کورونا وائرس کی عالمی وبا۔ مذہبی عبادات اور فرائض کی ادائیگی کے بارہ میں اجتہاد کا مسئلہ۔مسلمان علماء کے لیے چیلنج
کورونا وائرس مشرق ومغرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ہزاروں سال کی معلوم تاریخ میں ایسی کسی اورآفت کی نظیر نہیں ملتی جس نے بیک وقت پانچوں براعظموں کو شکار کیا ہو ۔ گوکہ طبی سہولیات کے فقدان اور بعض دیگر عوامل کی وجہ سے spanish flueاور black deathتاریخ انسانی کی مہلک ترین وبائیں ثابت ہوئی ہیں اور ان آفات نے کروڑہا انسانوں کو نگل لیا لیکن ذرائع مواصلات کی غیر معمولی ترقی اور global village کے قیام کے بعد کورونا وائرس وہ سب سے بڑی اور مہیب آفت ہے جس نے ہر ملک و قوم کوایک امتحان میں مبتلا کررکھا ہے ۔
اجتماعات سے احتراز ، معاشرتی فاصلے اور عوامی مقامات کی بندش اس آفت کے پھیلاؤ کو روکنے میں ممدو معاون قرار دیے جارہے ہیں ۔کورونا وائرس کی ناگہانی آفت کے سامنے ہر کس وناکس مجبور اور بےبس نظر آتا ہے۔ مجمع خلائق بنے رہنے والے مقدس مقامات بھی کورونا وائرس کے زیر اثر زائرین سے محروم ہیں ۔ ویٹی کن سٹی کا سینٹ پیٹر چوک جہاں پاپائے روم کی ایک جھلک دیکھنے کو عوام کا جم غفیر ہوتا ہے وہاں پاپائے روم کھڑکی سے نمودار ہوتے ہیں تو ہاتھ ہلانے والے مداح دور دور تک نظر نہیں آتے ۔
مذہب کو ماننے والے بعض بنیاد پرست ان مشکلات اور چیلنجز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہنوز مذہبی اجتماعات اور دینی مواجہ کے لیے میل جول قائم رکھنے پر مصر ہیں ۔ ایران میں قُم کی زیارت گاہیں معصوم انسانوں کے لیے امتحان بن چکی ہیں تو کوریا میں عیسائیت کے معبد کوجنوبی کوریا میں وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا جارہاہے۔
آج جبکہ وباؤں اور ان کے علاج کے بارے میں خاطر خواہ آگہی موجود ہے۔ کورونا وائرس جیسے مہلک اور متعدی انفیکشن نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اس موقع پر بعض مسلمان علماء کا یہ اصرارکہ حکومتوں کی ہدایات اور احتیاطوں کی تلقین کے باوجود دینی احکامات، نماز جمعہ کے اجتماعات اور فرض نمازوں کے شیڈیول میں ردو بدل گویا دینی معاملات میں مداخلت ہے ، نہ صرف یہ مؤقف ناقابل فہم بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک سے بھی رُوگردانی ہے ۔
وبائی آفات کے مواقع پر فرض عبادات اور جمعہ کے بارے میں اجتہاد کی بحث
بعض جگہ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ وبائی امراض کے موقع پر نماز جمعہ اور فرض نمازوں کی صورت کیا ہو؟ گویا اس بارےمیں علماء کے اجتہاد کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ لیکن بانیٔ اسلام، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارک اور آپ کی پیش فرمودہ پاکیزہ تعلیم کو محض سرسری نظر سے دیکھتے ہی یہ عقدہ بآسانی حل ہوجاتا ہے کہ ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہیے؟۔ لیکن اجتہاد کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب درج ذیل باتوں سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔
٭… مسلمانوں کو اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولی الامر(حکامِ وقت) کی اطاعت کریں ۔ پس دنیابھر میں پھیلے ہوئے مسلمان اس زرّیں اصول پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف یہ کہ اچھے اور پُرامن شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں بلکہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔( سورة النساء :60)
٭…خانہ خدا یعنی بیت اللہ کی زیارت اور عبادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں‘‘وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا’’فرماکر عبادت کے لیے امن وسلامتی کے ماحول کو ضروری قرار دیا ہے۔اس خوبصورت اصول کو موجودہ حالات پر چسپاںکرتے ہوئے امن وسلامتی کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
