نماز جمعہ کی فرضیت و فضیلت، آداب و مسائل – حضورِ انور کا ایک تازہ ارشاد
گھروں میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک تازہ ارشاد
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جمعہ کی فرضیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (سورۃ الجمعۃ :10)
یعنی اے مومنو! جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کیلئے بلایا جائے (یعنی نماز جمعہ کیلئے) تو اللہ کے ذکر کیلئے جلدی جلدی جایا کرو۔ اور (خرید اور) فروخت کو چھوڑ دیا کرو‘ اگر تم کچھ بھی علم رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے اچھی بات ہے۔
سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی جمعہ کی بہت اہمیت و فضلیت بیان فرمائی ہے، جو احادیث نبویﷺ میں محفوظ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ بَاب فَضْل يَوْمِ الْجُمُعَةِ)
یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، جس میں آدم کی پیدائش ہوئی، اسی دن اسے جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن اسے جنت سے نکالا گیا اور قیامت بھی جمعہ کے روز ہی قائم ہو گی۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے درج ذیل روایت بھی مروی ہے:۔
أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمْ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ فَهَدَانَا اللَّهُ فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب فرض الجمعۃ)
یعنی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم دنیا میں آنے والوں کے اعتبار سے پیچھے ہیں، لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، بجزاس کے کہ انہیں کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔ پھر یہی (جمعہ) ان کا دن ہے، جس میں ان پرعبادت فرض کی گئی لیکن ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری اس طرف راہنمائی فرمائی۔پس لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں۔ کل (یعنی ہفتہ کا دن) یہود کی عبادت کا دن ہے اور پرسوں (یعنی اتوار) نصاریٰ کی عبادت کا دن ہے۔
جان بوجھ کرجمعہ چھوڑنے والوں کیلئے انذارکی بابت حضرت جابربن عبد اللہ ؓ روایت کرتے ہیں:۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثًا مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ۔
(سنن ابن ماجہ كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَابَاب مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِعُذْرٍ)
یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے بغیر کسی عذر کے تین جمعے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پرمہر ثبت کر دیتا ہے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کوتعطیل کا دِن ٹھہرایا ہے اوراس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعۃ ہے اوراس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کاہر ایک کام بند کردواورمسجدوں میں جمع ہوجاؤ اورنماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہواور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔
(الحکم نمبر3 جلد 7 مؤرخہ 24جنوری 1903ء صفحہ5)
جمعۃ المبارک کی فرضیت اور اس کی اہمیت و فضیلت کے بارہ میں اس مختصر تمہید کے بعداب قارئین کی خدمت میں خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بارہ میں چند اہم فقہی امور پیش ہیں۔
غسل کرنا، دانت صاف کرنا، خوشبو لگانا
جمعہ کے روز غسل کرنے، دانت صاف کرنے اور خوشبو لگانے کی بہت تاکید آئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں:۔
أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ وَأَنْ يَسْتَنَّ وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الطِّيبِ لِلْجُمُعَةِ)
یعنی میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ پرغسل کرنا واجب ہے اور یہ کہ وہ مسواک کرے اوراگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں:۔
یاد رکھو کہ ظاہر پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔اس لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو غسل کرو۔ ہر نماز میں وضو کرو۔ جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگالو۔
عیدین میں اورجمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے۔ پس غسل کرنے اورصاف کپڑے پہننے اورخوشبو لگانے سے سمیّت اورعفونت سے روک ہوگی۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 231مطبوعہ 2016ء)
جمعہ کے دن کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓ تحریر کرتے ہیں :۔
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 61 مطبوعہ فروری 2008ء)
جمعہ کی ادائیگی کا وقت
عام حالات میں جمعہ کا وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ۔
یعنی حضورﷺ نماز جمعہ اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔
نمازِ جمعہ سے قبل ادا کی جانے والی سنّتیں
لیکن جہاں تک نماز جمعہ سے قبل کی سنتوں کا تعلق ہے تو وہ زوال آفتاب سے پہلے اور زوال آفتاب کے بعد کسی وقت بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں جمعہ کے روزسورج کے عین سر پر ہونے (نصف النہار) کے وقت بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ جبکہ باقی دنوں میں اس وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ روایت کرتے ہیں:۔
