حضرت مصلح موعودؓ۔ واقفین زندگی کے لیے ایک عظیم نمونہ
حضرت مصلح موعودؓ۔ واقفین زندگی کے لیے ایک عظیم نمونہ قیمتی نصائح اور واقعات کی روشنی میں
حضرت مصلح موعود ؓکی سیرت و سوانح واقفین زندگی کے لیے ایک عظیم نمونہ ہے۔آپ نے مبلغین سلسلہ کو متعدد مواقع پر نہایت مفید،بنیادی اور زریں ہدایات و نصائح سے نوازا۔یہ ہدایات مبلغین سلسلہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔آپؓ نے نہ صرف مبلغین کو ان ایمان افروز نصائح سے نوازا بلکہ اپنی عملی زندگی میں بہترین اور یادگارنمونہ بھی قائم فرمایا۔علم و حکمت پر مبنی ان عظیم ہدایات اور واقعات میں سے چند پیش خدمت ہیں۔
علم حاصل کرنے کی اہمیت
علمائے جماعت اور طلباء دینیات سے خطاب کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:
‘‘میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام علوم کی کتابیں پڑھتا ہوں۔اسی طرح اگر تم بھی ان کتب کا مطالعہ کرواور اپنے اساتذہ سے سوالات دریافت کرتے رہوتو تمہارے استادوں کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ دنیا کیا کہتی ہےاور اس طرح تم اپنے استادوں کے بھی استاد بن جاؤ گے…میں نے بعض دفعہ ایک ایک رات میں چار چار سو صفحے کی کتاب ختم کی ہے۔اور اب تک بیس ہزار کے قریب کتابیں میں پڑھ چکا ہوں۔دس ہزار کتاب تو قادیان میں میری اپنی لائبریری میں موجود تھی۔’’
(علماء جماعت اور طلباء دینیات سے خطاب۔انوار العلوم جلد 21صفحہ 556)
‘‘استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے۔کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہوکہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو۔باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے۔استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کے لیے ممد ہوتا ہے۔سہارا ہوتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے وہ سارے علوم پر حاوی ہوسکے۔
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ152)
‘‘تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے…سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہے۔حضرت صاحبؑ کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فورا ًحوالہ ذہن میں آجائے’’
(نصائح مبلغین،انوار العلوم جلد 3صفحہ 291)
‘‘ہر ایک مبلغ کو چاہیے کہ وہ جغرافیہ،تاریخ، حساب، طب، آداب گفتگو،آداب مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے۔اور یہ کوئی مشکل کام نہیں۔تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہوسکتی ہے۔اس کے لیےہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 584)
خدا کا فضل اچھا ہے
‘‘ایک بار حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے جو آپ کے چھوٹے بھائی تھے کہا کہ بشیر تم بتاؤ علم اچھا ہے یا دولت؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاس ہی بیٹھے تھے۔جب آپ نے سنا تو فرمایا۔‘‘بیٹا محمود !توبہ کرو۔توبہ کرو۔نہ علم اچھا نہ دولت۔خدا کا فضل اچھا ہے’’اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کے دماغ میں شروع سے یہ خیال ڈال دیا کہ اگر خدا کا فضل نہ ہو تو علم اور دولت کسی کام کے نہیں کیونکہ اس علم اور دولت سے اگر برے کام کرنے لگ جائیں تو یہ برے بن جاتے ہیں۔’’
(حضرت مصلح موعود ؓ :تصنیف۔ صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ۔صفحہ 5تا6)
تزکیہ نفس
مربی بننا بڑی ذمہ داری
‘‘سال ہا سال کے غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مربی بننا بڑی ذمہ داری ہے۔مربی پیدا نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ پیدا ہوتا ہے۔یہ خیال کہ کوئی کالج مربی پیدا کرسکتا ہےغلط ہے۔مربی وہ ہستی ہے جس کے دل کے ایمان کی حالت نبیوں کے ایمان کی حالت جیسی ہوتی ہے۔’’
(خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ494)
تزکیہ نفس
‘‘سب سے پہلے مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے۔صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے۔قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا۔اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جاکر حال دریافت کرے۔جاسوس نے آکر بیان کیا مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پاسکتا۔ہمارے سپاہی لڑ کے آتے ہیں اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش ہی نہیں رہتی۔لیکن مسلمان باوجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔خدا کے حضور گرتے ہیں۔یہ وہ بات تھی جس سے صحابہؓ نے دین کو قائم کیا۔’’
