حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ احمدیت (قسط نمبر05۔آخر)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

مجدّد و مصلح کی ضرورت حقہ

اس کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا نبی مان لیں تو اس سے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے کیونکہ اس طرح ماننا پڑتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کسی اَور مصلح کی ضرورت باقی ہے۔ اس کے متعلق ہم کہتے ہیں اگر رسول کریمﷺ کے بعد کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے پھر اسلام میں مجدد کیوں آئے؟ اور بڑے بڑے بزرگ لوگوں سے بیعتیں لیتے رہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مصلح کی ضرورت تو موجود ہے اور ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ایسے مصلحین سے بڑے درجے کا بھی کوئی آسکتا ہے یا نہیں۔ اگر تو رسول اللہﷺ کے بعدآپؐ کی امت بگڑ نہیں سکتی تو پھر اس کے لیے کسی مصلح کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر بگڑ سکتی ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ سکتی ہے تو کیا محمدﷺ کا یہی کمال ہے کہ آپؐ کی امت میں برائیاں تو پیدا ہو سکتی ہیں، لیکن ان کو دور کرنے والا کوئی نہیں پیدا ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ سے آپؐ کو جس قدر محبت ہے اس کا تو یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ آپؐ کی امت کا خداتعالیٰ زیادہ خیال رکھے نہ یہ کہ اسے آوارہ چھوڑ دے اور کہے جا تباہ ہو۔ دیکھو کسی کی خبرگیری بھی تو اس سے محبت کا ثبوت ہوتا ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے بچے بیمار ہوں تو میں ان کا کوئی علاج نہیں کرتا۔ آوارہ پھریں تو میں ان کا کوئی خیال نہیں رکھتا اور یہ میری محبت کا ثبوت ہے۔ ہرگز نہیں۔ پس اگر محمدﷺ خداتعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل ہیں تو ضروری ہے کہ خداتعالیٰ آپ کی امت کی حفاظت بھی دوسری امتوں سے زیادہ کرے کیونکہ جس سے جتنا پیار اور عشق زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس سے سلوک بھی کیا جاتاہے۔ محبت میں تو کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ پانی جس سے رسول کریمﷺ وضو کرتے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صحابہؓ آپس میں لڑ پڑتے۔ عبداللہ بن عمرؓ حج کو جاتے ہوئے اسی جگہ پیشاب کرتے جہاں رسول کریم ﷺ نے حج پر جاتے ہوئے کیا تھا۔ آج کہا جائے گا کہ یہ بیہودہ بات تھی۔ مگر محبت کا علم جاننے والے جانتے ہیں کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر ایک بات پیاری لگتی ہے۔ مگر کیسے افسوس کی بات ہے کہ محمد ﷺ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگرآپ کی امت بگڑ جائے تو اس کی اصلاح کے لیے خداتعالیٰ کوئی انتظام نہیں کرتا۔ پس اگر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ محمد ﷺ کی امت کے تمام لوگ ہمیشہ نیک اور پرہیز گار ہی رہیں گے اس لیے ان کی اصلاح کے لیے کسی مصلح کے آنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بات صحیح ہے تو واقعہ میں رسول کریم ﷺ کی امت کے لیے کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہو گی، لیکن اگر یہ نظر آئے کہ مسلمان کہلانے والوں نے نمازیں چھوڑ دی ہوں حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں نہیں آتے میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان گھروں کو مع ان کے جلا کر راکھ سیاہ کر دوں۔ اور جب رسول کریمﷺ جیسا رحیم کریم انسان عشاء کی نماز کے لیے یہ فرماتا ہے تو دوسری نمازوں کے لیے خود سمجھ میں آسکتا ہے کہ ان کا پڑھنا کتنا ضروری ہے ۔ پس اگر لوگوں نے نمازیں چھوڑ دی ہیں اور زکوٰۃ جس کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو اونٹ کی رسی تک نہیں دے گا مَیں اس سے جہاد کروں گا اس کا دینا ترک کر دیا ہے اور اسی طرح شریعت کے دوسرے احکام کو چھوڑ دیا ہے تو پھر کیوں ان کے لیے کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے؟ ہاں اگر مسلمان نہ بگڑتے تو ان کو کسی مصلح کی بھی ضرورت نہ ہوتی مگر جب ان کا بگڑنا ثابت ہے تو پھر یہ کیوں نہ مانا جائے کہ خداتعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے سامان بھی کیا ہو گا۔ اگر نہیں کیا تو یہ ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو رسول کریم ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں یہ تو ‘‘انگور کھٹے ہیں’’ والی مثال ہے۔ جب ہر ایک شخص دیکھ رہا ہے حتی کہ دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حال بگڑ چکی ہے تو پھر یہ کہنا کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں اپنی بیہودگی کا ثبوت دینا ہے۔

