتی ہے۔یہ جانور مذہب کی تعلیم کے مطابق حلال اور طیب کے معیار سے بہت زیادہ گرے ہوئے ہیں۔اس لیے مخلوق کو خالق کائنات کے اس حکم کی طرف لوٹنے کی اشد ضرورت ہے:
’’ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖوَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ‘‘) البَقَرَة :169)
اے لوگو! اُس میں سے حَلال اور طیّب کھاؤ جو زمین میں ہے اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔
ہمارا کیا فرض ہے اور ہماری کیا ذمہ داری ہے، دنیا کی سب سے سچی ،پاک اور روشن کتاب اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے:
’’ یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا. وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا. هُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا ‘‘ (سورۃ الأحزاب : 42تا44)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ اور اس کی تسبیح صبح بھی کرو اور شام کو بھی۔ وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے اور وہ مومنوں کے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے۔
لہذا تسبیح و تحمید توبہ و استغفار اور مکمل احتیاط ہی تاریکی سےنور کی طرف آنے، اس عالمی وبا سے بچنے، مامون ومحفوظ رہنے کا ذریعہ ہے۔ اور انفرادی تحفظ ہی اجتماعی تحفظ کا ضامن ہے۔
امامِ آخر الزمان کا یہ ارشاد اقوام عالم کے لیے روشنی کا مینار ہے:
کیا تضّرع اور توبہ سے نہیں ٹلتا عذاب
کس کی یہ تعلیم ہے دِکھلاؤ تم مجھ کو شتاب
یہ بھی صدائے عام ہے۔
ہے سرِراہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم
نیک کو کچھ غم نہیں گو بڑا گرداب ہے
کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اِس سَیل سے
حِیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ تو ّاب ہے
امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6 ؍مارچ 2020ء کے خطبہ جمعہ میں احبابِ جماعت کوکورونا وائرس اور اس سے متعلق احتیاطی تدابیرکی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے درج ذیل نصائح فرمائیں:
٭حکومتوں اور محکموں کی طرف سے دی جانے والی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
٭بعض ہومیو پیتھی دوائیاں حفظ ماتقدم اور ممکنہ علاج کے طور پر بتائی گئی تھیں۔ ان کو استعمال کرنا چاہیے۔
٭مجمع سے بچنا چاہیے۔
٭مسجد میں آنے والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔ اگر ہلکا سا بھی بخار ہے، جسم ٹوٹ رہا ہے یا چھینکیں نزلہ وغیرہ ہے تو مسجد کے حق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مسجد میں نہیں آنا چاہیے۔
٭چھینک لیتے وقت منہ پرہاتھ یا رومال رکھیں۔
٭ ہاتھ اور چہرہ صاف رکھیں۔
٭اگرہاتھ گندے ہیں تو چہرے پر نہ لگائیں۔
٭ ہاتھوں پر سینیٹائزر(sanitizer) لگا کر رکھیں یا دھوتے رہیں۔
٭ اگر وضوصحیح طرح کیا جائے تو ظاہری صفائی بھی ہے اور جو انسان وضو کرے گا اور نماز بھی پڑھے گا تو یہ ایک روحانی صفائی کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے۔
٭جرابیں روزانہ تبدیل کرنی چاہئیں اور دھونی چاہئیں۔
٭جسم کی صفائی اور فضا کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
٭اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس بہانے سے مسجد میں آنا چھوڑ دیں ۔اپنی ظاہری حالت کو دیکھ کر اپنے دل سے فتویٰ لینا چاہیے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال کو جانتا ہے اور اس لیے اگر کوئی بیماری ہے تو ڈاکٹروں سے تسلی کروا لیں کہ یہ کس قسم کی بیماری ہے۔
٭مصافحوں سے آجکل پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
٭اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بداثرات سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ہر احمدی کو ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف اور اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دنیاکے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ وہ بجائے دنیاداری میں زیادہ پڑنے کے اور خدا تعالیٰ کو بھولنے کے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں۔ آمین۔
(سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن،10مارچ 2020 ء صفحہ 1۔جلد 27۔شمارہ 20)
٭…٭…٭
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماشآء اللہ تعالیٰ الفضل کا ہر مضمون ہی علمی اور روح کو تازگی دینے والا ہوتا ہے۔
آج مجھے ہمارے استاذنا المحترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کی بات یاد آگئی جو جامعہ میں ایک دفعہ کلاس میں انہوں نے بتائی تھی کہ جب آپ یعنی محترم میر صاحب امریکا بطور مبلغ متعین تھے تو ایک سیمینار تھا اور اس میں اسلام پر محترم میر صاحب کا لیکچر تھا ۔ جب لیکچر ختم ہوا تو ایک انگریز بڑی گرم جوشی سے ملا کہ آپ اس نبی کے پیروکار ہیں جس نے پانچ دفعہ برش کرنے کا حکم دیا ہے۔
آج مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیئے الفضل بڑا جہاد کر رہا ہے۔