(نصائح مبلغین،انوار العلوم جلد 3صفحہ 289)
‘‘تبلیغ بہت عمدہ کام ہے مگر تبلیغ کرنے میں بھی انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے۔کبھی تقریر اچھی ہوگئی،اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کرادیا تو دل میں غرور آگیا۔اور کبھی تقریر اچھی نہ ہوئی لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہوگئی۔کبھی یہ ایک دلیل دیتا ہے،دل ملامت کرتا ہے کہ تو دھوکہ دے رہا ہے۔اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں۔’’
(نصائح مبلغین،انوار العلوم جلد 3صفحہ 290)
‘‘تہجد کی نماز مبلغ کے لیے بہت ضروری ہے…دن کے تعلقات سے جو زنگ آ تے ہیں ۔وہ رات کو کھڑے ہوکر دعائیں مانگ مانگ کر خشوع و خضوع کرکے دور کرنے چاہئیں۔’’
(نصائح مبلغین ،انوار العلوم جلد 3صفحہ 290)
دعائیں کرتے رہو
‘‘پھر مبلغ کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہےکہ الٰہی!میں ان لوگوں کو ناراستی کی طرف نہ لے جاؤں۔جب سے خلافت قائم ہوئی ہے میں یہی دعا مانگتا ہوں۔ ایک امام کی نسبت ایک لطیفہ ہے کہ بارش کا دن تھا ۔ایک لڑکا بھاگتا چلا جارہا تھا۔امام صاحب نے کہا دیکھنا لڑکے کہیں گر نہ پڑنا۔لڑکا ہوشیار تھا،بولا آپ میرے گرنے کی فکر نہ کریں ۔میں گرا تو اکیلا گروں گا۔آپ اپنے گرنے کی فکر کیجیے۔اگر آپ گرے تو ایک جماعت گرے گی۔امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا بہت ہی اثر ہوا۔تو مبلغ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیےکہ اگر وہ گرے گا تو اس کے ساتھ اس کا حلقہ بھی گر جائے گا۔دیکھو مولوی گرے تو مسلمان بھی گر گئے۔یہ دو باتیں ہر وقت مدنظر رکھنی چاہئیں۔اول کوئی ایسی بات نہ کرے جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو۔دوم،دعا کرتا رہے کہ الٰہی میں جو کہوں وہ ہدایت پر لے جانے والا ہو۔اگر غلط ہو تو الٰہی ان کو اس راہ پر نہ چلا اور اگر یہ درست ہے تو الٰہی توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں ۔’’
(نصائح مبلغین ،انوار العلوم جلد 3صفحہ 294)
‘‘حضرت معین الدین چشتی ؒکوئی اتنے بڑے عالم نہ تھے۔بلکہ انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ،دعاؤں کے ساتھ،ہمدردی کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمان بنایا۔’’
(نصائح مبلغین، انوار العلوم جلد 3صفحہ 296)
مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی آپ کی جوانی کے زمانے کی عبادت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
‘‘آپ کے اس جوانی کے عالم میں جب کہ ہر طرح کی سہولت اپنے گھر میں حاصل ہے،زمینداری بھی ہے اور ایک شاہانہ قسم کی زندگی بطور صاحبزادہ،شہزادہ بسر کر رہے ہیں تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آپ کو کس ضرورت نے مجبور کیا ہے کہ وہ تہجد میں آکر لمبی لمبی دعائیں کریں۔یہ بات میرے دل میں بار بار یہ سوال پیدا کرتی تھی لیکن حضرت ممدوح سے پوچھنے کی جرأت نہ پاتے تھے۔لیکن ایک دن انہوں نے جرأت کرکے آپ سےجبکہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کی صحبت سے اٹھ کر اپنے گھر کو جارہے تھے راستے میں السلام علیکم کرکے روک لیا اور اپنی طرف متوجہ کرلیا اور نہایت عاجزی سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں معافی مانگ کر پوچھا کہ وہ جس مقصد کے لیے آپ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟اور نیز عرض کیا کہ میں بھی اس غرض کے لیے دعا کروں گا تاکہ وہ غرض آپ کو حاصل ہوجائے۔اس کے جواب میں حضرت ممدوح نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ خدا کے راستے میں جو انہوں نے کام کرنا ہے اس کے لیے انہیں مخلص دوست اور مدد گار میسر آجائیں۔’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ59تا60)
