حضرت مصلح موعود ؓ

نشاناتِ صداقت آنحضرت ﷺ (قسط نمبر 4 آخر)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

کیا حضرت مرزا صاحبؑ کو جنون تھا؟

اب رہا جنون۔ اس کے متعلق طبّی شہادت سے فیصلہ ہو سکتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی جماعت میں جتنے طبیب اور ڈاکٹر داخل ہوئے ہیں۔ اتنے کسی اَور جماعت میں ایسے معزز پیشہ کے لوگ داخل نہیں ہوئے۔ اس صورت میں سوائے اس شخص کے جو خود پاگل ہو اَور کوئی حضرت صاحبؑ کو پاگل نہیں کہہ سکتا۔

حضرت مرزا صاحبؑ صادق تھے

پس ان تینوں باتوں میں سے کوئی بھی حضرت مرزا صاحبؑ کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ اب یہی پہلو باقی رہ گیا کہ آپؑ سچے ہیں۔ا س کے متعلق دیکھتے ہیں کہ سچائی کے کیا دلائل ہیں؟

صداقت مسیح موعودؑ کی ایک دلیل

قرآن رسول کریم ﷺ کی صداقت کی ایک دلیل پیش کرتا ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹا ہے وہ ذرا اس کی اس عمر پر تو غور کریں جو دعویٰ سے پہلے گزری ہے کہ وہ کیسی تھی؟ یہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے کسی کی سچائی کا جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو دیکھو۔ کیا وہ ایسی نہیں ہے کہ کوئی اس پر حرف گیری نہیں کر سکتا۔ اگر ایسی ہی ہے تو ظاہر ہے کہ جس شخص نے کل شام تک کسی سے دغا فریب نہیں کیا اور نہ جھوٹ بولا کس طرح ممکن ہے کہ وہ آج صبح اٹھ کر لوگوں پر نہیں بلکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں آہی نہیں سکتی کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے مخالفین کو کہہ دو

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (يونس :17)

مَیں نے تم میں ایک لمبی عمر گزاری ہے اس کو دیکھ لو کیسی تھی اور اسی سے اندازہ لگا لو کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے جو اَب بولوں۔ یہی بات حضرت مرزاصاحبؑ نے اپنے متعلق بیان کی ہے کہ مَیں ایک لمبا عرصہ تمہارے درمیان رہا ہوں۔ آج کہیں باہر سے آکر دعویٰ نہیں کر دیا۔ میری پہلی زندگی کو دیکھو۔ کیسی تھی؟ مگر کسی نے پہلی زندگی میں کوئی نقص نہ بتایا۔

