نوائے عاشقانہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوائے عاشقانہ
جناب ایڈیٹر صاحب!
ایک مرتبہ خاکسار نے مشہورشاعر اور نقاد ڈاکٹر وزیر آغا سے سوال کیا :آج انفارمیشن کا دور ہے کیا آج کا انسان ماضی کے مقابلے میں حقیقت کا ادراک بہتر کر سکتا ہے ۔ انہوں نے جو جواب دیا اس کا مفہوم جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ تھا کہ حقیقت کے ادراک کے لیے ماضی اور حال دلیل کم نظری ہے مشاہدہ حق کے لیے دیدہ بینا اور واردات کی سچائی اور گہرائی کی ضرورت ہے ۔
اتفاق سے خاکسار مغربی مفکرین کے افکار کا مطالعہ اس خیال سے کر رہا تھا کہ ان کے نزدیک انسان کی سرگرمیوں اور تگ و دو کے پیچھے کون سا جذبہ محرکہ (Driving Force)کارفرما ہے۔
مثلاً ایڈلر(Adler. D1937)کے خیال کے مطابق بنیادی محرک یہ ہے کہ انسان برتری چاہتا ہے۔
(Adler believed that everyone experiences feelings of inferiority. The struggle for superiority arises from such feelings.)
(Introduction to Psychology, Canada, 2007)
اور مفکر فرائیڈ مشہور سائیکالوجسٹ جنسی جبلت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے ۔ جبکہ کارل مارکس کے نزدیک بنیادی اہمیت کسی بھی دور میں معاشی نظام اور پیداواری ذرائع کو حاصل ہے اور انسانی سماج کی تمام اخلاقی اور سماجی اقدار کا مدار اس دور کے معاشی نظام پر ہوتا ہے ۔
آئیے تاریخ کے آئینہ خانہ میں چلتے ہیں کیا ان افکار کی جھلکیاں کہیں نظر آتی ہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ قریش نے سوچا کہ آخر آنحضرت ﷺ کی ایسی سخت نفس کشی اور جانبازی کا مقصد کیا ہے انہوں نے عتبہ بن ربیعہ کو بھیجا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے معلوم کرے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔
چنانچہ عتبہ مولائے کل ختم الرسل ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو پیش کش کی
1۔ اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں ہم اس کے لیے تیار ہیں۔(یعنی ایڈلر کے خیال کے مطابق جو بنیادی جذبہ محرکہ ہو سکتا ہے)
2۔ اگرآپ کو دولت چاہیے تو آپ کے قدموں میں سونے چاندی کے ڈھیر لگا دیں گے ۔(کارل مارکس کے نزدیک جو حقیقت ہے)
3۔ عتبہ نے تیسری پیش کش آپ سے یہ کی کہ اگر آپ کسی بڑے خاندان کی کسی خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف اشارہ کرنا ہو گا۔ (گویا جو فرائید کے نزدیک بنیادی جذبہ محرکہ ہو سکتا ہے)
گویا عتبہ بن ربیعہ نے دور جدید کے تینوں مشہور مفکرین کے نزدیک جو سب سے طاقتور جذبہ محرکہ (Incentive)ہو سکتا ہے اس کے ذریعے آپؐ کو تبلیغ سے روکنے کی کوشش کی ۔ ؎
میرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے
انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
اس کے جواب میں آپ ﷺ نے سورۃ حٰمٓ السجدۃ کی آیات تلاوت کیں۔ عتبہ پر ان کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ اثر بہار نہیں یہ نوائے عاشقانہ ہے ۔
(نصیر حبیب۔ لندن)
٭…٭…٭
مختصر مگر بہت فکر انگیز تحریر ہے۔ مشاہدہِ حق کے لیے دیدہِ بینا درکار ہے۔ ادراک اور آگہی زمان و مکان کی قید سے آزاد کُل بنی نوع کی مشترکہ میراث ہے۔ جو چاہے اس سے حصہ لے، بس خیال رہے کہ یہ لڑکوں کا کھیل نہیں۔ جناب ڈاکٹر وزیر آغا نے جو بات کہی اس کا بہت بامعنی تصور ہمیں ہرمن ہیسے کے ناول سدھارتھ میں بھی ملتا ہے۔
غالب اپنی خُو کا ایک اور منفرد فرد ہے۔ کہتا ہے
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ بھی ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
I appreciate your deep study of Ghablib Poetry. Assalam u Alaikum
محترم آپ کا مختصر مضمون انسانی فکر کو جھنجھوڑنے والا ہے۔باوجود اس کے کہ جنسی جبلت ،مالی آسودگی اور بادشاہت کمزور جذبہ محرکات ہیں مگر دنیا انہیں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ نوائے عاشقانہ ہی وہ طاقتور جذبہ محرکہ ہے جس کے سامنے ہر وقتی آسودگی دینے والا جذبہ ہیچ ہے۔
Asslamo Alaikum, JazakAllah . Allah Tufeeq atta farmae hayat afreen Naqoosh e Qadam Per Chalna ki. Ameen