پیشہ طبابت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایات
پلیگ ڈیوٹی پر جانے والے ایک ڈاکٹر سے خطاب
[اخبار الفضل قادیان میں 24؍مئی 1924ء کو‘‘پیشہ طبابت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی ہدایات‘‘ پلیگ ڈیوٹی پر جانے والے ایک ڈاکٹر سے خطاب’’ کے عنوان سے ایک احمدی ڈاکٹر کا مضمون شائع ہواجس میں حضورؓ نے گیارہ زرّیں نصائح فرمائیں۔کورونا وائرس کی موجودہ وبا کے پھیلاؤ کےپیش نظر یہ نصائح آج بھی احمدی ڈاکٹرز اور معالجوںکے لیے ایک لائحہ عمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادہ کے لیے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نصائح پر مشتمل یہ مضمون شائع کیا جاتا ہے۔مدیر]
ذیل میں وہ ہدایات اور نصائح درج کی جاتی ہیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عاجز کو پلیگ ڈیوٹی پرجانے سے پہلے اپنی ایک پرائیویٹ ملاقات میں طبی عملی زندگی کے متعلق فرمائیں۔ خاکسار نے مناسب سمجھا کہ انہیں اپنے ہم پیشہ احباب و دیگر احباب کے فائدہ کے لیے اخبار الفضل میں شائع کروادوں۔ حضورتقریر کی طرز پر ایک گھنٹہ سے زیادہ نصائح فرماتے رہے اور عاجز کو مختصر نوٹ لینے کا حکم دیا۔ تاہم میں ان کو ذرا تفصیل کے ساتھ درج کرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ہم پیشہ احباب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
پہلی نصیحت
فرمایا:۔شفاء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اصل سبب وہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت شافی ہے۔ جو علاج میں کام آتی ہے۔ ڈاکٹر اور طبیب اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لیے چاہیے کہ علاج کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف پوری توجہ ہو اور اس سے دعاکرو کہ علاج میں تمہاری مدد کرے۔پھر سب مریضوں کے لیے دعا کرو اور بعض مریضوں کا نام لے کر بھی دعاکرو۔ مثلاً جن کو زیادہ تکلیف ہو۔ علاج میں تمہارا منشاء شہرت حاصل کرنا نہ ہو۔ بلکہ اس نیت سے علاج کرو کہ خدا کےبندوں کی تکلیف دور ہو۔ اس لیے تمہاری نیت بھی علاج کرتے وقت یہی ہو کہ مریضوں کی تکلیف دور ہو۔ نہ یہ کہ لوگ کہیں بہت لائق ڈاکٹر ہے۔
دوسری نصیحت
دوسرے اپنی لیاقت کا گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی مریض کو شفاء ہوگئی تو یہ کوئی تمہاری محنت اور عقل کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ یہ قانون قدرت کے ماتحت ہے، یہ تمہاری بہادری نہیں۔تم نے اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ قوانین پر عمل کیا اور نتیجہ پیدا ہوا۔ پس تمہارا کام یہ ہے کہ ان قوانین پر عمل کرو اور نتیجہ کو خدا کی طرف منسوب کرو۔ دیکھو اگر ایک آدمی منی آرڈر کے فارم پر نام اور پتہ لکھ کر ڈاکخانہ میں روپے دینے جائے اور پوسٹ ماسٹر اس سے روپے لے لے۔ لیکن ایک دوسرا شخص یونہی ایک ردّی کاغذ پر پتہ لکھ کر لے جائے اور اس کاکاغذ پوسٹ ماسٹر ردّ کردے۔ توپہلا آدمی اس بات پر فخر نہیں کرسکتا کہ اس نے اپنی عقل اور فراست سے ایسا قانون نکالا کہ اس کے روپے لے لیے گئے۔ کیونکہ اس نے تو پوسٹ آفس کے مقررکردہ قوانین پر عمل کیا ہے اس لیے اس کے روپے لیے گئے ہیں۔ تو مقررہ قواعد پر عمل کرنا انسان کا کام ہوتا ہے۔ آگے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ان قواعد کے ماتحت نکلتا ہے اور قواعدبنانے والے کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہی حال ڈاکٹر کا ہے۔