٭…جنگ کی صورت میں فرض نماز کی ہیئت تبدیل ہوسکتی ہے اس سلسلہ میں فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا کے الفاظ میں نہایت نرم طرز تکلم اختیار فرمایا گیاہے کہ خوف کا وقت ہو تو خواہ چل رہے ہو یا سوارہو تو اس حالت میں بھی نماز قائم کی جاسکتی ہے۔سفر میں قصر کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے تو کیا نہایت مہلک وبا کی موجودگی میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا درست نہیں ؟
٭…نیز حج جیسی فرض عبادت بھی راستہ کے امن و سلامتی اور انسان کے محفوظ ومامون منزل مقصود تک پہنچنے سے مشروط ہے( مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا) تو کیا اس سے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کسی وبائی آفت کے پھیلاؤ اور انسانی جانوں کی حفاظت کا معاملہ درپیش ہو تو عقل وشعور سے کام لینا چاہیے ؟
٭…مسافر اور مریض کی تکلیف کے پیش نظر روزہ سے استثناء مل سکتا ہے تو کیا ایک مہلک وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری نہیں ؟
٭… آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا روز مرہ معمول تھا کہ شدید گرمی میں نماز کے اوقات میں سہولت کے پیش نظر ردو بدل فرمالیتے ۔آپؐ نے اس سلسلہ میں اصولی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اذا اشتدَّ الحرُّ فأبْرِدُوْا بِالصَّلوٰةِ یعنی جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت پڑھ لیا کرو ( متفق علیہ)
٭… آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بارش اور طوفان جیسی معمولی قدرتی آفت نے آلیا تو آپؐ نے گھروں میں نماز پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔(متفق علیہ)
٭…آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی متعدی بیماریوں کا تصور موجود تھا ۔ ایک حدیث کے مطابق آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے وفدِ بنی ثقیف کے ایک شخص کے بارےمیں جو جذام میں مبتلا تھےفرمایا
‘‘إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ’’
یعنی دستور کے مطابق ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی بجائےہدایت فرمائی کہ آپ کی بیعت ہوگئی ہے ۔آپ (بےشک) واپس تشریف لے جائیں ۔
( الجامع الصحیح للمسلم باب اجتناب المجذوم و نحوہ)
٭…جب کوئی مرض وبا کی صورت اختیار کرجائے یا ایسے خدشات ہوں کہ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوسکتی ہے تو اس بارے میں رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رہنما اصول عطافرمایا ہے کہ
إذَا سَمِعْتُمْ الطَّاعُوْنَ بِأرْضٍ فَلَاتَدْخُلُوْهَاوَإذَاوَقَعَ بِأرْضٍ وَأنْتُمْ فِیْهَا فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْهَا
یعنی جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔ (متفق علیہ)
٭…آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تومساجد کے ساتھ امن و عافیت کو مشروط کرتے ہوئے یہاں تک تعلیم بیان فرمائی ہے کہ کوئی نیزہ ، برچھی یا چُبھنے والی چیز بھی مساجد میں لے کر نہ آؤ۔ مبادا کسی کی آنکھ چبھ جائے ۔ تو کیا اس حدیث کی موجود گی میں ایسی بیماریوں کے ساتھ مساجد آنا جائز اور پسندیدہ ہے جس سے دوسروں کی جان کو خطرہ درپیش ہو۔(صحیح بخاری کتاب الصلٰوة) تو کیا مہلک وبا کی صورت میں ہلاکت کی راہوں سے بچنا ایک مومن کا فرض نہیں ؟
عالمی وبا سے چرچ کی تباہی اور مسلمانوں کے لیے تاریخی سبق
اِس وقت دنیا کے بڑے مذاہب میں سے اسلام سب سے جدید مذہب ہے ۔اس لحاظ سے اسلامی تعلیم بھی موجودہ زمانہ اور اس کی ضروریات سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی اخلاقی ، روحانی، علمی اور معاشرتی رہنمائی کے لیے کافی وشافی ہے ۔لیکن افسوس کہ قرآن کریم عقل و شعور ،غور و فکر اور تدبر کے بارے میں جس قدر زور دیتا ہے اتنی ہی شدت سے بعض مذہبی عناصر اس پاکیزہ چشمہ سے استفادہ کرنے کی بجائے اس سے رُوگرداں نظر آتے ہیں ۔لیکن یہی وہ چیلنج ہے جو ہر مذہب کو درپیش ہے کہ جوں جوں سائنس اور علم ترقی کرتا جاتا ہے مذہبی طبقات خواہ مخواہ اس کی راہ میں مزاحم ہوکر اپنا اعتبار کھوتے اور نقصان کرتے چلےجاتے ہیں ۔