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَرِهَ الصَّلَاةَ نِصْفَ النَّهَارِ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَقَالَ إِنَّ جَهَنَّمَ تُسَجَّرُ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب بَاب الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الزَّوَالِ)
کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن کے علاوہ باقی دنوں میں نصف النہار کے وقت نماز پڑھنا ناپسند فرماتے تھے۔ اور حضورﷺ نے( اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا کہ جمعہ کے دن کے علاوہ باقی دنوں میں اس وقت جہنم کو دہکایا جاتا ہے۔
نماز جمعہ سے قبل کی سنتوں کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرتﷺ نے مسجد میں آکر جمعہ کی نمازسے قبل دو رکعت پڑھیں۔ لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ چاررکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے۔ گو بخاری و مسلم نے چارسنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے۔ لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے ۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 47 جلد 17 مؤرخہ 10دسمبر1929ء صفحہ7)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ تحریرکرتے ہیں :۔
میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔ عام طورپر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 258 مطبوعہ مئی 2008ء)
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ مزید اس بارہ میں لکھتے ہیں:۔
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدْ ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 804 مطبوعہ فروری 2008ء)
حالتِ سفر میں جمعہ
مسافرپرجمعہ فرض نہیں لیکن اگر وہ جمعہ پڑھ لے تو اس میں حرج کوئی نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے:۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَى مُسَافِرٍ جُمُعَةٌ۔
(المعجم الأوسط للطبراني باب الالف من اسمہ احمدحدیث نمبر 830)
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:۔
سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوسفر کے موقعہ پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی۔ اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھاکر تاہوں اورمیری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طورپر ہیں۔
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر 21 جلد 30 مؤرخہ 24 جنوری 1942ء صفحہ1)
نمازِ جمعہ سے قبل پڑھی جانے والی سنتوں کی ادائیگی کی تلقین
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اگر نماز جمعہ کے ساتھ عصرکی نماز جمع کی جائے تو کیا پھر بھی سنتیں معاف ہیں؟
فرمایا:۔ نماز جمعہ سے قبل جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ دراصل جمعہ کے نفل ہیں اور جمعہ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس لئے نماز جمعہ سے قبل سنتیں بہرحال پڑھنی چاہئیں۔
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر 240 جلد 34 مؤرخہ 14 اکتوبر 1946ء صفحہ 4)
اسی طرح ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا:۔
ابھی جمعہ کی نماز کے وقت بعض دوستوں میں یہ اختلاف ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام کا فتویٰ ہے کہ اگر نمازیں جمع کی جائیں تو پہلی، پچھلی اور درمیان کی سنتیں معاف ہوتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جب نماز ظہر و عصر جمع ہوں تو پہلی اور درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں۔ یا اگر نماز مغرب اور عشاء جمع ہوں تو درمیانی اور آخری سنتیں معاف ہو جائیں گی۔ لیکن اختلاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں میرے ساتھ تھے۔ میں نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور جمعہ کی پہلی سنتیں پڑھیں۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کی نماز سے قبل جو سنتیں پڑھا کرتے تھے، میں نے وہ سفر میں پڑھیں اور پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے جو نوافل پڑھے جاتے ہیں وہ نماز ظہر کی پہلی سنتوں سے مختلف ہیں۔ ان کو دراصل رسول کریم ﷺ نے جمعہ کے اعزازمیں قائم فرمایا ہے۔
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر 21 جلد 30 مؤرخہ 24 جنوری 1942ء صفحہ1)
جمعہ کے موقعے پر اذانیں
مختلف صحابہ کو دکھائی جانے والی رویاء کی بنا پر حضورﷺ نے مسلمانوں کو نماز با جماعت کی اطلاع کرنے کیلئے جس طرح اذان کا طریق اپنایا نمازجمعہ کیلئے بھی حضورﷺ کے عہد مبارک میں یہی طریق تھا۔ چنانچہ حضورﷺ جب خطبہ ارشاد فرمانے کیلئے ممبر پر تشریف فرما ہوتے تو مؤذن اذان کہتا۔ پھر حضرت ابو بکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں یہ اسی طریق پرعمل ہوتا رہا۔ لیکن جب لوگوں کی کثرت ہو گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اور اذان کا اضافہ فرمایا جو مدینہ کے بازار میں زوراء کے مقام پر دی جاتی تھی۔ جس کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو اطلاع ہو جائے اور وہ اپنے کام کاج سمیٹ کر غسل وغیرہ کر کے جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد پہنچ جائیں۔ چنانچہ حضرت سائب بن یزید ؓ روایت کرتے ہیں:۔
كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ۔قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ)
اذان کے بارہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نماز باجماعت کیلئے اذان دینا ضروری ہے، البتہ سفر یا کسی ایسی صورت میں جبکہ نماز باجماعت میں شامل ہونے والے سب لوگ نماز پڑھنے کی جگہ موجود ہوں تو اگر اذان نہ بھی دی جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ۔چنانچہ اس سوال کہ کیا جماعت کیلئے اذان ضروری ہے؟ کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔
ہاں اذان ہونی چاہئیے لیکن اگر وہ لوگ جنہوں نے جماعت میں شامل ہونا ہے وہیں موجود ہوں تو اگر اذان نہ کہی جائے توکچھ ہرج نہیں۔ لوگوں نے اس کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے مگر میں ایک دفعہ حضرت صاحب کے ہمراہ گورداسپور کو جارہا تھا راستہ میں نماز کا وقت آیا عرض کیا گیا کہ اذان کہی جائے؟فرمایا کہ احباب تو جمع ہیں کیا ضرورت ہے۔ اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو نہ دی جائے ورنہ اذان دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو بھی تحریک نماز ہوتی ہے۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 56 جلد 9 مؤرخہ 19 جنوری 1922ء صفحہ 8)
خطبہ جمعہ
جمعہ کا ایک لازمی حصہ اس کا خطبہ ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ یہ خطبہ کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد جس میں عام طور پر مختلف امور کی بابت وعظ و نصائح ہوتے تھے حضورﷺ چند لمحوں کیلئے خاموشی سے نیچے بیٹھتے اور پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ (جسے خطبہ ثانیہ کہا جاتا ہے) ارشاد فرماتے۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے:۔
كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَكِّرُ النَّاسَ۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ بَاب ذِكْرِ الْخُطْبَتَيْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِيهِمَا مِنْ الْجَلْسَةِ)
کہ نبی کریم ﷺ دو خطبے ارشاد فرمایا کرتے تھے اور ان دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھا کرتے تھے۔ ان خطبوں میں آپ قرآن کریم پڑھا کرتے اور لوگوں کو واعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ ہی روایت کرتے ہیں:۔
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ يَقْعُدُ قَعْدَةً لَا يَتَكَلَّمُ فِيهَا ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ خُطْبَةً أُخْرَى۔
(سنن نسائی کتاب صلاۃ العیدین باب الْجُلُوسُ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ وَالسُّكُوتُ فِيهِ)
یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر کیلئے بیٹھ گئے اور خاموش رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور دوسرا خطبہ دیا۔
جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کی وجہ کے بارہ میں سنن ابی داؤد کی شرح عون المعبود میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی یہ روایت مذکورہ ہے:۔
عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْر وَعُمَر أَنَّهُمْ كَانُوا يَخْطُبُونَ يَوْم الْجُمُعَة خُطْبَتَيْنِ قِيَامًا يَفْصِلُونَ بَيْنهمَا بِالْجُلُوسِ۔
(عون المعبودشرح سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الخطبۃ قائما)
یعنی نبی کریم ﷺ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما جمعہ کے روز کھڑے ہو کر دو خطبے ارشاد فرمایا کرتے تھے اور ان دو خطبوں کے درمیان (چند لمحے) بیٹھ کر امتیاز فرمایا کرتے تھے۔
اگرکسی شخص کو جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو تو وہ درود شریف پڑھ بھی خطبہ دے سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:۔
منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صاحب صرف مقتدی ہوتے۔میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا۔ کوئی رکوع پڑھ کراوربیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔
(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 29 مطبوعہ مئی 2008ء)
جمعے کے متفرق آداب و مسائل
خطبہ جمعہ کو مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس دوران کسی کوخاموش کروانا ہو تو اسے بھی اشارے کے ساتھ خاموش کرانے کی ہدایت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں:۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الْإِنْصَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ)
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو اپنے ساتھی کو جمعہ کے دن جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو یہ کہے کہ خاموش ہو جا تو تو نے یقیناً ایک لغو کام کیا۔