تیسری نصیحت
کوئی پیشہ دین کے رستہ میں روک نہ ہو۔ کیونکہ یہ کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ بلکہ یہ سب دین کے ماتحت ہی آجاتے ہیں۔ ہر علم اور پیشہ والے کا فرض ہے کہ اپنے علم سے دین کی خدمت بھی کرے اور شریعت کے احکام کی حکمت اور مصلحت معلوم کرے۔ ڈاکٹروں اور طبیبوں کو چاہیےکہ جو اعتراض اسلام پر پڑتے ہوں ان کا طب کی رو سے جواب دیں۔ اپنے پیشہ کو دین کا ممد بنائیں۔ سائنس دانوں کی کتابیں غیرمتعصّب ہوکر پڑھیں اور اگر کوئی اعتراض اسلام پر پڑتا ہو تو اس پر غور کریں اور اس کا جواب سوچیں۔
میں جب کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں تو اس بات کو مدنظر رکھتا ہوں کہ اس سے اسلام پر کیا اعتراض پڑتا ہے اور پھر اس کا جواب سوچتا ہوں۔
چوتھی نصیحت
مریض کا دل نرم ہوتا ہے۔ اس لیے چاہیےکہ اس کوتبلیغ کی جائے۔ اس حالت میں انسان حق کی طرف جلدی رجوع کرتا ہے۔ مریض کوتین باتوں کا فکر ہوتا ہے۔ اوّل اپنی زندگی کا۔ دوم اپنے رشتہ داروں کی حالت کا اور تیسرے اپنی عاقبت کا۔ ان سب کو مدنظر رکھ کر اس کو تبلیغ کرو اور بتاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور وہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں شفاء ہے۔ پہلے اخلاق کو لو اور اس کے بعد مذہبی مسائل کا ذکر کرو۔ پہلے ہی اس سےوفات مسیح کا ذکر نہ شروع کردو۔
پانچویں نصیحت
اپنی زندگی کو اپنے پیشہ کے لیے وقف سمجھو اور اپنے ذاتی آرام کو اس پر ترجیح نہ دو۔ مثلاًآدھی رات کے وقت کوئی بلانے آئے تو اس وقت نیند اور آرام کا خیال نہ کرو۔ کوئی شدید مرض ہو یا خطرناک وبائی مرض۔مثلاً پلیگ یا ہیضہ کا کیس ہو۔ تو ان کو دیکھنے سے انکار نہ کرو۔ وہاں جو ضروری احتیاط ہے، وہ کرلو۔
خاکسار نے عرض کی کہ ہمارے ایک پروفیسر کہا کرتے ہیں کہ نمونیائی پلیگ کے مریض کو کبھی دیکھنے نہ جاؤ۔ کیونکہ اس نے خود توبچنا نہیں اور تم بھی ساتھ ہلاک ہوجاؤ گے۔
فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ ہونے اور اپنی کم علمی کا نتیجہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ۔ ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ یہ غلط بات ہے کہ فلاں مریض ضرور مرجائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے نسخہ سے وہ مریض بچ جائے۔ پس یہ مت کہو کہ فلاں مرض لاعلاج ہے۔بلکہ یہ کہو کہ ہم کو ابھی تک اس کا علاج معلوم نہیں۔ ناک اور منہ پر پٹی باندھ کر بے شک مریض کودیکھو اور علاج کرو۔ کیونکہ جس دن سے تم نے امتحان پاس کیا ہے۔ یہ تمہارا فرض ہوگیا ہے کہ مریضوں کو آرام پہنچاؤ۔
چھٹی نصیحت
علاج کے معاملہ میں امراء اور غرباء سے برابری کا سلوک کرو اور غرباءسے انکساری سے کام لو۔ یہ پیشہ کا وقار ہے۔ اُمراء کا اس خیال سے علاج نہ کرو کہ ان کاکوئی تم پر رُعب ہے یا تم ان سے ڈرتے ہو۔ بلکہ اپنے وقار کو قائم رکھو اور ان کی اس لیے زیادہ پرواہ نہ کرو کہ وہ دولت مند ہیں۔ ان کا فیس دینا کوئی احسان کرنا نہیں۔ تم کام کرو گے اور پیسے لوگے۔
ساتویں نصیحت