اہلِ سیالکوٹ سے خطاب

آج مَیں اہل سیالکوٹ کو خاص طور پر مخاطب کرتا ہوں کیونکہ حضرت مرزا صاحبؑ یہاں کئی سال تک رہے اور کئی لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔ مولوی میر حسن صاحب اور حکیم حسام الدین صاحب، لالہ بھیم سین صاحب وکیل ان کے دوستوں میں سے تھے۔ اَور بھی کئی لوگوں سے حضرت مرزا صاحبؑ کے تعلقات رہے اور مدتوں رہے اور جوانی کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بدیوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں رہے۔ پھر قادیان میں سکھ اور ہندو آپؑ سے مذہبی اختلاف رکھنے والے موجود تھے۔ ان کو حضرت صاحبؑ نے چیلنج دیا کہ میرے چال چلن میں کوئی عیب نکالو۔ کیا مَیں نے اس دعویٰ سے پہلے کبھی جھوٹ بولا، کسی سے فریب کیا، کسی کو دغا دی یا کوئی اور بُری بات کی۔ اگر نہیں تو خدارا غور کرو۔ جو کل تک لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا رہا وہ آج کس طرح جھوٹ میں اتنا بڑھ سکتا ہے کہ لوگوں کو چھوڑ کر خداتعالیٰ پر جھوٹ بولنے لگ جائے۔ ہر ایک تغیر وقفہ چاہتا ہے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایک حالت سے بدل کر دوسری حالت کی طرف جانے کے لئے وقفہ ضروری ہے۔ رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت دیتے ہوئے خداتعالیٰ فرماتا ہے جب کل تک اس کی راست بازی اور سچائی میں کسی کو شبہ نہیں تھا تو ایک رات میں کس طرح اتنا تغیر ہو گیا کہ خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا۔ یہی حضرت مرزا صاحبؑ نے کہا کہ اگر یہ ممکن نہیں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا۔ حضرت مرزا صاحبؑ یہاں سیالکوٹ میں کئی سال رہے اور آپؑ سے ملنے والے بہت لوگ ابھی زندہ ہیں۔ ان سے دوسرے لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کے کیسے اخلاق تھے۔ ایک دفعہ جب حضرت مرزا صاحبؑ پر جہلم میں مقدمہ دائر کیا گیا تو یہاں کے لالہ بھیم سین صاحب نے آپؑ کو خط لکھا کہ میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں خود آنہیں سکتا اگر اجازت دیں تو میرا بیٹا جو بیرسٹر ہو کر آیا ہے اسے شہادت کے لئے بھیج دوں وہ اس الزام کی تردید کرے جو آپؑ پر لگایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ کے متعلق ان کے ملنے والوں کے کیا خیالات تھے۔ ایسے انسان کے متعلق کوئی سمجھدار خیال بھی نہیں کر سکتا کہ وہ یکدم سچائی کو چھوڑ کر جھوٹ بولنے لگ گیا۔ اور جھوٹ بھی خداتعالیٰ پر اور اتنا بڑا کہ خدا نے تجھے دنیا کا ہادی بنا کر بھیجا ہے۔ اس بات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کر سکتا۔

دوسری دلیل

قرآن کریم میں سچے نبی کا خداتعالیٰ نے ایک اَور ثبوت پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ

لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ ۔ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ (الحاقۃ : 45-47)

خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے۔ اگر یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو چونکہ ہم قادر ہیں اور ہم پر جھوٹ بولنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس لئے ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے۔ یہ رسول کریم ﷺ کی صداقت کی دلیل خداتعالیٰ پیش کرتا ہے اس کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں۔ حضرت مرزا صاحبؑ سچے تھے یا نہیں۔ حضرت مرزا صاحبؑ نے دعویٰ کیا کہ مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔ اب خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ ا گر یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو ہم اسے ہلاک کر دیتے۔ یہی حضرت مرزا صاحب پر چسپاں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اگر رسول کریم ﷺ خداتعالیٰ پر افتراء کرتے تو ہلاک ہو جاتے اور کوئی دوسرا کرتا تو ہلاک نہ ہوتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ مفتری کو خداتعالیٰ کچھ عرصہ ڈھیل دے دے۔ مگریہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ہلاک نہ کرے اور اس کو لوگوں کے گمراہ کرنے کے لئے چھوڑ دے۔ اگر ایسے جھوٹے دعوے کرنے والے ہلاک نہ کئے جائیں تو پھر امن کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد جتنے جھوٹے لوگوں نے دعوے کئے وہ سب کے سب ہلاک کئے گئے۔

یہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نہ تو مجنون اور پاگل تھے،نہ دھوکا خوردہ۔ اب دو ہی باتیں باقی ہیں کہ یا تو آپؑ سچے تھے یا جھوٹے۔ اس کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ تیس سال متواتر حضرت مرزا صاحب علی الاعلان کہتے رہے ہیں کہ مجھے خداتعالیٰ نے دنیا کا ہادی اور راہنما کر کے بھیجا ہے اور خداتعالیٰ مجھ سے کلام کرتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں آدمیوں نے آپؑ کی بیعت کی اور آپؑ کو قبول کر لیا۔ جنہیں مخالفین کے نزدیک حضرت مرزا صاحبؑ نے اسلام سے نکال کر کافر بنا دیا۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کو پکڑا نہیں۔ اگر ایک جھوٹا انسان بھی اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کی صداقت کی کون سی دلیل رہ گئی۔