خطبہ جمعہ کے دوران اگر کوئی شخص مسجد میں پہنچے اوراس شخص نے جمعہ سے پہلے کی سنتیں ادا نہ کی ہوں تو ایسے شخص کیلئے حکم ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں پہلے مختصر طور پر دو سنتیں ادا کرے اور پھر خاموشی سے امام کا خطبہ سنے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے:۔
جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَلَسَ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا ثُمَّ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ بَاب التَّحِيَّةُ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ)
کہ حضرت سلیک غطفانیؓ جمعہ کے دن آئے اور آکر بیٹھ گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا اے سلیک کھڑے ہو کردو رکعتیں پڑھو اور اس میں اختصار کرو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔
خطبہ جمعہ کے بعد امام دو رکعت فرض نماز پڑھاتا ہے۔جن میں حضورﷺ عموماً سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے مروی ہے:۔
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ بَاب مَا يُقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ)
نمازِ جمعہ کی گھروں میں ادائیگی
احادیث سےثابت ہوتا ہے کہ مجبوری کے حالات میں جمعہ کی نماز جامع مسجد کی بجائے محلے کی مسجد میں یا گھروں میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔چنانچہ مروی ہے:۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ إِذَا قُلْتَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَلَا تَقُلْ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قُلْ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا قَالَ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي إِنَّ الْجُمْعَةَ عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالدَّحَضِ۔
(بخاری کتاب الجمعہ باب بَاب الرُّخْصَةِ إِنْ لَمْ يَحْضُرْ الْجُمُعَةَ فِي الْمَطَرِ)
یعنی حضرت ابن عباس ؓنےایک بارش والے دن اپنے مؤذن سے فرمایا کہ جب تم أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کہو (تو اس کے بعد) حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ نہ کہنا بلکہ صَلُّوا فِي بُيُوتِکُمْ (یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھو) کے الفاظ کہنا۔ پس گویا لوگوں کو یہ بات نئی لگی اور انہوں نے اس پر تعجب کیا۔ اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایایہی فعل انہوں(یعنی آنحضورﷺ) نے بھی کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے۔ اگرچہ جمعہ پڑھنا ضروری ہے مگر میں ناپسند کرتا ہوں کہ تم لوگوں کو اس تکلیف میں ڈالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔
اسی طرح ابو ملیح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:۔
أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَأَصَابَهُمْ مَطَرٌ لَمْ تَبْتَلَّ أَسْفَلُ نِعَالِهِمْ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا فِي رِحَالِهِمْ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب الْجُمُعَةِ فِي الْيَوْمِ الْمَطِيرِ)
کہ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس دن بارش ہو رہی تھی مگر اتنی زیادہ نہ تھی کہ لوگوں کے جوتوں کے تلے بھیگ جاتے۔ پس آپ ﷺنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
آج بارش ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ مگر اس کے ساتھ دیکھ لو کچھ تکلیف بھی ہے۔ نمازیں جمع ہوں گی۔ پھر میں نے اعلان کرا دیا ہے کہ جو دوست اپنے اپنے محلوں میں جمعہ پڑھنا چاہیں، پڑھ لیں۔ ہاں جو شوق سے یہاں آنا چاہیں اورآسکتے ہوں وہ آجائیں۔ بہت سے بوڑھوں، بچوں، کمزوروں اور کام والوں نے اپنے اپنے محلہ میں ہی پڑھا ہے۔ اورجوتندرست تھے، آ سکتے تھے یا جن کے پاس کافی کپڑے تھے وہ یہاں آ گئے ہیں۔
(روز نامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر 21 جلد 30 مؤرخہ 24 جنوری 1942ء صفحہ1)
مذکورہ بالا دونوں روایات اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کسی مجبوری کے وقت جمعہ کی ادائیگی میں سہولت کا فیصلہ ہرانسان کے دائرہ اختیار میں نہیں بلکہ یہ اختیارصرف نظام کو حاصل ہے۔
دنیا میں پھیلی ہوئی کورونا وائرس کی مہلک وبا کی بنا پر دنیا کے اکثر ممالک نے اپنے اپنے ہاں ہنگامی صورتحال کا نفاذ کر رکھا ہے۔ اور مختلف قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے احکام جاری کر رکھے ہیں۔ ان حالات میں نظام جماعت جو کہ خلافت جیسی نعمت سے سرفراز ہے، نے احباب جماعت کو ان احتیاطی تدابیر پرعمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ چنانچہ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خصوصی پیغام ارشاد فرمودہ 27 مارچ 2020ء میں افراد جماعت کو نمازوں اور جمعہ کی ادائیگی کے بارہ میں درج ذیل نصائح فرمائیں:۔