مطب یعنی پرائیویٹ پریکٹس میں سب سے ضروری بات مریضوں کی ترتیب ہے۔ جو پہلے آئے، اُسے پہلے دیکھو، جو بعد میں آئے اُسے بعد۔ خواہ کوئی معمولی چپڑاسی ہو۔ خواہ شہر کا رئیس۔ خود دیکھ لو کہ کون پہلے آیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ اس بات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ اس میں کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں جہاں ترتیب کو بدلنا ہوگا۔ مثلاً کوئی مریض بہت نازک حالت میں ہو۔ جیسے پیشاب کے رُک جانے یا فتق وغیرہ میں بعض دفعہ ہوجاتی ہے۔ تو ان کو پہلے دیکھ لو۔ یا اُسے جس کا ادب اور احترام ضروری ہو۔ مثلاً مذہبی پیشوا یا سلسلہ کے بزرگ یا والدین اور قریبی رشتہ دار۔ سرکاری افسروں کا بھی لحاظ رکھو۔ اس لیے نہیں کہ وہ امیر ہیں۔ بلکہ قانون کی پابندی اور احترام کے لیے آفیسرخواہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب۔ ان سب کو ترجیح دو۔
آٹھویں نصیحت
کسی مریض کے بیان کو حقیر نہ سمجھو۔ یہ نقص بہت سے ڈاکٹروں میں پایا جاتا ہے۔ مثلاًہسٹیریا والے مریض کہہ دیتے ہیں، یہ کوئی مرض نہیں، صرف وہم ہے اور علاج کی طرف توجہ کم کرتے ہیں یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے ضعف قلب ہو تو ڈاکٹر نبض دیکھ کر کہہ دے گا۔ کچھ نہیں محض تمہارا خیال ہے۔ اس خیال سے علاج سے بے پرواہی نہ کرو۔ آخر وہم بھی تو کسی مرض کا نتیجہ ہے۔ اس کا سبب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ ممکن ہے یہی علامت جس کو تم اب وہم خیال کرتے ہو۔ کسی آئندہ آنے والی مرض کی علامت ہو۔ ڈاکٹر میکنزی نے حال ہی میں تحقیقات کی ہے کہ جن علامات کو ہم وہم اور خیال سمجھ کر چھوڑ دیاکرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ پندرہ یا بیس سال کے بعد کوئی مرض ہوگیا جس کی وہ پہلی علامت تھی۔ اس لیے چاہیےکہ علاج سے بے پرواہی نہ کرو اور اس کا سبب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ ممکن ہے کسی اندرونی غدود کی رطوبت کے کم ہوجانے سے یہ وہم پیدا ہوگیا ہو۔ وہم بذات خود مرض ہے اور تکلیف تو بہرصورت مریض کو ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کی تکلیف کو دور کریں۔
نویں نصیحت
اپنے علم اور تجربہ پر بھروسہ نہ کرو اور اندھادھند دوائی نہ دیتے جاؤ۔ یعنی یہ قاعدہ کلیۃً نہ سمجھ لو کہ فلاں دوائی فلاں مرض میں ہر ایک کے لیے مفید ہے۔ بعض ڈاکٹروں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ ایک ہی دوائی جو انہوں نے 1880ء میں پڑھی تھی، دیتے رہتے ہیں۔ جدید علاج معلوم کرتے رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم نے اب سب کچھ سیکھ لیا ہے۔ بلکہ اخیرعمر تک سیکھتے رہو۔ تحقیقات کرنے کی عادت ڈالو۔ عموماً تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو نئی تحقیقات کو سنتے ہی نہیں۔ اپنے پرانے نسخے ہی چلاتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نئی تحقیقات سنتے ہیں۔ مگر ہر ایک بات کو ردّ کردیتے ہیں۔ اور تیسرے وہ لوگ جو ہر ایک بات کو مان لیتے ہیں۔ یہ تینوں طریق غلط ہیں۔ چاہیے کہ جدید تحقیقاتوں کا مطالعہ کرو اور پھر عقل سے کام لو۔ اگر ان پر علمی جرح مشکل ہے تو عمل سے معلوم کرو کہ فلاں دوائی اچھی ہے یا نہیں اور تجربہ سے معلوم کرو کہ فلاں دوائی کسی حد تک فائدہ کرتی ہے۔ اپنے مریضوں پر ان کو آزماؤ اور پھر نتیجہ نکالو کہ اس علاج کو جاری کرنا چاہیے یا ردّ کرنا چاہیے۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ اگر خود تجربہ نہیں کرسکتے تو پھر شہادت مان لو۔ یعنی دوسرے ڈاکٹروں نے جو تجربے اس علاج کے متعلق اپنے ہسپتالوں میں کیے ہوں۔ ان کے نتائج معلوم کرو مگر محقق کی بات کا اعتبار نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اوّل تو وہ لوگ اپنے تجارب چیدہ چیدہ لوگوں پر کرتے ہیں۔ دوسرے وہ مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے چاہیے کہ جب کوئی نیا علاج نکلے تو اس کو نہ تو فوراً ہی مان لو اور نہ ہی فوراً ردّ کرو۔ بلکہ خود عملی طور پر معلوم کرو یا دوسرے ڈاکٹروں کی شہادت پر اعتبار کرو اور اس طرح اس علاج کے متعلق فیصلہ کرلو۔