خدائی کا دعویٰ کرنے والے

بعض لوگ کہتے ہیں ۔ فلاں نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا وہ بچ گیا تو مرزا صاحبؑ کے نبی کا دعویٰ کر کے بچنے میں کون سی عجیب بات ہے۔ ہم کہتے ہیں خدائی کا دعویٰ کرنا اَور بات ہے اور نبوت کا دعویٰ کرنا اَور بات۔ دیکھو خداتعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ ہم خدائی کا دعویٰ کرنے والے کو ہلاک کر دیں گے۔ کوئی کہے خدا ئی کا دعویٰ کرنا تو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے سے بھی بڑا جرم ہے ایسے شخص کو تو ضرور پکڑنا چاہئے۔ مگر بات یہ ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنا ایسی بیہودہ بات ہے کہ جس کا باطل ہونا ہر ایک عقلمند بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ قصہ مشہور ہے ایک سادھو نے خدا ئی کا دعویٰ کیا ایک زمیندار کو اس پر بہت غصہ آتا لیکن سادھو کے چیلوں کے ڈر سے کچھ نہ کہتا۔ آخر ایک دن اکیلا دیکھ کر اسے کہنے لگا کیا تُو ہی خدا ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ زمیندار نے کہا مَیں تو تجھے بہت عرصہ سے تلاش کر رہا تھا اچھا ہوا آج تم مل گئے۔ یہ کہہ کر اس نے پکڑ لیا اور یہ کہہ کر مارنا شروع کر دیا کہ تُو نے ہی میرے باپ کو مارا ہے۔ میرے فلاں رشتہ دار کو مارا ہے۔ آج میں سب کا بدلہ لے کر چھوڑوں گا۔ اس پر سادھو نے تھوڑی دیر کے بعد ہی ہاتھ باندھنے شروع کر دیئے اور کہہ دیا میں خدا نہیں ہوں۔

تو خدائی کے دعویٰ کو باطل ثابت کرنے کے لئے تو ایک جاٹ ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن جھوٹے نبی سے لوگوں کو دھوکہ لگ سکتا ہے۔ کیونکہ نبی انسانوں میں سے ہی آیا کرتے ہیں۔ پس اگر نبی کی صداقت کا یہ ثبوت نہ ہوتا اور جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو ہلاک نہ کیا جاتا تو دنیا تباہ ہو جاتی۔

دعویٰ کے بعد حضرت مرزا صاحب سے خدا کا سلوک

اب دیکھو! حضرت مرزا صاحبؑ دعویٰ کے بعد کتنے سال زندہ رہے اور اس عرصہ میں خداتعالیٰ کا ان سے کیا سلوک رہا۔ یا تو وہ زمانہ تھا کہ آپؑ بالکل اکیلے تھے یا اب یہ وقت ہے کہ لاکھوں انسان ان کے نام پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر حضرت مرزا صاحب ؑسچے نہ تھے تو چاہئے تھا کہ خداتعالیٰ آپؑ کو دعویٰ کے بعد تیس سال تک زندہ نہ رہنے دیتا لیکن خداتعالیٰ نے نہ صرف اتنا لمبا عرصہ آپؑ کو اپنے دعویٰ کے پیش کرنے کے لئےدیا بلکہ آپؑ کے تمام دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں آپؑ کی مدد کی۔ آپؑ کی تائید میں بڑے بڑے نشان دکھلائے اور لاکھوں انسانوں کو ان کے سامنے جھکنے کی توفیق بخشی۔ کیا خداتعالیٰ کایہ سلوک کسی جھوٹے مدعی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔

تیسری دلیل

تیسرا ثبوت سچے نبی کا خداتعالیٰ یہ دیتا ہے کہ

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ ط اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُونَ (الانعام :22)

اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھے الہام ہوتا ہے حالانکہ نہ ہوتا ہو۔ یا اللہ کی آیات کی تکذیب کرے۔ ایسے لوگ ظالم ہوتے ہیں اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔

اب ہم پوچھتے ہیں جب خداتعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہوتا ہے۔ اور ظالم کبھی خداتعالیٰ سے نصرت نہیں پاتا۔ تو جب حضرت مرزا صاحب ایسے تھے تو پھر کیا وجہ ہے خداتعالیٰ کی نصرت انہیں ملتی رہی ہے۔ حضرت مرزا صاحبؑ کو خداتعالیٰ کی طرف سے جو نصرت ملی اس کو دیکھ کر کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپؑ جھوٹے تھے ورنہ اسے قرآن کو جھوٹا قرار دینا پڑے گا جو کہتا ہے کہ خدا پر جھوٹ بولنے والوں کو کبھی نصرت نہیں ملتی۔