امکانِ نبوت کی اصلیت

باقی رہا یہ کہ کوئی کہے اسلام میں مجدد اور مامور تو بےشک آئیں لیکن کوئی نبی نہیں آسکتا۔ کیونکہ اس طرح رسول کریمﷺ کی ہتک ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا نبی ہونے کا دعویٰ کرے جو صاحبِ شریعت ہو اور رسولِ کریمﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے تو بے شک اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے لیکن اگر رسول کریمﷺ کی امت میں سے کسی کو بطور اعزاز کے یہ درجہ اور رتبہ دیا جائے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں، بلکہ عزت ہے۔ دیکھو دنیا میں اسی انسان کی بڑی عزت سمجھی جاتی ہے، جس کے ماتحت بڑے بڑے درجہ کے انسان ہوں۔ ایک کمانڈر انچیف کیوں بڑا ہوتا ہے اس لیے کہ کئی جنرل اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک جنرل کیوں بڑا ہوتا ہے اسی لیے کہ کئی کرنل اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ تو بڑے کی تعریف ہی یہ ہے کہ بڑے بڑے اس کے ماتحت ہوں۔ نہ یہ کہ بڑے بڑے تو مر جائیں اور جو پیچھے رہے وہ کہے کہ میں بڑا ہوں۔ یوں تو مردوں میں بھی ایک بچہ بہادر کہلا سکتا ہے، لیکن کیا واقع میں وہ بہادر ہوتا ہے۔ بڑا بہادر اصل میں وہی ہوتا ہے جو کئی بہادروں سے بڑا ہو۔ ایک بچہ مردوں کے منہ پر طمانچے مار کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں بڑا بہادر ہوں۔ بہادر وہی ہوتا ہے جو دوسرے بہادر کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اسی طرح مدرسہ کون سا اعلیٰ سمجھا جاتا ہے وہی جس میں لڑکا پڑھ کر دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ لائق ثابت ہو سکے۔ اب دیکھو رسول کریم ﷺ خود فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھے فضیلت دی ہے اور میں قیامت کے دن اپنی امت پر فخر کروں گا۔ اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ آپؐ کس بات پر فخر کریں گے اور وہ کون سی بات ہے جو اَور کسی امت کو نہیں دی گئی مگر آپؐ کی امت کو دی گئی۔ یہی ہے کہ دوسرے انبیاء کے امتیوں میں مجدد اور مصلح تو ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں ہوا تو نبی نہیں ہوا۔ پس رسول کریم ﷺ کے لیے یہی فخر کی بات ہے کہ یہ درجہ آپؐ کے غلاموں میں سے کسی کو حاصل ہو تا کہ اس طرح آپ کی عزت اور عظمت بڑھے۔ پھر آپؐ کی امت میں سے کسی کے نبی ہونے کی ایک اَور بھی وجہ ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا ہے کہ

لَوْ کَانَ مُوسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ مَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِی (الیواقیت والجواھر مولفہ عبدالوہاب شعرانی صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1321ھ)

اگر موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ان کے لیے سوائے اس کے چارا نہ تھا کہ میری اطاعت کرتے۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کے متعلق دشمن اعتراض کر سکتا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنا جس کا کوئی ثبوت نہ ہو بہادری نہیں ہے۔ اس اعتراض کا جواب دینا ضروری تھا اور اسی طرح دیا جا سکتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی امت میں سے اسی درجہ اور رتبہ کا انسان بھیج دیا جائے جو حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ کا درجہ تھا۔ پس رسول کریمﷺ کا یہ دعویٰ سچا کرنے کے لیے موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو میری اتباع کرتے ضروری تھا کہ ایک شخص کو آپ کی امت میں سے کھڑا کیا جاتا جو ان کے درجہ پر پہنچ کر یہی کہتا کہ میں محمد ﷺ کا غلام ہوں اور ان سے ایک قدم دوری میرے لیے ہلاکت اور تباہی ہے۔ کیونکہ جب آپ کی امت میں سے کوئی ایسا شخص کھڑا ہو تب آپ کا دعویٰ سچا ثابت ہو سکتا ہے۔ ورنہ اس کے بغیر آپ کا دعویٰ یونہی تھا۔ پس رسول کریم ﷺ کو سچا ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ کی امت میں سے کسی کو نبوت کا درجہ دیا جاتا۔

دعویٰ نبوت پر اعزاز خیر البشر

اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ شخص جس نے اس زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس نے اگر اپنے قول اور فعل سے رسول کریم ﷺ کی عظمت ثابت کی ہے یا آپ کی ہتک کی ہے۔ اگر اس کے عمل سے رسول کریم ﷺ کی عظمت ثابت ہو تو اسے قبول کرنا چاہئے ورنہ رد کردینا چاہئے۔