‘‘عبادت کے پابند بنو۔اس کے بغیر نہ تم دنیا کو فتح کرسکتے ہواور نہ اپنے نفس کو۔فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہےلیکن ان کے لیے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے۔صحابہ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا۔مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے۔حالانکہ روحانیت میں ترقی کرنے کے لیے تہجد اور نوافل پڑھنے ضروری ہیں ۔’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 587)
قبولیت دعا
حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ حرم حضرت فضل عمرؓ بیان کرتی ہیں:
‘‘پارٹیشن کے پریشانی کے دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک دن عصر کے وقت آپ میرے پاس آئے۔آپ کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں،آواز میں رقت تھی مگر اس پر پورا ضبط کئے ہوئے تھے۔مجھے فرمانے لگے:صبح عید ہے ۔میں شاید آپ لوگوں کو عیدی دینی بھول جاؤں۔کام کی مصروفیت غیر معمولی ہے اور مجھے موجودہ حالات کے متعلق شدید گھبراہٹ ہے۔گو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دعا کو سنا ہے اور اس کا یہ وعدہ ہے کہ
اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔
میں سجدہ کی حالت میں تھا جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی ہے اور مجھے اس پر پورا ایمان ہے لیکن پھر بھی دعا کی سخت ضرورت ہے۔تم بھی درد سے دعائیں کرو۔اللہ تعالیٰ تبلیغ کے راستے ہمیشہ کھلے رکھے۔’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ67)
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ
‘‘ہم نے …(بمبئی میں ایک بلڈنگ )سوا لاکھ روپے میں خریدی۔اس خرید میں ہمارے بمبئی والے رشتہ دار اور ہمارے ایک ماموں سیٹھ الہ دین ابراہیم صاحب احمدی بھی شریک تھے۔ہم نے یہ بلڈنگ صرف اس لیے خریدی کہ فروخت کرکے کچھ نفع حاصل کریں گےاور امید تھی کہ پندرہ بیس ہزار روپیہ منافع آجائے گا۔میں نے یہ شرط پیش کی کہ ہم اس کے متعلق حضرت (خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) سے دعا کرائیں اور ہمیں جو منافع ہو اس کا پانچواں حصہ ہم تبلیغ کے لیے قادیان روانہ کریں۔میرے بھائی خان بہادر سیٹھ احمد بھائی اور ہمارے ماموں صاحب نے تو یہ شرط مان لی مگر ہمارے بمبئی والے رشتہ دار نے نہ مانی۔تاہم میں نے یہ حقیقت حضرت(خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں لکھ بھیجی۔اس کےبعد غیر معمولی طور پر اس جائیداد کی قیمت تیز ہونے لگی۔مجھے چونکہ حج کے لیے جانا تھا اس لیے میں نے اپنے بمبئی والے رشتہ دار کو لکھا کہ قیمت خوب تیز ہوگئی ہے اب اسے فروخت کردیں مگر ان کا خیال تھا کہ قیمت اور تیز ہوگی۔اس لیے یا تو ہم اورانتظار کریں یا جس قیمت پر یہ جائیداد اب بکتی ہے اسی قیمت پر ان کے ہاتھ فروخت کردیں۔ہم نے منظور کیا اور ہمیں اس میں 80؍ہزارروپیہ منافع ہوا۔جس کا پانچواں حصہ سولہ ہزار روپیہ بنے،قادیان روانہ کردیا۔اس کے بعد میں حج کے لیے روانہ ہوگیا۔وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے بمبئی والے رشتہ دار سے جائیداد کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ قیمت تو صرف ہمارے لیے تیز ہوئی تھی۔ہمارے فروخت کردینے کے بعد قیمت کم ہوتی گئی۔حتیٰ کہ اصل قیمت بھی وصول نہ ہوسکی۔ہمارے رشتہ دار نے اقرار کیا کہ واقعی آپ دعا کراکے کامیاب ہوگئے اور میں بہت نقصان میں رہا۔اس واقعہ کو اٹھارہ سال کا عرصہ ہوگیا ہے اب تک وہ جائیداد بغیر فروخت ہوئے پڑی ہے۔دیکھیے یہ خدا تعالیٰ کا کیسا کھلا معجزہ ہے۔ایک ہی معاملہ میں تین حصہ دار ہیں ۔دو حصہ دار خدا کے خلیفہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس سے دعا کرواتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کو 80؍ہزار روپیہ منافع عطا فرماتا ہے۔مگر اس معاملہ میں تیسرا حصہ دار نہ خدا کے خلیفہ کو مانتا ہے نہ اس سے دعا کرانے کی پرواہ کرتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نہ صرف اس کو منافع سے محروم رکھتا ہے بلکہ دو مومن حصہ داروں کو اسی ہزارروپیہ اس کی جیب سے دلاتا ہے۔’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ89تا90)
غیر معمولی محنت