دیکھو! حضرت مرزا صاحبؑ نے آج سے کئی سال پہلے قادیان میں جہاں کے اکثر لوگ آپؑ سے ناواقف تھےاور صرف چند لوگ جانتے تھے کہا

یَأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ 752 ایڈیشن چہارم)

اور

یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(تذکرہ صفحہ 338 ایڈیشن چہارم)

کہ خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے چاروں طرف سے تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ رستے گھس جائیں گے اور چاروں طرف سے خور و نوش کا سامان آئے گا۔ اس کے ساتھ ہی خداتعالیٰ نے بھی بتایا کہ چاروں طرف تیرا نام پھیل جائے گا۔

جب حضرت صاحبؑ نے دعویٰ کیا بالکل گمنام تھے، کوئی ان کا متبع نہ تھا، آپ کوئی بڑے عالم نہ تھے، کوئی حکومت نہ رکھتے تھے کہ رعب کی وجہ سے لوگ آپؑ کے ساتھ ہو گئے۔ پھر یہ بھی نہیں کہ آپؑ کی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ جب آپؑ نے دعویٰ کیا تو ہندوستان کے سب علماء آپؑ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے۔ امراء نے بھی آپؑ کے خلاف زور لگایا اور پیروں گدی نشینوں نے بھی مخالفت کی۔ پھر اس وقت کے حالات کو دیکھ کر گورنمنٹ نے بھی بدظنی ظاہر کی کیونکہ حضرت صاحبؑ نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور مہدی کا جو نقشہ مسلمانوں نے کھینچا ہوا تھا اس سے گورنمنٹ کو فتنہ و فساد کا ڈر تھا۔ادھر ہندوؤں اور عیسائیوں نے حضرت مرزا صاحبؑ کی مخالفت شروع کر دی۔ مگر آپؑ تن تنہا سب کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے اور کسی کی پروا نہ کی اور علی الاعلان کہہ دیا کہ میں محمد ﷺ کے خزانہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوں۔ کون ہے جو ایک پیسہ بھی اس میں سے اٹھا کر لے جا سکے۔ تو اس زمانہ میں جبکہ حکومت کو بدظنی تھی، ہر طرف سے مخالفت ہو رہی تھی، آپ سے بات تک کرنا ناجائز سمجھا جاتا تھا، اسی سیالکوٹ سے ایک اشتہار شائع ہوا تھا کہ جو شخص مرزائیوں سے بات کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ علماء نے کہہ دیا ہم وارثِ دین ہیں۔ ہم فتویٰ دیتے ہیں کہ مرزا واجب القتل ہے۔ لیکن وہ اکیلا سب کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا اور اس نے علی الاعلان کہہ دیا کہ میں اس کا غلام ہوں جو خدا کا محبوب ہے اور میں محمدﷺ کی عزت قائم کرنے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوا ہوں ۔ مجھے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا اور اس وقت خداتعالیٰ کا یہ الہام بھی سنا دیا کہ ‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دےگا۔’’ (تذکرہ صفحہ104 ایڈیشن چہارم)اب دیکھو ایسے حالات میں دنیا کو یہ کہنا اور پھر ایسا ہی ہو جانا کس کی عقل میں آسکتا ہے کہ یہ جھوٹے اور فریبی انسان کا کام ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایک طرف وہ دعویٰ دیکھو جو حضرت مرزا صاحبؑ نے کیا اور دوسری طرف ان تکالیف پر نظر کرو جو حضرت مرزا صاحب اور آپؑ کے ماننے والوں کو دی گئیں اور پھر غور کرو کہ جو کامیابی آپؑ کو نصیب ہوئی اور ہو رہی ہے یہ کسی جھوٹے اور مفتری کو ہو سکتی ہے۔ ان باتوں پر غور کرو اور فائدہ اٹھاؤ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button