کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
سماع
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں۔ آیا یہ جائز ہے؟
فرمایا: اس طرح بزرگانِ دین پر بد ظنّی کرنا اچھا نہیں۔ حُسن ظنّی سے کام لینا چاہیے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ لکھاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو منع کیا۔ اس نے جواب دیا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا تُو کون ہے جو مجھے روک سکے؟ یہ سُن کر حضرت امیر المومنینؓ بالکل خاموش ہو گئے۔
قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے۔ بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے۔ عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جس شئے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تواس میں کیا حرج ہے۔ حضرت داؤدؑ کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤد خدا تعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے۔
مزامیر
ایک شخص درمیان میں بول پڑا کہ مزامیر کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
فرمایا: بعض نے قرآن شریف کے لفظ لہوالحدیث کو مزامیر سے تعبیر کیا ہے مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام اور محل دیکھنا چاہیے۔ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کی علامات اس میں پائی جاتی ہیں اور متقی باخدا ہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے۔ صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اُسے بُرا نہ کہو۔ اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے۔ بایزید بسطامی کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ انہوں نے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کر دی۔ تب سب لوگ کافر کہہ کر بھاگ گئے۔عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے اور اس کے واسطے روزہ ضروری نہیں۔ لوگ نفرت کر کے بھاگے۔ ان کے واسطے عبادت کے لئے مقام خلوت حاصل ہو گیا۔
خضری اسرار
یہ اسرار ہیں اور ان کے واسطے ایک عمدہ مثال خود قرآن شریف میں موجود ہے جہاں حضرت خضر نے ایک کشتی توڑ ڈالی اور ایک لڑکے کو قتل کر دیا۔کوئی ظاہر شریعت ان کو ایسے کام کی اجازت نہ دے سکتی تھی۔ اس قصّہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ خضری اسرار اس امت میں ہمیشہ پائے جاتے رہےہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمام کمالات متفرقہ کے جامع تھے۔ اور ظلّی طور پر وہ کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں موجود ہیں۔ جو خضر نے کیا آئندہ صاحبان کمالات بھی حسب ضرورت کرتے ہیں۔ جہاں حضرت خضر نے ایک نفس زکیّہ کو قتل کر دیا اس کے بالمقابل مزامیر کیا شئے ہے؟ لہٰذا جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ جلد بازی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ دوسری علامات کو دیکھنا چاہیے جو اولیاء الرحمٰن میںپائی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اس میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ جو اعتراض کرے گا وہ مارا جائے گا۔ تعجب ہے کہ زبان کھولنے والے خود گندے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے دل ناپاک ہوتے ہیں اور پھر بزرگوں پر اعتراض کرتے ہیں۔
نظر بٹو
یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ اولیاء اللہ میں کسی ایسی بات کا ہونا بھی سنت اللہ میں چلا آتا ہے۔ جیساکہ خوبصورت بچّے کو جب ماں عمدہ لباس پہنا کر باہر نکالتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک سیاہی کا داغ بھی لگا دیتی ہے تاکہ وہ نظر بد سے بچا رہے۔ ایسا ہی خدا بھی اپنے پاکیزہ بندوں کے ظاہری حالات میں ایک ایسی بات رکھ دیتا ہے جس سے بد لوگ اس سے دور رہیں اور صرف نیک لوگ اس کے گرد جمع رہیں۔ سعید آدمی چہرے کی اصلی خوبصورتی کو دیکھتا ہے اور شقی کا دھیان اس داغ کی طرف رہتا ہے۔
امر تسر کا واقعہ ہے۔ ایک دعوت میں چند مولوی شریک تھے اور صاحب مکان نے مجھے بھی بلایا ہوا تھا۔ چائے لائی گئی۔ میں نے پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ لی۔ تب سب نے اعتراض کیا کہ یہ سُنت کے بر خلاف کام کرتا ہے۔ میں نے کہا۔یہ سنت ہے کہ پیالی دائیں ہاتھ سے پکڑی جائے مگر کیا یہ سنت نہیں کہ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ۔ یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول۔ کیا آپ لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ مجھ پر حُسنِ ظن کرتے اور خاموش رہتے۔ یا یہ نہیں ہو سکتا تھا تو اعتراض کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ ہی لیتے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پھر میں نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دائیں بازو کی ہڈی بچپن سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پیالی پکڑ کر میں ہاتھ کو اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ جب یہ بات انہیں بتلائی گئی تب وہ سن کر شرمندہ ہوگئے۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 207تا210۔ایڈیشن1984ء)
٭…٭…٭