اس زمانہ میں اسلام کی جو حالت ہو رہی ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس پر تباہی آرہی ہے۔ ایسی حالت میں خداتعالیٰ کی طرف سے کسی مصلح کا آنا ضروری تھا۔ مگر سوائے اس کے اور کوئی شخص ایسا نہیں ملتا جس نے خداتعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کیا ہو۔ اب وہ بھی سچا نہیں بلکہ جھوٹا ہے اور (نعوذباللہ) دجال ہے تو یہی کہا جائے گا کہ بجائے اس کے کہ خدائے تعالیٰ ایسی نازک حالت میں اسلام کی مدد کرتا اس نے بھیجا تو ایک دجال کو بھیجا۔ حالت تو یہ ہو کہ ایک مریض مر رہا ہو اس وقت چاہئے تو یہ کہ اسے ایسی دوا دی جائے جس سے وہ شفا پائے لیکن الٹا زہر دے دیا جائے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں، وہ دجال بھی عجیب ہے کہ اس کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیجتا ہو، آپؐ کی شان کو ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو اور اسلام کی خدمت میں مشغول نہ ہو۔ مسلمان کہلانے والوں کی تو یہ حالت ہو کہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والوں، آپ کو گالیاں دینے والوں، اسلام پر حملے کرنے والوں سے بغل گیر ہوں۔ مگر اس کی غیرت کا یہ حال ہو کہ پنڈت لیکھرام سلام کے لیے آیا اور وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اس طرف سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اس پر سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے لیکھرام کو پہچانا نہیں اور بتایا جاتا ہے کہ پنڈت لیکھرام آپ کو سلام کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس پر اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور کہتاہے اس کو شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرنے کے لیے آیا ہے۔ پھر جہاں کہیں کوئی رسول کریم ﷺ کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ اسی پر پل پڑتا ہے۔ امریکہ میں ایک شخص ڈوئی اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں محمد (ﷺ) کے لائے ہوئے اسلام کو مٹانے اور عیسائیت کو پھیلانے آیا ہوں۔ اس کو للکارتا ہے کہ آ مجھ سے مقابلہ کر اور دیکھ کہ اسلام غالب آتا ہے یا عیسائیت۔ یہ سن کر وہ کہتا ہے کہ اس کی طاقت ہی کیا ہے میں اسے موری کے کیڑے کی طرح مسل دوں گا۔ اس کے جواب میں وہ انسان کہتا ہے کہ خدا تجھے ذلیل اور رسوا کرے گا اس پر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ڈوئی کا باپ اعلان کرتا ہے کہ یہ حرام کا لڑکا ہے۔ پھر اس کے بیوی بچے اس سے الگ ہو جاتے ہیں اور اس کی برائیاں اور بدکاریاں دنیا میں ظاہر کرتے ہیں۔ پھر اس پر فالج گرتا اور ذلت اور رسوائی کی موت سے مرتا ہے۔ جس پر عیسائی اخبار لکھتے ہیں کہ عیسائیت کے پہلوان پر اسلام کا پہلوان غالب آگیا۔ تو وہ شخص جو اسلام کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ

بعد از خدا بعشق محمد مخمرم

گر کفر ایں بوَد بخدا سخت کافرم

وہ اگر نعوذباللہ دجال ہے تو پھر مسلمان کون ہو سکتا ہے؟ وہ تو خود کہتاہے کہ اگر خد اکے بعد محمد ﷺ کی محبت کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ کیونکہ وہ اسلام جس سے محمدﷺ کی ہتک ہوتی ہو اس سے یہ کفر مجھے ہزار درجہ پسند ہے جس سے آپ کی عزت اور عظمت ثابت ہوتی ہے۔

سچائی معلوم کرنے کا طریقہ

پس اس کی صداقت معلوم کرنے کے لیےاس کے کاموں اور اس کے ماننے والوں کے کاموں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ آیا وہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے، اسلام کو ذلیل کرتے ہیں یا دنیا کے چاروں کونوں میں اسلام اور رسول کریم ﷺ کا نام پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ گو اس وقت ہماری جماعت دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے اور مالی حالت بھی کمزور ہے مگر ہم نے مختلف ممالک میں اپنے مبلغ بھیجے ہوئے ہیں۔ اور ہر ایک آدمی جس دین کی خدمت کر سکتا ہے اس میں لگا ہوا ہے اور دین کے لیے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں نے لندن میں مسجد بنانے کے لیے ایک لاکھ کی تحریک کی تھی جس میں اس وقت تک 92 ہزار کے قریب روپیہ جمع ہو گیا ہے۔

پس اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے جو ہم اور دوسرے لوگوں میں پایا جاتا ہے یہ دیکھنا چاہئے کہ کس کے عقائد ایسے ہیں جن سے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اور کس کے ایسے ہیں جن سے عزت۔ ہمارے افعال اور حالات سے اگر ہمارے مخالفین پر یہ ثابت ہو جائے کہ ان سے رسول کریمﷺ کی عزت ثابت ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کی طرف توجہ نہ کریں۔

خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے اور اس بات کی توفیق دے کہ آپ لوگ ان عقائد کو چھوڑنے میں کسی رشتہ اور تعلق کی کوئی پرواہ نہ کریں جن سے رسول کریمﷺ کی ہتک ہوتی ہے اور ان عقائد کو اختیار کریں جن سے رسول کریم ﷺ کی عزت اور عظمت کا ثبوت ملتا ہے تاکہ دنیا میں رسول کریم ﷺ کی عزت قائم ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button