کتب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کی بعض تحریکات
مطالعہ کرنے، پھیلانے، طرز تحریراختیار کرنےاور ان سے اردو سیکھنے کی تلقین
[کورونا وائرس کے ان ایام میں دنیا کی متعدد حکومتوں کی طرف سے اپنے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان حالات میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍ مارچ 2020ء کو اپنے خصوصی پیغام میں احباب جماعت کو گھروں میں رہتے ہوئے اس فرصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری نیکیوں کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ اس حوالے سے کتب حضرت مسیح موعود ؑکے متعلق حضرت مصلح موعودؑ کی تحریکات اختصار کے ساتھ بیان کی جا رہی ہیں]حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے قرآن کریم اور حدیث کے فہم کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کی طرف سینکڑوں بار توجہ دلائی اور اس ضمن میں بعض اہم تحریکات بھی فرمائیں۔
مطالعہ کی تحریک
27؍ دسمبر 1920ء کو حضورؓ نے جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم بے شک ظاہری علوم پڑھو مگر دین کا علم ضرور حاصل کرو اور اپنے اندر دین کی باتیں سمجھنے اور اخذ کرنے کا ملکہ پیدا کرو۔اس کے لیے ایک تو قرآن کریم سیکھو اور دوسرے حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو اور خوب یاد رکھو کہ حضرت صاحب کی کتابیں قرآن کی تفسیر ہیں۔ کل میں ان کے متعلق ایک خاص نکتہ بتاؤں گا۔ آج صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ وہ قرآن کی تفسیر ہیں ان کو پڑھو۔‘‘
(اصلاح نفس،انوارالعلوم جلد5صفحہ447)
ایک خاص نکتہ
اگلے دن حضورؓ نے وہ خاص نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضان الٰہی کے ماتحت لکھی گئی ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لیے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے۔‘‘
(ملائکة اللہ،انوارالعلوم جلد5صفحہ560)
روزانہ ایک صفحہ پڑھو
حضور ؓنے 27؍دسمبر 1927ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں کتب حضرت مسیح موعوؑد کا روزانہ ایک صفحہ پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’اصلاح نفس کے لیے دوسری چیز یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ باقاعدہ حضرت صاحب کی کتب کامطالعہ نہیں کرتے۔ اگر ہر ایک احمدی یہ فیصلہ کرلے کہ حضرت صاحب کی کسی کتاب کا روزانہ کم ازکم ایک صفحہ کامطالعہ کیا کروں گا تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب میں وہ روشنی اور وہ معارف ہیں جو قرآن کریم میں مخفی طورپر بیان ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کی اپنی کتب میں تشریح فرمائی ہے حتیٰ کہ ایک ادنیٰ لیاقت کا آدمی بھی انہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کی کتب میں بھی وہ نور اور ہدایت ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ قرآن کریم کی یہ فوقیت ہے کہ وہ خود خداتعالیٰ کے الفاظ میں ہے۔
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب میں سے کم ازکم ایک صفحہ روزانہ پڑھا کرے۔ عیسائی انجیل کامطالعہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو علی الاعلان دہریہ ہیں باقی سب اسے پڑھتے ہیں۔ وہ رات کو اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک کہ دعا نہ کرالیں پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن کو دہریہ اور بےدین اور کیا کیا کہا جاتا ہے وہ تو اپنی اس مذہبی کتاب کا مطالعہ نہیں چھوڑتے جس میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہو چکا ہے مگر آپ لوگ جن کو تازہ کتابیں ملی ہیں آپ انہیں نہیں پڑھتے کم ازکم ایک صفحہ روزانہ ضرور پڑھنا چاہئے۔’’
(تقریر دلپذیر، انوارالعلوم جلد10صفحہ92)
مطالعہ کتب مسیح موعود کا نظام ترتیب
1920ء میں ایک مخلص احمدی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بذریعہ مکتوب استفسار کیا کہ حضرت مسیح موعود کی کتابیں کس ترتیب سے پڑھنی چاہئیں۔ اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نےتحریر فرمایا:
’’(1)سب سے پہلے ازالہ اوہام کی ضرورت ہے۔ (2)پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم۔(3) تحفہ گولڑویہ۔ (4)الوصیت۔ (5)تقویة الایمان (کشتی نوح) (6)حقیقة الوحی۔
ان کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد دوسرا سلسلہ (1)براہین احمدیہ پہلے چار حصے۔ (2)سرمہ چشم آریہ۔ (3)آئینہ کمالات اسلام۔ (4)اسلامی اصول کی فلاسفی اور چشمۂ معرفت۔