آج کل وائرس کی وبا پھیلنے کی وجہ سے دنیا میں بہت ساری حکومتوں نے پابندیاں لگائی ہیں اور یہاں برطانیہ کی حکومت نے بھی پابندی لگائی ہے کہ مسجد میں باجماعت نمازادا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک جمعہ نہ پڑھنے کا سوال ہے بعض حدیثوں سے وضاحت ہوتی ہے کہ بعض حالات میں باجماعت نماز اور جمعہ چھوڑے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بیماری جس کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کیلئے حکومت نے بھی بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں اور ملکی قوانین کے تحت ان پر چلنا بھی ضروری ہے ان صورتوں میں ایک جگہ جمع ہونا اور نماز باجماعت ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا مشکل ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں جہاں بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نمازیں پڑھنا ضروری ہیں اور باجماعت پڑھنا ضروری ہے۔ آج کل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جا سکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے، اس کو پورا کرنا ضروری ہے اس پر خاص طور پر توجہ دیں۔ بعض دفعہ سفروں میں ایسے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی آئے تھے جب آپؑ نے جمعہ ادا نہیں کیا تو بہرحال بہت ساری روایات ہیں ایسی جس سے اس بارہ میں بھی وضاحت ہوتی ہے کہ متعدی بیماریوں میں جمع ہونا یا بیماریوں میں ایک دوسرے سے ملنا ٹھیک نہیں ہے اس کیلئے علیحدہ رہنا چاہئیے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہم مستقل تو یہ نہیں چھوڑ رہے اور اس کیلئے متبادل انتظام بھی کر رہے ہیں کہ گھروں میں جمعہ ادا کریں میں بھی کوئی انتظام کرنے کی کوشش کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل شمارہ 26 جلد27 مؤرخہ 31 مارچ 2020ء صفحہ 1 و2)
گھروں میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کا طریق
حضورِ انور کی ان ہدایات کے تحت احباب جماعت نمازیں اور جمعے اپنے اپنے گھروں میں ادا کر رہے ہیں۔اس حوالہ سے بھی جمعہ کے بارہ میں بعض مسائل کا یہاں بیان ضروری معلوم ہوتا ہے۔
جمعہ کی ادائیگی کے لیے افراد کی تعداد
نماز جماعت کے بارے میں احادیث سے واضح راہنمائی ملتی ہے کہ دو آدمیوں سے جماعت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مالک بن حویرثؓ روایت کرتے ہیں:۔
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم دونوں میں سے کوئی اذان دے اور اقامت کہے پھر جو تم دونوں میں سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کروائے۔
اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں:۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا بَاب الِاثْنَانِ جَمَاعَةٌ)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دو اور دو سے زیادہ افراد جماعت کہلاتے ہیں۔
جمعہ کی نماز کیلئے تعداد کے بارہ میں درج ذیل حوالہ جات ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟
مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا توانہوں نےعرض کیا کہ دوسے جماعت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا ہاں پڑھ لیا کریں۔ فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کرکے تعداد پوری کر سکتا ہے۔
(اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14مارچ1907ء صفحہ5)
سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کرکے نماز جمعہ ادا کی جائے۔
حضرت نے فرمایا کہ جائز ہے۔
(اخبار بدر نمبر 36 جلد 6 مؤرخہ 5ستمبر1907ء صفحہ3)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ فرمایا:۔
جمعہ میں ایک امام اور ایک مقتدی کافی ہے۔
(اخبار بدر نمبر 5 جلد 10 مؤرخہ یکم دسمبر 1910ء صفحہ3)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے استفسار پر اسے جواب لکھوایا:۔
جمعہ گھر میں گھر کے آدمیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 145، جلد 2 مؤرخہ 27 مئی 1915 صفحہ 2 )
سوال ہوا کہ کیا دو آدمیوں کا بھی جمعہ ہو سکتا ہے؟فرمایا ہو سکتا ہے۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 56 جلد9 مؤرخہ 19 جنوری 1922ء صفحہ 8)
میاں اور بیوی (دو افراد) کے نمازِ جمعہ پڑھنے سے متعلق حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تازہ ارشاد
دنیا کی اس ہنگامی صورتحال کے پیش نظر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا گیا کہ اس ہنگامی صورتحال میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن میں صرف میاں بیوی رہ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں حضور انور کی خدمت اقدس میں راہنمائی کی درخواست ہے کہ کیا وہ دونوں میاں بیوی اس طرح جمعہ ادا کر سکتے ہیں کہ خاوند خطبہ دے اور نماز جمعہ پڑھائے اور صرف بیوی اس کی مقتدی ہو؟
اس کے جواب میں حضور انور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا حوالہ (اوپر مذکورمولوی محمد احسن صاحب والا۔ناقل) ہی اس کی وضاحت کر رہا ہے کہ ہو سکتا ہے۔‘‘
(ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مؤرخہ 07.04.2020)
خاکسار اپنی ان گزارشات کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ ختم کرتا ہے۔حضور انور فرماتے ہیں:۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے، اللہ تعالیٰ اس وباء سے دنیا کو جلد پاک کرے اور سب دنیا کو انسانیت کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے اورسب خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
جزاکم اللہ احسن الجزاء
اس مضمون کو انگریزی زبان میں جلدازجلدمہیاکرناچاہئیے تا تمام دنیا میں پھیلے بیشتراحمدیوں کو براہ راست راہنمائی مہا ہو