مسیحیت صدیوں پہلے ان نہایت بھیانک تجربات سے گزر چکی ہے ۔ کورونا وائرس جیسی مہلک ترین آفت کے موقع پر مسلمان معاشرہ جس مخمصہ کا شکار ہے مسیحی علماء صدیوں پہلے بعینہ اس کیفیت سے دو چار ہوچکے ہیں۔
چودھویں صدی عیسوی میں جب یورپ Black Deathنامی عالمی وبا کی لپیٹ میں آیا تو اس کے نتیجہ میں چرچ اور پادریوں کے رویّے اور غلط فیصلوں نے مسیحیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ اس وبائی آفت کے نتیجہ میں مسیحی علماء کا معاشرے میں کردار نہ صرف محدود اور مجروح ہو کر ناقابل اعتبار ٹھہرا بلکہ یورپی معاشرہ میں مذہب کو نجات دہندہ کی بجائے مصیبت تصوّرکرنے کا رحجان پنپنے لگا ۔
مسیحی علماء کے اُس وقت کے رویّے نے چرچ کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا اور یورپ بھر کی عیسائی عمارت بری طرح سے لرز کر رہ گئی ۔ اس آفت نے آئندہ آنے والے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں رکھیں اور بعد کے زمانہ میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی بنیادیں کہیں نہ کہیں اسی ناگہانی آفت کی کہانیوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ اس موضوع پر دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے صرف دو حوالے پیش ہیں ۔ نیز دعوتِ مطالعہ ہے کہ اس موضوع پر غور وفکر کریں اورتاریخ کا یہ سبق پیش کرتے ہوئے معاشرہ کی رہنمائی اور آگہی کا فریضہ ادا کریں ۔‘‘ سیاہ موت’’ کی وبا ء کے چرچ پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ایک محقق لکھتے ہیں :
The Black Death was detrimental to European society in many ways, but one of the most damaging consequences was its blow to one of Europe’s most important institutions, the Church. The Church was perhaps Europe’s most significant cultural institution, and the Black Death detracted from its influence on the laity by attacking its structure and the reputations of its leaders.
(THE BLACK DEATH AND ITS IMPACT ON THE CHURCH AND POPULAR RELIGION by McLaurine H. Zentner page 64)
نیز موصوف لکھتے ہیں :
The Black Death exposed the mortal qualities of the Church to the Christian world and forever transformed religious attitudes held towards its leaders and structure.
THE BLACK DEATH AND ITS IMPACT ON THE CHURCH AND POPULAR RELIGION by McLaurine H. Zentner page 65
موجودہ وبا ہر ملک اور معاشرہ کی طرح اہل مذہب کے لیے بھی ایک چیلنج او ر امتحان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انسانیت کی بقا اور عزت و تکریم کے قیام کے لیے اہل مذہب اس نصیحت کو پیش نظر رکھیں کہ
‘‘مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اللہ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے’’
ہمیں چاہیے کہ انسانیت کی فلاح اور ہمدردی اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے جذبہ ترحّم سے دعاؤں کے ذریعہ دنیا کے دکھوں کا مداو اکرنے کی کوشش کریں۔ آج امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد دنیا کے لیے راہ عمل ہے کہ
‘‘ ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسان نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو اور یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ گورنمنٹ کی تدبیروں اور ہدایتوں کو بد گمانی کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ390 ایڈیشن2019ء)
٭…٭…٭
ماشاءاللہ
الحمدللہ احمدی زمانہ کے امام کو مان کر خلیفہ وقت کی رہنمائی میں ان جھگڑوں سے بچے ہوئے ہیں ۔