اور وقت ملے تو باقی جو حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری کتابیں ہیں وہ بھی پڑھیں……براہین احمدیہ حصہ پنجم اورحقیقة الوحی اس کے ساتھ ملحوظ رہے۔ اگر خود تحقیق کی فرصت نہ ہو۔ تو حقیقة النبوة ( حضرت مصلح موعود کی کتاب ) کا مطالعہ کیا جاوے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس کی صرف کتب کا مطالعہ کافی نہیں۔ اس سے محض علمی رنگ کامل ہوتا ہے۔ایک اور چیز ہے۔ جس کے بغیر حضرت اقدس کی بعثت سے انسان پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اور وہ ان ڈائریوں کا مطالعہ ہے۔جو وقتاً فوقتاً اخباروں میں چھپتی رہی ہیں ان کا علمی حصہ ایسا یقینی نہیں۔ جیسے حضرت اقدس کی کتب ہیں۔ کیونکہ ڈائری نویس بعض وقت الفاظ پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتا لیکن ان سے دو باتوں کا پتہ لگتا ہے۔ ایک یہ کہ حضرت اقدس اپنی بعثت کا مطلب کیا سمجھے تھے اور اسے پورا کرنے کے لیے کس رنگ میںکوشش کرتے رہے۔ دوسر ے یہ کہ جن لوگوں کے سامنے حضور کا دعویٰ پیش ہوا۔ اور اسے انہوں نے قبول کیا۔ اور سالہاسال تک آپ کے ساتھ رہے یا کثرت سے آپ کی ملاقات کرتے رہے۔ انہوںنے حضور کے کلام سے کیا سمجھا اور آپ کے ساتھ کس رنگ میں معاملہ کرتے تھے۔ ان دونوں باتوں کے جاننے کے بغیر انسان احمدیت کے مغز کو نہیں پا سکتا۔‘‘
(الفضل 9؍دسمبر1920ء صفحہ8تا9)
کتب کا عظیم مقام
سیدنا حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت 1925ء پر یہ اعلان فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام خداتعالیٰ کی طرف سے آئے تھے۔ محمد ﷺ کا بروز ہوکر آئے تھے۔ اس لیے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تحریر کی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا۔ مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کردوں گا۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت 1925ء صفحہ39)
کتب کے پھیلاؤ کی تحریک
حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے 22؍مارچ 1929ء کو ارشاد فرمایا کہ یہ زمانہ نشرواشاعت کا ہے جس ذریعہ سےہم آج اسلام کی مدد کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقینا ًبہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
(رپورٹ مجلس مشاورت 1929ء صفحہ247)
نیز ہدایت فرمائی کہ عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس و جہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ایک طرف تو میں نظارت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حد پر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں لیں کافی معاوضہ بھی دیا جاسکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت دیں۔
(الفضل 29؍مارچ 1929ء صفحہ6)
حضرت مسیح موعود ؑکی طرز تحریر اختیار کرنے کی تحریک
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے 10؍جولائی1931ء کو جماعت کے مصنفوں، اخبار نویسوں اور مضمون نگاروں کو یہ اہم تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرز تحریر اپنائیںتا ہمارے جماعتی لٹریچر ہی میں اس کانقش قائم نہ ہو بلکہ دنیا کے ادب کا رنگ ہی اس میں ڈھل جائے۔ چنانچہ حضور ؓنے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا ایک خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے اور اس کے اندر اس قسم کی روانی زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طورپر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جارہی ہیں اور یہ انتہا درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی۔ اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہوجائے۔ پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے۔ آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے۔ آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے۔ آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے۔‘‘
اس ضمن میں حضور ؓنے اپنا تجربہ یہ بتایا کہ
‘‘میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے۔ خصوصاً شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا۔ پہلا مضمون جو میں نے تشحیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تحریروں کو پڑھا تا اس رنگ میں لکھ سکوں اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا اور میرا تجربہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا۔‘‘
(الفضل 16؍جولائی 1931ء صفحہ5)
اردو سیکھنے کے لیے
حضرت مسیح موعود ؑکی کتب پڑھنے کی تحریک
23؍جولائی 1933ء کو طلباء جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے تحریک فرمائی کہ احمدی طلباء کو اردو سیکھنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ‘‘انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر’’ کے عنوان سے ایک تھیسس لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے۔
اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے … زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی۔‘‘
(الفضل 6؍اگست 1933ء صفحہ6تا7)
٭…٭…٭
جزاک اللہِ خیرا
میں روانہ درس کے لیے الفضل سے کچھہ حصہ سلیکٹ کر تا ہوں۔ اس کو ریکاڈ کر کے پھر سب کو بھجوا تا ہوں۔
ہر روز نوٹیفکیشن مل جاتا ہے نئے مضامین کا وہ ہماری روانہ کی ضروریات کے مطابق ہوتے ہیں۔
ابھی جو مضامین آئے ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر ات سے اقتباس لیے گے وہ سب دل کو چھو لینے والے ہیں۔
سب احباب کو کچھ نہ کچھ سننے کی توفیق مل جاتی ہے۔
ایک بار پھر سب کو جزاک اللّہ لکھنے والوں کا بھی اور ترتیب دینے والوں کا بھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو احسن جزاء دے اور آپ کو مقبول خدمت کی توفیق دے اور اپنی امان میں رکھے۔ آمین
جزاکم اللہ احسن الجزاء