کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

موت سے زیادہ اور کوئی واعظ نہیں

مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی موت کو دیکھو اور اس پر غور کرو کہ بڑی عبرت کی جگہ ہے کس طرح ناگہانی موت ان پر وارد ہوئی۔ ہر ایک شخص کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دن کسی وقت آنے والا ہے۔ سب کو اس کے واسطے تیار رہنا چاہیے۔ ان باتوں کا تصور اور مطالعہ انسان کو سچا مومن بنا دیتا ہے۔ جب انسان دنیا کی طرف جھکتا ہے اور بہت امور کو اپنے گلے ڈال لیتا ہے تو ایک طول اَمل پیدا ہو جاتا ہے۔ طول امل سے ہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جو شخص عمر کو لمبا سمجھتا ہے اور بڑی بڑی امیدیں کرتا ہے اور کہتا ہے یہ کروں گا وہ کروں گا اس کے واسطے دل کی پاکیزگی کا حصول مشکل ہے۔ مومن کو چاہیے کہ رات کو سوئے اور صبح اٹھنے کی امید نہ کرے اور صبح اُٹھے تو رات تک زندگی کی امید نہ رکھے۔ سب سے اعلیٰ اور آخری بات یہ ہے کہ دل کی پاکیزگی حاصل ہو۔ جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کرتا ہے تو دل کی پاکیزگی اس کو عطا کرتا ہے بغیر فضلِ الٰہی کے پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اوّل بات یہ ہے کہ طول امل جاتا رہے۔ تب انسان تسلی پکڑتا ہے۔ جب انسان دن بھر ناجائز وسائل اختیار کرتا ہے اور دنیا کمانے کے پیچھے پڑا رہتا ہے تو دل ناپاک ہوجاتا ہے۔ مگر موت سے زیادہ اور کوئی واعظ نہیں یہی بڑا واعظ ہے۔

جذب

اٹاوہ کے دوست سید صادق حسین صاحب اور دیگر دوست اس جگہ کے مخاطب تھے۔ فرمایا:

اگر ایک آدمی بھی متقی اور صالح کسی مقام پر ہو جو اشاعتِ حق کے لئے پورا جوش رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس میں قوت جاذبہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ ایک جماعت بنا ہی لیتا ہے کیونکہ مومن کبھی اکیلا نہیں رہ سکتا۔ یہ نہیں کہ صرف معجزات کے ذریعہ سے ہی لوگوں پر حجت پوری کی جاتی ہے۔ بلکہ مومن میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوت جذب رکھی ہے۔ سعید لوگ اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور غیر سعید لوگ بھی سلسلہ حقہ کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں۔ اُن کے سپرد یہ خدمت کی جاتی ہے کہ سلسلہ حقہ کی مخالفت میں شور و غوغا مچا کر اس کی تشہیر کریں اور اس کی تبلیغ کو دُور تک پہنچا دیں۔ مومن میں قوت جاذبہ ضرور ہوتی ہے۔ جب میں براہین لکھتا تھا تو یہ الہام ہوا تھا کہ ہر ایک دُور کی راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اس وقت ایک بھی آدمی میرے ساتھ نہ تھا۔ اور یہ کتاب وہ ہے جو ہر ایک فرقہ عیسائی، ہندو، برہمو، آریہ اور سب مخالفین کے پاس ہے۔ مولوی محمد حسین نے اس پر بڑا ریویو لکھا تھا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیشگوئیاں ہم نے بنائی ہیں یا ایسے زمانہ میں لکھی گئی تھیں کہ لوگ آیا جایا کرتے تھے۔ ایسے وقت میں یہ الہامات شائع ہوئے اور کئی ایک زمانوں میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی، سب زبانوں میں الہامات ہوئے۔ یہ اس لئے ہوا کہ ہر ایک زبان گواہ رہے اور اس کتاب کی عظمت ہو۔ اور اس میں یہ بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک زبان کے لوگ گواہ ہوں گے اور اس جماعت میں داخل ہوں گے۔
اگر دنیا میں یہ باتیں انسان اپنی طاقت سے بنا سکتا ہے تو اس کی نظیر کہاں ہے۔ اگر یہ ہو سکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق ایک شبہ میں پڑجاتے مگر بات یہ ہے کہ ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے۔ ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آئے اور اب بھی وہی سنت اللہ جاری ہے۔ مجدد صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گے۔

(ملفوظات جلد8صفحہ 198تا 199۔ایڈیشن1984ء)

ہند میں اسلام

فرمایا: یہ بالکل غلط ہے کہ ہند میں اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا۔ ہر گز نہیں۔ ہند میں اسلام بادشاہوں نے بجبر نہیں پھیلایا بلکہ ان کو تو دین کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی۔ اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توجہ، دعا اور تصرفات کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں گذرے تھے۔ بادشاہوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دیں۔ جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے نہ ظاہر کرے تب تک دوسرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں فنا ہو کر خود مجسم قرآن اور مجسم اسلام اور مظہر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بن جاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطا کیا جاتا ہے اور سعید فطرتوں میں ان کا اثر ہوتا چلا جاتا ہے نوّے کروڑ مسلمان ایسے لوگوں کی توجہ اور جذب سے بن گیا۔ تھوڑے سے عرصہ میں کوئی دین اس کثرت کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے صلاح و تقویٰ کا نمونہ دکھلایا اور ان کی برہان قوی نے جوش مارا اور لوگوں کو کھینچا۔ مگر یہ بزرگ بھی عوام کی طعن و تشنیع سے خالی نہ تھے۔ گو ہم زیادہ تر ان لوگوں کے آگے گالیوں کے لئے تختہ مشق ہو رہے ہیں تا ہم ان سب نے دُکھ اُٹھایا۔ یہ ہمارے علماء ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہے ہیں۔

(ملفوظات جلد8صفحہ207۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button