‘‘میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی۔تم یہ کیوں نہیں کرسکتے۔اب بھی میرا یہ حال ہےکہ میری اس قدر عمر ہوگئی ہے۔چلنے پھرنے سے محروم ہوں،نماز کے لیے مسجد میں بھی نہیں جاسکتا،لیکن چارپائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں۔پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے میں ان دنوں کمزور بھی تھا اور بیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کیا کرتا تھا۔
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ263)
صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ حضورؓ کی مصروفیت کے ذکر میں فرماتی ہیں :
‘‘حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ سارا دن کام میں مشغول رہنے کے علاوہ رات کو دو دو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں ۔آپ کی ڈاک ہر روز کم وبیش اڑھائی تین سو خطوط پر مشتمل ہوتی ہے’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ265)
حضرت مصلح موعود ؓکی کتاب تحفہ شہزادہ ویلزکا انگریزی ترجمہ حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحبؓ نے کیا۔اس ترجمہ کی نظر ثانی کرنے والے بورڈ میں خود حضرت مصلح موعودؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ،حضرت مولو ی شیر علی صاحبؓ شامل تھے۔نظر ثانی کے دوران محنت کے حوالے سے حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحبؓ تحریر کرتے ہیں :
‘‘ہم روزانہ نماز فجر کے بعد جبکہ ابھی سورج نمودار ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہوتا،کام شروع کردیتے تھے اور نماز عشاء تک ماسوائے کھانوں اور نمازوں کے وقفوں کے لگاتار جاری رکھتے…یہ مجلس چند ضروری وقفوں کے علاوہ تقریبا ًسترہ گھنٹے روزانہ رہتی تھی۔’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ17تا18)
تقریروں کی تیاری کا طریقہ کار
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:‘‘میں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دوران جلسہ میں لیا کرتا ہوں۔چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لیے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کرکے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران میں جو وقت مل جائے اس میں کاغذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں۔مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں۔دفتر والے کاغذات پیش کرنے کے لیے لانے گئے اور اس دوران میں مَیں نوٹ کرنے لگ گیایا نماز کے لیے تیاری کی سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا۔’’
(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ262)
مبلغین کی متفرق صفات
اطاعت کا بے نظیر نمونہ
مبلغ کی ایک بنیادی صفت خلافت کی سچی فرمانبرداری ہے۔تقویٰ اطاعت اور فرمانبرداری کا نام ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
‘‘اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ میں فرماتا ہے۔
وَاتَّقُوااللّٰہَ وَاسْمَعُوْا وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔(المائدہ:109)
اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔اچھی طرح اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو۔اور اللہ نافرمان لوگوں کو کامیاب نہیں کرتا۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ تقویٰ فرمانبرداری کا نام ہے۔’’
(نصائح مبلغین،انوار العلوم جلد 3صفحہ 302)
ایک دفعہ ایک خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے فرمایا کہ
‘‘میاں محمود بالغ ہے۔اس سے پوچھ لو کہ میرا سچا فرمانبردار ہے۔ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ میرا سچا فرمانبردار نہیں۔مگر نہیں۔میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں’’
(حضرت مصلح موعود ؓ :تصنیف۔ صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ۔صفحہ 10)
خدا تعالیٰ کے لیے کام کریں
‘‘مبلغین ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقت و رہو۔وہ دین کے لیے ہر وقت قربان ہونے کے لیے تیار ہوں۔وہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لٹو کی طرح چکر لگائیں۔ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چاہئیں جو خم ٹھونک کر میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں کہ آؤ ہم سے مقابلہ کرلو۔ایسے مبلغ عیسائیوں اور آریو ںکو ہی مبارک ہوں۔ہمیں تو وہ مبلغ چاہئیں جن کی نظریں نیچی ہوں۔وہ شرم و حیا کے پتلے ہوں۔جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں۔ہمیں وہ مبلغ چاہئیں جو اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لیے کام کریں اور اس کے اجر کے متمنی ہوں…مبلغ وہ ہے جسے کچھ ملے یا نہ ملے اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے۔’’
(تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 350تا351)
ظاہری صفائی
‘‘مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ غلیط نہ ہو۔ظاہری غلاظت کے متعلق بھی خاص خیال رکھا گیا ہے…ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہےتاکہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو۔اور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں…ہاں یہ بھی نہ کرے کہ ہر وقت کپڑوں اور جسم کی صفائی میں لگا رہے۔کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو پھر کام خراب ہوجائے گا۔’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 585)
انتظامی قابلیت
‘‘مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں انتظامی قابلیت ہو۔اگر اس میں یہ قابلیت نہ ہوگی تو اس کا دائرہ عمل بہت محدود ہوگا۔اوراس کی کوششوں کا دائرہ اس کی زندگی پر ہی ختم ہوجائے گا۔اس لیے اسے اس بات کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ جس کام کو اس نے شروع کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہی ختم نہ ہوجائےبلکہ اس کے بعد بھی جاری رہےا ور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے قائمقام بنائے۔’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 588)
تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو
‘‘تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو۔تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گُر ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرتا ہے۔انسان محنت کرتا ہے اور ایک وائسرائے بھی۔مزدور آٹھ آنے روز لیتا ہے۔وائسرائے ہزاروں روپیہ روز۔کیا وجہ؟وہ تھوڑے وقت میں کام بہت کرتا ہے۔اس کا نام لیاقت ہے۔دوسرا طریق دوسروں سے کام لینے کا ہے۔بڑے بڑے عہدیدار خود تھوڑا کام کرتے ہیں ۔ دوسروں سے کام لیتے ہیں ۔وہ تو خوب تنخواہیں پاتے ہیں لیکن ایک محنتی مزدور آٹھ آنہ ہی کماتا ہے۔یہ لیاقت کام کرنے کی لیاقت سے بڑی ہے۔پس جتنی لیاقت کام کروانے کی ہوگی اتنا بڑا ہی عہدہ ہوگا۔’’
(نصائح مبلغین ،انوار العلوم جلد 3صفحہ 298)
چندہ
‘‘چھٹی بات مبلغ کے لیے یہ ہے جس میں بہت کوتاہی ہوتی ہے کہ جو مبلغ دورے پر جاتے ہیں وہ خرچ بہت کرتے ہیں…جہاں تک ہوسکے مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے۔کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہےدوسروں کے لیے۔اگر یہی اسراف کرے گاتو لوگ معترض ہونگے۔اگر ایک تنخواہ دار تنخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کرسکتا ہے۔لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح کا مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں۔اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں ۔اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ چندہ میں سستی کریں گے۔ ’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 586)
جو بدی کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرأت سے لیکچر دو
‘‘اپنے عمل دیکھتا رہے۔کبھی سستی نہ کرے۔لوگوں کو ان کی غلطی سے روکے۔ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی کے قول کے نیچے آجائے۔
لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕلَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ (المائدہ:64)
ترجمہ:عارف (لوگ )اور علماء انہیں ان کے جھوٹ بولنے اور ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ یقیناً بہت برا ہے۔
کیوں انہوں نے نہ روکا ۔تو یہ فرض ہے…مرضیں تلاش کرو اور پھر دوا دو۔’’
(نصائح مبلغین،انوار العلوم جلد 3صفحہ 295)
‘‘جب تک جس قوم میں جو کمزوریاں اور نقائص ہوں وہ اسے بتائے نہ جائیں اس وقت تک کوئی مبلغ نہیں کہلا سکتا’’
(ہدایات زریں،انوار العلوم جلد 5صفحہ 572)
٭٭٭