دسویں نصیحت
علاج میں مریض کی حالت اور عادات کا لحاظ رکھو۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہر مریض کی مرض مختلف ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اس بات کو بعض دفعہ نظرانداز کرتے ہیں مثلاًبعضوں کو خاص غذا ہضم نہیں ہوتی۔ مجھے دودھ ہضم نہیں ہوتا اور بہت سے ڈاکٹروں نے کئی طریقوں سے مجھ کو دود ھ ہضم کرانے کی کوشش کی ہے۔ مگر مجھے ہمیشہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ اگر غیرمعمولی سامان پیدا کردے تو وہ اور بات ہے۔ میں ایک دفعہ پھروچیچی تبدیلی ہوا کے لیے گیا۔ راستہ میں ایک مرید نے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا۔ میں نے کہا کہ مجھ کو دودھ ہضم نہیں ہوتا اور اس سے تکلیف بڑھ جائے گی۔ اس نے جب بہت اصرار کیا تو میں نے دودھ پینا شروع کردیا اور سارا پیالہ پی گیا۔ مجھ کووہ دودھ ہضم ہوگیا اور اس کے 6 ماہ تک مجھ کو دودھ ہضم ہوتا رہا۔
تواس طرح بعض لوگوں کامرض بڑھ جاتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے پوچھ لو۔اگر اس کو کسی خاص غذا یا دوا سے تکلیف ہوتی ہو تو وہ نہ دو۔ علاج میں idiosyncrasy کا خیال رکھو اور اس پر عمل کرو۔ ہاں اگر محض رسم اور وہم کا نتیجہ ہوتو اس کا خیال نہ کرو۔ مثلاً بعض لوگ کونین نہیں پی سکتے۔ اس خیال سے کہ خشک اور گرم ہے تو اس صورت میں اس کا مز ا بدل کر دے دو۔ لیکن اگر کوئی غذا ہو جو روز کھاتے ہیں تو وہ وہم نہیں ہے۔ مثلاً کسی کو گیہوں کی روٹی ہضم نہیں ہوتی ہو تو آزما کر دیکھ لو کہ کہاں تک درست ہے۔
گیارھویں نصیحت
بہت سے بیماروں کی وجہ سے بے احتیاط نہ ہوجاؤ۔ اگر بہت سے مریض دیکھنے ہوں تو بھی احتیاط کرو۔ مثلاً ہاتھوں کو اینٹی سیپٹک ادویہ سے صاف کرلو۔ بعض ڈاکٹر جلدی پچکاری کرتے وقت اپنے پرانے تجربہ کے گھمنڈ میں ہاتھ دھوئے یا پچکاری کو صاف کیے بغیر دوائی ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے بعض دفعہ نقصان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایک ڈاکٹر صاحب کو بھی اسی بے احتیاطی سے حال ہی میں بازو پر ورم ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت احتیاط کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کارڈ کو بھی جو وبا والے شہر سے آیا ہو، چھوتے تو ہاتھ دھو لیتے۔ مرض کے متعلق جو احتیاطیں ضروری ہوں وہ ضرورکرلو۔ ہاں وہم میں پڑنا اچھا نہیں۔
اس کے بعد حضور نے خاکسار کی درخواست پر پلیگ ڈیوٹی کے متعلق خاص ہدایات فرمائیں۔ جن میں صفائی، تبدیلی لباس اور ہاتھوں کے دھونے پر زیادہ زور دیا۔ فرمایا:۔ جب مریض کو دیکھ کر آؤ تو کپڑے بدل لو اور ہاتھوں کو خوب صاف کرلو اور حفظ ماتقدم کے لیے ایک سفوف کا استعمال روزانہ کرو۔جس میں کونین 3گرین، کافور 1گرین اور جدوار 3گرین پڑتے ہیں۔…
(اخبارالفضل قادیان 13؍ مئی 1924ء صفحہ 8 تا 9)
٭…٭…٭
جزاکم اللہ احسن الجزاء